بلدیاتی نظام ترقی کا واحد راستہ
کراچی شہر پہلے ٹرانسپورٹ پر ہونے والے تضادات کا شکار ہوا، پھر اس کی شکل لسانی ہوگئی۔
سندھ میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی ایکٹ سندھ اسمبلی نے منسوخ کردیا۔ اب جنرل ضیاء الحق کا نافذ کردہ 1979 کا قانون سندھ بھر میں نافذ ہوگیا۔ گزشتہ 5 برسوں کے دوران سندھ میں پانچ دفعہ بلدیاتی ڈھانچے کے بارے میں قوانین نافذ اور منسوخ ہوئے، اب مئی میں نئے انتخابات کے بعد سندھ میں بلدیاتی ڈھانچے کی کیا صورتحال ہوگی، ایک پراسرار خاموشی مستقبل سے منسلک ہوگئی ہے۔ پاکستان کی 65 برسوں کی تاریخ میں بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ سیاسی حکومتوں نے منتخب بلدیاتی اداروں کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں کا مخالف سمجھا۔ فوجی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو منتخب اداروں کے طور پر استعمال کیا، یوں شہر اور گاؤں بنیادی ترقی سے محروم رہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی تعمیر، تعلیم اور صحت کی سہولتوں، صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی و امن و امان کو یقینی بنانے میں شہریوں کی شرکت کے حوالے سے پاکستانی شہر اور گاؤں گزشتہ صدی کے وسط کے شہروں اور گاؤں کی تصویر بنے رہے۔ جب 1973 میں نیا آئین تیار ہوا تو آئین میں بلدیاتی اداروں کے قیام کو جمہوری نظام کے ارتقا سے منسلک کیا گیا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں بلدیاتی اداروں پر منتخب اراکین کی بالادستی اور اختیارات کے ارتکاز کے ذریعے ترقی کے عمل کو بہتر کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ جب جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو ان کے مشیروں نے بلدیاتی انتخابات کا تصور پیش کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس آئیڈیا کو منظور کرلیا کیونکہ ان کے سینئر جنرل ایوب خان بلدیاتی انتخابات کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے انتخابات کا کام لے چکے تھے اور اپنے بنیادی جمہوریت کے نظام کو امریکی صدر کے انتخابات کے الیکٹرول کالج کے نظام سے منسلک کرتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کا بلدیاتی نظام نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے تصور سے محروم ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت ملک کے سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور کے میئر سیکریٹری بلدیات کے ماتحت ہوتے ہیں۔ منتخب اراکین کو انتہائی محدود انتظامی اور مالیاتی اختیارات ہوتے ہیں۔ محکمہ بلدیات کے افسران ان منتخب اداروں اور منتخب اراکین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اس قانون کے تحت قائم ہونے والے منتخب اداروں کو ملک میں جمہوریت نہ ہونے کے الزام کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے استعمال کیا مگر یہ منتخب ادارے شہروں اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہ کرسکے۔
صرف اس آرڈیننس کے تحت سندھ میں ہونے والی تبدیلیوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت زیادہ سیاہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جنگ کی بناء پر مختلف شہروں سے آنے والے افراد کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ کراچی میں سیکڑوں کچی بستیاں آباد ہوئیں، پانی کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس ہوئی مگر اس دور میں شہر کو اگلے چند برسوں کے دوران درپیش چیلنجز کے بارے میں کچھ اقدامات نہیں کیے گئے۔ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی موٹر وہیکل ٹیکس بلدیہ کو مستقل کرنے کا مطالبہ نہیں منوا سکے۔ کراچی کی بے ہنگم ترقی ناقص منصوبہ بندی کے اثرات 80 کی دہائی کے آخری حصے میں رونما ہونے لگے۔
کراچی شہر پہلے ٹرانسپورٹ پر ہونے والے تضادات کا شکار ہوا، پھر اس کی شکل لسانی ہوگئی۔ مختلف نوعیت کی مافیاز نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ گزشتہ 22 برسوں کے دوران جو کچھ ہورہا ہے اس کا تعلق 80 کی دہائی کی ناقص منصوبہ بندی سے جڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیر نگرانی 1988 میں پیپلز پارٹی کا پہلا انتخابی منشور تیار ہوا تو محترمہ کی ہدایت پر نیو سوشل کنٹریکٹ New Social Contract منشور کا حصہ بنا۔ اس نئے سماجی معاہدے کے تحت ڈسٹرکٹ گورنر کا ذکر ہوا۔ برطانیہ کے شہروں میں قائم کاؤنٹی کی طرز پر ڈسٹرکٹ گورنر منتخب ہوتے تھے، بہرحال پیپلز پارٹی کے منشور کی دوسری شقوں کی طرح اس آرٹیکل پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ منتخب اراکین سڑکیں بنوانے اور گٹر لائن کھدوانے کو اپنے بنیادی فریضہ سمجھتے رہے مگر سندھ کے شہر اور گاؤں ترقی کے عمل میں پسما ندہ رہ گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک اختیارات کے تحت بلدیاتی نظام قائم ہوا تو پیپلز پارٹی نے اس نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لیا۔
صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نواب شاہ اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی ڈاکٹر نفیسہ شاہ خیرپور کی ناظمہ منتخب ہوئیں۔ پہلی دفعہ شہروں میں ترقی کا عمل تیز ہوا۔ چھوٹے شہروں اور گاؤں میں یہ قانون تبدیلی کا باعث نہیں بنا۔ اس موضوع پر کبھی صوبائی اور قومی اسمبلی میں بحث نہیں ہوئی۔ 2008 سے یہ قانون سندھ میں متنازعہ بن گیا۔ پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین میں یہ سوچ تقویت پاگئی کہ بلدیاتی نظام سے حکومت سندھ کے متوازی ڈھانچہ قائم ہوگیا ہے، کراچی اور حیدرآباد میں اس نظام پر ایم کیو ایم کی بالادستی سے ان کے حکومتوں میں آنے کے مقاصد پورے نہیں ہورہے ہیں۔ اس سوچ کے تحت بلدیاتی نظام کی مخالفت شروع ہوئی۔
صدر زرداری اپنی حکومت کے مستقبل کے لیے ایم کیو ایم کو لازمی سمجھتے تھے، اس لیے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا گیا اور بلدیاتی انتخابات کے معاملے کو التوا میں ڈالنے کے لیے بات چیت کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ مخصوص مقاصد کے لیے یہ بات چیت طویل کی گئی۔ اس دوران نادیدہ قوتوں نے پیپلز پارٹی کے بعض اراکین اور قوم پرستوں کو مجوزہ بلدیاتی نظام کے خلاف متحد کرنا شروع کیا۔ کراچی میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب رہی، ایم کیو ایم وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں شراکت دار ہونے کے باوجود امن و امان کو یقینی بنانے کے عمل میں مکمل طور پر شریک نہیں ہوئی، نتیجتاً مسائل گنجلک ہوتے گئے۔ اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اقتدار میں آنے کے فوراً بعد نئے بلدیاتی ڈھانچے پر اتفاق کرلیتے اور صوبے میں بلدیاتی انتخابات ہوجاتے تو پنجاب کے مرد آہن میاں شہباز شریف کے پاس اپنے صوبے میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا کوئی جواز نہیں رہتا مگر کیونکہ پیپلز پارٹی سیاسی عمل کے ذریعے مخالفین کو شکست دینے پر یقین نہیں رکھتی اسی بنا پر یہ ہتھیار کند ہوگیا۔
گزشتہ سال پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے طویل مذاکرات اور کشیدگی کے ماحول میں بلدیاتی قانون پر اتفاق کیا تھا تو پیپلز پارٹی کے اراکین کے علاوہ قوم پرست اس قانون کی مخالفت کے لیے موجود رہے۔ ان میں سے کچھ کمشنری نظام کو ترقی کا زینہ سمجھتے تھے، کچھ ''سندھو دیش'' کے قیام تک کسی قسم کے بلدیاتی نظام کو سندھ کے مفاد کے خلاف جانتے تھے مگر کچھ سنجیدہ دانش وروں کے اس آرڈیننس پر حقیقی اعتراضات تھے۔ ان اعتراضات میں سب سے اہم اعتراض کراچی کو ایک ضلع بنانے اور حیدر آباد کو علیحدہ ضلعوں میں تقسیم کرکے دو علیحدہ فارمولوں کے نفاذ کے بارے میں تھا۔ ان اعتراضات پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو ان کا حل نکل سکتا تھا مگر پیپلز پارٹی نے پہلے بلدیاتی قانون کے حق میں مہم چلائی۔ سید قائم علی شاہ، پیر مظہر الحق، ایاز سومرو، شرجیل انعام میمن اور شہلا رضا اس قانون کی مداح سرائی کرتی رہیں، پھر اچانک اس قانون کی خامیاں سامنے آگئیں۔
اب پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم میں کمشنری نظام کے فوائد اور جنرل ضیاء الحق کے قانون کی خوبیاں بیان کرے گی۔ ایم کیو ایم منسوخ ہونے والے قانون کی خوبیاں بیان کر کے انتخابی مہم چلائے گی۔ کچھ مبصرین اس صورتحال کو طے شدہ قرار دیتے ہیں، کچھ صدر زرداری کی بصیرت کی ثناء خوانی کررہے ہیں مگر انتخابی مہم میں ایک منفی فضا قائم کرنے کے بعد جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ اسمبلی کی اکثریتی نشستوں پر قبضہ کرکے واپس آئے گی تو پھر مذاکرات میں یہ معاملہ اہم ہوگا۔ اس وقت ملک بھر کے انتخابی نتائج کی روشنی میں نادیدہ قوتیں دونوں جماعتوں کے اراکین کو کیا بریف کرکے اپنے نتائج حاصل کرے گی؟ اس اہم پہلو پر غور نہیں ہورہا۔
سندھ میں بلدیاتی نظام پر عدم اتفاق اور پانچ دفعہ تبدیلیاں پیپلز پارٹی کی قیادت کی Governance کی اہمیت سے عدم دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔ اب بھی اگر انتخابی مہم میں دونوں جماعتیں نئے بلدیاتی نظام کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کریں اور رائے عامہ ہموار کریں تو مستقبل میں کسی خوشگوار تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر اس حقیقت کو ہر باشعور شخص کو تسلیم کرنا ہوگا کہ نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے بلدیاتی نظام کے بغیر جمہوری ادارے مکمل نہیں ہوتے اور جمہوری رویہ مستحکم نہیں ہوتا۔ ملک میں شہروں اور دیہاتوں کی ترقی کے لیے نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کو اپنانا ہوگا۔
پبلک ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی تعمیر، تعلیم اور صحت کی سہولتوں، صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی و امن و امان کو یقینی بنانے میں شہریوں کی شرکت کے حوالے سے پاکستانی شہر اور گاؤں گزشتہ صدی کے وسط کے شہروں اور گاؤں کی تصویر بنے رہے۔ جب 1973 میں نیا آئین تیار ہوا تو آئین میں بلدیاتی اداروں کے قیام کو جمہوری نظام کے ارتقا سے منسلک کیا گیا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں بلدیاتی اداروں پر منتخب اراکین کی بالادستی اور اختیارات کے ارتکاز کے ذریعے ترقی کے عمل کو بہتر کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ جب جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو ان کے مشیروں نے بلدیاتی انتخابات کا تصور پیش کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس آئیڈیا کو منظور کرلیا کیونکہ ان کے سینئر جنرل ایوب خان بلدیاتی انتخابات کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے انتخابات کا کام لے چکے تھے اور اپنے بنیادی جمہوریت کے نظام کو امریکی صدر کے انتخابات کے الیکٹرول کالج کے نظام سے منسلک کرتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کا بلدیاتی نظام نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے تصور سے محروم ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت ملک کے سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور کے میئر سیکریٹری بلدیات کے ماتحت ہوتے ہیں۔ منتخب اراکین کو انتہائی محدود انتظامی اور مالیاتی اختیارات ہوتے ہیں۔ محکمہ بلدیات کے افسران ان منتخب اداروں اور منتخب اراکین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اس قانون کے تحت قائم ہونے والے منتخب اداروں کو ملک میں جمہوریت نہ ہونے کے الزام کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے استعمال کیا مگر یہ منتخب ادارے شہروں اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہ کرسکے۔
صرف اس آرڈیننس کے تحت سندھ میں ہونے والی تبدیلیوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت زیادہ سیاہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جنگ کی بناء پر مختلف شہروں سے آنے والے افراد کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ کراچی میں سیکڑوں کچی بستیاں آباد ہوئیں، پانی کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس ہوئی مگر اس دور میں شہر کو اگلے چند برسوں کے دوران درپیش چیلنجز کے بارے میں کچھ اقدامات نہیں کیے گئے۔ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی موٹر وہیکل ٹیکس بلدیہ کو مستقل کرنے کا مطالبہ نہیں منوا سکے۔ کراچی کی بے ہنگم ترقی ناقص منصوبہ بندی کے اثرات 80 کی دہائی کے آخری حصے میں رونما ہونے لگے۔
کراچی شہر پہلے ٹرانسپورٹ پر ہونے والے تضادات کا شکار ہوا، پھر اس کی شکل لسانی ہوگئی۔ مختلف نوعیت کی مافیاز نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ گزشتہ 22 برسوں کے دوران جو کچھ ہورہا ہے اس کا تعلق 80 کی دہائی کی ناقص منصوبہ بندی سے جڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیر نگرانی 1988 میں پیپلز پارٹی کا پہلا انتخابی منشور تیار ہوا تو محترمہ کی ہدایت پر نیو سوشل کنٹریکٹ New Social Contract منشور کا حصہ بنا۔ اس نئے سماجی معاہدے کے تحت ڈسٹرکٹ گورنر کا ذکر ہوا۔ برطانیہ کے شہروں میں قائم کاؤنٹی کی طرز پر ڈسٹرکٹ گورنر منتخب ہوتے تھے، بہرحال پیپلز پارٹی کے منشور کی دوسری شقوں کی طرح اس آرٹیکل پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ منتخب اراکین سڑکیں بنوانے اور گٹر لائن کھدوانے کو اپنے بنیادی فریضہ سمجھتے رہے مگر سندھ کے شہر اور گاؤں ترقی کے عمل میں پسما ندہ رہ گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک اختیارات کے تحت بلدیاتی نظام قائم ہوا تو پیپلز پارٹی نے اس نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لیا۔
صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نواب شاہ اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی ڈاکٹر نفیسہ شاہ خیرپور کی ناظمہ منتخب ہوئیں۔ پہلی دفعہ شہروں میں ترقی کا عمل تیز ہوا۔ چھوٹے شہروں اور گاؤں میں یہ قانون تبدیلی کا باعث نہیں بنا۔ اس موضوع پر کبھی صوبائی اور قومی اسمبلی میں بحث نہیں ہوئی۔ 2008 سے یہ قانون سندھ میں متنازعہ بن گیا۔ پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین میں یہ سوچ تقویت پاگئی کہ بلدیاتی نظام سے حکومت سندھ کے متوازی ڈھانچہ قائم ہوگیا ہے، کراچی اور حیدرآباد میں اس نظام پر ایم کیو ایم کی بالادستی سے ان کے حکومتوں میں آنے کے مقاصد پورے نہیں ہورہے ہیں۔ اس سوچ کے تحت بلدیاتی نظام کی مخالفت شروع ہوئی۔
صدر زرداری اپنی حکومت کے مستقبل کے لیے ایم کیو ایم کو لازمی سمجھتے تھے، اس لیے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا گیا اور بلدیاتی انتخابات کے معاملے کو التوا میں ڈالنے کے لیے بات چیت کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ مخصوص مقاصد کے لیے یہ بات چیت طویل کی گئی۔ اس دوران نادیدہ قوتوں نے پیپلز پارٹی کے بعض اراکین اور قوم پرستوں کو مجوزہ بلدیاتی نظام کے خلاف متحد کرنا شروع کیا۔ کراچی میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب رہی، ایم کیو ایم وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں شراکت دار ہونے کے باوجود امن و امان کو یقینی بنانے کے عمل میں مکمل طور پر شریک نہیں ہوئی، نتیجتاً مسائل گنجلک ہوتے گئے۔ اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اقتدار میں آنے کے فوراً بعد نئے بلدیاتی ڈھانچے پر اتفاق کرلیتے اور صوبے میں بلدیاتی انتخابات ہوجاتے تو پنجاب کے مرد آہن میاں شہباز شریف کے پاس اپنے صوبے میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا کوئی جواز نہیں رہتا مگر کیونکہ پیپلز پارٹی سیاسی عمل کے ذریعے مخالفین کو شکست دینے پر یقین نہیں رکھتی اسی بنا پر یہ ہتھیار کند ہوگیا۔
گزشتہ سال پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے طویل مذاکرات اور کشیدگی کے ماحول میں بلدیاتی قانون پر اتفاق کیا تھا تو پیپلز پارٹی کے اراکین کے علاوہ قوم پرست اس قانون کی مخالفت کے لیے موجود رہے۔ ان میں سے کچھ کمشنری نظام کو ترقی کا زینہ سمجھتے تھے، کچھ ''سندھو دیش'' کے قیام تک کسی قسم کے بلدیاتی نظام کو سندھ کے مفاد کے خلاف جانتے تھے مگر کچھ سنجیدہ دانش وروں کے اس آرڈیننس پر حقیقی اعتراضات تھے۔ ان اعتراضات میں سب سے اہم اعتراض کراچی کو ایک ضلع بنانے اور حیدر آباد کو علیحدہ ضلعوں میں تقسیم کرکے دو علیحدہ فارمولوں کے نفاذ کے بارے میں تھا۔ ان اعتراضات پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو ان کا حل نکل سکتا تھا مگر پیپلز پارٹی نے پہلے بلدیاتی قانون کے حق میں مہم چلائی۔ سید قائم علی شاہ، پیر مظہر الحق، ایاز سومرو، شرجیل انعام میمن اور شہلا رضا اس قانون کی مداح سرائی کرتی رہیں، پھر اچانک اس قانون کی خامیاں سامنے آگئیں۔
اب پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم میں کمشنری نظام کے فوائد اور جنرل ضیاء الحق کے قانون کی خوبیاں بیان کرے گی۔ ایم کیو ایم منسوخ ہونے والے قانون کی خوبیاں بیان کر کے انتخابی مہم چلائے گی۔ کچھ مبصرین اس صورتحال کو طے شدہ قرار دیتے ہیں، کچھ صدر زرداری کی بصیرت کی ثناء خوانی کررہے ہیں مگر انتخابی مہم میں ایک منفی فضا قائم کرنے کے بعد جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ اسمبلی کی اکثریتی نشستوں پر قبضہ کرکے واپس آئے گی تو پھر مذاکرات میں یہ معاملہ اہم ہوگا۔ اس وقت ملک بھر کے انتخابی نتائج کی روشنی میں نادیدہ قوتیں دونوں جماعتوں کے اراکین کو کیا بریف کرکے اپنے نتائج حاصل کرے گی؟ اس اہم پہلو پر غور نہیں ہورہا۔
سندھ میں بلدیاتی نظام پر عدم اتفاق اور پانچ دفعہ تبدیلیاں پیپلز پارٹی کی قیادت کی Governance کی اہمیت سے عدم دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔ اب بھی اگر انتخابی مہم میں دونوں جماعتیں نئے بلدیاتی نظام کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کریں اور رائے عامہ ہموار کریں تو مستقبل میں کسی خوشگوار تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر اس حقیقت کو ہر باشعور شخص کو تسلیم کرنا ہوگا کہ نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے بلدیاتی نظام کے بغیر جمہوری ادارے مکمل نہیں ہوتے اور جمہوری رویہ مستحکم نہیں ہوتا۔ ملک میں شہروں اور دیہاتوں کی ترقی کے لیے نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کو اپنانا ہوگا۔