جے یو آئی کی طالبان سے مذاکرات کی کاوشیں
جے یو آئی نے قبائلی جرگہ کے ذریعے ایسا فورم تشکیل دے رکھا ہے جو خود قبائلی عوام ہی کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔
KARACHI:
انہی سطور میں کہا گیا تھا کہ اے این پی کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے جن کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ سارا عمل جے یو آئی نے ہائی جیک کرلیا ہے کیونکہ اے این پی جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے اس نے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے کوششیں تو شروع کردی ہیں تاہم اس کے پاس ایسا کوئی میکنزم نہیں جس کے ذریعے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرسکے،اے این پی اپنے طور پر عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں اورنہ ہی یہ 2008 یا 2009 ء ہے کہ جب اے این پی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سوات کے طالبان کے ساتھ اپنے طور پر سارے مذاکرات کیے تھے اور پھر ایک معاہدہ کی صورت میں ان مذاکرات کا نتیجہ دیکھنے کو آیا تھا ،2008 ء اور 2013 ء کے درمیان حائل پانچ سالوں کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے جس کی وجہ سے اب اے این پی اپنے طور پر وزیرستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی، تاہم جے یو آئی اور مولانا فضل الرحمٰن نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ سال ہی سے اس کے لیے انتظامات کرنے شروع کردیئے تھے اور انہوں نے اپنے طور پر جو قبائلی جرگہ تشکیل دیا تھا اس کے ذریعے جے یو آئی اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ یہ مذاکراتی عمل شروع کرسکے ۔
اے این پی کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس ہی میں سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جے یو آئی کے تشکیل کردہ اس قبائلی جرگہ کے ذریعے شروع کیا جائے کیونکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس بات کو جانتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو شروع کرنا ایسا قدم اٹھانے کے مترادف ہے جسے اٹھانے سے قبل ہزاروں مرتبہ سوچنا پڑتا ہے جبکہ جے یو آئی نے قبائلی جرگہ کے ذریعے ایسا فورم تشکیل دے رکھا ہے جو کہیں اور سے نہیں خود قبائلی عوام ہی کے نمائندوں پر مشتمل ہے جن کے لیے دیگر کی نسبت یہ کام آسان ہوگا کہ وہ اپنے حالات ،روایات اور اپنی ہی زبان میں طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کریں اور جے یوآئی کی جانب سے 28 فروری کو بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں اس حوالے سے صورت حال مزید واضح ہوجائے گی۔
کیونکہ مذکورہ قبائلی جرگہ ،تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ملاقات بھی کرے گا اور اس جرگے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے جو تحفظات ہوئے یا جن امور پر وہ وضاحت چاہیں گے اس پر بھی بات ہوجائے گی جبکہ سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت جرگہ کو وہ اختیار بھی دیدے گی جس کے بل بوتے پر وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل آگے بڑھاسکے گا تاہم اس میں اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت اور فوج بھی مذکورہ جرگہ پر اعتماد کرنے اور اس کے ذریعے بات چیت کو آگے بڑھانے پر رضامند ہے یا نہیں اور کیا وہ بھی مذکورہ جرگہ کو وہ اختیار دینے کے لیے تیار ہیں جس کے تحت وہ معاملات آگے بڑھائیں کیونکہ جب تک مرکزی حکومت اور فوج اس بات کے لیے تیار نہ ہو تب تک صورت حال میں تبدیلی آنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جے یو آئی اور اے این پی کے درمیان جو رابطے ہوئے اور دوریاں ختم ہونے کے جس عمل کا آغاز ہوا اس کی وجہ سے اچانک یہ امکان ظاہر کیا جانے لگا کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے اے این پی اور جے یو آئی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکراتی عمل شروع ہوگیا ہے اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ قدم ملاکر الیکشن کے لیے میدان میں اتریں گی،ایسا ہوسکتا ہے کہ صوبہ کے کچھ اضلاع میں اے این پی اور جے یو آئی کے درمیان سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوجائے کیونکہ اس وقت تک جو صورت حال نظر آرہی ہے اس میں ہر پارٹی دوسری پارٹی کو ساتھ ملانے پر مجبور ہے۔ کوئی ایک پارٹی بھی اکیلی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر میدان مارسکے اس لیے اگر اے این پی اور جے یو آئی کے درمیان کچھ اضلاع کی حد تک سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوتی ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں، تاہم جہاں تک پورے صوبہ کی سطح پر دونوں پارٹیوں میں اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا معاملہ ہے تو ایسی صورت حال نظر نہیں آرہی ۔
پارٹیوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کو فیورٹ سمجھا جارہا ہے اس لیے دیگر پارٹیوں کی کوشش ہے کہ وہ ان ہی دونوں پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کریں تاکہ ان کو حاصل بہتر صورت حال کا وہ بھی فائدہ اٹھاسکیں، تاہم یہ کوشش بھی ہورہی ہے کہ جے یو آئی (ف)اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوجائے جس کے حوالے سے بات چیت کا عمل جاری ہے اور اگر یہ عمل کامیاب ہوتا ہے تو اس صورت میں دیگر پارٹیوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا کیونکہ ایسی صورت میں جماعت اسلامی تو ممکنہ طور پر تحریک انصاف ہی کے سنگ اڑنے کو ترجیح دے گی اور اس صورت میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے پاس آپشنز بہت کم رہ جائیں گے جن میں سے ایک آپشن یہی ہوگا کہ یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر ہی اکتفا کریں ۔
عام انتخابات کے حوالے سے جن پارٹیوں کو صوبہ میں بہتر پوزیشن میں دیکھاجارہا ہے ان میں مسلم لیگ(ن)بھی شامل ہے تاہم مسلم لیگ(ن)کے اندر کی صورت حال بہتر نہیں ہے کیونکہ صابر شاہ اور امیر مقام گروپ بڑے واضح انداز میں ایک دوسرے کے خلاف پارٹی کے اندر سرگرم ہیں اور دونوں گروپوں کی کوشش ہے کہ وہ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرلیں جس میں مزید تیزی آئندہ عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر آئے گی ۔ اگر ان دونوں کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو جو دھول اڑتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ آندھی کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے جس کا نقصان کسی اور کو نہیں خود مسلم لیگ(ن) ہی کو ہوگا۔
انہی سطور میں کہا گیا تھا کہ اے این پی کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے جن کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ سارا عمل جے یو آئی نے ہائی جیک کرلیا ہے کیونکہ اے این پی جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے اس نے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے کوششیں تو شروع کردی ہیں تاہم اس کے پاس ایسا کوئی میکنزم نہیں جس کے ذریعے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرسکے،اے این پی اپنے طور پر عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں اورنہ ہی یہ 2008 یا 2009 ء ہے کہ جب اے این پی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سوات کے طالبان کے ساتھ اپنے طور پر سارے مذاکرات کیے تھے اور پھر ایک معاہدہ کی صورت میں ان مذاکرات کا نتیجہ دیکھنے کو آیا تھا ،2008 ء اور 2013 ء کے درمیان حائل پانچ سالوں کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے جس کی وجہ سے اب اے این پی اپنے طور پر وزیرستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی، تاہم جے یو آئی اور مولانا فضل الرحمٰن نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ سال ہی سے اس کے لیے انتظامات کرنے شروع کردیئے تھے اور انہوں نے اپنے طور پر جو قبائلی جرگہ تشکیل دیا تھا اس کے ذریعے جے یو آئی اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ یہ مذاکراتی عمل شروع کرسکے ۔
اے این پی کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس ہی میں سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جے یو آئی کے تشکیل کردہ اس قبائلی جرگہ کے ذریعے شروع کیا جائے کیونکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس بات کو جانتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو شروع کرنا ایسا قدم اٹھانے کے مترادف ہے جسے اٹھانے سے قبل ہزاروں مرتبہ سوچنا پڑتا ہے جبکہ جے یو آئی نے قبائلی جرگہ کے ذریعے ایسا فورم تشکیل دے رکھا ہے جو کہیں اور سے نہیں خود قبائلی عوام ہی کے نمائندوں پر مشتمل ہے جن کے لیے دیگر کی نسبت یہ کام آسان ہوگا کہ وہ اپنے حالات ،روایات اور اپنی ہی زبان میں طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کریں اور جے یوآئی کی جانب سے 28 فروری کو بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں اس حوالے سے صورت حال مزید واضح ہوجائے گی۔
کیونکہ مذکورہ قبائلی جرگہ ،تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ملاقات بھی کرے گا اور اس جرگے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے جو تحفظات ہوئے یا جن امور پر وہ وضاحت چاہیں گے اس پر بھی بات ہوجائے گی جبکہ سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت جرگہ کو وہ اختیار بھی دیدے گی جس کے بل بوتے پر وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل آگے بڑھاسکے گا تاہم اس میں اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت اور فوج بھی مذکورہ جرگہ پر اعتماد کرنے اور اس کے ذریعے بات چیت کو آگے بڑھانے پر رضامند ہے یا نہیں اور کیا وہ بھی مذکورہ جرگہ کو وہ اختیار دینے کے لیے تیار ہیں جس کے تحت وہ معاملات آگے بڑھائیں کیونکہ جب تک مرکزی حکومت اور فوج اس بات کے لیے تیار نہ ہو تب تک صورت حال میں تبدیلی آنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جے یو آئی اور اے این پی کے درمیان جو رابطے ہوئے اور دوریاں ختم ہونے کے جس عمل کا آغاز ہوا اس کی وجہ سے اچانک یہ امکان ظاہر کیا جانے لگا کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے اے این پی اور جے یو آئی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکراتی عمل شروع ہوگیا ہے اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ قدم ملاکر الیکشن کے لیے میدان میں اتریں گی،ایسا ہوسکتا ہے کہ صوبہ کے کچھ اضلاع میں اے این پی اور جے یو آئی کے درمیان سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوجائے کیونکہ اس وقت تک جو صورت حال نظر آرہی ہے اس میں ہر پارٹی دوسری پارٹی کو ساتھ ملانے پر مجبور ہے۔ کوئی ایک پارٹی بھی اکیلی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر میدان مارسکے اس لیے اگر اے این پی اور جے یو آئی کے درمیان کچھ اضلاع کی حد تک سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوتی ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں، تاہم جہاں تک پورے صوبہ کی سطح پر دونوں پارٹیوں میں اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا معاملہ ہے تو ایسی صورت حال نظر نہیں آرہی ۔
پارٹیوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کو فیورٹ سمجھا جارہا ہے اس لیے دیگر پارٹیوں کی کوشش ہے کہ وہ ان ہی دونوں پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کریں تاکہ ان کو حاصل بہتر صورت حال کا وہ بھی فائدہ اٹھاسکیں، تاہم یہ کوشش بھی ہورہی ہے کہ جے یو آئی (ف)اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوجائے جس کے حوالے سے بات چیت کا عمل جاری ہے اور اگر یہ عمل کامیاب ہوتا ہے تو اس صورت میں دیگر پارٹیوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا کیونکہ ایسی صورت میں جماعت اسلامی تو ممکنہ طور پر تحریک انصاف ہی کے سنگ اڑنے کو ترجیح دے گی اور اس صورت میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے پاس آپشنز بہت کم رہ جائیں گے جن میں سے ایک آپشن یہی ہوگا کہ یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر ہی اکتفا کریں ۔
عام انتخابات کے حوالے سے جن پارٹیوں کو صوبہ میں بہتر پوزیشن میں دیکھاجارہا ہے ان میں مسلم لیگ(ن)بھی شامل ہے تاہم مسلم لیگ(ن)کے اندر کی صورت حال بہتر نہیں ہے کیونکہ صابر شاہ اور امیر مقام گروپ بڑے واضح انداز میں ایک دوسرے کے خلاف پارٹی کے اندر سرگرم ہیں اور دونوں گروپوں کی کوشش ہے کہ وہ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرلیں جس میں مزید تیزی آئندہ عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر آئے گی ۔ اگر ان دونوں کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو جو دھول اڑتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ آندھی کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے جس کا نقصان کسی اور کو نہیں خود مسلم لیگ(ن) ہی کو ہوگا۔