فوجیوں پر حملہ کیس میں نامزد پی پی ایم پی اے سیاسی دباؤ پر کلیئر قرار

درخشاں انویسٹی گیشن پولیس حملے اور سرکاری اسلحہ چھینے والے ملزمان کی گرفتاری میں تاحال ناکام


کاشف ہاشمی October 10, 2017
پولیس ٹال مٹول کر رہی ہے،گاڑیوں کے نمبر سے نامزد ملزمان تک با آسانی پہنچا جا سکتا ہے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

درخشاں انویسٹی گیشن پولیس کور کمانڈر کی فیملی کے اسکارڈ پاکستان آرمی کے اہلکاروں پر حملہ اور سرکاری اسلحہ چھینے والے ملزمان کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام رہی جبکہ دوسری جانب ملزمان کی گرفتاری سے قبل ہی پولیس نے مقدمے میں نامزد پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی کو سیاسی دباؤ پر کلیئر قرار دیدیا۔

درخشاں پولیس نے 16 ستمبر کو پاکستان آرمی کے حوالدار فہیم اﷲ جان کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 485/17 درج کیا تھا جس میں الزام لگایا کہ مون ، اسد ، جہانگیر اور منظور نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی طارق مسعود آرائیں کی ایما پرمار پیٹ، جان سے مارنے کی دھمکی اورسرکاری اسلحہ چھینا،23 روز گزرنے کے باوجود انویسٹی گیشن پولیس تاحال ملزمان کوگرفتارنہ کرسکی۔

اس حوالے سے رابطے پرانویسٹی گیشن کے انچارج انسپکٹرنعیم اعوان نے بتایاکہ تفتیش کا عمل جاری ہے، پولیس نے طارق مسعود آرائیں سے رابطہ کیاتھا۔ جنھوں نے اپنے بیان میں کہاکہ وہ16ستمبرکو پاکستان میں ہی موجود نہیں تھے اس بات کا ثبوت بھی انھوں نے پیش کیا۔

طارق مسعود کاکہنا تھاکہ وہ نامزد ملزمان کونہیں جانتے، انسپکٹر نعیم اعوان کاکہنا تھا کہ مدعی نے مقدمے کے بیان میں غلط بیانی سے کام لیا، طارق مسعود آرائیں اس معاملے میں ملوث نہیں،نامزد ملزمان مون، اسد، جہانگیر، منظور سمیت 16سے زائد افرادکی تلاش جارہی ہے، انھوں نے بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے بعد معلوم ہوسکے گاکہ انھوں نے کس کو فون کیا تھاکہ فوری طورپر دو گاڑیاں موقع پر پہنچ گئی تھیں۔ جس میں 15 سے 18 مسلح افراد سوار تھے جنھوں نے حملہ کیااور سرکاری اسلحہ چھینا۔

ذرائع کاکہنا ہے کہ انویسٹی گیشن پولیس دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلیے ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے ایف آئی آر میں مسلح ملزمان کی گاڑی نمبرگاڑی نمبر BSZ.011 اور DJ.2222 تحریر ہے جس باآسانی ملزمان کا سراغ لگایا جا سکتا ہے لیکن پولیس سیاسی دباؤ پر مذکورہ مقدمے کی باریک بینی تفتیش نہیں کرنا چاہتی اور اعلی افسران کی جانب سے درخشاں انویسٹی گیشن پولیس کومذکورہ واقعے کی تفتیش کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنے کا مشورہ دیاگیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں