عصمت کو جینے دو
علامہ صاحب کی تحریروں اور عصمت نے مسلم خواتین کے لیے آب حیات کا کام کیا۔
1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانان ہند انتہائی مایوسی کا شکار تھے وہ برصغیر کے بدلتے ہوئے حالات سے بے بہرہ اپنی پرانی روش زندگی اور طریقہ تعلیم سے چمٹے ہوئے تھے جبکہ ان کی ہم وطن دوسری قومیں بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ہمہ تن مصروف تھیں۔
ایسے میں مسلمانوں کے غم خوار سرسید احمد خان اور سید امیر حسین نے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے بہرہ مند ہونے کی جانب مائل کرنے کی بھرپورکوشش شروع کردیں مگر اس سلسلے میں انھیں خود مسلمانوں کی جانب سے شدید لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا اس لیے کہ وہ جن فرنگیوں سے سخت نفرت کرتے تھے یہ رہنما انھیں ان ہی کے طریقہ تعلیم کو اپنانے کی تلقین کررہے تھے۔
ان رہنماؤں نے مشکلات کے باوجود ہمت نہ ہاری اور آگے بڑھتے گئے حتیٰ کہ سرسید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی کی شکل میں مسلمانوں کے لیے علوم و فنون سے مزین ایک اہم ادارہ قائم کردیا جس نے مسلمانوں کی نئی نسل کو نہ صرف جدید علوم سے روشناس کرایا بلکہ انھیں قومی جذبے سے سرشارکرکے ترقی کے لحاظ سے اپنے ہم وطنوں کے برابر لاکھڑا کیا۔
سرسید احمد خان نے جہاں مسلمانوں میں تعلیمی اور سیاسی تصور بیدار کیا وہاں اصلاحی تحریک بھی چلائی، ان کا رسالہ تہذیب الاخلاق ایک اصلاحی ادارے کی حیثیت کا حامل تھا، اس رسائلے میں شائع ہونے والے مضامین نے مسلمانوں کے اخلاق کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا مگر اصل مسئلہ مسلمان خواتین کا تھا جوسخت جہالت اور توہم پرستی کا شکار تھیں۔
اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈپٹی نذیر احمد نے خواتین کی اصلاح کی جانب توجہ کی اور انھوں نے خواتین کی اصلاح کے لیے کئی ناول تصنیف کیے۔ گو کہ ان کی کوششوں کا خواتین پر کافی مثبت اثر نظر آیا گو کہ یہ تحریک شہروں تک تو ضرور کامیاب رہی مگر وسیع برصغیر کے سیکڑوں چھوٹے شہروں اور ہزاروں دیہاتوں کو بھی اصلاحی تحریک کی ضرورت تھی اور وہ تب ہی کامیاب ہوسکتی تھی جب خود خواتین بڑی تعداد میں اپنی بہنوں کے لیے اصلاحی تحریری مہم چلائیں۔ چنانچہ اس مہم کے لیے علم رکھنے والیوں کی ہمت افزائی کی ضرورت تھی ساتھ ہی ان کی تحریروں کے شایع ہونے کے لیے ایک رسالے کی بھی ضرورت تھی جس میں وہ اپنے اصلاحی مضامین شائع کرواسکتیں یہ ناممکن کام مصور غم علامہ راشد الخیری نے اپنی محنت اور کاوش سے ممکن بنا ڈالا۔
آپ کی اصلاحی تحریروں سے پورے برصغیر کی خواتین مستفید ہوئیں، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ مسلم خواتین کو اصلاحی مضامین نگاری کی جانب راغب کرنا تھا۔ آپ نے بڑی تعداد میں مضمون نگار خواتین کی کھیپ ہی تیار نہیں کی ان کے مضامین کی اشاعت کے لیے عصمت کے نام سے ایک ماہوار رسالے کو جاری کیا جس نے جلد ہی پورے برصغیر کی خواتین کے من پسند رسالے کی سند حاصل کرلی تھی۔
یہ 1908 کا زمانہ تھا۔ آپ کے فرزند مولانا رازق الخیری اپنی آپ بیتی میں رقمطراز ہیں ''عورتوں میں مضمون نگاری کا شوق پیدا کرنا ''عصمت'' کے مقاصد میں سے تھا۔'' علامہ نے اسے صرف خواتین کے مضامین کے لیے وقف کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم خواتین پردے میں رہتے ہوئے کسی مضمون نگاری کے شوق کو بھی نہیں اپناسکتی تھیں، چنانچہ ابتدا میں عصمت میں عورتوں کے مضامین کم ہی آتے تھے جن میں قابل اشاعت کوئی کوئی ہی ہوتا تھا چنانچہ ہر پرچے کے لیے علامہ مغفور خود ہی کئی کئی مضامین لکھتے اور جنھیں مختلف زنانہ ناموں سے شایع کیا جاتا کبھی اپنی بیوی، بیٹی، بہن کے نام کبھی کبھی اپنے عزیزوں اور جاننے والوں کی رشتے دار خواتین کے نام سے لکھتے۔
یہ مضامین خاص طور پر امور خانہ داری، حفظان صحت ، بچوں کی پرورش، ان کی تربیت کے علاوہ اصلاحی معاشرتی مذہبی، اخلاقی اور تاریخی موضوعات پر ہوتے تھے۔ یہ مضامین نہایت سیدھی سادی زبان اور عام فہم انداز میں ہوتے تھے تاکہ انھیں پڑھ کر لڑکیوں اور عورتوں کے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ وہ بھی ایسا کرسکتی ہیں۔ یعنی کہ وہ گھریلو خواتین جو واجبی سی بھی تعلیم رکھتی تھیں انھیں لکھنے کی ترغیب ہوسکے۔
اس کوشش کا جلد ہی مثبت نتیجہ سامنے آیا اور بیسیوں خواتین کے مضامین ماہنامہ عصمت کے دفتر میں آنے لگے جن میں ہر ماہ اتنے مضامین قابل اشاعت ہوتے تھے جتنے مضامین کی عصمت کو ضرورت ہوتی تھی لکھنے والیوں کے ساتھ عام خواتین میں بھی یہ تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگا پھر یہ منظر تھا کہ دہلی کیا پورے ہندوستان میں یہ اصلاحی پہلو کے ساتھ ساتھ آزادی کا جذبہ بیدار کرنے میں میں بہت کامیاب رہا۔ عصمت میں علامہ صاحب اپنا جو مضمون تحریر کرتے وہ ایسا اصلاحی اور تحریکی ہوتا جو ضرور اپنا اثر چھوڑتا۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ صاحب کی تحریروں اور عصمت نے مسلم خواتین کے لیے آب حیات کا کام کیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر علامہ کی تصانیف اور عصمت کا اجرا نہ ہوتا توبد نصیب عورتیں کیا کرتیں وہ تو پرانی جہالت کی تاریکی میں گم رہتیں اور دنیا کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہوتی۔ آپ نے اپنی تصانیف اور عصمت کے بارے میں ایک موقع پر فرمایا تھا ''اب میں وہ تمام مراحل طے کرچکا ہوں جن پر کوئی مصنف تعریف سے خوش اور تنقید سے ناخوش ہوتا ہے۔ میں نے اپنے معترضین اور معترفین دونوں کی اپنے بارے میں تحاریر پڑھی ہیں۔
میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس پوری صدی میں شاید مشکل سے کوئی ایسا مصنف سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہو جس کی کئی ضخیم کتابیں ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں بارہ بارہ ہزار کی تعداد میں شایع ہوئی ہوں، ایک کتاب شایع ہوتی ہے تو دوسری ختم، تیسری تیار ہوتی ہے تو چوتھی ختم، امتحانوں میں یہ داخل کی گئیں، ترجمے ان کے ہوئے اور دستورالعمل یہ قرار دی گئیں المختصر قبولیت کی انتہا ہوگئی '' اردو میں سب سے پہلے حزن نگاری کی ابتدا علامہ نے کی تھی، آپ کے غم انگیز اور درد ناک افسانے اور مضامین درجنوں کی تعداد میں تصنیف ''شام زندگی'' سے پہلے شایع ہوچکے تھے مگر مصور غم کا خطاب ''شام زندگی'' پر دیا گیا۔
خواجہ حسن نظامی مرحوم علامہ کے نام کے ساتھ ''غم ادا '' لکھنے لگے تھے مگر مصور غم کا خطاب سب سے پہلے رسالہ ''اسوۂ حسنہ'' میرٹھ کے ایڈیٹر بھیا احسان الحق نے دیا تھا۔ آپ کی تصانیف کے کئی کئی ایڈیشن چھپے اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ علامہ کی شخصیت مسلم خواتین کے لیے جہاں ایک معلم کی ہے وہیں ان کے رسالے ''عصمت'' کے خواتین کو علم و ادب کی جانب مائل کرنے کی وجہ سے علم و عمل کا مینارہ نور کہاجاسکتا ہے۔
علامہ کے وصال کے بعد ان کے لائق فائق فرزند رازق الخیری نے عصمت کی ادارت سنبھالی۔ ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد عصمت کراچی سے پوری آب و تاب سے نکلتا رہا۔ آپ کی رحلت کے بعد آپ کی اہلیہ آمنہ نازلی بیگم نے اسے جاری رکھا۔ ان کی رحلت کے بعد آپ کے فرزند طارق الخیری عصمت کے نگران مقرر ہوئے مگر نامناسب حالات نے ایسا آگھیرا کہ رسالے کی اشاعت میں رخنے پڑنا شروع ہوگئے جن کی وجہ اشتہارات سے محرومی تھی۔ طارق الخیری کے انتقال کے بعد عصمت کو جاری رکھنے کی ذمے داری ان کی بہن نامور ادیبہ شاعرہ مصنفہ اور صحافی صفورا خیری کو سونپ دی گئی۔ آپ اس وقت سخت نامساعد حالات میں بھی اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مسلم تہذیب و ثقافت کے علم بردار اس قدیم رسالے کو خود حکومت سندھ کو جاری و ساری رکھنے کی ذمے داری اپنے سر لے لینا چاہیے تھی۔ اس میگزین کی سو سالہ تقریب میں صدر پاکستان ممنون حسین نے شرکت کی تھی اور عصمت کو جاری رکھنے کے لیے حکومت کی جانب سے بھرپور امداد جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا تھا مگر افسوس کہ پھر پلٹ کر انھوں نے عصمت کی خبر نہ لی۔ اس قدیم میگزین کا زندہ رہنا ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے اگر حکومت اس قومی حمیت کے حامل میگزین کی بقا میں دلچسپی نہیں لے رہی تو کیا ہمارے مخیر حضرات اور ادارے بھی بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیںگے؟