گلگت بلتستان میں امن و امان کی خوشگوار واپسی

اس سال محرم میں گلگت بلتستان کی سیاسی جماعتیں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرتی نظر آئیں


فہیم اختر October 07, 2017
گلگت بلتستان میں امن و امان صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ سی پیک جیسے اہم علاقائی منصوبے کےلیے بھی بے حد ضروری ہے۔ (فوٹو: فائل)

گلگت بلتستان، پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ایک خوبصورت علاقہ ہے جس کی حدود بیک وقت چین، بھارت، مقبوضہ کشمیر اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ قدرتی حسن سے مالامال اس علاقے میں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے یعنی قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش واقع ہیں جبکہ کے ٹو، راکاپوشی اور نانگا پربت (کلر ماؤنٹین) جیسے مشہور اور بلند پہاڑوں کی موجودگی اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔

گلگت بلتستان میں موجود تقریباً تمام آبادی مسلمان ہے جبکہ مکاتبِ فکر میں بریلوی اہلسنت، دیوبندی اہلسنت، اہلحدیث، اہل تشیع، امامیہ اسماعیلی، نور بخشی سمیت دیگر شامل ہیں۔ یہاں اقلیتوں میں عیسائی اور سکھ بھی کچھ تعداد میں موجود ہیں۔

جب ملک بھر میں فرقہ واریت کا تصور بہت ہی کم اور محدود تھا، اس وقت گلگت بلتستان فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے مشہور تھا۔ ان فسادات میں جہاں کئی لوگ بیرونی سازشوں کے آلہ کار بنے رہے وہیں حکومتی پالیسیاں اور ریاستی رٹ کی کمزوری بھی فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دینے کا سبب بنی رہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ معاشرتی زندگی کے پہلو کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے عدم برداشت کی بہت سی مثالیں یہاں موجود ہیں۔ فرقہ واریت کا موضوع یہاں اتنا 'عظیم' بن چکا تھا کہ کئی ذاتی جھگڑوں اور بدلوں کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر ملزموں نے خود کو بچانے کی کوششیں بھی کیں۔

2015 تک گلگت بلتستان فرقہ واریت کے منہ میں رہا جبکہ اسی دوران 2009 میں وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صوبائی حیثیت دے دی جس کے بعد مقامی (صوبائی) حکومت نے امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کےلیے قانون سازی بھی کی۔ مختلف کمیٹیاں بناکر انہیں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کا ٹاسک دیا گیا جو اہلسنت اور اہل تشیع کے علماء سے مذاکرات کرتی رہیں۔ اسی دوران پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے پر دستخط کئے گئے جس کی مالیت 46 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس منصوبے کا گیٹ وے گلگت بلتستان ہے اور اس پورے منصوبے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری پاک فوج نے لے لی۔

نیشنل ایکشن پلان شروع ہونے کے بعد اس کا دائرہ کار گلگت بلتستان تک وسیع کردیا گیا۔ عام لوگ خود بھی اس سیاسی فرقہ واریت سے (جس کا فائدہ صرف سیاسی لوگوں کو ملتا رہا) تنگ آچکے تھے لہذا انہوں نے بھی نیشنل ایکشن پروگرام میں بھرپور تعاون کیا جبکہ امن و امان بہتر ہونے سے یہاں پر لوگوں میں تعلیم اور سیاسی شعور بھی بہتر ہونے لگے۔ عام شہری سنی سنائی باتوں کے بجائے کسی حد تک ذاتی تحقیق پر بھروسہ کرنے لگے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں نے نامی گرامی دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی اور دھیرے دھیرے علاقے کا امن بہتر ہوتا نظر آیا۔

گلگت بلتستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری اس وقت محسوس کی گئی جب 2015 میں گرمیوں کے موسم میں ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کی بڑی تعداد نے ان علاقوں کا رخ کرلیا۔ محتاط اندازے کے مطابق مذکورہ سال میں اندرونِ ملک سے سیاحوں کی 5 لاکھ سے زائد تعداد نے اس علاقے کا رخ کیا جو کہ امن و امان کی صورتحال پر اعتماد کا ثبوت تھا۔ 2016 میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد 8 لاکھ سے تجاوز کرگئی اور لوگوں کو ہوٹلوں میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کھلی فضاؤں میں عارضی ٹینٹ لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ سال 2017 میں سیاحوں کی یہ تعداد دوگنی سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاحوں کی تعداد مقامی آبادی سے بھی زیادہ ہوگئی جس نے ایک طرف مقامی ہوٹل انڈسٹری کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کی تو وہیں پر ٹرانسپورٹروں اور دکان داروں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو روزگار فراہم کیا۔

ان تین برسوں میں امن و امان کی صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں اس عرصے کے دوران ایک واقعہ بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر قتل کا نہیں ملا۔ لیکن راکھ میں چنگاری کا خوف ان برسوں کے دوران بھی ہر سال ماہِ محرم میں موجود رہا۔ گوکہ ان برسوں میں براہِ راست تو کوئی ایسا واقعہ نہیں پیش آیا جس نے صورتحال کو خراب کیا ہو تاہم تعلیمی اداروں میں مذہبی پروگرام فساد کی جڑ بنتے رہے جو پروگرام منانے اور نہ منانے والوں کے دو گروہوں میں تناؤ کی وجہ تھے۔ اس کے اثرات دوبارہ علاقائی امن و امان پر مرتب ہوتے۔ اسی لیے گزشتہ سال حکومت نے مذہبی پروگراموں پر پابندی عائد کردی جس پر مشتعل افراد نے کئی روز تک شاہراہ قراقرم اور سی پیک روٹ پر دھرنا دیئے رکھا جو بالآخر محدود انداز میں مذہبی پروگرام منعقد کرانے کی اجازت پر ختم کردیا گیا۔

البتہ اس سال یعنی 2017 کا ماہِ محرم الحرام انتہائی پُرامن رہا جو نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ مستقبل کےلیے بھی دور رس نتائج کی نشاندہی کرتا ہے۔ حالیہ محرم الحرام کے پُرامن ہونے کے دو پہلو ہیں: ایک پہلو حکومت، انتظامیہ یا پاک فوج و حساس اداروں کے اقدامات ہیں اور دوسرا پہلو شیعہ اور سنی مکاتبِ فکر کے علماء کا کردار ہے جس کی پہل بلاشبہ آغا راحت حسین الحسینی نے کی۔

پولیس نے پہلی مرتبہ محرم الحرام کے جلوسوں کی سیکیورٹی اور نگرانی کےلیے 256 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے۔ روایتی اقدامات سے ہٹ کر ڈرون کیمروں سے بھی نگرانی کی گئی۔ صوبائی حکومت، ضلعی و تحصیل انتظامیہ، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار بھی قابل ذکر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے فورس کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل ثاقب محمود ملک، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ڈاکٹر کاظم نیاز اور آئی جی پولیس صابر احمد کے ہمراہ عاشورہ کے جلوس کے سیکیورٹی انتظامات کا خود جائزہ لیا اور فضائی نگرانی بھی کی۔ دوسری جانب انجمن امامیہ اور تنظیم اہلسنت والجماعت کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کرکے بھرپور سیکیورٹی کی یقین دہانی بھی کرائی اور تمام صورتحال سے باخبر رہے۔

امپھری میں ہونے والی مجلس میں ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان، معاون خصوصی فاروق میر (اہلسنت) و دیگر نے شرکت کی۔ ضلعی انتظامیہ نے کسی بھی مقام پر بغیر اجازت کے سبیل لگانے پر پابندی لگادی اور اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا ۔ عمائدین یادگار محلہ و کشروٹ (اہلسنت) نے روایتی انداز میں ساتویں محرم الحرام کی مجلس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ جلوس کو برآمد کرنے سے اختتام تک ساتھ رہے۔ ساتویں محرم الحرام کا جلوس نگرل امام بارگاہ سے برآمد ہوکر قزلباش محلہ میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔

خطیب جامع مسجد و امیر تنظیم اہلسنت والجماعت مولانا قاضی نثا ر احمد نے جمعہ کے خطبے میں حکومتی انتظامات پر اعتماد کااظہار کیا اور کہا کہ پہلی مرتبہ محسوس ہورہا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ اپنا ''فرض'' سرانجام دے رہی ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔ ساتویں محرم الحرام کے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ والجماعت آغا راحت حسین الحسینی نے اعلان کیا کہ آئندہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں مذہبی پروگرام منعقد نہیں کیا جائے گا اور سٹی پارک گلگت میں مشترکہ یوم حسین منعقد کیا کرتے ہوئے امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پیغام کو عام کیا جائے گا۔ آغا صاحب کے اس اعلان کو تمام حلقوں نے سراہا اور سوشل میڈیا پر ہر طرف اس اعلان کے چرچے نظر آئے۔

اس سال ماہِ محرم میں گلگت بلتستان کی سیاسی جماعتیں بھی پہلے سے بڑھ کر امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے معاملے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آئیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور ذمہ داروں نے بھی جگہ جگہ سبیلیں لگائیں۔

پُرامن عاشورہ کے انعقاد پر کریڈٹ تقسیم کرنا ایک متنازعہ سی بات ہے۔ کریڈٹ کی بات اس وقت کی جانی چاہیے جب فرائض سرانجام دینے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا ہو۔ پاک فوج کی اضافی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ایمرجنسی حالات کے علاوہ بھی ملک کے اندرونی امن و امان کےلیے چوکس رہتے ہیں اور پر امن عاشورہ کے انعقاد ان کی اس اضافی ذمہ داری کی ایک مثال ہے۔ ایف سی این اے فورس کمانڈر بھی بذات خود تمام صورتحال سے باخبر رہے اور انتظامی امور کا جائزہ لیتے رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں