ایک لازوال آواز
وہ بہت ٹیلنٹڈ ہدایت کار تھے، ان کو بھٹو بھی پسند کرتے تھے
پاکستان کا قومی ترانہ بجنے سے پہلے ایک آواز سب سنتے تھے ''اب آپ قومی ترانہ سنیںگے،آپ پر لازم ہے کہ اس کے احترام میں با ادب کھڑے ہوجائیں'' یہ آوازگوہر علی کی تھی ، میری گوہر علی سے بالمشافہ کوئی ملاقات نہ ہوسکی اور وہ اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ لیکن میں نے چاہا کہ ان کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے ۔
اس سلسلے میں ہم یعنی میں اور میرا دوست مقبول سومرو ، گوہر کے گہرے دوست تھے ، گوہر کے گھر گئے جہاں پر گوہر کی بیوہ سے ملاقات ہوئی جن کے ساتھ ان کے بیٹے بھی رہتے ہیں مگر ان کی غربت دیکھ کر بڑا دکھ پہنچا۔ بس ایک بات یہ اچھی لگی کہ ان کے بارے میں میرے دوست نے مجھے کافی معلومات فراہم کیں اور کچھ تصویریں بھی دیں ۔ معلوم ہوا کہ ایک زمانہ تھا جب وہ فلمیں ڈائریکٹ کرتے تھے تو اس کے گھر اور گلی میں پاکستان کے بڑے بڑے فنکار جس میں محمد علی، ندیم، شبنم، زیبا، رانی گانے والے میوزک ڈائریکٹرز کا بہت زیادہ آنا جانا تھا ، مگر اب وہاں کوئی نہیں آتا، اور غالبا کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔
یہ نہیں کہ اب فلمیں نہیں بن رہی ہیں بلکہ جب ان کا انتقال ہوگیا تو یہ سلسلہ بند ہوگیا اب ان کے گھر بھولے سے کوئی فون کر کے بھی نہیں پوچھتا۔ گوہرعلی کو فلموں سے بڑا لگاؤ تھا ، جس کی وجہ سے وہ کراچی میں بننے والی فلموں میں ہدایت کاری کی تربیت مختلف استادوں سے لیتے رہے، وہ ایس ایم یوسف کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر بن گئے لیکن جب وحید مراد نے انھیں اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر دی تو وہ ان کے ساتھ کام کرنے لگے جس کے لیے انھیں اچھا معاوضہ ملتا تھا۔
وحید مراد کے ساتھ اس نے ہیرا اور پتھر، ہل اسٹیشن، پھر صبح ہوگی، وغیرہ کے لیے کام کیا ۔ اب کراچی میں جب فلموں کا کام کچھ کم ہوگیا تو وہ لاہور چلے گئے جہاں وہ ایس ایم یوسف کے بیٹے اقبال یوسف کے ساتھ کام کرنے لگے ۔ بعد میں وہ ڈائریکٹر بھی بنے اور پروڈیوسر بھی جس کے لیے انھوں نے خود کو حکومت پاکستان سے رجسٹر کروایا اور باقاعدہ ٹیکس دیا کرتے تھے۔
انھیں ہدایت کاری کے فن سے عشق تھا اس لیے کئی نئے اور پرانے ہدایت کار ان سے تربیت اور صلاح لینے آتے تھے جس میں جاوید محمد فاضل، حسن عسکری وغیرہ ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور وقت بہ وقت انھیں ڈائریکشن میں گائیڈ بھی کرتے۔ سندھی فلموں کی مقبول اداکارہ چکوری کو انھوں نے پہلی مرتبہ اردو فلموں میں متعارف کروایا جس میں کراچی میں بننے والی فلم جاسوس اور ٹکراؤ شامل ہیں۔ انھیں کراچی فلم انڈسٹری کو بحال کرنے کا بڑا شوق تھا، اس لیے انھوں نے کافی فلمیں کراچی ہی میں Produce کیں تاکہ کراچی کے فلم اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوں ۔ وہ بالکل الگ تھلگ طبیعت کے مالک تھے، انھیں صرف اپنے کام سے دلچسپی اور لگاؤ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر اور بچوں کو توجہ نہ دے سکے، جس کا احساس انھیں اس وقت ہوا جب وہ بیمار ہوکر بستر پر پڑگئے اور سب نے ان سے آنکھیں چرا لی مگر بیوی اور بچے کام آئے۔
ایک مرتبہ دبئی میں وہ ایک فلم یا پھر ٹی وی ڈرامے کی ریکارڈنگ کر رہے تھے اور ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، جہاں پر انڈیا کی مشہور فلم اسٹار ریکھا ان کے پاس آئیں اوران کے پاؤں چھوتے ہوئے کہاکہ آپ پاکستان سے آئے ہیں اور ہدایت کار ہیں توگوہر علی کو عجیب حیرت ہوئی کہ اتنی بڑی اداکارہ ایک پاکستانی ہدایت کارکا اتنا ادب کر رہی تھیں جب کہ پاکستان میں فنکار کامیابی کے بعد کتنے بدل جاتے ہیں۔ ہاں یاد آیا وہ فلم راز کی شوٹنگ پر گئے ہوئے تھے جس میں بابرہ شریف، محسن خان، مصطفی قریشی، معین اختر اور گلاب چانڈیو کام کررہے تھے اور گوہر اس فلم کے ڈائریکٹر تھے۔
وہ بہت ٹیلنٹڈ ہدایت کار تھے، ان کو بھٹو بھی پسندکرتے تھے، کہتے ہیں کہ جب بھٹو وزیراعظم تھے شاید یہ زمانہ 1973 کا تھا جس میں ملک میں سیلاب آیا تھا اور بھٹو نے پورے پاکستان کا دورہ کیا تھا، اصس کی ڈاکومنٹری فلم بنائی گئی تھی جسے دیکھنے کے لیے گوہر علی کو بلوایا گیا کہ وہ پروجیکٹر پر یہ فلم بھٹو کو سکھر میں دکھائیں۔ پروجیکٹر صرف اس وقت یعقوب بسکٹ فیکٹری والوں کے پاس تھا ،گوہر نے اس ڈاکومنٹری کو بڑے ماہرانہ انداز سے پیش کیا جس پر بھٹو ان سے بڑے متاثر ہوئے اور ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اس احترام اور خدمت کے عوض گوہر نے کوئی صلہ نہیں مانگا جب کہ انھیں کہا بھی گیا تھا۔
وہ اداکار وحید مراد سے بہت متاثر تھے اور انھیں بے حد پیار کرتے تھے، جس کے لیے انھوں نے فلم ''مانگ میری بھردو'' پروڈیوس کی جو فیل ہوگئی اس لیے کہ وہ دن وحید مراد کے برے دن چل رہے تھے۔ اس فلم کے لیے محمد علی اور شبنم نے بھی گوہر سے کہاکہ وہ اداکار ندیم کو کاسٹ کریں مگر انھوں نے پھر بھی وحید مراد کو ہی کاسٹ کیا جس سے انھیں مالی نقصان ہوا۔ ایک مرتبہ جب وحید مراد بیمار پڑگئے تو یہ ان سے ملنے اسپتال گئے جہاں پر انھیں معلوم ہوا کہ وحید مراد کو شوگرکا مرض ہے۔ یہ بات انھوں نے کبھی بھی کسی کو نہیں بتائی۔
گوہر کی عادت تھی کہ وہ گرے ہوئے انسانوں کو اٹھانے کی کوشش کرتے تھے، چاہے اسے کتنا مالی نقصان کیوں نہ ہو ، لوگ اس کی مخالفت کیوں نہ کریں ۔ جب گلوکار مجیب عالم کو بھی فلمی دنیا والوں نے بھلادیا تو گوہر نے اسے اپنی فلم مانگ میری بھردو میں چانس دیا جو مجیب عالم کی بطور سنگر آخری فلم تھی ۔ گوہر کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے دوست مقبول سومرو کو کسی اپنی فلم میں متعارف کریں لیکن اچانک بیمار پڑنے سے ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی جس کی وجہ یہ تھی کہ مقبول سومرو اداکار وحید مراد سے کافی شکل میں مشابہت رکھتے تھے۔ آخری دنوں میں گوہر اکثر ان کے ساتھ ویکلی فلمی اخبار نگار کے مالک الیاس رشیدی کے پاس جایا کرتے تھے کیونکہ وہ ان سے کافی Intimate تھے۔
فلم ''ان داتا'' کی کاسٹ جب فائنل ہوگئی تو محمدعلی کی ماں کے کردار کے لیے اداکارہ نیئر سلطانہ کو منتخب کیا گیا اس فلم میں نیئر سلطانہ، سدھیر کی بیوی بنتی ہیں اور سلطان راہی کی بھی ماں ہیں کیونکہ فلم میں محمد علی اور سلطان راہی بھائی ہوتے ہیں اب ماں کے کردار کے لیے نجمہ محبوب نے بھاگ دوڑ کرکے ماں کا کردار حاصل کیا جس پر گوہر بہت ناراض ہوئے اور فلم کا ایسوسی ایٹ ڈائریکشن سے ہٹنے کا فیصلہ کرلیا مگر اقبال ، گوہر اس بات میں بڑے مشہور تھے کہ وہ چھوٹے بجٹ میں بڑے اچھے فلمی سیٹ لگاتے تھے۔ ایک مرتبہ ہندوستان فلم انڈسٹری سے ایک وفد کراچی کے ایک اسٹوڈیو میں گھومنے آئے جہاں پر ان کی فلم مانگ میری بھردو کا سیٹ لگا ہوا تھا جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور اس کا بجٹ سن کر بھی حیران ہوگئے۔
گوہر کو میر مرتضیٰ بھٹو پر فلم بنانے کی پیشکش کی گئی تھی مگر اچانک ان کے انتقال سے یہ پروجیکٹ وہ نہ کر پائے ایک دن وہ جب اسٹوڈیو جانے کے لیے اپنی موٹر سائیکل کو صاف کررہے تھے کہ اچانک ایک بلی نے چھلانگ لگائی جس سے موٹرسائیکل گرنے لگی، انھوں نے بلی کو بچاتے ہوئے موٹرسائیکل کے نیچے اپنی ٹانگ کو زخمی کرلیا یہ حادثہ بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوا ، علاج کرانے کے بعد بھی وہ بسترے سے اٹھ نہیں سکے اور پھر فلم والوں نے بھی آنا جانا چھوڑدیا جس کا اس کے دل پر بہت برا اثر ہوا اور وہ جون 6 کو 2011 میں اﷲ کو پیارے ہوگئے ۔انھوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ شوبز کی دنیا کی بے حسی دیکھ بھی چکے ہیں اور سن بھی چکے ہیں ۔
اس لیے اس پر کوئی بحث کرنا یا بین کرنا بے کار ہے مگر صرف اتنا عرض کروںگا کہ گوہر علی نے جو خدمت فلمی لائن کے لیے کی ہیں جس میں وہ پی ٹی وی کے لیے جانے انجانے بارش میں ریکارڈ کی تھی اور پی ٹی وی کے لیے ہمارے ان دبئی جیسی مقبول ڈرامہ سیریل بنائی، این ٹی ایم کے لیے پروگرام ٹیک ٹو اینڈ میوزک چیلنج بھی شامل ہیں۔ جب کہ فلموں میں مزید البیلا عاشق بنائی جس میں ملک کے نامور مزاحیہ فنکار شامل تھے ۔ ان کے بچے ور بیوی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں اور حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کر پائی جب کہ ان کی بیوہ نے حکومت سندھ اور حکومت پاکستان سے مالی مدد کی اپیل بھی کی ہے۔