موجودہ سیاسی صورتحال اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ

سیاسی و قانونی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال

سیاسی و قانونی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ظفر اسلم راجہ/ایکسپریس

ISLAMABAD:
وزیراعظم کی نااہلی، شریف برادران اور حکومتی وزراء پر نیب کیسزکے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے گزشتہ دنوں قبل ازوقت انتخابات کرانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے جس پر ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ حالات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ''قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ اور موجودہ سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیاگیا جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور قانونی ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سینیٹر جاوید عباسی (رہنما پاکستان مسلم لیگ، ن)

ہم عمران خان کی بات کو سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ ایک طرف کوئی اور جبکہ دوسری طرف کچھ اور بات کرتے ہیں ۔ انہوں نے قبل از وقت انتخابات کی بات کی مگر اب وہ اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کررہے ہیں ۔عمران خان نے چکوال جلسے میں کہاتھا کہ این اے 120کا ضمنی الیکشن ٹیسٹ کیس ہے جس سے پتہ چل جائے گا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں لیکن جب نتیجہ آیا تو عمران خان بوکھلاہٹ کا شکارہوگئے اور اسی لیے اب انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا شوشہ چھوڑادیا ہے ۔انتخابی اصلاحات بل کے حوالے سے ہم نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے پوچھا تو انہوں نے بتایاکہ اگر آج ہی اگلے الیکشن کا اعلان کردیا جائے تو دو ماہ سے پہلے الیکشن نہیں کراسکتے۔دوسرا یہ کہ مردم شماری کے بعد حلقہ بندی قانونی شق ہے جس میں وقت لگے گا۔تحریک انصاف کو معلوم ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں یہ مسلم لیگ (ن) سے جیت نہیں سکتے جس کی وجہ سے اب یہ غیر آئینی طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں کرپشن کی داستانیں سامنے آئیں مگر ادھرکسی کی توجہ نہیں ہے۔ سینیٹ میں انتخابی اصلاحات بل پیش کرنے سے ایک دن پہلے ایجنڈاجاری کردیا گیا تھا اس سے قبل یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہوا وہاں کی کمیٹی میں بھی پیش کیا گیا، اسی طرح سینٹ کی کمیٹی میں اس بل پر بحث ہوئی ہے مگر کسی بھی جگہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت نہیں کی۔پی ٹی آئی نے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے موقع پر، درپردہ حکومت کی مدد کی کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ ان کے لیڈرنے بھی کیسز میں پھنسناہے ۔اگر اپوزیشن ہمارے خلاف کھڑی ہوتی تو یہ بل کبھی پاس نہیں ہوسکتاتھا۔آئندہ عام انتخابات نئے قانون کے مطابق ہی ہونگے ۔

سینیٹر اعظم خان سواتی ( رہنما پاکستان تحریک انصاف )

قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ مطالبہ دنیا کے بیشتر ممالک میں کیا جاچکا ہے۔ جس وقت ملک میں گورننس کا نظام خرابی کی طرف جارہاہو ، حکومتی اداروں کی کارکردگی پر لوگ سوال اٹھارہے ہوں اور اداروں کی اہمیت دن بدن کم ہوتی جارہی ہو تو قبل از وقت انتخابات کامطالبہ کیا جاسکتاہے جو آئینی و قانونی مطالبہ ہے۔ افسوس ہے کہ موجودہ وزیراعظم، نااہل وزیراعظم کے مشورے پر چل رہے ہیں ۔ انتظامی طورپر بھی مسائل ہیں ،وزیر خزانہ کواحتساب عدالت کاسامناہے ایسے میں یہ لوگ خطے کے اندرونی و بیرونی حالات سے کیسے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ سرکلر ڈیٹ80 ارب روپے سے بڑھ چکاہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں معاشی، سیاسی اور انتظامی خلا پیدا ہوچکاہے ان حالات میں عمران خان کا مطالبہ حق بجانب ہے کہ حکومت کو قبل ازوقت انتخابات کرانے چاہئیں اور نئے مینڈیٹ کے ساتھ دوبارہ آنا چاہیے۔ یہ مطالبہ کسی طوربھی غیر قانونی یا غیر آئینی نہیں ہے۔ یہ ہر سیاسی جماعت یا فرد کا حق ہے کہ وہ قبل ازوقت الیکشن کا مطالبہ کرے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ قبل ازوقت انتخابات کروا کر نیا مینڈیٹ حاصل کرے کیونکہ ایسا پوری دنیا میں ہوتاہے۔ آئندہ کچھ عرصہ میں سرکلر ڈیٹ 84 ارب روپے سے بڑھ کر100 ارب روپے تک چلا جائے گا۔ کاٹن کی کاشت کا رقبہ بیس فیصد کم ہواہے جبکہ گنا میں اضافہ کیا گیاہے ۔تیل کی قیمتیں اوپر جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر نیچے جارہے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی کہہ دیاہے کہ پاکستانی معاشی حالت کی وجہ سے آگے چلنا مشکل ہوجائے گا ایسے میں قبل از وقت انتخابات کی ضرورت ہے تاکہ نئے مینڈیٹ کے ساتھ منتخب ہونے والی حکومت موثر کام کر سکے۔ ترمیم کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے رات گیارہ بجے تک ایجنڈہ ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا اور ہمیں آدھی رات کو اس بارے میں بتایاگیا جس وقت کچھ نہیں ہوسکتا تھا ۔ حکومت نے فاٹا اراکین کے ساتھ مک مکا کیا جبکہ ایم کیو ایم کو غلط فہمی میں مبتلا رکھا اور ان کے ایک ممبر کے ساتھ معاملات طے کرلیے۔ افسوس ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ایک مجرم کو پارٹی سربراہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہ بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں تاہم تحریک انصاف ان کا طلسم توڑ دے گی۔قبل از وقت انتخابات کا ہمارا مطالبہ آئینی اور قانونی ہے اور ہم اس پر قائم ہیں۔

سینیٹرطلحہ محمود (رہنما جمعیت علمائے اسلام )


موجودہ حالات میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ غیرمنطقی ہے۔حکومت کی پانچ سالہ مدت تقریباً پوری ہونے والی ہے لہٰذا اگر انتخابات کا اعلان کربھی دیا جائے تو فروری سے پہلے الیکشن ممکن نہیں ۔ تحریک انصاف کا مطالبہ غیر قانونی اور غیرآئینی ہے ۔ صرف دو، تین ماہ کے لیے قبل ازوقت انتخابات کروانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن کو سبوتاژ کیا جاسکے حالانکہ اس سے فرق کم ہی پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ تین ماہ میں کونسی گڈ گورننس آجائے گی؟ تحریک انصاف کایہ مطالبہ پری پلان منصوبہ ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ موجودہ حکومت کمزور ہوچکی ہے یہ درست نہیں۔ موجودہ وزیراعظم کی کارکردگی بہت بہتر ہے اور انہوں نے اپنا انتخاب درست ثابت کیاہے ۔انتخابات کے لیے ایک آئینی طریقہ کار موجودہے لہٰذاجب تمام قانونی تقاضے پورے ہوں اور اسمبلی اپنی مدت مکمل کرے تو اس وقت انتخابات کروا لیے جائیں تاکہ کسی کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہ مل سکے ۔

سید نیئر حسین بخاری (سابق چیئرمین سینیٹ و سیکرٹری جنرل پاکستان پیپلز پارٹی)

کوئی بھی شہری قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کر سکتاہے لیکن میرے نزدیک موجودہ حالات میں یہ مطالبہ درست نہیں ہے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت وقت یہ مطالبہ مانتی ہے یا نہیں کیونکہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے اس کا متفق ہونا ضروری ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اب صدر کے پاس بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر سکے۔ اس وقت سیاسی جماعتیں مضبوط ہیں اور اب 1993ء جیسے حالات نہیں ہیں کہ کاکڑ فارمولا استعمال کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اس وقت مایوسی پائی جاتی ہے لیکن ہم انہیں سیاسی شہید نہیں بننے دیں گے۔ پانچ سال بعد جب یہ لوگ عوام کے پاس جائیں گے تو عوام خود فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے عوام کے لیے اچھا کیا یا برا کیاہے ۔ اس وقت بمشکل سات سے آٹھ ماہ رہ گئے ہیں انہیں وقت دیا جائے کہ عوامی بہتری کے لیے جتناہوسکتاہے زور لگالیں اور بعد میں شکوہ کرنے کی پوزیشن میںنہ رہیں ۔ اس وقت مہنگائی کی حالت یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک میں ٹماٹر و پیاز کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ 2008ء میں جب ہماری حکومت آئی تو اس وقت گندم کی قیمت 600روپے فی من تھی۔ ہم نے اس قیمت میں اضافہ کرکے 950روپے فی من مقرر کی جس کے بعد آج تک ملک میں گندم کی قلت پیدا نہیں ہوئی ۔ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو سہولیات دینے سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔موجودہ حکومت کی کارکردگی تو کہیں نظرنہیں آتی لیکن ''کک بیکس'' پر ان کی نظرضرور ہے ۔دنیا میں ٹرین حادثہ ہوجائے تو وزراء یا اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات مستعفی ہو جاتی ہیں مگر ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ عام سرکاری ملازم پر کرپشن کا چارج لگ جائے تو اسے ملازمت سے فارغ کردیا جاتاہے لیکن یہ ڈھٹائی سے کرپشن کرتے ہیں اور پھر جھنڈے والی گاڑیوں میں بھی پھرتے ہیں جو پاکستانی پرچم کی توہین ہے ۔ ان کی ڈھٹائی پر میں خواجہ آصف کے کلمات ہی دوہراؤں گا کہ ''کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے''۔ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف قبل از وقت انتخابات کے نام پر مسلم لیگ (ن) کو بچانا چاہتی ہے مگر ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ میرے نزدیک حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں، پھر عوام جو فیصلہ کریں ، وہ سب کو منظور ہوگا۔وزیر اعظم وہی بنے گاجس کے پاس ایوان میں سادہ اکثریت ہوگی۔ اگر حکومت کو سیاسی شہید کیا گیا تو اسے الیکشن میں فائدہ ہوسکتا ہے۔

میاں محمد اسلم ( مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی )

جمہوریت آئینی بالادستی اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کا نام ہے۔ جمہوریت کہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق انٹراپارٹی الیکشن کرائیں ،جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدارمیں آئے وہ عوامی بہتری کے لیے کام کرے ،ملک کو ترقی دے ، کرپشن سے پاک معاشرے کاقیام عمل میں لائے اور ملک و قوم کو باعزت اور باوقار بنائے ۔ جس بھی پارٹی کی حکومت بنے اسے چاہیے کہ وہ ان پر عمل کرے۔ اگر کوئی حکومت ایسا نہیں کرتی تو پانچ سال بعد عوام اسے خود ہی رد کر دیں گے۔ قبل از وقت حکومت گرانے کا مقصد انہیں سیاسی شہید کرناہے جو ہم نہیں چاہتے۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ یہ بات کی حکومت کو مدت پوری کرنی چاہیے، دھرنے کے دوران بھی ہم نے 63 بار مختلف لوگوںسے ملاقاتوں میں یہی کہا کیونکہ باربار سیاسی شہید کرنے سے یہ دوبارہ آجاتے ہیں۔ اس وقت ملکی درآمدات زیادہ جبکہ برآمدات کم ہوچکی ہیں۔ حالات انتہائی خراب ہیں تاہم جماعت اسلامی ہمیشہ سے آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کی بات کرتی ہے۔ ہمارا مقصد صرف ملکی مفاد اور بہتری ہے اس وقت سوادوکروڑ بچے سکول سے باہرہیں،تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ، صحت کی یہ حالت ہے کہ پورے اسلام آباد کا اپنا ایک بھی اسپتال نہیں ہے ۔حکومت کی بیڈگورننس کی حالت یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندوں حتیٰ کہ میئر اسلام آباد کے پاس کوئی اختیار نہیںہے۔ کے پی کے میں جماعت اسلامی کے پاس تین وزارتیں ہیں اور وہاں سب ہماری بہتر کارکردگی کے معترف ہیں۔ سینیٹ سے پاس ہونے والا بل چوروں کو تحفظ دینے کے لیے ہے ۔ یہ سینیٹ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور یہ آئین کے خلاف ہے ۔ اگر 342ایم این ایز ، 104سینیٹرز اور 570ایم پی ایز بھی اس بل کے حق میں بات کریں تو بھی ایک نااہل شخص پارٹی صدر نہیں بن سکتا کیونکہ پارٹی صدر ٹکٹ تقسیم کرتاہے اور ٹکٹ دینے والا ایسا شخص کیسے ہوسکتاہے جو خود الیکشن لڑنے کا اہل نہ ہو؟۔

قیصرامام (ممتاز ماہر قانون)

قانون ساز حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون بناتے ہیں تاکہ ہر صورتحال میں آئین وقانون ہمیں راستہ فراہم کرے۔ آئین بنانے والوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شاید کبھی اسمبلی کو قبل ازوقت ختم کرنا پڑے اس ضمن میں دو آرٹیکل 48اور58 رکھے گئے ہیں۔ آرٹیکل 48کی ذیلی شق پانچ کے تحت صدر وزیر اعظم کی ایڈوائز پر اسمبلی کو تحلیل کرسکتاہے اور موجودہ قانون کے تحت وزیر اعظم کی ایڈوائز نہ آنے کی صورت میں صدر کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ آئین میں اسمبلی تحلیل کرنے کا دوسراطریقہ عدم اعتماد کی تحریک ہے۔ اس ضمن میں تیسرا راستہ بھی قانون سے ملتاہے وہ اس صورت میں ممکن ہوسکتاہے جب اسمبلی ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والی جماعت پچاس فیصد سے زائد اراکین کو ساتھ لے کر مستعفی ہو جائے۔ میرے نزدیک قبل از وقت انتخابات کا موجودہ مطالبہ غیر قانونی نہیں ہے بلکہ آئین کے مطابق ہے۔
Load Next Story