امریکی پالیسی پر تشویش کا صائب اظہار

بھارتی فوجی جرنیل چین اور پاکستان کو سرجیکل اسٹرائیک کی گیدڑ بھبکیاں دے رہے ہیں

ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات اور افغان مسئلہ سمیت علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیا ل کیا جائے گا: فوٹو: فائل

MIRAMSHAH:
وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے افغانستان سے متعلق امریکا کی نئی پالیسی پر جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ پاکستان کے تبدیل شدہ سفارتی طرز عمل اور پاک امریکا معاملات پر ایک دوررس انداز فکر کی عکاسی کرتا ہے جس میں دنیا کو باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان کی اصل تشویش امریکا کے نئے منصوبے میں نئی دہلی کے کردار سے متعلق ہے۔

اسی نقطہ پر افغان پالیسی کے حوالہ سے پاکستان کا بیانیہ استوار ہونا چاہیے اور کوشش امریکا کو اس بات پر قائل کرنے کی ہے کہ افغانستان میں امن کاز کی ذمے داری بھارت کو دیے جانے کا صاف مطلب افغانستان میں شورش ، بدامنی اور خوں ریزی کو مزید بڑھاوا دینا ہے، ظاہر ہے بھارت کو پاکستان کے خلاف اپنی دیرینہ مخاصمت کی قیمت وصول کرنے کے لیے اس سے اچھا موقع اور کب مل سکتا ہے جب کہ پاکستان افغان پالیسی کے اس سقم کو خطے کی تباہی کا پیش خیمہ گردانتے ہوئے امریکا کو بات چیت کے ذریعہ نئے پرامن آپشنز کی طرف لے آئے۔

بلاشبہ صدر ٹرمپ پالیسی کا اعلان کرچکے،ان کی تند وتیز باتیں اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے پر پاکستان کے شدید ردعمل نے بھی امریکا کو بیک فٹ پر ڈال دیا ہے اسی لیے ریکس ٹلرسن سے ملاقات اور ان سے بات چیت کو مثبت پیش رفت سے تعبیر کیا جارہا ہے، گرچہ یہ ابتدا ہے، آنیوالے دن اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ٹرمپ کی شعلہ نوائی مدھم پڑیگی، یا پاکستان کو خطے میں نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا، ہر بحران اور آزمائش کے لیے پاکستان کو تیار رہنا چاہیے مگر ضرورت امریکی عزائم اور ٹرمپ انتظامیہ کے جارحانہ عسکری روڈ میپ کی تفہیم اور پالیسی پر عملدرآمد کے میکنزم سے پیدا شدہ اثرات ومضمرات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کی ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان مستحکم نہیںہوجاتا، خطے میں امن کے لیے ہمیں کوششیں جاری رکھنی چاہئیں، ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکا اور پاکستان کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا میں پاکستان کے سفارتخانے میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ واشنگٹن کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے بعد پاک امریکا دو طرفہ تعلقات ایک نیا موڑ لے چکے ہیں، اگر ایک جانب امریکا کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہے تو پاکستان بھی خطے کے حوالے سے متعدد مرتبہ اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے، ہمیں عمومی طور پر بھارت سے متعلق حکمت عملی پر تشویش ہے اور خصوصی طور پر بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے بھارت کے اقدامات پر تشویش ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع تک اس پیغام کا پہنچنا بھی لازم ہے کہ پاکستان نے صورتحال کی بہتری اور خطے میں دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کا تسلسل جاری رکھا ہوا ہے، پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ کا جتنا نقصان برداشت کیا ہے اس کا احساس وادراک کیے بغیر محض الزاماات لگانے سے دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنا ممکن نہیں ہوگا، ٹرمپ کے دست وبازو ، ٹلرسن اور جم میٹس کو بلا تاخیر اس نقطہ پر اتفاق کرنا ہوگا کہ پاکستان نے افغانستان کے امن کو اپنی پالیسی کا بنیادی پتھر قراردیا ہے اور وہ پہلے کی طرح افغانستان میں امن کے لیے مزید کوششیں جاری رکھے گا۔

اس ضمن میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حال ہی میں افغانستان کے دورے کے موقع پر پاکستان کی جانب سے بھر پور تعاون کی پیش کش کا حوالہ امریکیوں کے لیے اچھی خبر ہوگی، اس ملاقات میں جہاں جنرل باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر افغان عہدیداروں سے مفید ملاقاتیں کیں وہاں انھوں نے کہاکہ پاکستان کو افغانستان میں موجود دہشتگردوںکے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی پر تشویش ہے جہاں افغان حکومت کاعمل دخل نہیں اور یہ ملک کا40 فیصد سے زائد حصہ ہے جب کہ پاکستان میں ہونیوالے دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے بیس کیمپوں میں کی جا رہی ہے۔


انھوں نے کہاکہ پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر خطے میں امن کے قیام کے لیے اقدامات کرتا رہے گا۔ امریکا دہشتگردوں کے مقامات کی نشاندہی کرے ہم بمباری کرینگے۔ایسی اوپن آفر اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان افغانستان کو امن کا گہوارہ دیکھنے کا خواہاں ہے، یہ ٹاسک بھارت مکمل نہیں کرسکے گا اس لیے کہ اس کی تو خواہش کہاوت کے بقول اس بھیڑیئے کی ہوگی کہ وہ ریوڑ کا چرواہا بن جائے۔

دوسری جانب حکومت ملکی صورتحال اور افغان پالیسی کے مضمرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے داخلی امن اور اداروں میں ہم آہنگی کو یقینی بنائے، اپوزیشن جماعتیں بھی کشیدگی کم کرنے پر آمادہ ہوجائیںکیونکہ سوشل میڈیا پر کئی انتہا پسند اور مسلکی و مذہبی عناصر حساس ایشوز کو اچھال رہے ہیں جسے نہ روکا گیا تو ملک افراتفری کی نذر ہو سکتا ہے، اس جنون اور دیوانگی کا سدباب ناگزیر ہے۔ علاقائی صورتحال کا بھی گہرا ادراک کیے بغیر پاکستان خطے کے معاملات میں بریک تھرو نہیں کرسگے گا۔

وائٹ ہاؤس ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ آئندہ ہفتے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے صدارتی تصدیق نہیں کرینگے یعنی اسے ختم کردینے کا فیصلہ کرینگے، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران نے اس جوہری معاہدے کی روح کی پاسداری نہیں کی، انھیں ایران کے جوہری عزائم اور مشرق وسطیٰ میں جارحیت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایران کا رد عمل علاقے کے لیے کیا اندیشے اور خدشات ساتھ لاسکتا ہے، ادھر اقوام متحدہ نے سعودی عرب کے اسلامی فوجی اتحاد کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔

امریکی میڈیا ٹرمپ پالیسی کو ریڈیکل شفٹ اور گیم چینجر قرار دے چکا ہے، ان ہی اعصاب شکن حالات میں پاکستان کے اطراف دشمن قوتیں بارودی سرنگیں بچھانے کی سازشیں کررہی ہیں تاہم امریکی میڈیا کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ افغانستان کے بعد پاک افغان تعلقات میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں، افغان صدر کا دورہ پاکستان جلد متوقع ہے تاہم اس بارے میں تاحال تاریخوں کا تعین نہیں ہوا۔

ادھر قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا ہے کہ آرمی چیف کے دورہ افغانستان کے دوررس اور مثبت نتائج برآمد ہونگے، دریں اثنا قومی اسمبلی میں مختلف جماعتوں نے جھل مگسی میں درگاہ پر خودکش حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ آپریشنز کے باوجود دہشتگردوں کے حملے جاری ہیں، وزیر داخلہ اس بارے میں آگاہ کریں۔

پارلیمنٹیرینز کا کہنا ہے کہ فوج ایکشن پلان کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے مگر سول اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے، یہ تشویش بلا سبب نہیں کیونکہ راولپنڈی اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ڈرونز کے ذریعے ہوائی اڈوں، فضائی تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کے خدشے کے پیش نظر پولیس اور سیکیورٹی اداروں کوالرٹ کردیا گیا ہے اور ریموٹ کنٹرول ڈرونزکو مارگرانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ بھارتی فوجی جرنیل چین اور پاکستان کو سرجیکل اسٹرائیک کی گیدڑ بھبکیاں دے رہے ہیں، کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر پر بھارتی ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے لہٰذا قومی یکجہتی کا تقاضہ ہے کہ داخلی امن وامان برقرار رکھا جائے، اسٹیک ہولڈرز پانی سر سے اونچا نہ ہونے دیں۔

 
Load Next Story