روک سکو تو روک لو

انضمام نے بے دھڑک اپنے بھتیجے کو منتخب کیا، روک سکو تو روک لو.


Saleem Khaliq October 08, 2017
لوگ اپنے مفادات کیلیے قوانین تک کو بدل دیتے ہیں، ایسے میں کرکٹ تو بہت چھوٹی چیز ہے۔ فوٹو: فائل

PIRAEUS: ''یہ آ گیا ڈائمنڈ گراؤنڈ، یہ شکیل شیخ کے کلب کا گراؤنڈ ہے، آپ کیا واقعی یہاں جانا چاہتے ہیں''، میرے ساتھی ذوالفقار بیگ نے مجھ سے جب ایک بارپھر یہ پوچھا تو میں نے جواب دیا بیگ صاحب میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں، آپ کو لگتا ہے کہ حال ہی میں شکیل شیخ کیخلاف میں نے کئی کالمز لکھے، مرزا اقبال بیگ کے شو میں بھی باتیں کیں تو شاید وہ یہاں ہوئے تو ہماری ملاقات خوشگوارماحول میں نہ ہو، ایسی کوئی بات نہیں شیخ صاحب کی یہ کوالٹی ہے کہ بات چیت میں احساس نہیں ہونے دیتے کہ کسی بات پر ناراض ہیں، خیر اس دن ملاقات کی نوبت نہ آئی۔

شکیل شیخ لاہور گئے ہوئے تھے فون پر بھی رابطہ نہ ہوسکا، میں کئی برس بعد اسلام آباد آیا تھا، یہاں محمد حفیظ بھی قائد اعظم ٹرافی کا میچ کھیلنے آئے ہوئے تھے، ان کو پتا چلا کہ میں یہیں ہوں تو طے ہوا کہ ہمیں ملاقات کرنی چاہیے، مگر پھر قومی ٹیم کا اعلان ہو گیا اور حفیظ کو لاہور جانا پڑا، میں نے سوچا تھوڑا میچ ہی دیکھ لیتے ہیں لہذا گراؤنڈ چلے آیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیم کی فلائٹ سے ایک روز قبل تک منتخب پلیئرز کا اعلان ہی نہیں ہوا تھا، بعد میں سمجھ آیا کہ اس کی وجہ چیف سلیکٹر انضمام الحق کا اپنے بھتیجے امام الحق کو ٹیم میں شامل کرانا تھی۔

حسب معمول ربڑ اسٹیمپ دیگر سلیکٹرز نے کوئی اعتراض نہ کیا اور فاسٹ ٹریک سے امام قومی ون ڈے اسکواڈ کا حصہ بن گئے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ اچھے بیٹسمین ہیں لیکن اس وقت ان سے زیادہ اچھے کئی ایسے دیگر کھلاڑی بھی موجود ہیں جنھیں مواقع ملنے چاہئیں، صرف فواد عالم کی بات نہیں کرتے،آصف ذاکر بیچارے کا کیا قصور ہے۔

ویسٹ انڈیز میں بغیر کھلائے آپ نے کیسے جان لیا کہ انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل سکتا اور باہر کر دیا، ڈومیسٹک ون ڈے کپ میں خرم منظور سمیت کئی دیگر پرفارمرز بھی تھے کسی پر غور نہ ہوا کیونکہ ان کا سر نیم الحق نہ تھا، امام الحق اگر اپنے چچا کے چیف سلیکٹر نہ ہونے پر طریقہ کار کے تحت منتخب ہوتے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مگر اس وقت انضمام ناسمجھی میں نوجوان بیٹسمین کے مستقبل سے کھیل گئے، اب امام الحق پر زندگی بھر سفارشی کا لیبل لگا رہے گا، جیسا کہ فیصل اقبال پر باصلاحیت ہونے کے باوجود پورے کیریئر میں جاوید میانداد کا بھانجا ہونے کی چھاپ لگی رہی۔

اب امام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا، ہو سکتا ہے کہ وہ ڈیبیو پر سنچری کر دیں پھر دیگر کئی بڑی اننگز بھی کھیلیں مگر یہ حقیقت ہے کہ قبل از وقت قومی ٹیم میں چچا کی وجہ سے آئے، یہ دیگر سفارش سے محروم باصلاحیت کرکٹرز کے ساتھ زیادتی ہے، شان مسعود اور امام الحق قومی ٹیم سے کھیل جاتے ہیں مگر دیگر لڑکے ڈومیسٹک کرکٹ میں خوب پسینہ بہانے کے بعد موقع کا انتظار کرتے گھر بیٹھ جاتے ہیں، ٹیسٹ سیریز کے لیے چار نئے کھلاڑی دبئی گئے مگر بغیر کھیلے واپس آئیں گے نجانے پھر کبھی موقع ملے بھی یا نہیں۔

اگر انضمام سمجھتے تھے کہ ان کا بھتیجا بڑا باصلاحیت ہے تو انھیں سلیکشن کمیٹی سے استعفیٰ دے کر فیصلہ نئے چیف سلیکٹر پر چھوڑنا چاہیے تھا، ویسے بھی ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ،ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اچھی آمدنی ہے، گھر بیٹھے چیمپئنز ٹرافی کی فتح پر ایک کروڑ روپے ایک فون کال پر مل گئے، کسی ایونٹ کی فرنچائز خریدنا بڑے بڑے بزنسمینز کے بس کی بات نہیں مگر انضمام نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ٹی ٹین کی ایک ٹیم خرید لی،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر پی سی بی کے 15 لاکھ روپے ماہانہ نہ ملیں تو کوئی مسئلہ نہ ہو گا لیکن انھوں نے خود اپنے بھتیجے کو منتخب کر کے اقربا پروری کی مثال قائم کر دی۔

ویسے اب میں نے محسوس کیا ہے کہ کسی کو میڈیا یا عوام کا کوئی ڈر نہیں ہے، سیاسی حالات دیکھ لیں،لوگ اپنے مفادات کیلیے قوانین تک کو بدل دیتے ہیں، ایسے میں کرکٹ تو بہت چھوٹی چیز ہے،انضمام نے بے دھڑک اپنے بھتیجے کو منتخب کیا، روک سکو تو روک لو، شکیل شیخ نے قومی ٹی ٹوئنٹی اور قائد اعظم ٹرافی کے ڈرافٹ میں بطور ایمرجنگ پلیئر اپنے بیٹے کو لیا،وہ بھی سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں روک سکو تو روک لو۔

نجم سیٹھی نااہلی پر برطرف ہارون رشید کو نئی پوسٹ تخلیق کر کے لے آئے ، ان کی مسکراہٹ دیکھ کر بھی محسوس ہوتا ہے کہ کیا بگاڑ لیا میرا، جب تک سیٹھی صاحب ہیں میں یہیں ہوں روک سکو تو روک لو، اسی طرح اب معین خان کو واپس لانے کی تیاری ہو رہی ہے، ورلڈکپ کے دوران کسینیو میں پائے جانے پر انھیں دباؤ پڑنے پر بلانا پڑا تھا، اپنے پہلے دور میں سیٹھی صاحب نے کوئی ایسی پوسٹ نہ چھوڑی جو معین کو نہ دی ہو، اب پھر وہ چیئرمین ہیں تو چاہیں تو انھیں کپتان بنا کر لے آئیں، روک سکو تو روک لو۔

افسوس اس بات کا ہے کہ شائقین جانتے ہیں کہ ملکی کرکٹ میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے مگر کچھ کر نہیں سکتے اور جو کر سکتے ہیں وہ کچھ کرتے نہیں، مجھ سے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے فلاں کے بارے میں لکھا اس کا تو کچھ نہیں بگڑا تو میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ بطور صحافی ہمارا کام سچائی عوام تک پہنچانا ہے مگر خود کچھ کرنے کا ہمارے پاس اختیار نہیں، ابھی آپ دیکھ لیں بورڈ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کا کیا حال ہے، ڈے نائٹ دبئی ٹیسٹ سے چند گھنٹے قبل تک یہ اعلان نہ ہوا کہ آغاز کا وقت کیا ہے، کسی بات پر وضاحت کیلیے رابطہ کریں تو کوئی دستیاب ہی نہیں ہوتا۔

سیٹھی صاحب روس میں چھٹیاں گزار کر شاید اب آئی سی سی میٹنگ میں شرکت کیلیے براہ راست نیوزی لینڈ جائیں گے، بورڈ نے ایک ارب سے زائد روپے بھارت کیخلاف قانونی چارہ جوئی کیلیے مختص کیے ہیں مگر حیران کن طور پر کونسل کے اجلاس میں ایجنڈے پر یہ معاملہ ہی شامل نہیں ہے،نجانے کیوں مجھے آنے والے چند ماہ پاکستانی کرکٹ کیلیے زیادہ اچھے نہیں لگ رہے ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں مگرحکام کے حالیہ فیصلے دیکھ کر صاف لگ رہا ہے کہ وہ کئی معاملات میں مصیبت کو دعوت دے چکے ہیں دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں