آوارہ ٹرین یا سیاسی مسافر
سیاست یا سیاسی پارٹیوں کو اگر آوارہ ٹرین کہا جائے تو وہ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے ایک مخالف سیاستدان کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ میں کسی آوارہ ٹرین کا مسافر نہیں ہوں کہ سیاسی پارٹیاں تبدیل کروں میں وہیں ہوں اور رہوںگا جہاں ہوں میرے پارٹی سے معاملے میں نواز شریف کے ساتھ اختلاف ہوسکتے ہیں مگر برے وقت میں اپنی پارٹی نہیں چھوڑوںگا۔ چوہدری نثارکے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خوشامدی اور چاپلوس نہیں ہیں اور جو بات مناسب سمجھتے ہیں وہ اپنی قیادت کو بتادیتے ہیں اور یہ ہونا بھی چاہیے۔ قابلیت اور خوشامد میں نمایاں فرق ہے مگر مقام دونوں طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے مگر عزت قابلیت اور صلاحیت سے ملتی ہے۔
خوشامد سے وزارت اور ذاتی مفاد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر عزت نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ تین بڑی پارٹیوں میں نظریاتی لوگ کم اور موقع پرست زیادہ ہیں۔ پہلے سیاسی لوگ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں تھے اور پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے تھے ان کے گھروں میں دونوں پارٹیوں کے پرچم ہوتے تھے جب سیاسی مفاد کے لیے پارٹی تبدیل کرنا ہوتی وہ اپنے گھر پر لگا پرانا جھنڈا اتار کر اپنی نئی پارٹی کا جھنڈا لہرا لیا کرتے تھے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے تھے جو اپنی پارٹی قیادت پر الزام تراشی کرتے ہوں۔
پیپلزپارٹی جب پچاس سال قبل بنی تھی اس میں زیادہ تر لوگ کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ سے آئے تھے اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف کنونشن مسلم لیگ میں تھے اور انھوں نے اپنے قائد صدر ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو برسر اقتدار کنونشن مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری بنادیا جائے پھر انھوں نے تاشقند معاہدے کی مخالفت کو جواز بناکر وزارت خارجہ خود چھوڑی یا نظر انداز کیے جانے پر فارغ کیے گئے مگر ان کے بار بار کے اعلانات کے باوجود تاشقند کے تھیلے سے بلی باہر نہیں آئی تھی البتہ وہ بھیحکمرانوں کو ڈکٹیٹر قرار دیتے تھے حالانکہ ان کی سیاسی پرورش فوجی صدر کے دور میں ہی ہوئی تھی ۔
انھوں نے بعد ازاں نواز شریف نے بھی اپنی سیاسی پارٹی قائم کی جس کے بعد سے سالوں سیاسی مسافروں کا ایک دوسری پارٹی میں آنا جانا لگا رہے اور پی پی اور مسلم لیگ ن اقتدار میں آتی جاتی رہیں۔ پارٹیاں بدلی جاتی رہیں چہرے وہی رہے۔ اچھی شہرت کے حامل اصغر خان نے تحریک استقلال بنائی تھی اور عمران خان سے بڑے جلسے کیے تھے۔ اصغر خان نے بھٹو کے خلاف تحریک سے شہرت پائی اور ان کے پروگرام سے متاثر اور پی پی سمیت دوسری پارٹیوں کے لوگ جن میں نواز شریف بھی شامل ہیں، تحریک استقلال میں رہے مگر اصغر خان طویل مارشل لا کے بعد سیاست میں غیر موثر ہوگئے ۔
جس کے دس سال بعد عمران خان نے تحریک انصاف قائم کی جو چند سال قبل اچانک مقبول ہوئی تو کچھ نظریاتی اور اکثر پیپلزپارٹی سے مایوس پی پی رہنمائوں کو تیسرا سیاسی سہارا نظر آیا اور وہ بڑی تعداد میں پی ٹی آئی میں اسی طرح شامل ہوئے جیسے پی پی کے قیام پر ہوئے تھے۔ پی پی کے پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد مایوس ہوکر نظریاتی لوگ ایسے پی پی پی چھوڑ گئے تھے جیسیبعض رہنمائوں کے رویے سے مایوس نظریاتی لوگ پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے اور آج پی ٹی آئی میں زیادہ رہنمائوں کی تعداد پیپلزپارٹی اور ق لیگ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور پی ٹی آئی میں مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جے یو آئی چھوڑنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
ایم کیو ایم نے شہری سندھ کی سیاست سے جماعت اسلامی اور جے یو پی کا صفایا کیا تھا پھر 2013 میں نواز شریف کی عدم دلچسپی سے شہری سندھ سے پی ٹی آئی نے متحدہ کو نقصان پہنچایا اور نمایاں ووٹ لیے مگر عمران خان نے نواز شریف دشمنی میں سندھ کو اہمیت نہ دی اور اب وہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
کراچی ہمیشہ سے اپوزیشن کا شہر رہا ہے کیونکہ اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں نے کبھی کراچی کو اپنا نہیں سمجھا اور پیپلزپارٹی نے بھی اپنے قیام کے بعد سے خود کو قومی پارٹی قرار دیا مگر پی پی نے بھی کراچی کو اپنانے کی کوشش نہیں کی اور پی پی نے خود کو نہ صرف دیہی سندھ تک محدود رکھا بلکہ کوٹا سسٹم کے ذریعے سندھ کو دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کرنے کا الزام بھی پیپلزپارٹی پر ہی لگتا ہے، ماضی میں کراچی کا ووٹ بینک جماعت اسلامی اور جے یو پی کے پاس ہوتا تھا جو اپوزیشن میں رہ کر کراچی کے لیے کچھ نہ کرسکیں جس کے بعد پہلی بار پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی مگر پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت نے کراچی کو نظر انداز کیا ۔
جس سے ایم کیو ایم کو مقبولیت اور کراچی سے مینڈیٹ ملا مگر وہ بھی کراچی کو حقوق نہ دلاسکی اور کراچی کے سیاسی مسافر کسی آوارہ ٹرین کے مسافر نہیں بنے بلکہ اپوزیشن کی ٹرین کے مسافر رہے۔ کراچی میں کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ملک کے سب سے بڑے شہر کو اپنی اقتداری ٹرین میں سوار ہونے کا موقع ہی نہیں دیا اور ایم کیو ایم نے کراچی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جس کے بعد 2013 میں کراچی کے لوگوں نے تحریک انصاف کو 8 لاکھ سے زائد ووٹ دے کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہا جو آوارہ ٹرین تھی نہ کراچی والے سیاسی مسافر مگر پی ٹی آئی نے بھی کراچی سے ملنے والے ووٹوں کی قدر نہیں کی اور اب متحدہ کی تقسیم کے بعد 2018 میں کراچی کے سیاسی مسافرکسی پسندیدہ ٹرین کے مسافر بنیںگے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔
سیاست یا سیاسی پارٹیوں کو اگر آوارہ ٹرین کہا جائے تو وہ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ٹرینیں آوارہ نہیں ہوتیں اور اپنی منزل تک جانے کے لیے مقررہ پٹڑی پر ہی چلتی ہیں اور سفر کرنے والے اپنی منزل کی جانب جانے والی ٹرین ہی میں سفر کرتے ہیں اور یہی حال سیاسی مسافروں کا ہے جو اپنی منزل کی طرف جانے کے لیے سیاسی پارٹیاں بدلتے ہیں جب ان کا سیاسی مقصد یا مفاد پورا نہیں ہوتا تو وہ پارٹی تبدیل کرنے میں دیر نہیں کرتے۔
پیپلزپارٹی جو منشور اور روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ لے کر سیاسی میدان میں آئی تھی اور اسے منفرد منشور کے باعث چند سال بعد اقتدار بھی مل گیا تھا جس میں بعد میں سیاسی مفاد کے مسافر بہت زیادہ جمع ہوگئے تھے جن کی وجہ سے پارٹی اپنے منشور سے ہٹ گئی جس پر نظریاتی لوگ الگ ہوگئے تھے جنھوں نے پی پی سے مایوس ہوکر تحریک استقلال مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کو اپنی منزل سمجھا مگر بعد میں ان سے بھی مایوس ہوکر خاموش ہوکر بیٹھ گئے کیونکہ کوئی بھی پارٹی انھیں منزل نہ دے سکی۔
متحدہ تو واحد پارٹی تھی جس میں نعرے لگائے اور لکھوائے جاتے تھے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے جب کہ حقیقت میں رہنما پارٹی بناتے ہیں اور خواہش مند اپنی منزل کے لیے شمولیت اختیار کرتے ہیں مگر بعد میں رہنما ہی پارٹی منشور اور منزل کے ساتھ مخلص نہیں رہتا اور اپنے سیاسی مفاد کو اپنی منزل بنالیتا ہے جس پر مایوس ہوکر مخلص رہنما اور کارکن نئی منزل کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں مگر انھیں منزل نہیں ملتی اور ان کے ہم سفروں کو مفاد حاصل ہوجاتا ہے جس کی واضح مثال بعض سیاستدان ہیں جو نواز شریف کو طویل عرصے تک قائد مانتے رہے اور سات بار وزیر بن کر بھی وہ اپنے قائد کو ساتھ نبھانے کی بجائے اقتدارکی ٹرین میں سوار ہوکر جنرل پرویز کے ساتھ 5 سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور پھر نواز شریف اور چوہدریوں کے مشکل وقت میں انھیں چھوڑگئے اور اقتدار کی خاطر اپنی اکیلی بوگی کو عمران خان کی ٹرین کے ساتھ لگاکر اپنی نئی منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
خوشامد سے وزارت اور ذاتی مفاد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر عزت نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ تین بڑی پارٹیوں میں نظریاتی لوگ کم اور موقع پرست زیادہ ہیں۔ پہلے سیاسی لوگ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں تھے اور پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے تھے ان کے گھروں میں دونوں پارٹیوں کے پرچم ہوتے تھے جب سیاسی مفاد کے لیے پارٹی تبدیل کرنا ہوتی وہ اپنے گھر پر لگا پرانا جھنڈا اتار کر اپنی نئی پارٹی کا جھنڈا لہرا لیا کرتے تھے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے تھے جو اپنی پارٹی قیادت پر الزام تراشی کرتے ہوں۔
پیپلزپارٹی جب پچاس سال قبل بنی تھی اس میں زیادہ تر لوگ کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ سے آئے تھے اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف کنونشن مسلم لیگ میں تھے اور انھوں نے اپنے قائد صدر ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو برسر اقتدار کنونشن مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری بنادیا جائے پھر انھوں نے تاشقند معاہدے کی مخالفت کو جواز بناکر وزارت خارجہ خود چھوڑی یا نظر انداز کیے جانے پر فارغ کیے گئے مگر ان کے بار بار کے اعلانات کے باوجود تاشقند کے تھیلے سے بلی باہر نہیں آئی تھی البتہ وہ بھیحکمرانوں کو ڈکٹیٹر قرار دیتے تھے حالانکہ ان کی سیاسی پرورش فوجی صدر کے دور میں ہی ہوئی تھی ۔
انھوں نے بعد ازاں نواز شریف نے بھی اپنی سیاسی پارٹی قائم کی جس کے بعد سے سالوں سیاسی مسافروں کا ایک دوسری پارٹی میں آنا جانا لگا رہے اور پی پی اور مسلم لیگ ن اقتدار میں آتی جاتی رہیں۔ پارٹیاں بدلی جاتی رہیں چہرے وہی رہے۔ اچھی شہرت کے حامل اصغر خان نے تحریک استقلال بنائی تھی اور عمران خان سے بڑے جلسے کیے تھے۔ اصغر خان نے بھٹو کے خلاف تحریک سے شہرت پائی اور ان کے پروگرام سے متاثر اور پی پی سمیت دوسری پارٹیوں کے لوگ جن میں نواز شریف بھی شامل ہیں، تحریک استقلال میں رہے مگر اصغر خان طویل مارشل لا کے بعد سیاست میں غیر موثر ہوگئے ۔
جس کے دس سال بعد عمران خان نے تحریک انصاف قائم کی جو چند سال قبل اچانک مقبول ہوئی تو کچھ نظریاتی اور اکثر پیپلزپارٹی سے مایوس پی پی رہنمائوں کو تیسرا سیاسی سہارا نظر آیا اور وہ بڑی تعداد میں پی ٹی آئی میں اسی طرح شامل ہوئے جیسے پی پی کے قیام پر ہوئے تھے۔ پی پی کے پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد مایوس ہوکر نظریاتی لوگ ایسے پی پی پی چھوڑ گئے تھے جیسیبعض رہنمائوں کے رویے سے مایوس نظریاتی لوگ پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے اور آج پی ٹی آئی میں زیادہ رہنمائوں کی تعداد پیپلزپارٹی اور ق لیگ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور پی ٹی آئی میں مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جے یو آئی چھوڑنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
ایم کیو ایم نے شہری سندھ کی سیاست سے جماعت اسلامی اور جے یو پی کا صفایا کیا تھا پھر 2013 میں نواز شریف کی عدم دلچسپی سے شہری سندھ سے پی ٹی آئی نے متحدہ کو نقصان پہنچایا اور نمایاں ووٹ لیے مگر عمران خان نے نواز شریف دشمنی میں سندھ کو اہمیت نہ دی اور اب وہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
کراچی ہمیشہ سے اپوزیشن کا شہر رہا ہے کیونکہ اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں نے کبھی کراچی کو اپنا نہیں سمجھا اور پیپلزپارٹی نے بھی اپنے قیام کے بعد سے خود کو قومی پارٹی قرار دیا مگر پی پی نے بھی کراچی کو اپنانے کی کوشش نہیں کی اور پی پی نے خود کو نہ صرف دیہی سندھ تک محدود رکھا بلکہ کوٹا سسٹم کے ذریعے سندھ کو دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کرنے کا الزام بھی پیپلزپارٹی پر ہی لگتا ہے، ماضی میں کراچی کا ووٹ بینک جماعت اسلامی اور جے یو پی کے پاس ہوتا تھا جو اپوزیشن میں رہ کر کراچی کے لیے کچھ نہ کرسکیں جس کے بعد پہلی بار پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی مگر پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت نے کراچی کو نظر انداز کیا ۔
جس سے ایم کیو ایم کو مقبولیت اور کراچی سے مینڈیٹ ملا مگر وہ بھی کراچی کو حقوق نہ دلاسکی اور کراچی کے سیاسی مسافر کسی آوارہ ٹرین کے مسافر نہیں بنے بلکہ اپوزیشن کی ٹرین کے مسافر رہے۔ کراچی میں کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ملک کے سب سے بڑے شہر کو اپنی اقتداری ٹرین میں سوار ہونے کا موقع ہی نہیں دیا اور ایم کیو ایم نے کراچی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جس کے بعد 2013 میں کراچی کے لوگوں نے تحریک انصاف کو 8 لاکھ سے زائد ووٹ دے کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہا جو آوارہ ٹرین تھی نہ کراچی والے سیاسی مسافر مگر پی ٹی آئی نے بھی کراچی سے ملنے والے ووٹوں کی قدر نہیں کی اور اب متحدہ کی تقسیم کے بعد 2018 میں کراچی کے سیاسی مسافرکسی پسندیدہ ٹرین کے مسافر بنیںگے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔
سیاست یا سیاسی پارٹیوں کو اگر آوارہ ٹرین کہا جائے تو وہ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ٹرینیں آوارہ نہیں ہوتیں اور اپنی منزل تک جانے کے لیے مقررہ پٹڑی پر ہی چلتی ہیں اور سفر کرنے والے اپنی منزل کی جانب جانے والی ٹرین ہی میں سفر کرتے ہیں اور یہی حال سیاسی مسافروں کا ہے جو اپنی منزل کی طرف جانے کے لیے سیاسی پارٹیاں بدلتے ہیں جب ان کا سیاسی مقصد یا مفاد پورا نہیں ہوتا تو وہ پارٹی تبدیل کرنے میں دیر نہیں کرتے۔
پیپلزپارٹی جو منشور اور روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ لے کر سیاسی میدان میں آئی تھی اور اسے منفرد منشور کے باعث چند سال بعد اقتدار بھی مل گیا تھا جس میں بعد میں سیاسی مفاد کے مسافر بہت زیادہ جمع ہوگئے تھے جن کی وجہ سے پارٹی اپنے منشور سے ہٹ گئی جس پر نظریاتی لوگ الگ ہوگئے تھے جنھوں نے پی پی سے مایوس ہوکر تحریک استقلال مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کو اپنی منزل سمجھا مگر بعد میں ان سے بھی مایوس ہوکر خاموش ہوکر بیٹھ گئے کیونکہ کوئی بھی پارٹی انھیں منزل نہ دے سکی۔
متحدہ تو واحد پارٹی تھی جس میں نعرے لگائے اور لکھوائے جاتے تھے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے جب کہ حقیقت میں رہنما پارٹی بناتے ہیں اور خواہش مند اپنی منزل کے لیے شمولیت اختیار کرتے ہیں مگر بعد میں رہنما ہی پارٹی منشور اور منزل کے ساتھ مخلص نہیں رہتا اور اپنے سیاسی مفاد کو اپنی منزل بنالیتا ہے جس پر مایوس ہوکر مخلص رہنما اور کارکن نئی منزل کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں مگر انھیں منزل نہیں ملتی اور ان کے ہم سفروں کو مفاد حاصل ہوجاتا ہے جس کی واضح مثال بعض سیاستدان ہیں جو نواز شریف کو طویل عرصے تک قائد مانتے رہے اور سات بار وزیر بن کر بھی وہ اپنے قائد کو ساتھ نبھانے کی بجائے اقتدارکی ٹرین میں سوار ہوکر جنرل پرویز کے ساتھ 5 سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور پھر نواز شریف اور چوہدریوں کے مشکل وقت میں انھیں چھوڑگئے اور اقتدار کی خاطر اپنی اکیلی بوگی کو عمران خان کی ٹرین کے ساتھ لگاکر اپنی نئی منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔