درست تاریخ سے خوف کیوں
ہمارے نوجوانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ اب سے 42 برس پہلے پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ملک تھے۔
ایک طویل عرصہ گزرا کہ'تاریخ' جیسے اہم موضوع سے ہم نے بے اعتنائی برتی ، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ متعدد تاریخی حقائق سے ناواقفیت ہمارے نوجوانوں کا مقدر ہوگئی۔ سب سے المناک بات یہ ہے کہ 70 اور 80 کی دہائی میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والوں کی اکثریت اس تلخ حقیقت سے ناواقف ہے کہ 'مشرقی پاکستان' 'بنگلہ دیش' کیوں بنا اور وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے پاکستان بنانے والوں کی اکثریت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ انھیں پاکستان سے الگ ہوجانا چاہیے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس کے بارے میں ہمارے متعدد دانشور اور تاریخ داں بار بار اشارے کرتے رہے ہیں۔ چند دنوں پہلے لاہور کے ادبی جشن میں شرکت کے لیے آنے والے مشہور دانشور اور ادیب طارق علی نے بھی تاریخ سے اس بے اعتنائی پر گریہ و ماتم کیا ہے۔ وہ پاکستان میں بائیں بازو کے ایک مشہور دانشور ،صحافی اور 'ویو پوائنٹ' کے مدیرمظہر علی خان اور پاکستان میں خواتین کی تحریک کو ترقی پسند خطوط پر منظم کرنے والی متحرک رہنما طاہرہ مظہر علی خان کے بیٹے ہیں۔ طارق علی بہت دنوں سے لندن میں ہیں اور وہاں سے ان کے مضامین، کتابیں اور بیانات ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔
طارق علی نے کہا کہ 'ہمیں تاریخ کی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ اب سے 42 برس پہلے پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ملک تھے۔ تاریخ سے ناواقفیت شہریوں کی غورو فکر کی صلاحیتوں کو سلب کرلیتی اور تباہ وبرباد کردیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر وکی پیڈیا کو ''معلومات کی بائبل'' نہ خیال کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ اس میں کئی باتوںکا اندراج درست نہیں ہوتا۔
ہمارے یہاں نوجوانوںکا کتاب اور بہ طور خاص تاریخ سے رشتہ جس طرح ختم ہوا ہے، طارق علی نے اس پر کھل کر گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنا رشتہ کتابوں سے جوڑنا چاہیے۔ انھوں نے جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کی مثال دی جہاں حال میں عالمی شہرت یافتہ ادیب سروانٹس کے مشہور ناول کی 4 صد سالہ سالگرہ کے موقعے پر وہاں کے صدر ہیوگو شاویز نے اس ناول کو لاکھوں کی تعداد میں شایع کرایا اور وزارت ثقافت کی جانب سے وینز ویلا کے ہر گھر میں پہنچا دیاگیا۔ کسی نے صدر شاویز سے پوچھا کہ کیا وہ اس کی توقع رکھتے ہیں کہ یہ ناول ہر گھر میں پڑھا جائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے لوگوں کی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے یہاں ہر گھر میں کوئی نہ کوئی اتنا پڑھ لکھ چکا ہوگا کہ وہ اس ناول کو پڑھ اور سمجھ سکے۔ انھوں نے کہا کہ یہ طنزیہ ناول اس وقت لکھا گیا جب جنوبی امریکا کا سب سے بڑا ملک اسپین اپنی مسلمان اور یہودی آبادی سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرچکا تھا اور اس ناول کا ہیرو جو ایک مضحکہ خیزکردار ہے ملک کے دیہاتوں اور قصبوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ یہ دیہات اور قصبے انسانوں سے خالی ہوچکے ہیں اور ان میں خاک اڑتی ہے۔ اس ناول کو پڑھنے والا اسپین میں ہونے والی ''نسلی صفائی'' سے اس خالی پن کا رشتہ جوڑ سکتا ہے۔
تاریخ کے بارے میں تین دن پہلے یہی بات ولیم ڈالر مپل نے کہی ہے۔ ڈالر مپل نے گزشتہ 20 برس میں برصغیر کی تاریخ پر کئی ناول اور تحقیقی کتابیں لکھیں جنہوں نے اشاعت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ڈالر مپل کا کہناہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ برطانوی بچوں کو اپنی استعماری تاریخ پڑھائی جائے۔ یہ بات ڈالر مپل نے اس حوالے سے کہی کہ چند دن پہلے جب برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون تین روزہ دورے پر ہندوستان پہنچے تو آخر میں وہ امرتسر گئے ، سیاہ رنگ کا سوٹ پہن کر انھوں نے جلیانوالہ باغ جاکر شہیدوں کی یادگار پر پھول چڑھائے اور اپنا سر جھکا کر تعظیم دی۔ انھوں نے تعزیتی کتاب میں لکھا کہ 'یہ برطانوی تاریخ کا ایک شرمناک واقعہ ہے۔ جسے ونسٹن چرچل نے بجا طور پر ''درندگی'' کہا تھا۔ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہاں کیا ہوا تھا، اور اس سانحے کو یادکرتے ہوئے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ برطانیہ دنیا میں لوگوں کے پُرامن احتجاج کے حق میں آواز بلند کرے۔ انھوں نے اس ہولناک واقعے پر باقاعدہ ''معذرت'' طلب نہ کی جس پر بہت سے ہندوستانی ناراض ہیں۔
برطانوی وزیراعظم کی طرف سے جلیانوالہ باغ کے شہدا کی یادگار پر پھول چڑھانے کا ذکر کرتے ہوئے ڈالر مپل نے جو خود بھی برطانوی شہری ہے، اس کا کہنا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں نے 1757میں بنگال اور 1857 میںدلی، کانپور، لکھنؤ اور شمالی ہند کے دوسرے شہروں میں نہتے شہریوں کا بے دردی سے قتل عام کیا، ہزارہا عورتیں بے حرمت کی گئیں اور کروڑوں کی املاک لوٹی گئی، یہ تمام ایسے معاملات ہیں جن سے برطانوی بچوں کی آگہی لازمی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میرے بچوں کو اسکول میں تاریخ کی کلاس میں نازی مظالم اور دوسرے واقعات پڑھائے جاتے ہیں لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ ہندوستان پر حکومت کرتے ہوئے ہم نے ایک استعماری قوت کے طور پر ہندوستانیوں کے ساتھ کیا مظالم روا رکھے تھے۔اس کا کہنا ہے کہ برطانوی بچوں کواگر اپنی حکومت کی خوبیاں جاننی چاہیں تو انھیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ برطانوی سلطنت فوجی طاقت کے بل پر قائم کی گئی اور اس کی تعمیر کھوپڑیوں کے اس انبار پر ہوئی تھی جو ہار جانے اور مفتوح ہونے والے لوگوں کی تھیں۔
اس وقت بے شمار لوگ یہ سوال کریں گے کہ یہ امرتسر کے کس باغ کا تذکرہ ہے جس پر اتنا شور مچا ہوا ہے۔ تاریخ کے نہ پڑھائے جانے کے یہی نقصانات ہیں۔ یہ واقعہ جو 13اپریل 1919 کو امرتسر میں پیش آیا۔ اس کے بارے میں دنیا میں تاریخ داں کے طور پر نامور حیثیت رکھنے والے ڈاکٹر تارا چند نے اپنی کتاب ''تاریخ آزادی ہند '' میں تفصیل سے لکھا ہے۔ برطانوی گورنمنٹ نے ایک کمیٹی برطانوی جج مسٹر رولٹ کی سربراہی میں بنائی جس کا یہ کام تھا کہ خطرناک حالات سے نپٹنے کے لیے کوئی قانون تیار کرے۔ فروری 1919 میں دو مسوادات قانون امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں رولٹ کمیٹی کی سفارشات کو عمل میں لانے کے لیے پیش کیے گئے۔ یہ ایک چیلنج تھا۔ ہندوستانیوں نے اس کے خلاف ستیہ گرہ شروع کردیا اور ملک میں بغاوت اور احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایسے وقت میں بریگیڈئیرجنرل ڈائر نے عزم کیا کہ برطانوی شہنشاہیت کے وقار کو ہرحال میں بلند رکھا جائے اور بے باک شورش پسندوں کو پیس کر رکھ دیا جائے۔ اس پالیسی کا انجام یہ ہوا کہ جلیانوالہ باغ میں بڑے پیمانہ پر قتل عام ہوا۔ جس کے بعد بربریت آمیز وحشیانہ اور ذلت خیز لائق مذمت اقدامات کیے گئے۔ جس نے 1857 میںایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کے خون کی پیاس کی یاد تازہ کردی۔
اس موضوع پر گوپی چند نارنگ نے بھی اپنی کتاب 'ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری' میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے داری کا جواب انگریزوں نے رولٹ بل کے ذریعے دیا۔ ان قوانین کا منشا تحریک آزادی کا گلا گھونٹنااور ہندوستانیوں کے لیے غلامی کی زنجیروں کو مضبوط کرنا تھا۔ اس قسم کی سختی پر ہندوستان کے عوام بہت برہم ہوئے۔ جگہ جگہ مظاہرے کیے گئے۔ ہڑتالیں ہونے لگیں اور احتجاجی جلسے ہوئے۔ امرتسر کے ایسے ہی ایک پُرامن جلسے پر جو 13 اپریل 1919 کو جلیانوالہ باغ میں منعقد ہوا تھا، درندگی سے گولی چلا دی گئی اور سیکڑوں لوگوں کو آن کی آن میں مشین گنوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس خونیں واقعے نے ملک بھر میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی برقی رو دوڑا دی۔ اس کے بعد پنجاب میں دو ماہ بعد تک مارشل لاء نافذ رہا۔ خبروں کے سنسر کا یہ عالم تھا کہ جلیانوالہ باغ کے سانحے کی اطلاع لندن میں آٹھ مہینے بعد پہنچی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اب تک جو کام لیڈروں کی شعلہ بیانیوں اور شاعروں کی آتش نوائیوں نے نہیں کیا تھا وہ اس جاں کاہ واقعے نے کردیا۔ ہندو، مسلمان اور سکھ شہیدوں کا خون ہندوئوں اور مسلمانوں میں ربط و اتحاد کا رشتہ بن گیا ۔ ہمارے شاعروں نے اس واقعے کا گہرا اثر لیا۔ اقبال کا یہ قطعہ اسی دردناک واقعہ کی یاد دلاتا ہے:
ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ باغ
غافل نہ رہ جہاں میں تُو گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تُوآنسوئوں کا بخل نہ کر اس نہال سے
جلیانوالہ باغ کا سانحہ برصغیر کی تحریک آزادی کا ایک اہم موڑ ہے جس سے ہماری نسلیں واقف نہیں۔ انگریزوں کی طرح ہم نے بھی درست تاریخ کو چھپانے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ درست تاریخ کے بیان سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو غلط تاریخ پڑھانے سے باز رہیں؟ تاکہ وہ ماضی کی غلطیوں سے واقف ہوں اور خود ان غلطیوں کا ارتکاب نہ کریں۔