ترے حالات نے کیسی تری صورت کردی
افسوس ہمارے ہاں ہر صحیح چیزکا غلط استعمال کرنے سے جو کچھ ہورہاہے، اس کا گواہ ہمارا گردوپیش ہے۔
ہماری روز مرہ زندگی میں بعض لفظوں کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً ماشاء اللہ ضرور کہاجاتا ہے، مگر یہ بھی غلط نہیں کہ جس طرح کسی چیز کا استعمال کثرت سے کیا جائے تو اس کا حلیہ بگڑجاتا ہے بالکل اسی طرح لفظ اسلام کو بھی بہت بری طرح استعمال کرنے سے اس کی ہیئت پر ناخوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ہر ذات اور ہر سیاسی جماعت موقع بہ موقع اسلام کا نام ضرور لیتی ہے جب کہ اس نام کو لینے والے شخص اور جماعت میں اسلام کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی اور اس حوالے سے صورتحال اتنی تشویشناک ہوچکی ہے کہ دروغ برگردن راوی ایک صاحب اپنے بیٹے محمد اسلم کے ساتھ ٹرین میں سفر کررہے تھے، ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ان کا بیٹا کوئی چیز اسٹال سے خریدنے کے لیے اترا، اچانک ٹرین چل پڑی۔
باپ نے گھبراہٹ کے عالم میں کھڑکی سے منہ باہر نکالا اور حلق کی پوری قوت سے آواز لگائی ''اسلام'' پلیٹ فارم پر موجود سیکڑوں لوگوں نے جواب میں پورے جذبہ ایمانی سے جواب دیا ''زندہ باد'' باپ نے غصے سے دوبارہ اپنے بیٹے کو پکارا ''اسلام'' لوگوں نے پھر کہا ''زندہ باد'' باپ نے جھنجلا کر تیسری بار اپنے بیٹے کو پکارا ''اسلام'' لوگوں نے جواب میں پہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے ''زندہ باد'' کا نعرہ لگایا اتنے میں ٹرین نگاہوں سے اوجھل ہوگئی اور بے چارہ اسلام جذباتی مسلمانوں کے ہجوم میں کہیں گم ہوکر رہ گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا عام زندگی میں بھی ہم لوگوں نے اسلام کے ساتھ کہیں یہی سلوک تو نہیں کیا؟
ہم کہہ رہے تھے کہ کثرتِ استعمال سے لفظوں کے مفہوم بھی بدل جاتے ہیں بلکہ بقول احمد ندیم قاسمی:
پوچھ بیٹھا ہوں تجھی سے میں ترے گھر کا پتہ
ترے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
ہماری عام زندگی میں انشااللہ کا لفظ بھی زبان زد عام چلا آرہا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں ہر صحیح چیزکا غلط استعمال کرنے سے جو کچھ ہورہاہے، اس کا گواہ ہمارا گردوپیش ہے۔ ہمارے ملک کی 70 سالہ تاریخ میں ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور انشا اللہ سے شروع ہوتے ہیں اور انا ﷲ پر ختم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کون سی جماعت ہے جس نے عوام کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے کیے ہوں۔
اس میں کچھ قصور تو ان لوگوں کا ہے اور کچھ ان خفیہ ہاتھوں کا جو پردے کے پیچھے سے اپنا کام دکھاتے رہتے ہیں اور جب اس کے نتیجے میں حالات پوری طرح خراب ہوجاتے ہیں تو پھر سامنے آکر سارا الزام سیاست دانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ان بے ننگ و نام سیاست دانوں کے گھر لٹنے کا ایک سبب یہ طعنہ دینے والے خود بھی ہوتے ہیں۔بہرکیف ان سب باتوں سے قطع نظر ''انشا اللہ'' ایک بہت خوبصورت، بابرکت اور علامتی لفظ ہے، بسا اوقات نہ ہونے والے کام بھی انشا اللہ کے طفیل ہوجاتے ہیں۔
بس اس کے لیے ارادے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم لوگوں کی مجبوریاں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ ہمیں ہر جگہ انشا اللہ کہنا پڑتا ہے۔ مثلاً ٹرین صحیح وقت پر آجائے گی۔ انشا اللہ، بجلی کا بل انشا اللہ آئندہ صحیح آئے گا، کل پانی کا دن ہے انشا اللہ وہ آجائے گا، یہاں دودھ خالص ملتا ہے اس میں پانی نہیں ہوتا اور اگر ہوا بھی تو انشااللہ جوہڑ کا پانی نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہم سبھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوئے ہیں، ناگفتہ بہ حالات پر بس کڑھتے رہتے ہیں، پانچ نمازوں کے ساتھ حاجات کی نمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں اور آسمان کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید حالات بدل جائیں۔ لیکن حالات محض انشا اللہ کہنے سے نہیں بدلیںگے، مصلے پر بیٹھ کر مسنون دعائیں مانگنے سے بھی نہیں بدلیں گے۔
ہمیں وہ کچھ بھی کرنا ہوگا جو دنیا کی قوموں نے اپنے حالات بدلنے کے لیے کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی عطا کی۔ ہاں تخریب کاری، دہشتگردی، اسٹریٹ کرائمز، لوڈ شیڈنگ، غربت، بیروزگاری کا کب خاتمہ ہوگا؟ لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں کب میسر آئیںگی، انصاف کی فراہمی کب یقینی بنائی جائے گی، پینے کا شفاف پانی کب مہیا ہوگا ہوگا بھی یا یوں ہی عمر تمام ہوجائے گی...؟ ہماری ان خواہشات کے جواب میں ایک دفعہ پھر صاحب دل کی طرف سے انشا اللہ ہی کہا جائے گا۔ ویسے اس انشا اللہ میں خود ہم بھی شریک ہیں کیونکہ اب ہماری قوتِ عمل بھی خوابیدہ ہوچکی ہے۔
پاکستان کو مملکت خداداد کہتے ہیں۔ شاید اسی لیے یہاں ہر چیز ''خداداد'' ہے۔ صلاحیتوں سے کوسوں دور رہ کر بھی لوگ خود کو گونا گوں صلاحیتوں سے مالا مال سمجھتے، سیاست نہ سیکھی نہ پڑھی نہ سمجھی لیکن پھر بھی سیاست دان ہیں، علم نہیں رکھتے لیکن عالم ہیں، منصف نہیں اور عادل ہیں، لکھنے کی الف ب سے ناواقف ہیں لیکن اخبارکے مدیر ہیں، شعر نہیں کہہ سکتے اور شاعر ہیں، صحافت کا فن نہ سیکھا اور نہ پڑھا لیکن صحافی ہیں۔ سُر تال کا پتہ نہیں اور گلوکار ہیں، بنجر ذہن ہیں اور دانشور ہیں، بزنس نہیں آتا لیکن بزنس مین ہیں، اداکاری نہیں آتی لیکن اداکار ہیں، ہدایت کاری کا فن آتا نہیں لیکن ہدایت کار ہیں۔ لیکن کیا ہے کہ انسان ویسے بھی ہر روز مرتا ہے تاکہ اگلی صبح زیادہ بڑا، بہتر اور دانشمند ہوکر دوبارہ پیدا ہوسکے۔
زندگی میں کامیابی بہت کچھ ہونے سے نہیں ملتی بلکہ جو ہے اسے سلیقے سے استعمال کرنے سے ملتی ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں اللہ کے فضل و کرم سے ساری کی ساری نعمتیں موجود ہیں، سارے وسائل موجود ہیں جنھیں بروئے کار لاکر ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں با آسانی شامل ہوسکتے ہیں بس ہمارے ارباب اختیار ان وسائل کو صحیح طور سے استعمال کرنے سے قاصر چلے آرہے ہیں، کاش ہمارے حکمران جان پاتے کہ زندگی صرف اسی صورت بدلتی ہے جب انسان خود کو بدلے، اور وہ اپنے آپ کو بدلنے پر ذرہ برابر آمادہ دکھائی نہیں دیتے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار تنقید اور ملامت کے ذریعے بچ جانے کی بجائے تعریف سے برباد ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اس حوالے سے ایک اور بات کی وضاحت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ تنخواہ چاہے کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو مناصب کتنے ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہوں کبھی کوئی اچھا سپاہی، اچھا استاد، اچھا آرٹسٹ، اچھا منصب دار، اچھا تخلیق کار یا اچھا کاریگر بنانے کا سبب نہیں ہوتی۔
در اصل کوئی بھی چیز جب ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو وہ زہر بن جاتی ہے۔ چاہے وہ پیٹ میں گیا کھانا ہو، لوگوں سے چھپائی ہوئی دولت ہو، حد سے تجاوزکرتا اختیار ہو، صحت ہو یا اقتدار، اس ملک کی برہنہ سچائی یہی ہے کہ یہاں لوگ غریبوں کا، صدقے خیرات کا مال لوٹنے میں بھی شرمندہ نہیں ہوتے، اخلاقی طور پر ہم بہت گر چکے ہیں، یہاں چوروں، ڈاکوؤں کو تاج ملتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو لوٹا جاتا ہے۔
ہر ذات اور ہر سیاسی جماعت موقع بہ موقع اسلام کا نام ضرور لیتی ہے جب کہ اس نام کو لینے والے شخص اور جماعت میں اسلام کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی اور اس حوالے سے صورتحال اتنی تشویشناک ہوچکی ہے کہ دروغ برگردن راوی ایک صاحب اپنے بیٹے محمد اسلم کے ساتھ ٹرین میں سفر کررہے تھے، ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ان کا بیٹا کوئی چیز اسٹال سے خریدنے کے لیے اترا، اچانک ٹرین چل پڑی۔
باپ نے گھبراہٹ کے عالم میں کھڑکی سے منہ باہر نکالا اور حلق کی پوری قوت سے آواز لگائی ''اسلام'' پلیٹ فارم پر موجود سیکڑوں لوگوں نے جواب میں پورے جذبہ ایمانی سے جواب دیا ''زندہ باد'' باپ نے غصے سے دوبارہ اپنے بیٹے کو پکارا ''اسلام'' لوگوں نے پھر کہا ''زندہ باد'' باپ نے جھنجلا کر تیسری بار اپنے بیٹے کو پکارا ''اسلام'' لوگوں نے جواب میں پہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے ''زندہ باد'' کا نعرہ لگایا اتنے میں ٹرین نگاہوں سے اوجھل ہوگئی اور بے چارہ اسلام جذباتی مسلمانوں کے ہجوم میں کہیں گم ہوکر رہ گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا عام زندگی میں بھی ہم لوگوں نے اسلام کے ساتھ کہیں یہی سلوک تو نہیں کیا؟
ہم کہہ رہے تھے کہ کثرتِ استعمال سے لفظوں کے مفہوم بھی بدل جاتے ہیں بلکہ بقول احمد ندیم قاسمی:
پوچھ بیٹھا ہوں تجھی سے میں ترے گھر کا پتہ
ترے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
ہماری عام زندگی میں انشااللہ کا لفظ بھی زبان زد عام چلا آرہا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں ہر صحیح چیزکا غلط استعمال کرنے سے جو کچھ ہورہاہے، اس کا گواہ ہمارا گردوپیش ہے۔ ہمارے ملک کی 70 سالہ تاریخ میں ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور انشا اللہ سے شروع ہوتے ہیں اور انا ﷲ پر ختم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کون سی جماعت ہے جس نے عوام کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے کیے ہوں۔
اس میں کچھ قصور تو ان لوگوں کا ہے اور کچھ ان خفیہ ہاتھوں کا جو پردے کے پیچھے سے اپنا کام دکھاتے رہتے ہیں اور جب اس کے نتیجے میں حالات پوری طرح خراب ہوجاتے ہیں تو پھر سامنے آکر سارا الزام سیاست دانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ان بے ننگ و نام سیاست دانوں کے گھر لٹنے کا ایک سبب یہ طعنہ دینے والے خود بھی ہوتے ہیں۔بہرکیف ان سب باتوں سے قطع نظر ''انشا اللہ'' ایک بہت خوبصورت، بابرکت اور علامتی لفظ ہے، بسا اوقات نہ ہونے والے کام بھی انشا اللہ کے طفیل ہوجاتے ہیں۔
بس اس کے لیے ارادے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم لوگوں کی مجبوریاں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ ہمیں ہر جگہ انشا اللہ کہنا پڑتا ہے۔ مثلاً ٹرین صحیح وقت پر آجائے گی۔ انشا اللہ، بجلی کا بل انشا اللہ آئندہ صحیح آئے گا، کل پانی کا دن ہے انشا اللہ وہ آجائے گا، یہاں دودھ خالص ملتا ہے اس میں پانی نہیں ہوتا اور اگر ہوا بھی تو انشااللہ جوہڑ کا پانی نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہم سبھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوئے ہیں، ناگفتہ بہ حالات پر بس کڑھتے رہتے ہیں، پانچ نمازوں کے ساتھ حاجات کی نمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں اور آسمان کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید حالات بدل جائیں۔ لیکن حالات محض انشا اللہ کہنے سے نہیں بدلیںگے، مصلے پر بیٹھ کر مسنون دعائیں مانگنے سے بھی نہیں بدلیں گے۔
ہمیں وہ کچھ بھی کرنا ہوگا جو دنیا کی قوموں نے اپنے حالات بدلنے کے لیے کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی عطا کی۔ ہاں تخریب کاری، دہشتگردی، اسٹریٹ کرائمز، لوڈ شیڈنگ، غربت، بیروزگاری کا کب خاتمہ ہوگا؟ لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں کب میسر آئیںگی، انصاف کی فراہمی کب یقینی بنائی جائے گی، پینے کا شفاف پانی کب مہیا ہوگا ہوگا بھی یا یوں ہی عمر تمام ہوجائے گی...؟ ہماری ان خواہشات کے جواب میں ایک دفعہ پھر صاحب دل کی طرف سے انشا اللہ ہی کہا جائے گا۔ ویسے اس انشا اللہ میں خود ہم بھی شریک ہیں کیونکہ اب ہماری قوتِ عمل بھی خوابیدہ ہوچکی ہے۔
پاکستان کو مملکت خداداد کہتے ہیں۔ شاید اسی لیے یہاں ہر چیز ''خداداد'' ہے۔ صلاحیتوں سے کوسوں دور رہ کر بھی لوگ خود کو گونا گوں صلاحیتوں سے مالا مال سمجھتے، سیاست نہ سیکھی نہ پڑھی نہ سمجھی لیکن پھر بھی سیاست دان ہیں، علم نہیں رکھتے لیکن عالم ہیں، منصف نہیں اور عادل ہیں، لکھنے کی الف ب سے ناواقف ہیں لیکن اخبارکے مدیر ہیں، شعر نہیں کہہ سکتے اور شاعر ہیں، صحافت کا فن نہ سیکھا اور نہ پڑھا لیکن صحافی ہیں۔ سُر تال کا پتہ نہیں اور گلوکار ہیں، بنجر ذہن ہیں اور دانشور ہیں، بزنس نہیں آتا لیکن بزنس مین ہیں، اداکاری نہیں آتی لیکن اداکار ہیں، ہدایت کاری کا فن آتا نہیں لیکن ہدایت کار ہیں۔ لیکن کیا ہے کہ انسان ویسے بھی ہر روز مرتا ہے تاکہ اگلی صبح زیادہ بڑا، بہتر اور دانشمند ہوکر دوبارہ پیدا ہوسکے۔
زندگی میں کامیابی بہت کچھ ہونے سے نہیں ملتی بلکہ جو ہے اسے سلیقے سے استعمال کرنے سے ملتی ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں اللہ کے فضل و کرم سے ساری کی ساری نعمتیں موجود ہیں، سارے وسائل موجود ہیں جنھیں بروئے کار لاکر ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں با آسانی شامل ہوسکتے ہیں بس ہمارے ارباب اختیار ان وسائل کو صحیح طور سے استعمال کرنے سے قاصر چلے آرہے ہیں، کاش ہمارے حکمران جان پاتے کہ زندگی صرف اسی صورت بدلتی ہے جب انسان خود کو بدلے، اور وہ اپنے آپ کو بدلنے پر ذرہ برابر آمادہ دکھائی نہیں دیتے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار تنقید اور ملامت کے ذریعے بچ جانے کی بجائے تعریف سے برباد ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اس حوالے سے ایک اور بات کی وضاحت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ تنخواہ چاہے کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو مناصب کتنے ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہوں کبھی کوئی اچھا سپاہی، اچھا استاد، اچھا آرٹسٹ، اچھا منصب دار، اچھا تخلیق کار یا اچھا کاریگر بنانے کا سبب نہیں ہوتی۔
در اصل کوئی بھی چیز جب ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو وہ زہر بن جاتی ہے۔ چاہے وہ پیٹ میں گیا کھانا ہو، لوگوں سے چھپائی ہوئی دولت ہو، حد سے تجاوزکرتا اختیار ہو، صحت ہو یا اقتدار، اس ملک کی برہنہ سچائی یہی ہے کہ یہاں لوگ غریبوں کا، صدقے خیرات کا مال لوٹنے میں بھی شرمندہ نہیں ہوتے، اخلاقی طور پر ہم بہت گر چکے ہیں، یہاں چوروں، ڈاکوؤں کو تاج ملتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو لوٹا جاتا ہے۔