فوج کے مثبت اشارے
میں کئی بار اس رائے کا اظہار کرچکا ہوں کہ جنرل کیانی جس شخص کا نام ہے، وہ کوئی مہم جوئی نہیں کریں گے
آرمی چیف جنرل کیانی نے مناسب سمجھا کہ میڈیا کے ذریعے عوام کو یقین دلا دیا جائے کہ فوج آنے والے انتخاب میں کوئی رکاوٹ نہیں۔اس کی خواہش ہے کہ الیکشن شفاف ہو،غیر جانبدارانہ ہو، منصفانہ ہو۔یہ سب کچھ بتانے کے لیے منتخب کالم نگار اور اینکرز کو اسلام آباد میں مدعو کیا گیا، کافی عرصے کے بعد مجھے بھی اس فہرست میں شامل ہونے کے قابل سمجھا گیا مگر میں صحت کی خرابی کی وجہ سے سفر کے قابل نہ تھا، اس لیے آرمی چیف سے ملاقات اور ان کی باتیںآمنے سامنے سننے سے محروم رہا، مجھے اس محرومی کا قلق ہے، مگر آئی ایس پی آر کا پھر بھی ڈھیروں شکریہ!
میں کئی بار اس رائے کا اظہار کرچکا ہوں کہ جنرل کیانی جس شخص کا نام ہے، وہ کوئی مہم جوئی نہیں کریں گے، یہ میں نے اس وقت بھی لکھا تھاجب انھوں نے فوج کی پہلے دن کمان سنبھالی تھی،میں نہ نجومی ہوں،نہ جی ایچ کیو کا راز داں، ایک تجزیہ کار ہوں،ویسے بھی جب فوج کا کوئی سربراہ قوم سے یہ وعدہ کرے کہ ان کی کمان میں فوج کسی بھی سیاست میں نہیں پڑے گی، حکومت میں منہ نہیں مارے گی۔ انھوں نے ہر حال میں یہ وعدہ پورا کر دکھایا۔کیسا کیسا سنہری موقع نہیں آیا، میڈیا کے طوطے چیختے چلاتے رہے کہ حکومت کاخاتمہ ہوا کہ ہوا، آئے روز نئی تاریخ دے دی جاتی، مگر آفرین ہے فوج کے سربراہ پر کہ انھوںنے نہ تو مہم جوئی کرنا تھی اور نہ ہی موقع ملنے پر کی۔میڈیا میں جو بھی شورو غوغا تھا ،وہ یا تو گوئبلز اپنی عادت سے مجبور تھے یا پھر فوج کو مسلسل دبائو کا شکار رکھنا اس کا مقصد ہو سکتا ہے۔
میمو گیٹ پر تو ایک تماشہ لگ گیا۔ ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ اس کے پردے میں مارشل لا آرہا ہے مگر میمو قصہ ماضی ہو گیا اورمارشل لاکا بھوت دورو نزدیک تک نظر نہ آیا۔اب جنرل الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو یار لوگوں کو پھر بدخوابی کا عارضہ لاحق ہوا ، سیاسی پارٹیوں نے الیکشن کے لیے کوئی ہوم ورک تو کیا نہیں۔عوام کا سامنا کرنا ان کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہے، سو ایک بار پھر نادیدہ قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو مطعون کیا جانے لگا کہ وہ الیکشن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اور ٹیکنو کریٹ کو دو تین سال کے لیے مسلط کرنے کی سازش پروان چڑھائی جا رہی ہے۔کسی نے فوج پر عمران کی نئی انگڑائی کی پشت پناہی کا الزام لگایا اور کسی نے ڈاکٹر طاہر القادری کی واپسی کے پس پردہ نادیدہ قوتوں کی کھوج لگانے کے کار فضول میں ہاتھ ڈال لیا۔
کوئی کوئٹہ کی بے رحمانہ قتل وغارت کو الیکشن کے التوا کا سبب سمجھنے لگا، کسی نے لہو لہان کراچی کے مرضی کے معانی لغت میں ڈھونڈنے شروع کر دیے۔فوج ایک عرصے سے طعنے سن رہی تھی، مگر چپ تھی۔آخر صبر کی کوئی حد ہوتی ہے، فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے قوم سے سوال پوچھا کہ اگر پانچ سال تک ہم نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو اس نیک نامی کو اب آخری لمحے ضایع کیوں کریں گے۔ کسی کے پاس سوال کا جواب نہ تھا۔معترضین کی زبان بند کرنے میں کوئی کسر باقی تھی تو آرمی چیف نے نکال دی، وہ میڈیا سے ملے، ہر سوال کا جواب دیتے رہے، ملک اور دنیا کے تمام مسائل پر کابھر پور جائزہ لیا گیا، گھنٹو ںپر محیط اس بریفنگ کی تفصیلات اب خبروں ، تجزیوں، اور کالموں کی شکل میں سامنے آ رہی ہیں۔
ابھی تک اس بریفنگ میں شریک کسی نے نہیں کہا کہ اسے اپنے سوالوں کا جواب نہیں ملا، یا کوئی موضوع تشنہ رہ گیا یا کوئی شک و شبہہ اب بھی باقی ہے، یہ سیر حاصل گفتگو تھی اور اس کے ذریعے صرف قوم ہی کی تشفی کرانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ علاقے میں موجود عالمی قوتوں کو بھی اہم پیغامات دیے گئے۔یہ بتا دیا گیا کہ پاکستان کی قربانیاں بے مقصد اور رائیگاں نہیں جائیں گی، پہلی افغان جنگ کی طرح پاکستان کو گھاٹے کا سودا نہیں کرنا پڑے گا۔اس بار بھارت نے لچ تلنے کی کوشش تو بہت کی، اس کے پاس افغانستان میں تعمیراتی ٹھیکے بھی بہت ہیں ، اپنے عملے کی سیکیورٹی ے نام پر وہ وہ نان اسٹیٹ ایکٹر بھی لانے کی کوشش میں ہے مگر دنیا کو قائل کر لیا گیاہے کہ افغانستان اور خطے میں استحکام کے لیے پاکستان کا کردار ضروری ہے۔پاکستان اس بات کو سمجھتا ہے کہ افغانستان کا مستقبل طے کرناوہاں کے عوام کا حق ہے، ان پر کوئی بیرونی ایجنڈہ مسلط نہیں کیا جاسکتا۔اور نہ ان کو متحارب گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے۔
اب نوے کا عشرہ واپس نہیں آسکتا۔ امریکا اور طالبان بے شک آزادانہ مذاکرات کریں لیکن پاکستان اپنے طالبان اور انتہا پسندوں سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔ان کے ہاتھوں پاکستان میں خون کی ندیاں بہتی رہیں۔اس مسئلے پر فوج اپنی قومی قیادت کی رہنمائی چاہتی ہے تا کہ کوئی پائیدار اور مستحکم پالیسی طے کی جا سکے۔ملکی معیشت کی زبوں حالی پر فوج سخت متفکر ہے، زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں ، اندرونی اور بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں۔اگلا بجٹ سر پر ہے،کوئی ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ جواب دہی کا کسی کو احساس نہیں، ابھی لوگوں نے الیکشن کمیشن کے ایک خط کا حشر دیکھ لیا کہ ارکان پارلیمنٹ نے اس پر کیا قیامت کھڑی کر دی۔اگر ٹیکس چور، کرپٹ اور استحصالی مافیا کا آئین اور قانون کی رو سے نمدا کسا گیا تو یہ ایک حشر کھڑا کر دیں گے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے نادیدہ قوتوں پر الزام تراشی شروع کر دیں گے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ جنرل کیانی کی اتوار کی بریفنگ سے شکوک و شبھات کے بادل چھٹ جائیں گے۔
یہ اطلاع کہ جنرل کیانی وقت پر ریٹائر ہو نا چاہتے ہیں اور مزید ایکس ٹنشن قبول نہیں کریں گے۔ اصولی طور پر یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے لیکن نئے الیکشن کی فضا، ایک کمزور نگران حکومت ،اور الیکشن کے بعد نئی حکومت کی ناتجربہ کاری سے معاملات گڑ بڑ ا سکتے ہیں۔امریکا افغانستان سے جا رہا ہے، علاقے میں اتھل پتھل کا سماں ہو گا، ایک ایساخلا اور ایسی بے یقینی کہ جس پر سیاسی اور دفاعی قیادت کے مضبوط اعصاب کے ساتھ ہی قابو پایا جا سکتا ہے مگر ہمارے ہاں سب چہرے نئے ہوں گے اور ہم ایک کڑی آزمائش سے دو چار ہوں گے، خود الیکشن کا ہنگام بھی کوئی ٹرن لے سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی خواہش ہے کہ فوج امن و مان کی ڈیوٹی سنبھالے لیکن بیرونی اور اندرونی خطرات میں فوج کو اس ڈیوٹی کے لیے فارغ کرنا مشکل ہو گا۔فوج اگر ہر پولنگ اسٹیشن پر موجود بھی ہوتو یہ انتظام فیئر اور فری الیکشن کی ضمانت نہیں بن سکتا، اس کی ساری ذمے داری الیکشن کمیشن پر عاید ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔من حیث القوم ہم ایک امتحان سے دو چار ہو رہے ہیں ، اکیلے فوج پر معاملات نہیں چھوڑے جا سکتے ہیں اور نہ ایسا ممکن ہے، جو بھی ہو گا، پوری قوم اس کی ذمے دار ہو گی۔ دہشت گردی کی جنگ کا فیصلہ بھی اکیلے فوج نے نہیں کرنا، پوری قوم نے مل کر کرنا ہے، قوم اگر دھنیا پی کر سوئی رہے تو فوج کو کیا دوش!!