لفظوں کی دیوانہ وار گولہ باری
شمالی کوریا کے سپریمو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے امریکی شہروں کو تہس نہس کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
کچھ دنوں سے ٹرمپ صاحب طیش کے ساتویں آسمان پر مقیم ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شمالی کوریا کے 'سپریم لیڈر' اپنے ایٹمی پروگرام کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں اور انھیں 'پاگل شخص'، 'بکواسی' اور 'قابل رحم' ایسے القاب سے یاد کرتے ہیں۔
شمالی کوریا کے سپریمو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے امریکی شہروں کو تہس نہس کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ وہاں کے شہروں میں وہ دیوقامت پوسٹر لگے ہوئے ہیں جن میں واشنگٹن کو ایٹمی ہتھیاروں سے ریزہ ریزہ ہوتے دکھایا گیا ہے اور امریکی پرچم کے چیتھڑے ہر طرف اڑتے نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف عالی جناب، عزت مآب صدر امریکا ہیں جو مٹھیاں بھینچ کر اعلان کرتے ہیں کہ امریکی ایٹمی ہتھیار شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔ شمالی کوریا کے لوگوں کی ذہنی تربیت اس طرح کی گئی ہے کہ ان کے خیال میں اگر شمالی کوریا پر ایٹمی حملہ ہو بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ وہ نہ صرف امریکا کے ایٹمی حملے سے بچ نکلیں گے بلکہ ان کے ایٹمی ہتھیار امریکا کے متعدد شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔
امریکی عوام دونوں طرف سے لفظوں کی اس دیوانہ وار گولہ باری سے تھرائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے ایک صدر نے دوسری جنگ عظیم کے آخری مرحلے میں جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم کا استعمال کرکے لاکھوں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا تھا، جس کے بعد ان شہروں کی ایسی تباہی ہوئی کہ آج بھی وہاں کی فضائیں زہر آلود ہیں۔
امریکی کسی بھی شہر یا خطے پر ایٹمی حملے سے ہونے والی ناقابل بیان تباہی اور وہاں رہنے والوں کی اذیت ناک موت سے آگاہ ہیں۔ شمالی کوریا کے 'سپریمو' اور جواباً امریکی صدر نے جس طور طبل جنگ بجایا ہے، اس سے وہ سراسیمہ ہیں اور اس نوعیت کی دیوانگی کو روکنے کے لیے ان کے دانشور، ادیب، صحافی اور ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔
ایک معتبر اور مشہور امریکی صحافی نکولس کرسٹوف اب سے پہلے کئی مرتبہ شمالی کوریا کا سفر کرچکے ہیں۔ ان دنوں شمالی کوریا کے 'سپریمو' اور امریکی صدرکے درمیان جس نوعیت کی لفظی گولہ باری ہورہی ہے، اس نے کرسٹوف کو مجبور کیا کہ وہ شمالی کوریا کا خصوصی ویزا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ سپریمو کے اشارے پر کرسٹوف کو ویزا دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تو کرسٹوف نے امریکی حکومت سے درخواست کی کہ انھیں شمالی کوریا کے سفر کے لیے خصوصی پاسپورٹ دیا جائے کیونکہ امریکا اور کوریا کے درمیان سفر پر بندش ہے۔
خصوصی پاسپورٹ لے کر وہ شمالی کوریا پہنچے اور پانچ دنوں تک مختلف علاقوں میں پھرتے رہے جہاں کوئی خوش خبری ان کی منتظر نہیں تھی۔ وہ 80 کی دہائی سے وقتاً فوقتاً شمالی کوریا جاتے رہے ہیں اور وہاں کی اندرونی کہانی سے دنیا کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ کرسٹوف واپس آئے تو ان کے تاثرات 7 اور 8 اکتوبر 2017 کو نیویارک ٹائمز کے بین الاقوامی ایڈیشن میں شایع ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں شمالی کوریا سے کبھی اتنا خوفزدہ واپس نہیں آیا تھا۔
واپس آنے کے بعد انھوں نے لکھا کہ صبح سویرے اسکولوں کے بچے سڑک پر مارچ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ دراصل کم عمر بچوں کے اندر جنگ کا جوش پیدا کرنا ہے۔ کیا بچے اور کیا بڑے سب ہی کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر امریکا نے ان پر ایٹمی حملہ کیا تو وہ اس سے بچ جائیں گے، اس کے ساتھ ہی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آخری فتح ان کی ہوگی۔ انھوں نے ایٹمی جنگ کے ہولناک نتائج کے بارے میں 41 سالہ ایک فیکٹری مزدور سے سوال کیا تو اس نے بہت حیرت سے انھیں دیکھا اور کہا کہ ''ہمارے ہارنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا، ہم یقیناً فتح مند ہوں گے۔'' شہروں میں امریکی ایٹمی حملے سے بچاؤ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
لوگوں کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر امریکا نے ایٹمی حملے کی غلطی کی تو ہم نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ اپنے ایٹم بموں سے امریکا کو مکمل طور پر تباہ کردیں گے۔ کرسٹوف نے پڑھے لکھے اور معاملات سے آگاہ شہریوں کو بھی اسی طرح کی باتیں کرتے سنا۔
انھیں ایک ایسے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا جس پر فوجیوں کا کڑا پہرا تھا۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ تاکہ وہ آزادانہ سڑکوں اور گلیوں میں نہ پھر سکیں۔ بعد میں انھیں اندازہ ہوا کہ انھیں اس طرح کے چوکی پہرے میں رکھنے کا ایک سبب اس بات کا اندیشہ تھا کہ ان کو اردگرد موجود انتہا پسندوں سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ جائے۔ کرسٹوف کا کہنا ہے کہ ملک میں جنگی جنون اس بھیانک پیمانے پر بھڑکایا گیا ہے کہ بیشتر لوگ اپنی سرزمین پر کسی امریکی صحافی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
جنگ گزیدگی کسی بھی سماج میں ریاست اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض مقتدر طبقات کے معاشی، سیاسی اور فوجی اقتدار کی توسیع ، فاشسٹ رجحانات، قومی تکبر، مریضانہ حب الوطن اور مجرمانہ احساس برتری کا دوسرا نام ہے۔ مذہب، وطن، نسل یا قوم کے تحفظ کے نام پر یہ مقتدر طبقات نفرت اور دشمنی کی وہ آگ بھڑکاتے ہیں جس کا ایندھن بسی بسائی بستیاں، آباد عبادت گاہیں، نہتے بچے، عورتیں اور مرد ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں جنگ جوئی کی ابتدا اس وقت سے ہوگئی تھی جب ایک آدمی نے زمین پر لکیر کھینچ کر حد بندی کی تھی اور کہا تھا کہ یہ زمین میری ہے۔ دولت و ملکیت کے تحفظ اور فروغ کے لیے انسان نے تانبے کے دور سے ایٹمی ہتھیاروں اور خلائی جنگوں کے زمانے تک لڑائیاں لڑی ہیں۔
جنگ جوئی پر آمادہ عناصر امن و امان کے زمانے میں ہونے والے ثقافت و تہذیب کے فطری ارتقاء کو تہس نہس کردیتے ہیں، اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ان عناصر کے ہمدرد اور معاون ادیب، دانشور، مورخ اور صحافی حقائق کو مسخ کرتے ہیں، جھوٹ اتنی مرتبہ دہرایا جاتا ہے کہ 'مستند سچ' بن جاتا ہے، فرضی اور غیر موجود دشمن کو تراش خراش کر لا علم عوام کو خوف میں مبتلا کیا جاتا ہے۔
جنگو ازم اور جنگ گزیدگی کا سب سے المناک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ رویے سماج میں نراج اور انتشار پیدا کرتے ہیں، فرقہ وارانہ، نسلی، لسانی اور علاقائی تنازعات اور تضادات ابھر کر آتے ہیں، ثقافت کا فطری ارتقا رک جاتا ہے اور ثقافتی تنوع اور رنگا رنگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
جنگ گزیدگی اور جنگو ازم کا آغاز کسی بیرونی دشمن سے تحفظ کے نام پر ہوتا ہے لیکن یہ خطرناک رویہ اور رجحان بالآخر خود اس ملک کے سماج، ثقافتی، تہذیبی، مذہبی، نسلی اور لسانی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ نام نہاد بیرونی دشمن تو محفوظ رہتا ہے لیکن جنگ گزیدگی کی دیمک خود اس سماج کی بنیادوں کو چاٹ جاتی ہے۔
کرسٹوف نے شمالی کوریا کے دارالحکومت میں جو 5دن گزارے، اس نے ان کو اپنی بنیادوں سے ہلادیا۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کو یقین راسخ ہے کہ ایٹمی حملہ ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ ان کا 'سپریمو' انھیں جہنم کی اس آگ سے بچا لے گا اور وہ تباہ ہونے کے بجائے امریکا کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیں گے۔ دارالحکومت کے وار میوزیم میں اسکرین پر ایک امریکی سپاہی کی لاش دکھائی جاتی ہے جسے کوے نوچ رہے ہیں اور ان کی کائیں کائیں کے ساتھ گوشت نوچنے اور کھانے کی آوازیں بھی آتی ہیں۔
کرسٹوف شمالی کوریا سے دہشت زدہ آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے جو رویہ اختیار کیا ہے اور وہ جس طرح کی اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہیں، اس کی ان سے توقع نہیں کی جاتی۔ وہ جمہوری اقدار پر ایمان رکھنے والوں کے صدر ہیں اور انھیں یہ غیر جمہوری رویے زیبا نہیں ہیں۔ دوسروں کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حکام کو فوراً غیر مشروط مذاکرات کی بات کرنی چاہیے۔ ان کے خیال میں اس گفت و شنید میں اقوام متحدہ کی شمولیت بھی لازمی ہے۔
وہ اس کے علاوہ بھی کئی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ دوسرے امریکیوں کی طرح کرسٹوف شمالی کوریا کے 'سپریمو' سے کہیں زیادہ اپنے صدر سے ناراض ہیں۔ متعدد امریکی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کے خطرات کو ٹالنے کی اصل ذمے داری امریکا اور اس کے صدر پر عائد ہوتی ہے۔ یہ کمپیوٹر پر کھیلے جانے والے وار گیمز سے قطعاً مختلف معاملہ ہے۔ یہاں انگلی کی ایک جنبش سے کروڑوں انسان موت کے منہ میں جاسکتے ہیں اور صدیوں میں بسائے جانے والے شہر صفحہ ٔ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ یہ تباہی اور تاراجی دنیا کی مختلف سرزمینوں تک پھیل سکتی ہے۔ اس مہیب صورتحال سے نمٹنے کے لیے دنیا کو ان دانش مندوں، دانش وروں، ادیبوں اور فنکاروں کی ضرورت ہے جوانا کے ہمالہ پہاڑ پر نہ بیٹھے ہوں اور جن کے سینوں میں انسان اور انسانیت کا درد ہو۔