تحریکِ انصاف اقدار سے اقتدار کی سیاست تک
کیا کہنے کہ عمران خان کے ارد گرد جمع ’ابن الوقتوں‘ نے انہیں ’’سیاست‘‘ سے آشنا کروا ہی دیا۔
نوٹ: اگر آپ اپنی پسندیدہ شخصیت کا احتساب نہیں کرسکتے تو ٹھہر جایئے، یہ تحریر آپ کےلیے نہیں ہے۔
مرحوم قدرت اللہ شہاب اپنی شہرہ آفاق کتاب ''شہاب نامہ'' میں لکھتے ہیں کہ آزادی سے پہلے جب میں سہسرام (بہار، ہندوستان) میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھا تو میرے ڈپٹی کلکٹر عبدالکریم خاں نے بتایا کہ مسلمانوں کو مسلم لیگ سے توڑنے کےلیے کانگریس نے ایک جماعت بنائی ہے جس کا نام مومن کانفرنس رکھا ہے اور سہسرام میں بہت سے مسلمان اس جماعت کے رکن بن رہے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ کے عمائدین پریشان ہیں۔ آپ مجھے حکم دیں تو میں اس تبدیلی کو رکوا سکتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ تم سرکاری ملازم ہوتے ہوئے یہ کیسے کرو گے تو اس نے کہا کہ آپ صرف سوت کے کوٹے کی تقسیم میرے حوالے کر دیں، میں صرف اسی کو کوٹا دوں گا جو مسلم لیگ کا ممبر ہوگا۔ میں نے عبدالکریم سے پوچھا کہ جو لوگ صرف سوت کے لالچ میں آکر مسلم لیگ کے ممبر بنیں گے ان کی ممبری کس کام کی؟ عبدالکریم کا جواب تھا، ''حضور یہ عقیدے یا اصول کی جنگ تھوڑی ہے، اس وقت تو لڑائی ہندسوں کی ہے۔ کانگریس اگر مسلم لیگ کے ہندسے کم کرنے کےلیے ڈنڈی مار رہی ہے تو ہم اپنی تعداد بڑھانے کےلیے ڈنڈا مارنے میں حق بجانب ہیں۔''
یوں تو اور بہت سے موضوعات کو تحریر میں لانے کا دل تھا مگر ابتدا وہیں سے کرنے کا سوچا کہ انتہا جہاں ہوئی۔ آپ اسے انتہا کا نام دیجیے یا محض ایک سیاسی اتحاد کا، مگر گزشتہ ہفتے کا آغاز ایک ایسی انتہا سے ہوا جس کا دُور دُور تک کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔ قائدِ حزب اختلاف کو ہٹانے کے سلسلے میں تحریکِ انصاف کے وفد نے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی جسے ایک انتہا کہیں یا ''سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا'' کی عمدہ ترین مثال؛ یہ ہوچکا ہے۔
اس ملاقات کے بارے میں جان کر ذہن میں بہت سے سوالات نے جنم لیا مگر دھیان اپریل 2011 کے اس سوال کی جانب گیا جو ایک پروگرام کے پلیٹ فارم سے میں نے عمران خان سے کیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ مستقبل میں کیا آپ ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی سے اتحاد کریں گے؟ جس پر عمران خان نے واضح الفاظ میں ایسے کسی بھی امکان کی نفی کی۔ یہ 30 اکتوبر 2011 سے پہلے والے عمران خان تھے۔
وقت گزرتا گیا، تبدیلی کے نعرے کی مقبولیت بڑھتی گئی، ایوانِ وزیراعظم اور عمران خان کے نزدیک فاصلہ کم ہوتا گیا۔ عمران خان کے گرد ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور بات 26 ستمبر 2017 پر اختتام پذیر ہوئی جب تحریکِ انصاف کا وفد اپنے ہی کئی نظریات، لاتعداد الزامات، اور اقدار کو روندتا ہوا ایم کیو ایم کی چوکھٹ پر سیاسی سجدہ کرنے پہنچ گیا۔ مگر ٹھہریئے کہ بات ابھی ختم کہاں ہوئی ہے۔ سیاست کا آغاز تو اب ہوا ہے۔
لوگ کہتے تھے عمران خان کو سیاست نہیں آتی، اور عمران خان کے حامی اسی نعرے کو بیچا کرتے تھے کہ اگر سیاست ذاتی مفاد کےلیے سیاسی مخالف کو گلے لگانے اور ملک لوٹنے والوں سے ہاتھ ملانے کا نام ہے تو عمران خان سیاست سے نا آشنا ہی ٹھیک ہیں۔ مگر کیا کہنے کہ ان کے ارد گرد جمع ''ابن الوقتوں'' نے انہیں سیاست سے آشنا کروا ہی دیا۔
مئی 2007 کا واقعہ ہو، 2013 میں تحریکِ انصاف کی رہنما زہرا شاہد کا قتل ہو یا دوسرے مواقع پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ یا دوسرے واقعات، ایم کیو ایم کے حوالے سے عمران خان کا مؤقف ہمیشہ سے ایک رہا ہے۔ مگر ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ اس مؤقف ہی کو پیچھے چھوڑنا پڑا اور 180 ڈگری کے زاویئے کا ''یوٹرن'' لینا پڑا۔
ملک کے نوجوانوں کو ایوانوں تک لے جانے کا نعرہ بہرحال عمران خان نے لگایا مگر اس پر عمل اتنا ہوسکا کہ خود عمران خان نے اس حقیقت کا اقرار کیا کہ اس ملک میں جب تک جاگیرداروں اور بڑوں کو ساتھ نہیں ملائیں گے، آپ اقتدار کی مسند تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
عمران خان کی سیاست کا مقصد اس ملک میں رائج نظام سیاست کو بدلنا اور بنیادی جمہوریت کا فروغ تھا مگر یہ مقصد کب ایوانِ وزیراعظم کے حصول میں بدل گیا؟ کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ دوسری جماعتوں میں رہ کر بدعنوانی اور بدنامی کے جھنڈے گاڑنے والوں کو تحریکِ انصاف میں آمد پر پرتپاک استقبال سے نوازا گیا۔ اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جو لوگ کل تک تحریک انصاف کے حامیوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے تھے آج انہیں پارٹی کا ترجمان لگا دیا گیا ہے۔
آج سے دو عشرے پہلے عمران خان سیاست کو بدلنے نکلے تھے... کسے معلوم تھا کہ دو عشروں بعد سیاست اُن کو بدل دے گی۔ یہ اب اُنہیں فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آج بھی اسی نظریئے پر قائم ہیں جو 30 اکتوبر سے پہلے کا تھا یا اب ان کا نظریہ ان کے مشیروں کے نایاب مشوروں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
ان مشوروں پر عمل کرکے وہ اقتدار کی کرسی پر تو ضرور بیٹھ جائیں گے مگر کیا وہ خواب پورے کرسکیں گے جو اس قوم کے نوجوانوں کو انہوں نے دکھائے ہیں؟ کیا وہ وعدے نبھا سکیں گے جو لاکھوں نوجوانوں سے انہوں نے کیے تھے؟ اگر اس کا جواب ''ہاں'' ہے تو کیسے؟ کیوں کہ یہی مشیر، یہی سیاستدان، یہی وڈیرے، یہی طبقہ تو ہمیشہ سے حکمرانوں کے ارد گرد رہا ہے۔
عمران خان صاحب! اقتدار کے حصول کےلیے سمجھوتے ضرور کیجئے مگر اتنا خیال رہے کہ یہ سمجھوتے بعد میں پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں جو صاحب اقتدار کو اپنے اندر جکڑ لیتی ہے۔ اپنے نمبر بڑھانے کےلیے ایسے سمجھوتے کرنے میں شاید آپ بھی حق بجانب ہوں مگر یاد رکھیے کہ تبدیلی ایسے سمجھوتوں سے نہ آئی تھی، نہ آئے گی۔
پسِ تحریر: ویسے عمران خان سے شکایت نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے آئندہ انتخابات لڑنے کےلیے اور حکومت بنانے کےلیے اب تک اتنے سمجھوتے کیے ہیں، اب حزب اختلاف کےلیے بھی ایک سمجھوتہ اور منظور کرلینا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مرحوم قدرت اللہ شہاب اپنی شہرہ آفاق کتاب ''شہاب نامہ'' میں لکھتے ہیں کہ آزادی سے پہلے جب میں سہسرام (بہار، ہندوستان) میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھا تو میرے ڈپٹی کلکٹر عبدالکریم خاں نے بتایا کہ مسلمانوں کو مسلم لیگ سے توڑنے کےلیے کانگریس نے ایک جماعت بنائی ہے جس کا نام مومن کانفرنس رکھا ہے اور سہسرام میں بہت سے مسلمان اس جماعت کے رکن بن رہے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ کے عمائدین پریشان ہیں۔ آپ مجھے حکم دیں تو میں اس تبدیلی کو رکوا سکتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ تم سرکاری ملازم ہوتے ہوئے یہ کیسے کرو گے تو اس نے کہا کہ آپ صرف سوت کے کوٹے کی تقسیم میرے حوالے کر دیں، میں صرف اسی کو کوٹا دوں گا جو مسلم لیگ کا ممبر ہوگا۔ میں نے عبدالکریم سے پوچھا کہ جو لوگ صرف سوت کے لالچ میں آکر مسلم لیگ کے ممبر بنیں گے ان کی ممبری کس کام کی؟ عبدالکریم کا جواب تھا، ''حضور یہ عقیدے یا اصول کی جنگ تھوڑی ہے، اس وقت تو لڑائی ہندسوں کی ہے۔ کانگریس اگر مسلم لیگ کے ہندسے کم کرنے کےلیے ڈنڈی مار رہی ہے تو ہم اپنی تعداد بڑھانے کےلیے ڈنڈا مارنے میں حق بجانب ہیں۔''
یوں تو اور بہت سے موضوعات کو تحریر میں لانے کا دل تھا مگر ابتدا وہیں سے کرنے کا سوچا کہ انتہا جہاں ہوئی۔ آپ اسے انتہا کا نام دیجیے یا محض ایک سیاسی اتحاد کا، مگر گزشتہ ہفتے کا آغاز ایک ایسی انتہا سے ہوا جس کا دُور دُور تک کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔ قائدِ حزب اختلاف کو ہٹانے کے سلسلے میں تحریکِ انصاف کے وفد نے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی جسے ایک انتہا کہیں یا ''سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا'' کی عمدہ ترین مثال؛ یہ ہوچکا ہے۔
اس ملاقات کے بارے میں جان کر ذہن میں بہت سے سوالات نے جنم لیا مگر دھیان اپریل 2011 کے اس سوال کی جانب گیا جو ایک پروگرام کے پلیٹ فارم سے میں نے عمران خان سے کیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ مستقبل میں کیا آپ ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی سے اتحاد کریں گے؟ جس پر عمران خان نے واضح الفاظ میں ایسے کسی بھی امکان کی نفی کی۔ یہ 30 اکتوبر 2011 سے پہلے والے عمران خان تھے۔
وقت گزرتا گیا، تبدیلی کے نعرے کی مقبولیت بڑھتی گئی، ایوانِ وزیراعظم اور عمران خان کے نزدیک فاصلہ کم ہوتا گیا۔ عمران خان کے گرد ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور بات 26 ستمبر 2017 پر اختتام پذیر ہوئی جب تحریکِ انصاف کا وفد اپنے ہی کئی نظریات، لاتعداد الزامات، اور اقدار کو روندتا ہوا ایم کیو ایم کی چوکھٹ پر سیاسی سجدہ کرنے پہنچ گیا۔ مگر ٹھہریئے کہ بات ابھی ختم کہاں ہوئی ہے۔ سیاست کا آغاز تو اب ہوا ہے۔
لوگ کہتے تھے عمران خان کو سیاست نہیں آتی، اور عمران خان کے حامی اسی نعرے کو بیچا کرتے تھے کہ اگر سیاست ذاتی مفاد کےلیے سیاسی مخالف کو گلے لگانے اور ملک لوٹنے والوں سے ہاتھ ملانے کا نام ہے تو عمران خان سیاست سے نا آشنا ہی ٹھیک ہیں۔ مگر کیا کہنے کہ ان کے ارد گرد جمع ''ابن الوقتوں'' نے انہیں سیاست سے آشنا کروا ہی دیا۔
مئی 2007 کا واقعہ ہو، 2013 میں تحریکِ انصاف کی رہنما زہرا شاہد کا قتل ہو یا دوسرے مواقع پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ یا دوسرے واقعات، ایم کیو ایم کے حوالے سے عمران خان کا مؤقف ہمیشہ سے ایک رہا ہے۔ مگر ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ اس مؤقف ہی کو پیچھے چھوڑنا پڑا اور 180 ڈگری کے زاویئے کا ''یوٹرن'' لینا پڑا۔
ملک کے نوجوانوں کو ایوانوں تک لے جانے کا نعرہ بہرحال عمران خان نے لگایا مگر اس پر عمل اتنا ہوسکا کہ خود عمران خان نے اس حقیقت کا اقرار کیا کہ اس ملک میں جب تک جاگیرداروں اور بڑوں کو ساتھ نہیں ملائیں گے، آپ اقتدار کی مسند تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
عمران خان کی سیاست کا مقصد اس ملک میں رائج نظام سیاست کو بدلنا اور بنیادی جمہوریت کا فروغ تھا مگر یہ مقصد کب ایوانِ وزیراعظم کے حصول میں بدل گیا؟ کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ دوسری جماعتوں میں رہ کر بدعنوانی اور بدنامی کے جھنڈے گاڑنے والوں کو تحریکِ انصاف میں آمد پر پرتپاک استقبال سے نوازا گیا۔ اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جو لوگ کل تک تحریک انصاف کے حامیوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے تھے آج انہیں پارٹی کا ترجمان لگا دیا گیا ہے۔
آج سے دو عشرے پہلے عمران خان سیاست کو بدلنے نکلے تھے... کسے معلوم تھا کہ دو عشروں بعد سیاست اُن کو بدل دے گی۔ یہ اب اُنہیں فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آج بھی اسی نظریئے پر قائم ہیں جو 30 اکتوبر سے پہلے کا تھا یا اب ان کا نظریہ ان کے مشیروں کے نایاب مشوروں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
ان مشوروں پر عمل کرکے وہ اقتدار کی کرسی پر تو ضرور بیٹھ جائیں گے مگر کیا وہ خواب پورے کرسکیں گے جو اس قوم کے نوجوانوں کو انہوں نے دکھائے ہیں؟ کیا وہ وعدے نبھا سکیں گے جو لاکھوں نوجوانوں سے انہوں نے کیے تھے؟ اگر اس کا جواب ''ہاں'' ہے تو کیسے؟ کیوں کہ یہی مشیر، یہی سیاستدان، یہی وڈیرے، یہی طبقہ تو ہمیشہ سے حکمرانوں کے ارد گرد رہا ہے۔
عمران خان صاحب! اقتدار کے حصول کےلیے سمجھوتے ضرور کیجئے مگر اتنا خیال رہے کہ یہ سمجھوتے بعد میں پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں جو صاحب اقتدار کو اپنے اندر جکڑ لیتی ہے۔ اپنے نمبر بڑھانے کےلیے ایسے سمجھوتے کرنے میں شاید آپ بھی حق بجانب ہوں مگر یاد رکھیے کہ تبدیلی ایسے سمجھوتوں سے نہ آئی تھی، نہ آئے گی۔
پسِ تحریر: ویسے عمران خان سے شکایت نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے آئندہ انتخابات لڑنے کےلیے اور حکومت بنانے کےلیے اب تک اتنے سمجھوتے کیے ہیں، اب حزب اختلاف کےلیے بھی ایک سمجھوتہ اور منظور کرلینا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔