مقتدر کی سوچ
اب اندازہ لگائیے بادشاہ کی سوچ کس کس طرح اور کہاںکہاں کیسے کیسے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
سوچتا ہرکوئی ہے جب سے آدمی باشعور ہوتا ہے سوچنے کا عمل اُسکے چاہے بغیر ہی شروع ہو جاتا ہے آدمی زندگی بھر سانس لینے کے علاوہ جو کام مسلسل کرتا رہتا ہے وہ سوچنے کا عمل ہے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ سانس لینے کے بعد جو کام آدمی زندگی بھر سب سے زیادہ کرتا ہے وہ بولنے کاکام ہوتا ہے۔ لیکن بعد میںمجھے اپنی اصلاح کرنی پڑی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بولنے کے لیے آدمی کو ایک سننے والا بھی چاہیے ہوتا ہے یعنی بولنا اکیلے آدمی کاکام نہیں ہے البتہ سوچتا آدمی اکیلا ہی ہے اُسے سوچنے کے لیے کسی اور کی ضرورت نہیں ہوتی۔
سوچنے کا عمل کسی شرط یا شرائط کا مرہون منت نہیںہوتا۔ ناہی سوچ کے اوپر کسی بھی قسم کی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ پابندی تو سوچ کے اظہار پر لگائی جا سکتی ہے کسی کی سوچ پر نہیں یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کوئی بھی سوچ اپنی تمام ترباریکیوںکے ساتھ بتلائی نہیں جا سکتی اس سلسلے میں الفاظ کی کم مائیگی بہت برے طریقے سے آڑے آتی ہے اس کم مائیگی کا تعلق صرف اردو زبان ہی سے نہیں بلکہ دنیا کی کسی زبان سے بھی ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی زبان اِس سے مستثنیٰ ہے تو وہ صرف قرآن کی زبان ہے جو آدمی کا کلام نہیں ہے اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہے کہ قرآن کی زبان دنیا کی زبانوںمیں سے ایک زبان عربی ہونے کے باوجود اپنے استعمال کے لحاظ سے اِس لیے منفرد ہے کہ وہ کلام بشر نہیں ہے۔
یہ قدرت صرف اُس ذات باری تعالیٰ کو حاصل ہے کہ وہ اپنے کلام مبارک کو جس طرح چاہے کھول کھول کر ایسے بلیغ پیرائے میں بیان کرسکتی ہے جس سے بہتر پیرائیہ اُن مطالب کو سمجھانے کے لیے ممکن نہیں۔بہر حال بات ہو رہی تھی کسی سوچ کو عین اسی پیرائے میں بیان کرنے کی جو آدمی درحقیقت اپنے اندر محسوس کرتاہے چاہتا ہے کہ اُسے اسی طرح زبان پر لے آئے جس طرح وہ سوچتاہے لیکن ایسا سوفیصد ممکن نہیںہوپاتا۔ یہ کوئی معمہ نہیںہے اورناہی کوئی پہیلی ہے۔ اس کا تجربہ ہر اُس ذی شعور کو ہے جو سوچنے سمجھنے بولنے اورلکھنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ آئیے اب اس منز ل سے آگے بڑھتے ہیں۔
سوچ ہوتی کیا ہے؟ سوچ آدمی کے اندر افکار خواہشات تضادات منصوبہ بندیوںگمانوں اور مختلف صورتوں میںطرح طرح کے لائحہ عمل اختیار کرنے کا اظہار ہوتی ہے یعنی آدمی کی اپنی مرضی اور رضا سے جو حرکات اورسکنات سرزدہوتی ہیں وہ اس کی سوچ کی عکاس ہوتی ہیں جو بات پہلے بتانے کی کوشش کی گئی وہ یہی تھی کہ سوچ جب اپنے اعمال سے ایک خاص محرک کی پہچان کراتی ہے ضروری نہیں کہ اُس سوچ کا محرک اندازہ لگائے گئے محرک جیسا ہی ہو۔
قطعاً مختلف بھی ہوسکتاہے مثلاً اگر کوئی شخص کہیں رقم اٹھاتے ہوئے دیکھ لیا جائے تو ممکنہ اندازہ یہی ہوگا کہ چوری اس کی سوچ کا محور تھی جب کہ عین ممکن ہے وہ اُس رقم کو اُسکے اصل مالک کے حوالے کرنے کے واسطے اٹھارہاہو جو اُسے کچھ دیر پہلے کہیں پڑی مل گئی تھی لیکن دیکھنے والے کو اِس کی خبر نہ تھی غالباً اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے فرمایا گیا کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے یعنی آنکھوںسے پوشیدہ سوچ مخفی رہتی ہے بلکہ اُس سوچ کے پیچھے محرکات بھی پوشیدہ رہتے ہیں جب کہ اُن سوچوں کا عملی اظہار محرکات کے مختلف ہونے کے باوجود رہتاہے آدمیت کے درمیان ساری غلط فہمیاںسوچ کی اسی کم مائیگی اور بیچارگی کی مرہون ہوتی ہے یہی وہ مقام ہے جہاںشیطان گھس بیٹھا بن جاتا ہے اور اپنی پناہ گاہ کے مالک کو ریاکارانہ پہچان پر مجبور کردیتا ہے۔
آئیے یہاں سے واپس چلتے ہیں اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کونسی سوچ ہوتی ہے جو پذیرائی کم ملنے کے باوجود اثرپذیری کی بے پناہ قوت اپنے اندر رکھتی ہے وہ کس کی سوچ ہوتی ہے ؟ اِس سوال کا جواب بہت آسان ہے طاقتور کی سوچ اپنے اندر اثرپزیری کی بے پناہ قوت رکھتی ہے۔ گھر کے اندر اگر باپ پوری طرح بیوی کے ہاتھوں بے بس نہیںہو چکا تو اُس کی سوچ پورے گھر پر اثرانداز رہے گی۔ بصورت دیگر گھرکے اندر ماں کی سوچ راج کرتی ہے۔ کلاس کے اندر اُستاد کی سوچ اثر رکھتی ہے دفتر میں افسر کی سوچ، اسٹیج پر پروڈیوسر کی سوچ، کینوس پر آرٹسٹ کی سوچ اور عشق میں معشوق کی سوچ ہی وہ اثر دکھاتی ہے عاشق جس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اب اندازہ لگائیے بادشاہ کی سوچ کس کس طرح اور کہاںکہاں کیسے کیسے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ تاریخ انسانی میںہمیشہ وہی سوچ چھائی رہی جو بادشاہوںکے ذہنوں میںپروان چڑھی اور شہزادوں کے دماغوں میں رچی بسی۔ تاریخ میںجس دورکا بھی مطالعہ کیا جائے جو چیز واضح ہوگی وہ یہی ہوگی کہ ہر دور پر ایک خاص سوچ چھائی رہی۔ زمانے کی سوچوں کوبادشاہوں نے، یا مسیحاؤ ں نے یا پیغمبروں نے بدلا جب زمانہ ایک سوچ کے سائے سے نکل کر دوسری سوچ کے تابع فرمان ہونے لگتاہے تو تبدیلی کا عمل نہایت کربناک ہوتاہے۔