ٹیسٹ ٹیم کی تعمیر نو کے سفر کا ناخوشگوار آغاز
امارات کی سازگار کنڈیشنز میں ناقص کارکردگی
کیا آپ نے کبھی کوئی ایسی ٹیم دیکھی ہے جس سے کسی بھی وقت، کسی بھی معیار کی کارکردگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
پاکستان شاید دنیا کی واحد ٹیم ہے جو دنیا کی مضبوط سے مضبوط ٹیم کو ہرا بھی سکتی ہے اور کمزور سے کمزور سائیڈ سے ہار بھی سکتی ہے، یقین نہیں آتا تو حال ہی میں انگلینڈ میں شیڈول آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کو ہی دیکھ لیں، شاہد آفریدی اور یونس خان سمیت بڑے کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں ہر کوئی یہی تبصرہ کر رہا تھا کہ پاکستان کا میگا ایونٹ میں ٹائٹل جیتنا تو درکنار گرین شرٹس گوروں کے دیس سے عزت بچا کر بھی واپس آ جائیں تو یہ سرفراز الیون کی بہت بڑی کامیابی تصور ہوگی، پھر دنیائے کرکٹ شائقین نے وہ منظر بھی دیکھا کہ نووارد کھلاڑیوں پر مشتمل قومی ٹیم نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی بہت کم توقع کی جا رہی تھی۔
تاریخ میں پہلی بار چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد جہاں پی سی بی حکام نے سکھ کا سانس لیا وہاں پلیئرز کی باڈی لینگوئج اورحوصلے بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے، کپتان سرفراز احمد سمیت ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں کے ساتھ بھی راقم کی بات چیت ہوئی، سب کا یہی کہنا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کی فتح نے ہمارا مورال بلند کر دیا ہے، ہم تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور مستقبل کے ایونٹس میں 100 فیصد کارکردگی دکھانے کے لئے پرعزم ہیں۔
پاکستان سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لئے متحدہ عرب امارات کے لئے روانہ ہوئی تو پی سی بی حکام، سلیکشن کمیٹی، سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور مبصرین کی بڑی تعداد کی یہی رائے تھی کہ پہلے سے ناکامیوں اور شکستوں کے گرداب میں پھنسی سری لنکن گرین کیپس کے خلاف زیادہ مزاحمت نہیں کر سکے گی اور 2 ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریزپاکستان با آسانی جیت جائے گا لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا۔
ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 400 سے زائد رنز بنانے والی پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 136 رنز کا ہدف بھی پورا نہ کر سکی اور 21رنز سے ٹیسٹ ہارگئی، کھلاڑیوں کی جلد بازی میں وکٹیں گنوانے کا یہ عالم تھا کہ نصف ٹیم محض 36 رنز پر ہی پویلین لوٹ گئی، ٹیم کی اس کارکردگی کو دیکھ کر بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ یہ پاکستان کی نہیں بلکہ کلب سطح کی ٹیم ہے۔
پاکستان کی قدرے کمزور حریف کے ہاتھوں شکست کے بعد بظاہر دکھائی دے رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ پوری کی پوری دال ہی کالی ہے، کچھ ایسے حقائق ضرور ہیں جن کو چھپانے اور ان پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سپنرز کے لئے سازگار وکٹ پر صرف ایک سپنر یاسر شاہ کو ہی کیوں کھلایا گیا، ٹیم کی ناکامی کا ملبہ ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کی بجائے گراؤنڈز سٹاف پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، غیر ملکی کوچ مکی آرتھر کا یہ بیان منظر عام پر آیاکہ وکٹ ویسی نہیں بنائی گئی جیسا ہم چاہتے تھے، کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ ٹیم میں کچھ مسائل تھے جو ٹیم کی شکست کی وجہ بنائے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کھلاڑیوں کے کچھ مسائل تھے تو انہیں دور کرنا کن کا کام ہے، جب ٹیم کی جیت کا سارا کریڈٹ کپتان اور کوچ لیتے ہیں توان کے مسائل کے سدباب کرنا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہونا چاہیے۔
اب دبئی سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ پیار محبت سے کام نکلوانے کا دعوی کرنے والے قومی کپتان اپنا غصہ ساتھی کرکٹرز پر نکال رہے ہیں۔ ٹیسٹ سیریز کے لئے سلیکشن کمیٹی کی بات کی جائے تو میرٹ کی بجائے ذاتی پسند نا پسند کا زیادہ خیال رکھا گیا، فٹنس مسائل کو جواز بنا کر الگ الگ پالیسیاں بنائی گئیں، اظہر علی کو ان فٹ ہونے کے باوجود سکواڈ کا حصہ بنایا گیا، حارث سہیل نے تو اپنا انتخاب کسی حد تک درست کر دکھایا لیکن بلال آصف کو کیوں ایک بار پھر سکواڈ کا حصہ بنایا گیا۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بلال نے 2015ء میں پاکستان کے لیے تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے تھے اور ابتداء ہی میں ان کا بولنگ ایکشن مشکوک قرار دے دیا گیا تھا، گو کہ بلال کی عمر 32 سال ہے لیکن ان کا کرکٹ کیریئر بہت مختصر ہے۔
اب تک صرف 15 فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہیں جن میں بیٹنگ اوسط 20 بھی نہیں ہے جبکہ وکٹوں کی تعداد بھی محض 38 ہے، اگر ان کو سکواڈ میں شامل کر ہی لیا گیا تھا تو کسی ایک ٹیسٹ میں بھی انہیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع کیوں فراہم نہ کیا گیا؟ اب انہیں بورڈ کے خرچے پر یو اے ای کی سیر کروا کر وطن واپس آنا پڑے گا، یہی حال اسکواڈ کے مزید دو کھلاڑیوں محمد اصغر اور عثمان صلاح الدین کا بھی ہوگا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان پلیئرز کے انتخاب میں میرٹ کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیاہے۔
اسی طرح اوپنرز میں ہمیں شان مسعود کا نام بھی نظر آ رہا ہے جنہیں اب تک بہت مواقع مل چکے ہیں، چار سالہ کیریئر میں شان مسعود نے 10 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں اور رواں سال دورئہ ویسٹ انڈیز میں بھی شامل تھے۔ شان کا بیٹنگ ایوریج صرف 23 ہے اور فرسٹ کلاس کیریئر بھی ان کے شایان شان نہیں ہے، انہون نے 96 فرسٹ کلاس میچز میں لگ بھگ 34 کے اوسط سے5160 ہی بنائے ہیں، ان کے مقابلے میں ایسے باصلاحیت اوپنرز کی کمی نہیں جو شان مسعود سے نہ صرف تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں بلکہ ان کے زیادہ بہتر کارکردگی بھی رکھتے ہیں۔
ابوظہبی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد پاکستان کا متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم یو اے ای میں ابھی تک کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں ہاری ہے، گرین کیپس نے یہاں 5 ٹیسٹ سیریز جیتی ہیں جبکہ 4 برابری کی سطح پر ختم ہوئی ہیں۔ پاکستان نے یہ تمام کی تمام 9 ٹیسٹ سیریز مصباح الحق کی قیادت میں کھیلی تھیں۔
اگر سری لنکا نے یہ ٹیسٹ سیریز جیت لی تو پاکستانی ٹیم سات سال بعد پہلی مرتبہ ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر چلی جائے گی، پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ 2010ء میں پاکستان ٹیم کا انگلینڈ میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل منظر عام پر آیا تو پی سی بی کے درو دیوار ہل کر رہ گئے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا جب لاہور میں شدت پسندوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے مہمان کرکٹرز کو لہولہان کر دیا تھا، ان دو بڑے واقعات کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں قومی ٹیم کے لئے اجنبی ہو گئی، بھارت تو پہلے ہی اس انتظار میں بیٹھا تھا،آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ سمیت دوسری ٹیموں نے بھی پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا، ان حالات میں پاکستان کو اپنی ہوم سیریز بھی دیار غیر میں کھیلنا پڑیں۔
ان مشکل حالات میں کسی ٹیم کا سنبھل کر ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آ جانا کسی دیوانے کا خواب ہی محسوس ہوتا تھا لیکن مصباح الحق کی قیادت میں گرین کیپس نے اس ناممکن ہدف کو ممکن کر دکھایا اور پاکستانی ٹیم تاریخ میں پہلی بار2016ء میں دنیا کی ٹیسٹ ٹیموں میں پہلے نمبروں پر آ گئی، بعد ازاں مصباح الحق ہی کی کپتانی میں ناکامیوں کا سفر اس طرح شروع ہوا کہ چند ہی ماہ بعد پاکستانی ٹیم نمبر ون سے چھٹے نمبر پر آ گئی، دبئی ٹیسٹ میں بھی ناکامی کی صورت میں پاکستان ٹیم مزید تنزلی کے بعد ساتویں نمبر پر آ جائے گی۔
دوسرے ٹیسٹ کے آغازسے پہلے سرفراز احمد نے ایک بار پھر یہ بیان دیا کہ یہی کھلاڑی دبئی ٹیسٹ میں پاکستان کو جتوائیں گے لیکن سری لنکا نے جس طر ح ٹاس جیت کر پاکستانی بولرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس کے بعد بظاہر اس ٹیسٹ میں بھی پاکستان کی ٹیسٹ پر گرفت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے، کہتے ہیں کہ ہار یتیم اور کامیابی کے کئی وارث ہوتے ہیں، اگر تاریخ میں پہلی بار پاکستان ٹیم متحدہ عرب امارات میں سیریز میں ناکام ہوتی ہے تو سمجھ لیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو جائے گا اور جیت کی آڑ میں چھپی خامیاں ایک ایک کر کے عیاں ہونا شروع ہو جائیں گی۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق کی تو شاید الٹی گنتی ابھی سے شروع ہو گئی ہے اور ان دنوں ان پر خاصی تنقید بھی ہو رہی ہے، ناقدین کے مطابق پی سی بی نے سابق کپتان کو بورڈ کے خرچے پر اس لئے یو اے ای بجھوایا تھا کہ وہ سری لنکا کے خلاف پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں ٹیم کا انتخاب کریں لیکن انہوں نے اپنی اصل ڈیوٹی نبھانے کی بجائے ٹی ٹین لیگ میں دلچسپیاں دکھانا شروع کر دیں، وہ نہ صرف لیگ کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے بلکہ وہ ایک فرنچائز کے مالک بھی ہیں۔
ابتداء میں پی سی بی نے میڈیا رپورٹس پر خاموشی اختیار کئے رکھی تاہم اب پی سی بی نے اس حوالے سے چھان بین شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دوسری ان پر تنقید ان کے بھتیجے امام الحق کو ایک روزہ سکواڈ کا حصہ بنانے پر ہو رہی ہے۔ امام الحق چیف سلیکٹر کے نہ صرف بھتیجے ہیں بلکہ ماضی کے برعکس ان کی موجودہ کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے؟
یہ درست ہے کہ امام الحق باصلاحیت کھلاڑی ہیں لیکن انہیں اس وقت قومی ٹیم کا حصہ کیوں نہ بنایا گیا جب ان کی کارکردگی کا گراف نمایاں تھا، امام الحق کی اب تک کی مجموعی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو وہ 2 بار انڈر 19 ورلڈ کپ میں پاکستان کی جانب سے کھیلنے کے علاوہ انڈر 23 میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
گزشتہ سال قائداعظم ٹرافی میں 3 سنچریوں اور3 نصف سنچریوں کی مدد سے 848 رنز بنانے کے علاوہ ڈیپارٹمنٹل ون ڈے ٹورنامنٹ میں تین نصف سنچریوں کی مدد سے 318 رنز سکور بھی بنائے تھے تاہم ریجنل ون ڈے ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی تھی اور وہ چار میچوں میں صرف 96 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے تھے،ملک بھر میں جاری قائد اعظم ٹرافی کے اب تک کے2میچوں میں 174 رنز بنا سکے ہیں جبکہ اس کے برعکس رضوان حسین 244 کے ساتھ پہلے، عمر امین 229 رنز کے ساتھ دوسرے، اور فیضان ریاض 225 رنز کے ساتھ تیسرے نمبروں پر ہیں جبکہ امام الحق کا زیادہ سکور بنانے والوں میں 14واں نمبر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر میں جاری قائد اعظم ٹرافی میں پہلے13 نمبروں پر آنے والے ان کھلاڑیوں کا آخر کیا قصور ہے کہ امام الحق سے زیادہ رنز بنانے کے باوجود قومی ٹیم سے دور کیوں ہیں؟ کیا پاکستانی ٹیم کا حصہ بننے کے لیے کرکٹرز کے چچا، تایا، ماموں یا کسی اور قریبی رشتہ دار کا کرکٹ بورڈ یا سلیکشن کمیٹی میں ہونا ضروری ہے؟
اگر مستقبل میں بھی ٹیموں کا انتخاب کرتے وقت میرٹ کی بجائے اقرباء پروری یا ذاتی پسند نا پسند کی پالیسی جاری رہی تو نہ صرف کرکٹرز گراؤنڈز میں خود کشی کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے بلکہ باصلاحیت کھلاڑی بھی دلبرداشتہ ہو کر اس کھیل کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیں گے۔
پاکستان شاید دنیا کی واحد ٹیم ہے جو دنیا کی مضبوط سے مضبوط ٹیم کو ہرا بھی سکتی ہے اور کمزور سے کمزور سائیڈ سے ہار بھی سکتی ہے، یقین نہیں آتا تو حال ہی میں انگلینڈ میں شیڈول آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کو ہی دیکھ لیں، شاہد آفریدی اور یونس خان سمیت بڑے کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں ہر کوئی یہی تبصرہ کر رہا تھا کہ پاکستان کا میگا ایونٹ میں ٹائٹل جیتنا تو درکنار گرین شرٹس گوروں کے دیس سے عزت بچا کر بھی واپس آ جائیں تو یہ سرفراز الیون کی بہت بڑی کامیابی تصور ہوگی، پھر دنیائے کرکٹ شائقین نے وہ منظر بھی دیکھا کہ نووارد کھلاڑیوں پر مشتمل قومی ٹیم نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی بہت کم توقع کی جا رہی تھی۔
تاریخ میں پہلی بار چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد جہاں پی سی بی حکام نے سکھ کا سانس لیا وہاں پلیئرز کی باڈی لینگوئج اورحوصلے بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے، کپتان سرفراز احمد سمیت ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں کے ساتھ بھی راقم کی بات چیت ہوئی، سب کا یہی کہنا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کی فتح نے ہمارا مورال بلند کر دیا ہے، ہم تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور مستقبل کے ایونٹس میں 100 فیصد کارکردگی دکھانے کے لئے پرعزم ہیں۔
پاکستان سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لئے متحدہ عرب امارات کے لئے روانہ ہوئی تو پی سی بی حکام، سلیکشن کمیٹی، سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور مبصرین کی بڑی تعداد کی یہی رائے تھی کہ پہلے سے ناکامیوں اور شکستوں کے گرداب میں پھنسی سری لنکن گرین کیپس کے خلاف زیادہ مزاحمت نہیں کر سکے گی اور 2 ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریزپاکستان با آسانی جیت جائے گا لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا۔
ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 400 سے زائد رنز بنانے والی پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 136 رنز کا ہدف بھی پورا نہ کر سکی اور 21رنز سے ٹیسٹ ہارگئی، کھلاڑیوں کی جلد بازی میں وکٹیں گنوانے کا یہ عالم تھا کہ نصف ٹیم محض 36 رنز پر ہی پویلین لوٹ گئی، ٹیم کی اس کارکردگی کو دیکھ کر بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ یہ پاکستان کی نہیں بلکہ کلب سطح کی ٹیم ہے۔
پاکستان کی قدرے کمزور حریف کے ہاتھوں شکست کے بعد بظاہر دکھائی دے رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ پوری کی پوری دال ہی کالی ہے، کچھ ایسے حقائق ضرور ہیں جن کو چھپانے اور ان پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سپنرز کے لئے سازگار وکٹ پر صرف ایک سپنر یاسر شاہ کو ہی کیوں کھلایا گیا، ٹیم کی ناکامی کا ملبہ ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کی بجائے گراؤنڈز سٹاف پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، غیر ملکی کوچ مکی آرتھر کا یہ بیان منظر عام پر آیاکہ وکٹ ویسی نہیں بنائی گئی جیسا ہم چاہتے تھے، کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ ٹیم میں کچھ مسائل تھے جو ٹیم کی شکست کی وجہ بنائے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کھلاڑیوں کے کچھ مسائل تھے تو انہیں دور کرنا کن کا کام ہے، جب ٹیم کی جیت کا سارا کریڈٹ کپتان اور کوچ لیتے ہیں توان کے مسائل کے سدباب کرنا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہونا چاہیے۔
اب دبئی سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ پیار محبت سے کام نکلوانے کا دعوی کرنے والے قومی کپتان اپنا غصہ ساتھی کرکٹرز پر نکال رہے ہیں۔ ٹیسٹ سیریز کے لئے سلیکشن کمیٹی کی بات کی جائے تو میرٹ کی بجائے ذاتی پسند نا پسند کا زیادہ خیال رکھا گیا، فٹنس مسائل کو جواز بنا کر الگ الگ پالیسیاں بنائی گئیں، اظہر علی کو ان فٹ ہونے کے باوجود سکواڈ کا حصہ بنایا گیا، حارث سہیل نے تو اپنا انتخاب کسی حد تک درست کر دکھایا لیکن بلال آصف کو کیوں ایک بار پھر سکواڈ کا حصہ بنایا گیا۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بلال نے 2015ء میں پاکستان کے لیے تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے تھے اور ابتداء ہی میں ان کا بولنگ ایکشن مشکوک قرار دے دیا گیا تھا، گو کہ بلال کی عمر 32 سال ہے لیکن ان کا کرکٹ کیریئر بہت مختصر ہے۔
اب تک صرف 15 فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہیں جن میں بیٹنگ اوسط 20 بھی نہیں ہے جبکہ وکٹوں کی تعداد بھی محض 38 ہے، اگر ان کو سکواڈ میں شامل کر ہی لیا گیا تھا تو کسی ایک ٹیسٹ میں بھی انہیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع کیوں فراہم نہ کیا گیا؟ اب انہیں بورڈ کے خرچے پر یو اے ای کی سیر کروا کر وطن واپس آنا پڑے گا، یہی حال اسکواڈ کے مزید دو کھلاڑیوں محمد اصغر اور عثمان صلاح الدین کا بھی ہوگا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان پلیئرز کے انتخاب میں میرٹ کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیاہے۔
اسی طرح اوپنرز میں ہمیں شان مسعود کا نام بھی نظر آ رہا ہے جنہیں اب تک بہت مواقع مل چکے ہیں، چار سالہ کیریئر میں شان مسعود نے 10 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں اور رواں سال دورئہ ویسٹ انڈیز میں بھی شامل تھے۔ شان کا بیٹنگ ایوریج صرف 23 ہے اور فرسٹ کلاس کیریئر بھی ان کے شایان شان نہیں ہے، انہون نے 96 فرسٹ کلاس میچز میں لگ بھگ 34 کے اوسط سے5160 ہی بنائے ہیں، ان کے مقابلے میں ایسے باصلاحیت اوپنرز کی کمی نہیں جو شان مسعود سے نہ صرف تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں بلکہ ان کے زیادہ بہتر کارکردگی بھی رکھتے ہیں۔
ابوظہبی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد پاکستان کا متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم یو اے ای میں ابھی تک کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں ہاری ہے، گرین کیپس نے یہاں 5 ٹیسٹ سیریز جیتی ہیں جبکہ 4 برابری کی سطح پر ختم ہوئی ہیں۔ پاکستان نے یہ تمام کی تمام 9 ٹیسٹ سیریز مصباح الحق کی قیادت میں کھیلی تھیں۔
اگر سری لنکا نے یہ ٹیسٹ سیریز جیت لی تو پاکستانی ٹیم سات سال بعد پہلی مرتبہ ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر چلی جائے گی، پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ 2010ء میں پاکستان ٹیم کا انگلینڈ میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل منظر عام پر آیا تو پی سی بی کے درو دیوار ہل کر رہ گئے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا جب لاہور میں شدت پسندوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے مہمان کرکٹرز کو لہولہان کر دیا تھا، ان دو بڑے واقعات کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں قومی ٹیم کے لئے اجنبی ہو گئی، بھارت تو پہلے ہی اس انتظار میں بیٹھا تھا،آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ سمیت دوسری ٹیموں نے بھی پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا، ان حالات میں پاکستان کو اپنی ہوم سیریز بھی دیار غیر میں کھیلنا پڑیں۔
ان مشکل حالات میں کسی ٹیم کا سنبھل کر ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آ جانا کسی دیوانے کا خواب ہی محسوس ہوتا تھا لیکن مصباح الحق کی قیادت میں گرین کیپس نے اس ناممکن ہدف کو ممکن کر دکھایا اور پاکستانی ٹیم تاریخ میں پہلی بار2016ء میں دنیا کی ٹیسٹ ٹیموں میں پہلے نمبروں پر آ گئی، بعد ازاں مصباح الحق ہی کی کپتانی میں ناکامیوں کا سفر اس طرح شروع ہوا کہ چند ہی ماہ بعد پاکستانی ٹیم نمبر ون سے چھٹے نمبر پر آ گئی، دبئی ٹیسٹ میں بھی ناکامی کی صورت میں پاکستان ٹیم مزید تنزلی کے بعد ساتویں نمبر پر آ جائے گی۔
دوسرے ٹیسٹ کے آغازسے پہلے سرفراز احمد نے ایک بار پھر یہ بیان دیا کہ یہی کھلاڑی دبئی ٹیسٹ میں پاکستان کو جتوائیں گے لیکن سری لنکا نے جس طر ح ٹاس جیت کر پاکستانی بولرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس کے بعد بظاہر اس ٹیسٹ میں بھی پاکستان کی ٹیسٹ پر گرفت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے، کہتے ہیں کہ ہار یتیم اور کامیابی کے کئی وارث ہوتے ہیں، اگر تاریخ میں پہلی بار پاکستان ٹیم متحدہ عرب امارات میں سیریز میں ناکام ہوتی ہے تو سمجھ لیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو جائے گا اور جیت کی آڑ میں چھپی خامیاں ایک ایک کر کے عیاں ہونا شروع ہو جائیں گی۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق کی تو شاید الٹی گنتی ابھی سے شروع ہو گئی ہے اور ان دنوں ان پر خاصی تنقید بھی ہو رہی ہے، ناقدین کے مطابق پی سی بی نے سابق کپتان کو بورڈ کے خرچے پر اس لئے یو اے ای بجھوایا تھا کہ وہ سری لنکا کے خلاف پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں ٹیم کا انتخاب کریں لیکن انہوں نے اپنی اصل ڈیوٹی نبھانے کی بجائے ٹی ٹین لیگ میں دلچسپیاں دکھانا شروع کر دیں، وہ نہ صرف لیگ کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے بلکہ وہ ایک فرنچائز کے مالک بھی ہیں۔
ابتداء میں پی سی بی نے میڈیا رپورٹس پر خاموشی اختیار کئے رکھی تاہم اب پی سی بی نے اس حوالے سے چھان بین شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دوسری ان پر تنقید ان کے بھتیجے امام الحق کو ایک روزہ سکواڈ کا حصہ بنانے پر ہو رہی ہے۔ امام الحق چیف سلیکٹر کے نہ صرف بھتیجے ہیں بلکہ ماضی کے برعکس ان کی موجودہ کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے؟
یہ درست ہے کہ امام الحق باصلاحیت کھلاڑی ہیں لیکن انہیں اس وقت قومی ٹیم کا حصہ کیوں نہ بنایا گیا جب ان کی کارکردگی کا گراف نمایاں تھا، امام الحق کی اب تک کی مجموعی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو وہ 2 بار انڈر 19 ورلڈ کپ میں پاکستان کی جانب سے کھیلنے کے علاوہ انڈر 23 میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
گزشتہ سال قائداعظم ٹرافی میں 3 سنچریوں اور3 نصف سنچریوں کی مدد سے 848 رنز بنانے کے علاوہ ڈیپارٹمنٹل ون ڈے ٹورنامنٹ میں تین نصف سنچریوں کی مدد سے 318 رنز سکور بھی بنائے تھے تاہم ریجنل ون ڈے ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی تھی اور وہ چار میچوں میں صرف 96 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے تھے،ملک بھر میں جاری قائد اعظم ٹرافی کے اب تک کے2میچوں میں 174 رنز بنا سکے ہیں جبکہ اس کے برعکس رضوان حسین 244 کے ساتھ پہلے، عمر امین 229 رنز کے ساتھ دوسرے، اور فیضان ریاض 225 رنز کے ساتھ تیسرے نمبروں پر ہیں جبکہ امام الحق کا زیادہ سکور بنانے والوں میں 14واں نمبر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر میں جاری قائد اعظم ٹرافی میں پہلے13 نمبروں پر آنے والے ان کھلاڑیوں کا آخر کیا قصور ہے کہ امام الحق سے زیادہ رنز بنانے کے باوجود قومی ٹیم سے دور کیوں ہیں؟ کیا پاکستانی ٹیم کا حصہ بننے کے لیے کرکٹرز کے چچا، تایا، ماموں یا کسی اور قریبی رشتہ دار کا کرکٹ بورڈ یا سلیکشن کمیٹی میں ہونا ضروری ہے؟
اگر مستقبل میں بھی ٹیموں کا انتخاب کرتے وقت میرٹ کی بجائے اقرباء پروری یا ذاتی پسند نا پسند کی پالیسی جاری رہی تو نہ صرف کرکٹرز گراؤنڈز میں خود کشی کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے بلکہ باصلاحیت کھلاڑی بھی دلبرداشتہ ہو کر اس کھیل کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیں گے۔