آسٹریلیا میں فنی تربیت کا مشاہدہ
برزبن میں واقع ٹیف کے ایک ادارے اسکلز ٹیک میں ٹریننگ ورکشاپس دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
بدقسمتی سے ہمارے سول محکموں میں کسی سطح پر بھی ٹریننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جب کہ امریکا، چین، مغربی یورپ اورآسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں ٹریننگ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تربیت دیتے وقت اس کی روح کے مطابق تمام تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔ ٹریننگ صرف لیکچرز تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ اس طریقے سے ڈیزائن کی جاتی ہے کہ زیرِ تربیت افراد کو سوچنے اور سوال کرنے پر اکساتی ہے، تربیت کے دوران زیادہ سے زیادہ عملی کام کروایا جاتا ہے اور پھریہ کہ صبح آٹھ بجے سے شروع ہوکر شام پانچ بجے تک چلتی ہے۔
آسٹریلیا آنے والے پاکستانی وفد کی میزبانی کا شرف یہاں کے تیسرے بڑے شہر برزبن نے حاصل کیا۔ شہر کا نام اسکاٹ لینڈ کے رہائشی ایک برٹش سولجر سر تھومس برزبن کے نام پر رکھا گیا جو اٹھارہویں صدی میں اس شہر کا ایڈمنسٹریٹر رہا۔ برزبن کو 1824میں باقاعدہ برطانوی کالونی بنایا گیا تھا۔ یہ شہر جہاں کبھی مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا تھا، آج آسٹریلیا کے انتہائی ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔
برزبن ہماری میزبانی کی علاوہ 1982میں کامن ویلتھ گیمز اور 1988 میں عالمی میلے کی میزبانی کا شرف بھی حاصل کر چکا ہے۔ اِس کی آبادی چوبیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے ، موسم انتہائی شاندار ہے۔ جولائی کے مہینے میں جب وطنِ عزیز میں شہر آگ اگل رہے تھے اور درجۂ حرارت پچاس ڈگری سے تجاوز کررہا تھا برزبن کا درجۂ حرارت پندرہ سے بیس ڈگری تک رہتا تھا، اسلیے رات کے کھانے کے بعد ہم جیسے واک کے شوقینوں کے لیے بڑا آئیڈیل تھا۔
ہمارے وفد کا آسٹریلیا کے بہت سے محکموں کے متعلقہ افراد سے رابطہ کرایا گیا جوبریفنگز اور ملٹی میڈیا پریزنٹیشنز کے ذریعے اپنے ہاں رائج فنی تربیتی نظام کے خدوحال بتاتے اور سمجھاتے رہے۔ اس سلسلے میں آسٹریلیا کے محکمۂ تعلیم و تربیت (DET)، وزارتِ خارجہ اور تجارت، محکمۂ روزگار، محکمۂ شماریات (ABS)، آسٹریلین اسکلز کوالٹی اتھارٹی (ASQA)، کینبرا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (CIT)، ٹرشری اینڈ فردر ایجوکیشن (TAFE)، آسٹریلین انڈسٹری اسکلز کمیٹی (ISC)، سروس اسکلز آرگنائزیشن (SSO)، پرائیوٹ انڈسٹری، رجسٹرڈٹریننگ آرگنائزیشنز (RTOS)کے متعلقہ حکّام اور نمایندوں کے ساتھ ہماری ملاقاتوں اور روابط کا اہتمام کیا گیا۔
پہلے روز سے ہی ٹریننگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، ٹریننگ لیڈر ڈاکٹر لوڈی کپسیٹرونے پروگرام کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر لو کے معاونین میں کرن لارنس، ڈاکٹر ہائے ہونگ، مس گلینڈا ساکرے اور مس نٹیکا پوکھرل شامل تھے۔ افتتاحی تقریب کے پروگرام میں پاکستانی وفد کے لیڈر کی حیثیّت سے راقم کا خطاب بھی شامل کیا گیا تھا۔
راقم نے TVETسیکٹر میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور چند سالوں میں ہم اس سیکٹر میں کیا کیا اصلاحات لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، پر بات کی، موضوع کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیزکا تعارف بھی کرایا گیا اور اس کے خوشنما پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا۔ اس کے بعد وفد کے شرکاء کو یونیورسٹی کا راؤنڈ لگوایا گیا، جامعہ کے انتظامی بلاک کے سامنے لان میں مہمانوں (ہمارے وفد کے ارکان)کے اعزاز میں خاص طور پر آسٹریلیا کے قدیم باشندوں ابورجینز کے روایتی رقص کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دوسرے روز ہمیں ریاست کوئینزلینڈ کے TAFE ہیڈکوارٹر کا دورہ کروایا گیا۔ جہاں اس کی باوقار اور بارعب ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنیل چیپ مین نے اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بڑا متاثر کن خطاب کیا۔
TAFEکا نام ہم بھی پچھلے دو سالوں سے سن رہے تھے اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ٹیف آسٹریلیا کے سرکاری شعبے میں پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت مہیّا کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے جسکے تحت چلنے والے فنی تربیت کے اداروں کا پورے ملک میں جال بچھا ہوا ہے۔
ان اداروں میں آسٹریلیا کے نیشنل ٹریننگ سسٹم اور آسٹریلین کوالیفیکیشنز فریم ورک کے مطابق تربیتی کورس کروائے جاتے ہیں۔ کورسز مقامی انڈسٹری کی طلب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کروائے جاتے ہیں۔ آجکل نوجوانوں کو جن شعبوں میں تربیت فراہم کی جارہی ہے ان میں کنسٹرکشن، انجینئرنک، ٹورزم، ہاسپیٹیلیٹی، فنانس، بزنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، آرٹس اور کمیونٹی ورک شامل ہیں۔
آسٹریلیا میں یونیورسٹی کی تعلیم (ہائیر ایجوکیشن) کا بجٹ فیڈرل گورنمنٹ فراہم کرتی ہے مگر پیشہ ورانہ ھنرمندی کے لیے قائم کیے گئے اداروں کا بجٹ ریاستیں مہیّا کرتی ہیں۔ میڈم جنیل چیپ مین نے بتایا کہ کوئینز لینڈ کی ریاست میں ٹیف سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار نوجوانوں کو تربیت فراہم کرتا ہے۔
ٹیف کے ادارے عام طور پر ابتدائی نوعیّت کی ٹریننگ کرواتے ہیں جسکے بعد نوجوانوں کو سرٹیفیکٹ، ڈپلوما یا ایڈوانسڈ ڈپلوما دیا جاتا ہے، مگر چند ادارے ڈگری کورسز بھی کرواتے ہیں، کئی ایک ہائی اسکول اور پرائیوٹ ادارے بھی ٹیف کے بنائے گئے نصاب کے مطابق فنی تربیت کے کورسز کرواتے ہیں۔ ٹیف نہ صرف اپنے ملک کے نوجوانوں کو بلکہ غیر ملکی طلباء کو ٹریننگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ وفد کو بھی فنی تربیت کے کچھ اداروں کا دورہ کرایا گیا۔
برزبن میں واقع ٹیف کے ایک ادارے اسکلز ٹیک میں ٹریننگ ورکشاپس دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ادارے کے سربراہ مسٹر اسٹیو مائیکل دو ڈھائی گھنٹے کے دورے کے دوران ہمارے ساتھ رہے اور تربیت کے مختلف امور کی تفصیلات بتاتے رہے۔ یہاں زیادہ تر تعمیرات (کنسٹرکشن)سے متعلقّہ اسکلز کی تربیت دی جاتی ہے دورے کے ہرمرحلے پر جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہی تھی کہ نوجوانوں کی تربیت میں سب سے زیادہ زور عملی تربیت پر دیا جاتا ہے اور زیرِ تربیت نوجوانوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عملی کام اپنے ہاتھوں سے کریں۔
یہاں اینٹوں کی چنائی، ٹائل فکسنگ، شٹرنگ، پلمبنگ، الیکٹریشن وغیرہ کے علیحدہ علیحدہ وسیع و عریض سیکشن تھے جہاں نوجوان اپنے ہاتھوں سے کام کررہے تھے، وہ کہیں اینٹوں کی چنائی کررہے تھے کہیں ٹائلیں لگارہے تھے، کہیں باتھ روم میں پائپ فٹ کررہے تھے اور کہیں چھت تیار کر رہے تھے۔ ان کے انسٹرکٹر ان کی نگرانی کر رہے تھے، ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور ان کی اصلاح بھی کی جاتی ہے۔ اِسی طرح بار بار خود کام کرنے سے ان کی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ پبلک سیکٹر کے تربیتی ادارے کے بعد ہمیں پرائیوٹ سیکٹر کا ایک تربیتی ادارہ بھی دکھایا گیا تاکہ شرکاء دونوں کے معیار کا موازنہ کرسکیں۔
ھچی سن بلڈرز کا شمار آسٹریلیا کی چند بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنیوں میں ہوتا ہے، ان کی وسیع و عریض ٹریننگ ورکشاپس بھی کسی سے کم نہ تھیں، یہاں بھی میٹرک پاس نوجوانوں کو اپرنٹس کے طور پر داخل کیا جاتا ہے اور چار سال کی تربیت دی جاتی ہے اس دوارن اپرنٹس کو تنخواہ کا پچاس سے ساٹھ فیصد حصّہ اد اکیا جاتا ہے اور تربیت مکمل ہونے کے بعد اسے بڑی معقول تنخواہ (پاکستانی روپوں میں تقریباً دولاکھ ماہانہ) پر پکی ملازمت مل جاتی ہے۔
وہاں سے نکلے تو ہمیں آٹو موبیل (کاروں اور دوسری گاڑیوں سے متعلقہ) ٹریننگ دکھانے کے لیے موٹر ٹریڈز ایسوسی ایشن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی لے جایا گیا جہاں جنرل مینیجر پال کلپا نے تفصیلی بریفنگ دی۔ اعلیٰ معیار کے ادارے دیکھکر دل میں یہ خواہش مچل اٹھتی ہے کہ کاش وطنِ عزیز میں بھی اسی معیار کے تربیتی ادارے قائم ہوں۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ کچھ دوست ممالک کے تعاون سے پاکستان میں بھی ایسے ادارے قائم ہوں جو بین الاقوامی معیار کو چھُو سکیں۔
کسی بھی ٹریڈ یا سیکٹر کی ٹریننگ میں اس کا معیار اور کوالٹی برقرار رکھنا سب سے اہم ہوتا ہے، کوالٹی کو یقینی بنانے کی ذمے داری آسٹریلین اسکلز کوالٹی اتھارٹی (ASQA) کے پاس ہے جو فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے میدان میں ریگولیٹری ادارہ ہے، اس لحاظ سے وہ آسٹریلیا میں وہی فرائض اور ذمے داریاں سر انجام دے رہا ہے جو پاکستان میں نیوٹیک (NAVTTC) ادا کررہا ہے۔ ASQA کے جنرل مینیجر ڈیوڈ گارنر نے کوالٹی اشورنس اور اس کے کردار کے بارے میں بڑی سیر حاصل گفتگو کی جس سے وفد کے شرکاء کو آسٹریلیا کا سسٹم سمجھنے میں بہت مدد ملی۔
ASQA مختلف تربیتی کورسز کے نصاب اور تربیتی اداروں پر عقابی نظر رکھتا ہے اور جہاں کہیں سُقم نظر آئے اس کی نشاندہی کرتا ہے اور اگر کسی ادارے کی تربیت غیر معیاری نظر آئے تو اس ادارے کو تربیت فراہم کرنے کی سہولت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اس سے گزشتہ روز ڈاکٹر ہائے مجھے اور مسز فرح حامد کو ایجوکیشن ہاؤس لے گئے جہاں ہمیں محکمۂ تعلیم کے سینئر حکام سے ملوایا گیا، یہ اعلیٰ سطح میٹنگ بڑی مفید رہی جس میں ہم نے آسٹریلوی حکّام کو اپنی ترجیحات اور چیلنجز سے آگاہ کیا۔
اس سے گزشتہ روز شرکاء کی ملاقات آسٹریلین سکل سروس آرگنائزیشن اور آسٹریلین انڈسٹری اسکلز کمیٹی کے سینئر عہدیداران سے ہوئی جنہوں نے آسٹریلیا کے فنی تعلیم و تربیت کے شعبے میں انڈسٹری اور آجر کے کردار کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا، ہمارے وفد میں مرکز اور صوبوں کے نمایندوں کے علاوہ پرائیوٹ سیکٹر میں قائم تربیتی اداروں اور این جی اوز کے نمایندے بھی شامل تھے۔ تمام لوگ آسٹریلیا کا نظام سمجھنے میں بڑی دلچسپی لیتے رہے اور تربیتی ادارے دیکھکر بڑے motivateہوتے رہے، رات کو کھانے کے بعد تمام شرکاء کے ساتھ نشست ہوتی جسمیں گروپ لیڈر کی حیثیّت سے راقم اُن سے دریافت کرتا کہ وہ یہاں سے سیکھی ہوئی چیزوں کو پاکستان واپس جاکر کیسے نافذ کریں گے یا اپنے اپنے اداروں کو کیسے بہتر بنائیں گے۔ وفد کے تمام ارکان اپنے اپنے اداروں میں بہتری لانے کے جذبے سے سرشار نظر آئے۔ (جاری ہے)