نیا ڈراما
اس ڈرامے کے ذریعے عوام کو نئی سوچ ملے گی کہ نااہل ہونا کوئی بات نہیں
مجھے کیوں نکالا کی بھرپور کامیابی کے بعد اب نیا ڈراما پیش ہے، ووٹ کا تقدس۔ ووٹ کے تقدس کی کاسٹ بھی وہی ہے جوکہ مجھے کیوں نکالا میں موجود تھی، مگر اب ایک کریکٹر کا ہمیں اضافہ نظر آتا ہے، وہ ہے برادر خورد کا کردار۔ پچھلے ڈرامے میں بردار خورد پس پردہ بھی نظر نہیں آئے، مگر اس ڈرامے میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ڈرامے کا دارومدار بھی لگتا ہے اس کردار پر ہی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ عوام وخواص کو محظوظ کریں گے۔ عوام تو ان کے اسٹائل پر ویسے ہی فدا ہیں، جب یہ کردار حبیب جالب کے اشعار پڑھتا تو ایک سماں بندھ جاتا ہے اور عوام اسکرین پر جو کچھ جمع پونجی ہے، وہ سب کچھ بھی لٹا کر ہوش میں نہیں آتے۔ یہ بڑی مہنگی کاسٹ پر پروڈیوس کیا گیا ہے، ایکسٹرا اداکاروں نے بھی کروڑوں روپے صرف ایک دو دن کی انٹری پر لیے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک سین کی شوٹنگ، کہ ووٹ کے تقدس کا ایک اہم سین تھا، جس میں کسی نااہل شخص کو بھی کسی سیاسی پارٹی کا صدر بننے کا موقع ملتا ہے۔ اس سین کی فلم بندی پر بڑا رش دیکھنے میں آیا۔ اکثر اداکاروں نے صرف ایک جھلک دکھانے کے بھی کروڑوں روپے مانگ لیے، مگر پروڈیوسر کے ماتھے پر ایک بل نہ آیا۔ اس لیے یہ شوٹنگ جلد ہی کوئی ری ایکٹ کیے بغیر پہلے ہی مرحلے پر مکمل کرلی گئی۔
اس ڈرامے کے ذریعے عوام کو نئی سوچ ملے گی کہ نااہل ہونا کوئی بات نہیں، آپ قتل کریں، کسی کی جیب سے پیسے اڑائیں، ڈاکے ڈالیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ آپ کوئی بھی سیاسی پارٹی بنا کر اس کے صدر بن سکتے ہیں، بھلے ہم اپنے ذاتی کاروبار میں کسی نااہل سزا یافتہ انسان کو ملازمت نہیں دے سکتے، مگر ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھمانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ملک کے آئین میں جو ایک شق تھی کہ بظاہر نیک چال چلن، نیک اطوار لوگ ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
تو اب ''ووٹ کے تقدس'' کی ریلیز کے بعد شاید یہ شق بھی ختم ہوجائے۔ پاکستان کے ہر شخص کو خواہ وہ نیک ہو یا بد، سب کو حکومت کے مزے لوٹنے کا حق ہے۔ اس ڈرامہ سیریز کے ہٹ ہونے کے امکانات کافی روشن ہیں، کیونکہ اس سے تمام افراد کے دل کی ترجمانی ہورہی ہے، جوکہ نااہل ہیں۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ پاکستان کی جیلوں کے قیدیوں نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس کی بدولت اب ہمیں بھی شاید ملک کی خدمت کرنے کا موقع مل جائے۔ ڈرامہ کے پروڈیوسر نے ہر خاص و عام سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ڈرامہ کو ضرور دیکھیں، میڈیا سے بھی خصوصی درخواست ہے کہ اس کو اپنی خبروں بلکہ بریکنگ نیوز کا حصہ بنا کر ڈرامہ کی کامیابی میں بھرپور کردار ادا کرے۔
کسی بھی معاشرے میں جب بھی کوئی نئی چیز متعارف کروائی جاتی ہے تو کچھ نامعلوم افراد اس پر بڑا سیاپا ڈالتے ہیں، اس لیے اگر میڈیا کی نظر کرم ہوگی تو عام افراد تک بھی اس کے اثرات پہنچ سکیں گے، کیونکہ ووٹ کے تقدس سے بھی اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے حلقہ 120 میں ووٹ کے تقدس کا خیال کیا گیا کہ ووٹر خود بھی حیران ہوا اور یہ ہی وجہ ہے کہ ووٹ کے تقدس کو مجھے کیوں نکالا گیا کے بعد اگلی سیریز بنایا گیا۔ ہماری ناقص رائے میں تو ہر شخص کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اس ڈرامہ کو ضرور دیکھیں تاکہ ان کو بھی اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔
اب کچھ تجزیہ ہوجائے مجھے کیوں نکالا گیا پر۔ یہ ایک روزہ مکمل ڈرامہ تھا، مگر اس کو کئی بار ریپیٹ کیا گیا، جس کی وجہ سے اس کو بہت زیادہ پسند کیا گیا، سوشل میڈیا پر اس کا ٹائٹل بہت زیادہ پاپولر رہا۔ اس کا اہم کردار جس نے ادا کیا اس نے اپنی پرفارمنس سے اس میں جان ڈال دی تھی۔دیکھنے اور سننے والے جب یہ ڈائیلاگ سنتے کہ مجھے کیوں نکالا گیا تو ہر طرف داد کے ڈونگرے برسنے شروع ہوجاتے، اداکاری پر حقیقت کا گماں ہورہا تھا۔ مجھے کیوں نکالا تو ضرب المثل بن گیا۔ کسی بھی ادارے سے نکالے جانے والے افراد جو پہلے پروانہ تنزلی لے کر خاموشی سے چلے جاتے تھے، اب سینہ تان کر ڈٹ کر پوچھتے نظر آتے ہیں، مجھے کیوں نکالا گیا۔
مجھے کیوں نکالا گیا اور ووٹ کے تقدس میں جو واضح فرق ہمیں نظر آتا ہے، وہ ہے کرداروں کی جسمانی حرکات۔ پہلے والے ڈرامہ میں بیچارگی، مظلومیت، رونے دھونے والے کریکٹر تھے، جو معاشرے سے شکوہ شکایات کرتے نظر آتے تھے، مگر ووٹ کے تقدس میں ایک اعتماد نظر آرہا ہے۔ کرداروں کے ہاتھ میں اسکرپٹ بھی موجود ہے اور اب میڈیا کے سوالوں کے جواب دینا بھی گوارا نہیں، کیونکہ کامیابی جو مل گئی، اس سے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، مگر عوام کی طرف سے ابھی ووٹ کے تقدس کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو کہ مجھے کیوں نکالا کو ملی تھی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
امید کی جاتی ہے کہ عوام وخواص کو محظوظ کریں گے۔ عوام تو ان کے اسٹائل پر ویسے ہی فدا ہیں، جب یہ کردار حبیب جالب کے اشعار پڑھتا تو ایک سماں بندھ جاتا ہے اور عوام اسکرین پر جو کچھ جمع پونجی ہے، وہ سب کچھ بھی لٹا کر ہوش میں نہیں آتے۔ یہ بڑی مہنگی کاسٹ پر پروڈیوس کیا گیا ہے، ایکسٹرا اداکاروں نے بھی کروڑوں روپے صرف ایک دو دن کی انٹری پر لیے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک سین کی شوٹنگ، کہ ووٹ کے تقدس کا ایک اہم سین تھا، جس میں کسی نااہل شخص کو بھی کسی سیاسی پارٹی کا صدر بننے کا موقع ملتا ہے۔ اس سین کی فلم بندی پر بڑا رش دیکھنے میں آیا۔ اکثر اداکاروں نے صرف ایک جھلک دکھانے کے بھی کروڑوں روپے مانگ لیے، مگر پروڈیوسر کے ماتھے پر ایک بل نہ آیا۔ اس لیے یہ شوٹنگ جلد ہی کوئی ری ایکٹ کیے بغیر پہلے ہی مرحلے پر مکمل کرلی گئی۔
اس ڈرامے کے ذریعے عوام کو نئی سوچ ملے گی کہ نااہل ہونا کوئی بات نہیں، آپ قتل کریں، کسی کی جیب سے پیسے اڑائیں، ڈاکے ڈالیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ آپ کوئی بھی سیاسی پارٹی بنا کر اس کے صدر بن سکتے ہیں، بھلے ہم اپنے ذاتی کاروبار میں کسی نااہل سزا یافتہ انسان کو ملازمت نہیں دے سکتے، مگر ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھمانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ملک کے آئین میں جو ایک شق تھی کہ بظاہر نیک چال چلن، نیک اطوار لوگ ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
تو اب ''ووٹ کے تقدس'' کی ریلیز کے بعد شاید یہ شق بھی ختم ہوجائے۔ پاکستان کے ہر شخص کو خواہ وہ نیک ہو یا بد، سب کو حکومت کے مزے لوٹنے کا حق ہے۔ اس ڈرامہ سیریز کے ہٹ ہونے کے امکانات کافی روشن ہیں، کیونکہ اس سے تمام افراد کے دل کی ترجمانی ہورہی ہے، جوکہ نااہل ہیں۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ پاکستان کی جیلوں کے قیدیوں نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس کی بدولت اب ہمیں بھی شاید ملک کی خدمت کرنے کا موقع مل جائے۔ ڈرامہ کے پروڈیوسر نے ہر خاص و عام سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ڈرامہ کو ضرور دیکھیں، میڈیا سے بھی خصوصی درخواست ہے کہ اس کو اپنی خبروں بلکہ بریکنگ نیوز کا حصہ بنا کر ڈرامہ کی کامیابی میں بھرپور کردار ادا کرے۔
کسی بھی معاشرے میں جب بھی کوئی نئی چیز متعارف کروائی جاتی ہے تو کچھ نامعلوم افراد اس پر بڑا سیاپا ڈالتے ہیں، اس لیے اگر میڈیا کی نظر کرم ہوگی تو عام افراد تک بھی اس کے اثرات پہنچ سکیں گے، کیونکہ ووٹ کے تقدس سے بھی اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے حلقہ 120 میں ووٹ کے تقدس کا خیال کیا گیا کہ ووٹر خود بھی حیران ہوا اور یہ ہی وجہ ہے کہ ووٹ کے تقدس کو مجھے کیوں نکالا گیا کے بعد اگلی سیریز بنایا گیا۔ ہماری ناقص رائے میں تو ہر شخص کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اس ڈرامہ کو ضرور دیکھیں تاکہ ان کو بھی اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔
اب کچھ تجزیہ ہوجائے مجھے کیوں نکالا گیا پر۔ یہ ایک روزہ مکمل ڈرامہ تھا، مگر اس کو کئی بار ریپیٹ کیا گیا، جس کی وجہ سے اس کو بہت زیادہ پسند کیا گیا، سوشل میڈیا پر اس کا ٹائٹل بہت زیادہ پاپولر رہا۔ اس کا اہم کردار جس نے ادا کیا اس نے اپنی پرفارمنس سے اس میں جان ڈال دی تھی۔دیکھنے اور سننے والے جب یہ ڈائیلاگ سنتے کہ مجھے کیوں نکالا گیا تو ہر طرف داد کے ڈونگرے برسنے شروع ہوجاتے، اداکاری پر حقیقت کا گماں ہورہا تھا۔ مجھے کیوں نکالا تو ضرب المثل بن گیا۔ کسی بھی ادارے سے نکالے جانے والے افراد جو پہلے پروانہ تنزلی لے کر خاموشی سے چلے جاتے تھے، اب سینہ تان کر ڈٹ کر پوچھتے نظر آتے ہیں، مجھے کیوں نکالا گیا۔
مجھے کیوں نکالا گیا اور ووٹ کے تقدس میں جو واضح فرق ہمیں نظر آتا ہے، وہ ہے کرداروں کی جسمانی حرکات۔ پہلے والے ڈرامہ میں بیچارگی، مظلومیت، رونے دھونے والے کریکٹر تھے، جو معاشرے سے شکوہ شکایات کرتے نظر آتے تھے، مگر ووٹ کے تقدس میں ایک اعتماد نظر آرہا ہے۔ کرداروں کے ہاتھ میں اسکرپٹ بھی موجود ہے اور اب میڈیا کے سوالوں کے جواب دینا بھی گوارا نہیں، کیونکہ کامیابی جو مل گئی، اس سے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، مگر عوام کی طرف سے ابھی ووٹ کے تقدس کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو کہ مجھے کیوں نکالا کو ملی تھی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔