حالات کے تقاضے اور ہماری خارجہ پالیسی
اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال میں تبدیلیوں کے تحت ہمیں اپنی اقتصادی سیکیورٹی کوخصوصی اہمیت دینا ہوگی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی، حکومت اور آرمی چیف امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان پر عائد تمام الزامات مسترد کرچکے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد اور بودے ہیں اور ان کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر کورکرنا ناممکن ہے، اگر اس سرحد پر یکطرفہ طور پر پاکستان کی جانب سے باڑھ لگانے کی کوشش کی جائے تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہوگا۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اس میلوں لمبی سرحد پر غیر قانونی آمد ورفت کو ہر ممکنہ حد تک روکا جائے اور اس کی سخت ترین نگرانی کی جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ ثابت ہو کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی شورش میں کوئی مدد کی جا رہی ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی جب نومبر 2014 میں پاکستان آئے تھے تو خیر سگالی کا بڑا خوشگوار ماحول پیدا ہوا تھا۔افسوس صد افسوس کہ بد خواہوں اور دوست نما دشمنوں کے بہکاوے میں آکر افغان اعلیٰ قیادت نے یہ موقع ضایع کردیا۔ یہی غلطی افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی کی تھی۔ افغان حکمرانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانستان کو روس کے پنجہ ستم سے نجات دلانے کے لیے اپنے وجود کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا۔ آج بھی پاکستان میں 30 لاکھ افغان باشندے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
افغان حکمرانوں کو پاکستان کی اتنی بڑی قربانی کیوں نظر نہیں آتی؟ افغانستان کے لیے پاکستان کے راستے سمندر تک رسائی حاصل کرنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے بھی وہ پاکستان کی راہداری کا محتاج ہے۔ لہٰذا پاکستان سے اچھے تعلقات کو فروغ دینا خود اس کے وجود کا لازمی تقاضا ہے۔افغان حکمرانوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ ان کے ملک کو بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کو دونوں ممالک کے تعلقات میں بنیادی اور واضح تبدیلیوں کے ذریعے ہی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کی افغان دوستی کے بارے میں یہی کہنا برحق ہوگا۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
افغانستان میں بھارت کی ایک سے دو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری دراصل اس کی عیاری اور مکاری کی سرمایہ کاری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کی اس سرمایہ کاری کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ بات افغان قیادت کی سمجھ میں جتنی جلدی آجائے اتنا بہتر ہوگا۔
ملک کے نئے عارضی وزیر اعظم نے ایک کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر کرکے ایک ایسا راست اقدام کیا ہے جو Over Due تھا۔ چنانچہ اب خارجہ پالیسی پر بغور نظرثانی کرکے اس کے نئے خدوخال ترتیب دیے جا رہے ہیں۔گزشتہ 70 برس کے عرصے میں ہماری اسٹریٹجک لوکیشن کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس کی معاشی نوعیت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ اس باعث ہماری خارجہ پالیسی محض یک رخی ہی رہی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تنازعات کے باوجود بھارت کے ساتھ چین کی تجارت 100 بلین ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ چین نے عالمی سطح پر یہی پالیسی اختیار کی ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ ہم اس روش سے سبق حاصل کریں۔
ایران ہی کو لے لیجیے جوکہ ہمارا پڑوسی برادر ملک ہے اور جس نے پاکستان کو معرض وجود میں آنے کے بعد تسلیم کرنے میں پہل کی تھی۔ لیکن ماضی میں کافی عرصے تک اس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب رہے۔ اسی وجہ سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ ایران مکران اور دیگر علاقوں میں صنعتوں کے لیے بجلی کی فراہمی کا ایک سستا ذریعہ ہے۔ بینکاری کی مطلوبہ سہولتوں کی فراہمی کی بھی دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے بڑی ضرورت ہے۔ اگر ہم ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کے بہترین انتظامات کرلیں تو ایران میں ہماری بہت سی اشیا کی بہت زبردست مانگ ہے۔ ایران سے ملحقہ بلوچستان کے بہت سے اضلاع کو ایران سے تجارت میں اضافے سے بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں امن پاکستان کے بھی مفاد میں ہے اور یہ حقیقت افغانستان کو بار بار باور کرائی جاچکی ہے۔ اس کا اعتراف افغانستان کے صدر اشرف غنی بذات خود ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے رسمی خطاب کے دوران کرچکے ہیں۔ انھوں نے پاکستان سے جامع مذاکرات کرنے پر زور دیا تھا۔ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام سے نہ صرف پاکستان بلکہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت، توانائی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کے نئے دروازے کھلیں گے جس کے نتیجے میں خیرسگالی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔یہ تمام ممالک گوادر کی بندرگاہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی درآمدات و برآمدات کافی باکفایت ہوسکتی ہیں۔
یہ ہدف سی پیک اور ان ممالک کے درمیان رابطے کی سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے نہایت آسان ہوسکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام سے کاسا (Casa) پن بجلی منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھی بڑی مدد حاصل ہوسکتی ہے جس سے تاجکستان اور کرغزستان سے بجلی ایکسپورٹ کی جاسکتی ہے۔ آپس کے تعلقات بڑھا کر ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا پائپ لائن Tapi کو بھی پھر سے فعال کیا جاسکتا ہے۔ قصہ مختصر کہ ''جیو اور جینے دو'' کی پالیسی سے اس خطے اور اس میں بسنے والے عوام کی زندگیوں کو سدھارا اور سنوارا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا ابھی حال ہی میں کابل میں افغانستان، پاکستان اور امریکا کے مابین سہ فریقی مذاکرات کا ہونا ایک اچھا شگون ہے۔ فوجی قائدین کے مابین ہونے والے ان مذاکرات کی اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ ان کا مرکزی نقطہ بارڈر مینجمنٹ تھا۔ سرحدی معاملات میں بہتری آنے کے نتیجے میں آیندہ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں بہت مدد حاصل ہوسکتی ہے۔
اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال میں تبدیلیوں کے تحت ہمیں اپنی اقتصادی سیکیورٹی کوخصوصی اہمیت دینا ہوگی۔ ہمیں ایک Faculty Exchange Program کے ذریعے افغانستان میں انسانی وسائل کے فروغ کا اہتمام بھی کرنا چاہیے جس کے لیے کابل، قندھار، ہرات اور مزار شریف میں ہماری اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو اپنے کیمپس قائم کرنے ہوں گے۔ ہماری بڑی بڑی جامعات اور پروفیشنل کالجوں میں بھی افغانستان کے طلبا کو داخلے دیے جانے چاہئیں۔کھیلوں، فنون لطیفہ اور ثقافت کے شعبوں میں بھی Exchange کے پروگراموں سے دونوں ممالک اور ان کے عوام کے درمیان دوستی کو فروغ حاصل ہوگا ۔ خارجہ پالیسی میں عملیت پسندی کے نتیجے میں افواج پاکستان پر غیر ضروری اضافی دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی جب نومبر 2014 میں پاکستان آئے تھے تو خیر سگالی کا بڑا خوشگوار ماحول پیدا ہوا تھا۔افسوس صد افسوس کہ بد خواہوں اور دوست نما دشمنوں کے بہکاوے میں آکر افغان اعلیٰ قیادت نے یہ موقع ضایع کردیا۔ یہی غلطی افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی کی تھی۔ افغان حکمرانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانستان کو روس کے پنجہ ستم سے نجات دلانے کے لیے اپنے وجود کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا۔ آج بھی پاکستان میں 30 لاکھ افغان باشندے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
افغان حکمرانوں کو پاکستان کی اتنی بڑی قربانی کیوں نظر نہیں آتی؟ افغانستان کے لیے پاکستان کے راستے سمندر تک رسائی حاصل کرنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے بھی وہ پاکستان کی راہداری کا محتاج ہے۔ لہٰذا پاکستان سے اچھے تعلقات کو فروغ دینا خود اس کے وجود کا لازمی تقاضا ہے۔افغان حکمرانوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ ان کے ملک کو بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کو دونوں ممالک کے تعلقات میں بنیادی اور واضح تبدیلیوں کے ذریعے ہی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کی افغان دوستی کے بارے میں یہی کہنا برحق ہوگا۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
افغانستان میں بھارت کی ایک سے دو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری دراصل اس کی عیاری اور مکاری کی سرمایہ کاری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کی اس سرمایہ کاری کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ بات افغان قیادت کی سمجھ میں جتنی جلدی آجائے اتنا بہتر ہوگا۔
ملک کے نئے عارضی وزیر اعظم نے ایک کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر کرکے ایک ایسا راست اقدام کیا ہے جو Over Due تھا۔ چنانچہ اب خارجہ پالیسی پر بغور نظرثانی کرکے اس کے نئے خدوخال ترتیب دیے جا رہے ہیں۔گزشتہ 70 برس کے عرصے میں ہماری اسٹریٹجک لوکیشن کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس کی معاشی نوعیت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ اس باعث ہماری خارجہ پالیسی محض یک رخی ہی رہی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تنازعات کے باوجود بھارت کے ساتھ چین کی تجارت 100 بلین ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ چین نے عالمی سطح پر یہی پالیسی اختیار کی ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ ہم اس روش سے سبق حاصل کریں۔
ایران ہی کو لے لیجیے جوکہ ہمارا پڑوسی برادر ملک ہے اور جس نے پاکستان کو معرض وجود میں آنے کے بعد تسلیم کرنے میں پہل کی تھی۔ لیکن ماضی میں کافی عرصے تک اس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب رہے۔ اسی وجہ سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ ایران مکران اور دیگر علاقوں میں صنعتوں کے لیے بجلی کی فراہمی کا ایک سستا ذریعہ ہے۔ بینکاری کی مطلوبہ سہولتوں کی فراہمی کی بھی دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے بڑی ضرورت ہے۔ اگر ہم ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کے بہترین انتظامات کرلیں تو ایران میں ہماری بہت سی اشیا کی بہت زبردست مانگ ہے۔ ایران سے ملحقہ بلوچستان کے بہت سے اضلاع کو ایران سے تجارت میں اضافے سے بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں امن پاکستان کے بھی مفاد میں ہے اور یہ حقیقت افغانستان کو بار بار باور کرائی جاچکی ہے۔ اس کا اعتراف افغانستان کے صدر اشرف غنی بذات خود ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے رسمی خطاب کے دوران کرچکے ہیں۔ انھوں نے پاکستان سے جامع مذاکرات کرنے پر زور دیا تھا۔ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام سے نہ صرف پاکستان بلکہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت، توانائی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کے نئے دروازے کھلیں گے جس کے نتیجے میں خیرسگالی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔یہ تمام ممالک گوادر کی بندرگاہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی درآمدات و برآمدات کافی باکفایت ہوسکتی ہیں۔
یہ ہدف سی پیک اور ان ممالک کے درمیان رابطے کی سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے نہایت آسان ہوسکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام سے کاسا (Casa) پن بجلی منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھی بڑی مدد حاصل ہوسکتی ہے جس سے تاجکستان اور کرغزستان سے بجلی ایکسپورٹ کی جاسکتی ہے۔ آپس کے تعلقات بڑھا کر ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا پائپ لائن Tapi کو بھی پھر سے فعال کیا جاسکتا ہے۔ قصہ مختصر کہ ''جیو اور جینے دو'' کی پالیسی سے اس خطے اور اس میں بسنے والے عوام کی زندگیوں کو سدھارا اور سنوارا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا ابھی حال ہی میں کابل میں افغانستان، پاکستان اور امریکا کے مابین سہ فریقی مذاکرات کا ہونا ایک اچھا شگون ہے۔ فوجی قائدین کے مابین ہونے والے ان مذاکرات کی اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ ان کا مرکزی نقطہ بارڈر مینجمنٹ تھا۔ سرحدی معاملات میں بہتری آنے کے نتیجے میں آیندہ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں بہت مدد حاصل ہوسکتی ہے۔
اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال میں تبدیلیوں کے تحت ہمیں اپنی اقتصادی سیکیورٹی کوخصوصی اہمیت دینا ہوگی۔ ہمیں ایک Faculty Exchange Program کے ذریعے افغانستان میں انسانی وسائل کے فروغ کا اہتمام بھی کرنا چاہیے جس کے لیے کابل، قندھار، ہرات اور مزار شریف میں ہماری اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو اپنے کیمپس قائم کرنے ہوں گے۔ ہماری بڑی بڑی جامعات اور پروفیشنل کالجوں میں بھی افغانستان کے طلبا کو داخلے دیے جانے چاہئیں۔کھیلوں، فنون لطیفہ اور ثقافت کے شعبوں میں بھی Exchange کے پروگراموں سے دونوں ممالک اور ان کے عوام کے درمیان دوستی کو فروغ حاصل ہوگا ۔ خارجہ پالیسی میں عملیت پسندی کے نتیجے میں افواج پاکستان پر غیر ضروری اضافی دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔