بلوچستان حکومت کی بحالی
معزول صوبائی حکومت کی اتحادی جماعتوں بی این پی(عوامی) اورجمعیت علماء السلام(ف) نے بھی اپنے امیدواروں کے نام دیئے ہیں۔
بلوچستان کی سیاست میں آئندہ چند گھنٹے انتہائی اہم ہیں۔
بلوچستان سے گورنر راج کے خاتمے کا عندیہ پہلے ہی وفاقی حکومت دے چکی ہے۔ جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری بھی بلوچستان کے دورے پر کوئٹہ آرہے ہیں جہاں وہ مشاورت کے بعد صوبائی حکومت کی بحالی کا اعلان کریں گے۔ بلوچستان حکومت کی بحالی کے حوالے سے مختلف باتیں ہورہی ہیں۔ معزول حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اس حوالے سے کافی سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ (ق) لیگ جوکہ مرکز میں پی پی پی کی اتحادی جماعت ہے اور بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بھی ہے۔
اس کا موقف ہے کہ اگر صوبائی حکومت کو بحال کیا جاتا ہے اور بلوچستان اسمبلی میں نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جاتاہے تو(ق) لیگ کا حق بنتاہے کہ اسی کے نامزد امیدوار کو قائد ایوان منتخب کیاجائے۔کیونکہ2008ء میں (ق) لیگ نے پی پی پی کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور پی پی پی کے نواب اسلم رئیسانی کی سپورٹ کرکے انہیں قائد ایوان منتخب کیاتھا۔ (ق) لیگ نے اس حوالے سے اپنے دو امیدواروں کے نام بھی دے دیئے ہیں جن میں پارلیمانی لیڈر میر عاصم کرد گیلو اورمیر شعیب نوشیروانی شامل ہیں۔
ہ معزول صوبائی حکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں بی این پی(عوامی) اورجمعیت علماء السلام(ف) نے بھی اپنے امیدواروں کے نام دیئے ہیں۔ جن میں بی این پی (عوامی) کے سیدا حسان شاہ اورجمعیت علمااسلام(ف) کے مولانا واسع شامل ہیں جبکہ پی پی پی کی کوشش ہے کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دوبارہ قائد ایوان کی کرسی پر براجمان ہوجائے۔ اس سلسلے میں ان کے مضبوط امیدوار عبدالرحمن جمالی ہیں جبکہ صوبائی صدر ورکن صوبائی اسمبلی صادق عمرانی کانام بھی چل رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ''ہما'' اب کس کے سربیٹھتا ہے اس بات کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا۔
دوسری جانب قائد ایوان کے ساتھ ساتھ نئے قائد حزب اختلاف کا معاملہ بھی اسی زور وشور سے جاری ہے۔(ق) لیگ کو اگر وزارت اعلیٰ نہیں ملتی تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ قائد حزب اختلاف اپنا لے آئے جبکہ جمعیت علماء اسلام(ف) کی یہ پوری کوشش ہے کہ قائد حزب اختلاف کی کرسی اسے مل جائے۔ اس لئے قائد حزب اختلاف کے انتخاب میں بھی کافی لے دے ہوگی۔ اتحادی جماعتیں اس حوالے سے اپنا اپنا زور لگارہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں آئندہ چند روز اس لئے بھی بہت اہم قراردیئے جارہے ہیں کیونکہ وقت آگیا ہے کہ کئی موسمی سیاسی پرندے ادھر ادھر بیٹھنے والے ہیں کئی اہم سیاسی شخصیات سے مختلف سیاسی جماعتوں نے رابطے کئے ہیں اور کئی نے ان سیاسی جماعتوں سے خود رابطے کئے ہیں یعنی ان چند دنوں میں سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی بعض اہم شخصیات گروپوں کی صورت میں ان سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کریں گی۔ اس وقت ان سیاسی جماعتوں میں جو فیورٹ سیاسی جماعتیں ان سیاسی شخصیات کی نظر میں ہیں۔ ان میں (ن) لیگ اورجمعیت علماء السلام (ف) سرفہرست ہیں۔ بلوچستان کی حد تک سیاسی لحاظ سے جو جماعت زیادہ مضبوط ہورہی ہے اس میں جمعیت علماء اسلام(ف) کا نام لیاجارہاہے جبکہ پی پی پی اور(ق) لیگ کے اکثر ارکان اسمبلی ان دوجماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے اپنے قریبی ساتھیوں اور دوستوں سے مشاورت کررہے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئندہ چند دنوں میں بلوچستان سے(ق) لیگ اور پی پی پی کے اکثر ارکان ان دونوں جماعتوں(ن) لیگ اور جے یو آئی میں شمولیت اختیار کریںگے جوکہ ان دونوں جماعتوں کیلئے بڑا دھچکہ ہوگا جس کے بعد پی پی پی اور(ق) لیگ کا بلوچستان میں گراف کافی حد تک گرجائے گا۔ پی پی پی کی مرکزی قیادت ان معاملات کو بھانپ چکی ہے اس کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ارکان کو روکے۔
یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کی مرکزی قیادت نے بلوچستان میں مارچ کے پہلے ہفتے میں بلوچستان حکومت کی بحالی کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ پی پی پی اپنی حکومت کی بحالی کے وقت غیر فعال وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو دوبارہ بحال کرسکتی ہے تاکہ ان کی حکومت کی معزولی کے بعد جو اختلافات سامنے آئے ہیں انہیں دوبارہ راضی کر لیا جائے لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال میں بعض اطراف سے یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ پارٹی کی مرکزی قیادت نے نواب اسلم رئیسانی کو راضی کرنے کیلئے رابطوں کا آغاز کیا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی کی پارٹی نے پہلے ہی بنیادی رکنیت معطل کررکھی ہے اورنواب رئیسانی اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی مشاورت کررہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی نوابزادہ لشکری رئیسانی کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ جلد ہی (ن) لیگ کے سربراہ نوازشریف سے ملاقات کر کے اپنے ساتھیوں سمیت(ن) لیگ میں شامل ہوجائیں گے۔
بلوچستان سے گورنر راج کے خاتمے کا عندیہ پہلے ہی وفاقی حکومت دے چکی ہے۔ جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری بھی بلوچستان کے دورے پر کوئٹہ آرہے ہیں جہاں وہ مشاورت کے بعد صوبائی حکومت کی بحالی کا اعلان کریں گے۔ بلوچستان حکومت کی بحالی کے حوالے سے مختلف باتیں ہورہی ہیں۔ معزول حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اس حوالے سے کافی سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ (ق) لیگ جوکہ مرکز میں پی پی پی کی اتحادی جماعت ہے اور بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بھی ہے۔
اس کا موقف ہے کہ اگر صوبائی حکومت کو بحال کیا جاتا ہے اور بلوچستان اسمبلی میں نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جاتاہے تو(ق) لیگ کا حق بنتاہے کہ اسی کے نامزد امیدوار کو قائد ایوان منتخب کیاجائے۔کیونکہ2008ء میں (ق) لیگ نے پی پی پی کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور پی پی پی کے نواب اسلم رئیسانی کی سپورٹ کرکے انہیں قائد ایوان منتخب کیاتھا۔ (ق) لیگ نے اس حوالے سے اپنے دو امیدواروں کے نام بھی دے دیئے ہیں جن میں پارلیمانی لیڈر میر عاصم کرد گیلو اورمیر شعیب نوشیروانی شامل ہیں۔
ہ معزول صوبائی حکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں بی این پی(عوامی) اورجمعیت علماء السلام(ف) نے بھی اپنے امیدواروں کے نام دیئے ہیں۔ جن میں بی این پی (عوامی) کے سیدا حسان شاہ اورجمعیت علمااسلام(ف) کے مولانا واسع شامل ہیں جبکہ پی پی پی کی کوشش ہے کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دوبارہ قائد ایوان کی کرسی پر براجمان ہوجائے۔ اس سلسلے میں ان کے مضبوط امیدوار عبدالرحمن جمالی ہیں جبکہ صوبائی صدر ورکن صوبائی اسمبلی صادق عمرانی کانام بھی چل رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ''ہما'' اب کس کے سربیٹھتا ہے اس بات کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا۔
دوسری جانب قائد ایوان کے ساتھ ساتھ نئے قائد حزب اختلاف کا معاملہ بھی اسی زور وشور سے جاری ہے۔(ق) لیگ کو اگر وزارت اعلیٰ نہیں ملتی تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ قائد حزب اختلاف اپنا لے آئے جبکہ جمعیت علماء اسلام(ف) کی یہ پوری کوشش ہے کہ قائد حزب اختلاف کی کرسی اسے مل جائے۔ اس لئے قائد حزب اختلاف کے انتخاب میں بھی کافی لے دے ہوگی۔ اتحادی جماعتیں اس حوالے سے اپنا اپنا زور لگارہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں آئندہ چند روز اس لئے بھی بہت اہم قراردیئے جارہے ہیں کیونکہ وقت آگیا ہے کہ کئی موسمی سیاسی پرندے ادھر ادھر بیٹھنے والے ہیں کئی اہم سیاسی شخصیات سے مختلف سیاسی جماعتوں نے رابطے کئے ہیں اور کئی نے ان سیاسی جماعتوں سے خود رابطے کئے ہیں یعنی ان چند دنوں میں سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی بعض اہم شخصیات گروپوں کی صورت میں ان سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کریں گی۔ اس وقت ان سیاسی جماعتوں میں جو فیورٹ سیاسی جماعتیں ان سیاسی شخصیات کی نظر میں ہیں۔ ان میں (ن) لیگ اورجمعیت علماء السلام (ف) سرفہرست ہیں۔ بلوچستان کی حد تک سیاسی لحاظ سے جو جماعت زیادہ مضبوط ہورہی ہے اس میں جمعیت علماء اسلام(ف) کا نام لیاجارہاہے جبکہ پی پی پی اور(ق) لیگ کے اکثر ارکان اسمبلی ان دوجماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے اپنے قریبی ساتھیوں اور دوستوں سے مشاورت کررہے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئندہ چند دنوں میں بلوچستان سے(ق) لیگ اور پی پی پی کے اکثر ارکان ان دونوں جماعتوں(ن) لیگ اور جے یو آئی میں شمولیت اختیار کریںگے جوکہ ان دونوں جماعتوں کیلئے بڑا دھچکہ ہوگا جس کے بعد پی پی پی اور(ق) لیگ کا بلوچستان میں گراف کافی حد تک گرجائے گا۔ پی پی پی کی مرکزی قیادت ان معاملات کو بھانپ چکی ہے اس کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ارکان کو روکے۔
یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کی مرکزی قیادت نے بلوچستان میں مارچ کے پہلے ہفتے میں بلوچستان حکومت کی بحالی کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ پی پی پی اپنی حکومت کی بحالی کے وقت غیر فعال وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو دوبارہ بحال کرسکتی ہے تاکہ ان کی حکومت کی معزولی کے بعد جو اختلافات سامنے آئے ہیں انہیں دوبارہ راضی کر لیا جائے لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال میں بعض اطراف سے یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ پارٹی کی مرکزی قیادت نے نواب اسلم رئیسانی کو راضی کرنے کیلئے رابطوں کا آغاز کیا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی کی پارٹی نے پہلے ہی بنیادی رکنیت معطل کررکھی ہے اورنواب رئیسانی اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی مشاورت کررہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی نوابزادہ لشکری رئیسانی کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ جلد ہی (ن) لیگ کے سربراہ نوازشریف سے ملاقات کر کے اپنے ساتھیوں سمیت(ن) لیگ میں شامل ہوجائیں گے۔