پاک فوج کے پالیسی بیان پر سیاسی جماعتوں کا اطمینان

جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کئی اہم مواقع پر واضح کیا کہ پاک فوج پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رہے گی۔

پاک فوج نے واضح کیا ہے کہ انتخابات کے التواء سے فوج کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فوٹو : فائل

ملک کے قومی سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی دھند آئندہ عام انتخابات کے التوا کے تناظرمیں پاک فوج کے ترجمان کے پالیسی بیان کے بعد ختم ہوجانی چاہیے۔

پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک ایسے موقع پر پاک فوج کی ترجیحات اور اصولی مئوقف قوم کے سامنے رکھا ہے جب مختلف قسم کی قیاس آرائیاں جاری تھیں عام انتخابات کے التوا کے حوالے سے باتیں جاری تھیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاک فوج نے اپنی پوزیشن عام انتخابات کے انعقاد کے تناظر میں واضح کرکے ایک درست اور بروقت فیصلہ کیا ہے۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی ملک میں عام انتخابات کیلئے پاک فوج کے پالیسی بیان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، بلاشبہ یہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ باور کیاجارہا ہے کہ اب جبکہ 16مارچ کو قومی اسمبلی اپنی 5سالہ آئینی مدت کی تکمیل پر ازخودتحلیل ہوجائے گی اور اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران حکومت آئین کے تحت وجود میں آجائے گی۔

اقتدار کی پرامن منتقلی کے مراحل خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں گے۔اس ساری صورتحال میں بے یقینی کی فضا کا خاتمہ ہونا ضروری ہے ۔ غالباً ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام سیاسی قوتیں اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز جمہوریت اور جمہوری نظام کے تسلسل پر نہ صرف متفق ہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز یہ باور کراچکے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات بغیر کسی شک وشبہ کے آئین کے تحت بروقت ہونے چاہئیں اور یہ انتخابات شفاف اور غیرجانبدار ہونے چاہئیں۔

بعض حلقے دبے لفظوں میں یہ تاثر دے رہے تھے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ انتخابات کا انعقاد وقت پر نہیں چاہتی اور انتخابات کے التوا کی سازشیں کی جارہی ہیں مگر پاک فوج نے کسی ابہام کے بغیر یہ واضح کردیا ہے کہ انتخابات کے التواء سے فوج کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پاک فوج انتخابات کا انعقاد بروقت چاہتی ہے، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے میں پاک فوج نے دانستہ اپنے آپ کو گزشتہ 5سالوں کے دوران اقتدار سے دور رکھا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کئی اہم مواقع پر جمہوریت کے حق میں بیانات دیئے ہیں اور کئی بار یہ واضح کیا کہ پاک فوج پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رہے گی۔


پیپلزپارتی کی قیادت کا محور ومرکز اس وقت صوبہ پنجاب ہے اور پیپلزپارٹی آئندہ عام انتخابات میں صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو ٹف ٹائم دینے کے لئے تمام تروسائل کو بروئے کار لارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے سندھ میں پیپلزپارٹی کو مشکلات سے دوچار کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سیاسی رابطے شروع کردیئے ہیں اور سندھ میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) نے ایک بڑا سیاسی اتحاد قائم کرلیا ہے۔ غیرجانبدار سیاسی مبصرین کے خیال میں آئندہ عام انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے گی اورآئندہ انتخابات کے بعد جو بھی پارٹی برسراقتدار آئے گی وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کرے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کئی بار کوششوں کے باوجود گرینڈ الائنس کا وجود عمل میں نہ آسکا۔

پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں سے آہستہ آہستہ دور جارہی ہے۔ ایم کیوایم نے تو حکمران جماعت پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور اے این پی کی قیادت بھی یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں کرے گی۔ دونوں اتحادی جماعتوں کے راستے جدا کرنے کے بعد اب ایک مسلم لیگ(ق) واحد ایسی جماعت رہ گئی ہے جس کی قیادت پیپلزپارٹی کے ساتھ آئندہ انتخابات کے دوران سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تمام معاملات طے کرچکی ہے۔ مسلم لیگ(ق) کے بیشتر قائدین پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے حق میں نہیں اور مسلم لیگ(ق) کے اجلاسوں میں انتخابی اتحاد کے معاملے پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ اتحاد کو ختم کرنے کیلئے تمام تر امکانات کو مسترد کر چکے ہیں۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر پانی وبجلی چوہدری احمد مختار چوہدری برادران کے روایتی حریف ہیں اور وہ کئی بار یہ بیان دے چکے ہیں کہ وہ چوہدری برادران کے خلاف ہر صورت گجرات سے الیکشن لڑیں گے۔ جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اے این پی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انتخابی مہم کے آغاز سے قبل طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کی غرض سے کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کو شرکت پر آمادہ کرنے کے لئے ملاقات کررہے ہیں۔ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے راہ ہموار کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ یہ کل جماعتی کانفرنس ایک نمائشی کانفرنس ثابت ہوگی اس سے پہلے اسلام آباد میں اے این پی کی کل جماعتی کانفرنس بھی ہوچکی ہے جس کے مشترکہ اعلامیہ پر تاحال کوئی عملدآمد نہیں ہوسکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانافضل الرحمن کی اے پی سی کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے تیاریاں تقریباًمکمل کرچکا ہے۔آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کے تحت آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے بارے میں کمیشن اہم فیصلے کررہا ہے ۔ نادہندگان اور بدعنوان اور جعلی ڈگری والے ارکان اسمبلی کے گردگھیراتنگ ہورہا ہے۔ ٹیکس نادہندگان اور قرضے معاف کرانے والے سیاستدانوں کو آئندہ انتخابات میں ممکنہ طور پر نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایف بی آر،نادرا اور دیگر اداروں کے سربراہان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی ہے۔ لگ رہا ہے کہ انتخابی امیدواروںکو چھلنی سے گزرنا ہو گا۔5سالہ آئینی مدت مکمل کرنے والی پہلی قومی اسمبلی کے ارکان کو الوداع کہنے کے لئے تیاریاں جاری ہیں۔ ان دنوں قومی اسمبلی کا آخری اجلاس جاری ہے۔ اب جبکہ نگران سیٹ اپ کی آمد آمد ہے نگران وزیراعظم کون ہوگا؟ اور اسی پر اتفاق رائے ہوگا یا نہیں یہ وہ اہم سوالات ہیں جو ہر جگہ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔
Load Next Story