TRAFFIC یا TERRIFIC

ٹریفک ڈیوٹی کرنے والوں پر کوئی سپر وژن نہیں ہے۔ ٹریفک رولز سے اکثر ڈرائیور ناواقف اور لاعلم ہیں۔


Hameed Ahmed Sethi October 08, 2017
[email protected]

بیروں ملک سے آیا ہوا میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھا میرا دوست مسلسل کروٹیں بدل رہا تھا۔ میں نے ذرا تشویش سے پوچھا کیا بات ہے، طبیعت تو ٹھیک ہے۔ اس نے ہنس کر کہا کہ جب بھی کوئی فراٹے بھرتا موٹر سائیکل بل کھاتا، دائیںیا بائیں سے ہمیں اوور ٹیک کرتا ہے تو میں غیرارادی طور پر دائیں بائیں ہوجاتا ہوں اور جب پیچھے والی کار کا ڈرائیور رستہ بنانے کے لیے مسلسل ہارن بجانے لگتا ہے، میں سیٹ کو مضبوطی سے پکڑلیتا ہوں۔

اس کا جواب سن کر میں نے قہقہہ لگایا تو وہ ذرا جھینپ سا گیا۔ میں نے کار سڑک کے بائیں طرف لاکر روکی اور اسے آفر کی کہ آجاؤ ڈرائیونگ سیٹ پر تمہاری مہارت دیکھتے ہیں۔ اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا یہ بات اگر تم دس سال پہلے کہتے جب میں اسی شہر میں ڈرائیونگ کرتا تھا تو میں ایک منٹ دیر نہ لگاتا لیکن اب ایسی حرکت کرنے کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے لیکن ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو شخص پاکستان میں بغیر ایکسیڈنگ کیے کار چلانے کی مہارت رکھتا ہو۔ دنیا کے کسی بھی ملک کی پہلی ٹرائی میں ڈرائیونگ ٹیسٹ میں پاس ہوجائے گا۔

ممکن ہے ایک سابق پاکستانی کی ہمارے آٹو موبائل ڈرائیوروں کے بارے میں دوغلی رائے کچھ عجیب لگے جس میں انھیں بیک وقت خطرناک اور ماہر ڈرائیور کہا گیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے اور اس منطق کے معانی یقینا یہ ہیں کہ ہمارے موٹر چلانے والوں میں تعلیم کی کمی چاہے نہ ہو وہ تربیت سے عاری نہیں یعنی ''بے ہدائتے'' نہیں۔ شہر کی پر ہجوم سڑکوں پر متعدد ٹریفک وارڈنز نظر آئے۔ میرا دوست جس کا نام منصور ہے بڑے غور سے انھیں دیکھتا رہا۔ پھر کہنے لگا ڈیوٹی پر تو بہت سے ٹریفک افسر دیکھے لیکن حیرت ہے ڈیوٹی دیتے کسی کو نہیں دیکھا۔

قریباً سبھی نوجوان اور اسمارٹ افسر ہیں لیکن کوئی موبائل فون پر مصروف ہے تو کہیں دو تین درخت کی چھاؤں میں کھڑے آپس میں گپ شپ کررہے ہیں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ موٹر کاروں، رکشوں اور اسکوٹروں کی تعداد بھی تو دیکھو، ٹریفک اگر بیہودہ ہے تو انھیں کنٹرول کرنے والے بھی بے بس ہیں۔ یہ تمام گریجویٹ اور بہت سے ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ ان کے دو بڑے مسئلے ہیں اول یہ کہ ان کی وارڈن سے اوپر ترقی کے کوئی رولز نہ ہونے کی وجہ سے فرائض کے حوالے سے یہ عدم دلچسپی کا شکار ہیں۔

دوئم ان کے اوپر کوئی سپر وژن نہیں ہے۔ یہ ڈنگ ٹپاؤ ٹریفک کنٹرولر ہیں۔ منصور نے پوچھا کہ پھر یہ ٹریفک وارڈن کیا ڈیوٹی دیتے ہیں۔ میں نے ہنس کر جواب دیا کہ موٹر کار ڈرائیوروں کی سیٹ بیلٹ چیک کرتے اور موٹر سائیکل والوں کا ہیلمٹ نہ ہونے پر چالان کرتے ہیں۔

چند روز قبل ڈاکٹر مشتاق نے اسلام آباد سے اپنے مصروف ترین موبائل فون سے ایک مسیج بھیجا ہے جس میں کسی ماجد شیخ نے اپنے لاہور کے زمانہ طالبعلمی کو یاد کرتے ہوئے ایک انگریز ٹریفک سارجنٹ NIBLETT کے حوالے سے تین واقعات بیان کیے ہیں۔ ماجد شیخ اسکول میں تھے جب وہ بائیسکل پر براستہ لارنس روڈ ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارہے تھے کہ DSP مسٹر نبلٹ نے ان کو روک کر سرزنش کی اور پھر سائیکل کے ٹائروں میں سے ہوا نکال دینے کی سزا دی۔ انھیں سائیکل پکڑے پکڑے اسکول تک جانا پڑا، اتفاق سے گورا پولیس سارجنٹ ان کے والد کو جانتا تھا۔

انھوں نے بات گھر والوں سے چھپانا چاہی لیکن NIBLETT صاحب نے ان کے والد کو کہا کہ وہ بیٹے کو قانون کا احترام کرنا سکھائیں، جس پر والد نے شام کو بیٹے کی کلاس کی۔ موصوف کی دوسری یاد NIBLETT کے بیٹے Larry کی بابت تھی جو ماجد کا کلاس فیلو تھا اور اس سے ایک غیر قانونی حرکت سرزد ہوگئی تھی جس پر نبلٹ نے اسے گرفتار کرادیا۔ مجسٹریٹ کے پاس کیس چلا تو والد خود پیش ہوا۔

مجسٹریٹ نے نبلٹ سے کہا کہ وہ معافی دلوا دیتا ہے لیکن والد نے اصرار کرکے بیٹے کو سزا دلوائی جس کا یہ فائدہ ہوا کہ Larry مکمل سدھر گیا اور اس واقعے کا اسکول کے تمام بچوں پر مثبت اثر ہوا۔ ماجد شیخ نے تیسری یاد اپنے کالج کے زمانے کی لکھی ہے جو فیلڈ مارشل ایوب خاں کے آخری دور کی بات ہے جب چینی کی قیمت چند آنے بڑھ گئی تھی اور صدر ایوب خاں کے خلاف ''چینی چور ہائے ہائے'' وغیرہ نعروں کے ساتھ جلوس نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ ایک جلوس گورنر ہاؤس پنجاب داخل ہونے کے لیے گیٹ اور دیواروں کو پھلانگ رہا تھا اور سیکیورٹی والے بے بس تھے۔

اسی دوران DSP نبلٹ نے وہاں پہنچ کر ریوالور نکال لیا اور گرجدار آواز میں میگا فون پر مجمے کو وارننگ دی کہ میں گولی چلا دوں گا ورنہ باہر نکل جاؤ اور منتشر ہوجاؤ۔ لوگ اس دھمکی پر بھاگ نکلے اور سیچوایشن کنٹرول میں آگئی۔ یہیں پر مجھے راولپنڈی کا وہ دن یاد آگیا ہے جب صدر بازار میں ایک جلوس کے وقت میں بھی ڈیوٹی پر اینٹی ایوب نعرے سن رہا تھا اور جلوس کے قریب سے کار میں گزرتے ہوئے شوکت ایوب خاں نے دروازے کا شیشہ نیچے کرکے بڑی معصومیت اور لاعلمی سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تھا ''بھاپے یہ کیسا جلوس ہے'' اوراس وقت بھی پسر ایوب خاں کار میں اکیلا اسٹیئرنگ پر تھا۔ ہمیشہ کی طرح۔

دو سابق انسپکٹرز جنرل پولیس ضیاء الرحمن اور جہانگیر مرزا ڈی آئی جی نبلٹ کے کولیگ تھے، ان کے مطابق نبلٹ پکا لاہوری تھا۔ اس دور میں تقسیم ہند کے بعد رنگ، نسل، فرقے اور مذہب کی بنیاد پر نفرت یا تعصب نہ دیکھنے میں آتا نہ سننے اور برتنے میں ہندو سکھ پارسی اینگوانڈین اور کرسچن امن اور محبت سے پاکستان میں رہتے تھے۔

منصور دو ہفتے کے لیے رشتہ داروں، دوستوں سے ملنے اور یادیں تازہ کرنے پاکستان آیا تھا۔ اکثر میں ہی اسے گھما پھرا، ملا رہا تھا۔ کئی بار اسے کار کی چابی دی کہ خود آؤ جاؤ لیکن وہ کہتا کہ یہاں کی ٹریفک Terrific ہے، اس نے مجھ سے وجہ پوچھی تو بتایا کہ آبادی بے تحاشہ بڑھنے سے اب موٹر سائیکل سے موٹر کار کا کام لیا جارہا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں ہوتا۔ لائسنس کے لیے ڈرائیونگ ٹیسٹ ضروری ہوتا ہے۔ ڈرائیونگ اسکولز کی اشد ضرورت ہے۔

ٹریفک ڈیوٹی کرنے والوں پر کوئی سپر وژن نہیں ہے۔ ٹریفک رولز سے اکثر ڈرائیور ناواقف اور لاعلم ہیں۔ چیکنگ اور کنٹرول کا سسٹم موجود لیکن عملدرآمد مفقود ہے۔ ٹریفک سارجنٹ Niblett ڈی آئی جی پروموٹ ہوکر ریٹائرمنٹ کے بعد آسٹریلیا چلا گیا تھا اور وہیں انتقال کرگیا۔ اب ہمیں کسی NIBLETT ثانی کے آنے تک TRAFFIC کو TERRIFIC ہی کہنا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں