انسانوں کی تقسیم کے ہولناک نتائج

آج کا ترقی یافتہ انسان ایک دوسرے سے غیر منطقی طور پر خائف ہے


Zaheer Akhter Bedari October 09, 2017
[email protected]

ہم جس زمین پر پیدا ہوتے ہیں، ایک طویل زندگی گزارتے ہیں اور مرکر اسی زمین میں دفن ہوجاتے ہیں، اس زمین کے بارے میں دنیا کی بھاری اکثریت کچھ نہیں جانتی کہ زمین کیسے وجود میں آئی، کس طرح وجود میں آئی، اس کا حجم کیا ہے، کائنات کی ناقابل تصور لمبائی، چوڑائی میں زمین کی حیثیت کیا ہے، زمین سورج کے گرد کیوں گھومتی ہے، اس کی عمر کیا ہے، یہ کب تک زندہ رہے گی، انسان زمین کا باسی کیسے بنا، آسمان کیا ہے؟

اس قسم کے بے شمار سوالات ہیں جن سے کرۂ ارض پر رہنے والوں کو اس لیے واقف ہونا چاہیے کہ جب تک زمین موجود ہے انسان کا اس سے تعلق ابدی ہے۔ اس حوالے سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم زمین سے متعلق اس قسم کے سوالات کے جواب کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ کرۂ ارض پر کروڑوں کی تعداد میں جو مختلف النوع جاندار رہتے ہیں ان میں انسان ہی وہ جاندار ہے جو اس قسم کے سوالات کرنے اور جوابات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی صلاحیت کی وجہ سے اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج رکھا گیا ہے۔

آیئے اس حوالے سے زمین یعنی کرۂ ارض کے حوالے سے کیے جانے والے سوالات کے جوابات پر ایک نظر ڈالیں۔ سب سے پہلے اس حقیقت کو جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمارے نظام شمسی کا بادشاہ سورج ہے اور نظام شمسی میں موجود سیارے اس کی رعایا ہیں۔

سورج ایک دہکتی آگ کا شعلہ ہے، اس آگ کی لپیٹ بعض وقت سورج سے الگ ہوکر خلا میں آجاتی ہیں، یہ لپیٹ مادوں پر مشتمل ہوتی ہیں، ایسی ہی ایک لہر سورج سے الگ ہوکر خلا میں آگئی اور کروڑوں سال کی گردش کے بعد ٹھنڈی ہوکر کرۂ ارض میں تبدیل ہوگئی یعنی ہماری دنیا بن گئی۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ ہمارے کرۂ ارض کی عمر لگ بھگ چار ارب سال ہے اور اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہوا تو ہماری زمین ابھی تین ارب سال تک زندہ رہ سکتی ہے، یعنی جب تک سورج زندہ ہے زمین زندہ رہ سکتی ہے۔

کائنات میں ہمارے نظام شمسی جیسے کروڑوں نظام شمسی اور اربوں سیارے موجود ہیں، کرۂ ارض پر رہنے والا انسان ہزاروں سال تک کرۂ ارض ہی کو کل کائنات سمجھتا رہا اور اسی مفروضے کے تحت اپنے عقائد و نظریات تشکیل دیتا رہا۔ یہاں اس حقیقت کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دور کے عقائد و نظریات اس دور کے علم اور معلومات کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کے عقائد و نظریات جدید علوم اور تحقیق کے حوالے سے انتہائی پسماندہ کہلاتے ہیں لیکن یہ عقائد و نظریات پسماندہ نہیں تھے کیونکہ یہ عقائد و نظریات اپنے دور کے علم اور معلومات کے مطابق تھے۔

آج کی دنیا سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر کھڑی ہے لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ سو سال کے بعد کی دنیا ہم سے سیکڑوں گنا زیادہ ترقی یافتہ ہو، جس کا انسان چاند پر ہو آیا ہے اور مریخ پر جانے کی تیاری کررہا ہے کیا یہ ممکن نہیں کہ سو سال تک انسان مریخ پر پہنچ جائے اور مریخ پر انسانی بستیاں بسانی شروع کردے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا سو سال بعد کا انسان آج کے انسان اور اس کے عقائد و نظریات کو پسماندہ نہیں کہہ سکتا؟

وسیع و عریض کائنات میں زمین کی حیثیت ایک ایٹمی ذرے سے بھی چھوٹی ہے۔ اس کرۂ ارض پر انسان کی معلوم تاریخ دس پندرہ ہزار سال پر مشتمل ہے۔ چار ارب سال کی عمر رسیدہ زمین پر انسان کی دس پندرہ ہزار سال کی تاریخ کس قدر مختصر ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، لیکن یہ طویل مختصر تاریخ طبقاتی استحصال، نفرتوں، عداوتوں، جنگوں سے بھری ہوئی ہے۔

اس مختصر تاریخ میں بیسویں اور اکیسویں صدی کو ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی صدیاں کہہ سکتے ہیں، اس دوران انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں اتنی حیرت انگیز ترقی کی ہے کہ سو سال پہلے کا انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ زندگی گزار نے کے لیے اس قدر سہولیات پیدا کردی گئی ہیں کہ دنیا جنت بن گئی ہے، لیکن بدقسمتی یا انسان کی خودغرضی یا جہل کا عالم یہ ہے کہ انسان ایک ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام رہا جس میں ان نعمتوں سے کرۂ ارض پر بسنے والے سارے انسان مستفید ہوسکیں۔

اس منصفانہ نظام کی جگہ ایک ایسا نظام کرۂ ارض کے 7 ارب انسانوں پر مسلط کردیا گیا جس میں صرف دو فیصد انسان جنت کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور 98 فیصد انسان اپنی محنت کے ثمرات سے محروم ہیں۔ دنیا کی یعنی ہمارے کرۂ ارض کی چار ارب سالہ زندگی میں بلاشبہ ہزاروں بار دنیا تباہ ہوئی ہوگی اور دوبارہ آباد ہوئی ہوگی، زمین میں اس حوالے سے یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس دوران جنم لینے والی دنیاؤں اور معاشروں میں طبقات تھے اور اگر طبقات تھے تو کیا طبقاتی استحصال اسی طرح کا تھا جس طرح آج ہے؟ اگر طبقاتی استحصال کی یہی حالت رہی تھی تو اس دور کے انسانوں نے ان مظالم کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ہوگا یا ان طبقاتی مظالم کے خلاف بغاوتیں کی ہوں گی؟

آج کا ترقی یافتہ انسان ایک دوسرے سے غیر منطقی طور پر خائف ہے، آج کا ہر ملک دوسرے سے ملک سے خائف ہے اور اسی خوف کی وجہ سے دنیا بڑی بڑی جنگوں کی لپیٹ میں رہی، جن میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں عالمی جنگیں دنیا میں منڈیوں پر قبضے کی جنگیں تھیں، جن میں کروڑوں انسان مارے گئے۔ آج کے دور کو انسانی تہذیب کی معراج کا دور کہا جاتا ہے لیکن اس معراجی تہذیب کے دور کا انسان ایٹمی ہتھیار کے بھاری ذخائر کا مالک ہے۔

1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں سے سو گنا زیادہ طاقتور ایٹم بم بنائے گئے ہیں، ایسے دور مار میزائل بنائے جارہے ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے کر ہزاروں میل کا سفر کرکے اپنے متعینہ ہدف کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ امریکا نے جنوبی کوریا کو اپنا فوجی اڈہ بنالیا ہے، جہاں فوج کے ساتھ ساتھ بھاری تعداد میں ایٹمی ہتھیار بھی رکھے گئے ہیں۔

شمالی کوریا اس امریکی فوج اور ایٹمی ہتھیاروں کے جواب میں ایسے دور مار میزائل تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو امریکا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ امریکی صدر کہتا ہے کہ ہم شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹادیںگے۔ کیا امریکا کا صدر یہ جانتا ہے کہ شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا مطلب ڈھائی کروڑ کورین بے گناہ عوام کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے؟

شمالی کوریا کا صدر کہتا ہے کہ ہم امریکا کے کسی بھی شہر کو ایٹمی ہتھیار سے تباہ کرسکتے ہیں۔ کیا شمالی کوریا کے صدر کو یہ علم نہیں کہ امریکا کے شہروں میں انسان رہتے ہیں۔ اگر شمالی کوریا کسی امریکی شہر کو اپنے ایٹمی ہتھیار سے تباہ کرتا ہے تو اس کا مطلب کروڑوں معصوم امریکی شہریوں کی موت ہوگا۔ کیا ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کروڑوں انسانوں کی جانیں لیں؟

ایران اور اسرائیل، چین اور جاپان، بھارت اور پاکستان بھی ایٹمی جنگوں کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ میرے ذہن میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرۂ ارض پر انسانی تاریخ کے اس ترقی یافتہ دور کا انسان اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہے؟ انسان انسان سے، ملک ملک سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں کہ ایٹمی جنگوں پر اتر آتے ہیں؟ کیا کرۂ ارض کی چار ارب سالہ تاریخ میں ایسے وحشی انسان گزرے ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں سے کروڑوں انسانوں کو قتل کرتے رہے ہوں؟ کیا اس طویل ترین تاریخ میں ایسے معاشرے رہے ہیں جن میں رہنے والے انسان ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرتے ہوں؟

اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے انسانوں، ملکوں کی تقسیم، رنگ نسل، زبان، قومیت، دین دھرم اور جغرافیائی لکیروں کے نام پر انسانوں کی تقسیم۔ کیا ان حوالوں سے تقسیم ہونے والوں کو یہ علم نہیں کہ ان کا جد امجد ایک ہی ہے اور وہ سب آدم کی اولاد ہیں، ان کی تقسیم غیر منطقی اور غیر انسانی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔