انتخابی اصلاحاتی بل

انتخابی اصلاحاتی بل کی منظوری کے بعد پتہ چلا کہ اس میں ایک سنگین نوعیت کی غلطی ہوگئی ہے

tahirnajmi@express.com.pk

موجودہ سیاسی صورتحال نے عوام کو بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے۔برسراقتدارخاندان کے خلاف احتساب عدالتوں میں مقدمات کی سماعت جاری ہے، پارلیمنٹ میں قانون سازی ہورہی ہے، افواہ سازی اور قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم ہے۔

بڑی سیاسی خبروں میں سرفہرست سابق وزیر اعظم نواز شریف کا دوبارہ مسلم لیگ ن کا صدر بن کر فعال ہونا ہے جنھیں عدالت عظمیٰ نے 28جولائی 2017کو پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نااہل قرار دیا تھا، ان پر یہ پابندی بھی عائد ہوگئی تھی کہ نہ تو وہ پارٹی کے صدر رہ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی سیاسی اور تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں، ان پر یہ پابندی الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پولیٹیکل آرڈر 2002کے تحت عائد کی تھی جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے قائد کو سیاست میں دوبارہ لانے کی راہ ہموار کرنے اور پارٹی کو متحد و منظم رکھنے کے لیے اپنی پارلیمانی طاقت کے بل بوتے پر انتخابی اصلاحاتی بل 2017پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے بھی منظور کرالیا۔

نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ ن کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کی گئی اور مسلم لیگ ن کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی کے آئین کے آرٹیکل 120کی ذیلی شق 3میں ترمیم کردی، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے۔اس طرح ن لیگ نے اپنے مخالفین کو ایک بار پھر کھل کر کہہ دیا کہ '' روک سکتے ہو تو روک لو ''

دوسری طرف انتخابی اصلاحات بل (الیکشنزایکٹ ترمیمی بل 2017ء ) کے خلاف اب تک سپریم کورٹ میں 7درخواستیں دائر ہوچکی ہیں۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ ایکٹ مکمل طور پر برا نہیں صرف قانون کی شق 203 آئین کی روح کے خلاف اور قانون و آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، اب نااہل شخص منتخب نمایندوں کو ہدایات دیگا اور انھیں نااہل کرسکے گا۔ انتخابی اصلاحاتی بل کی منظوری کے بعد پتہ چلا کہ اس میں ایک سنگین نوعیت کی غلطی ہوگئی ہے اور اس غلطی کا تعلق کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت کے متعلق درج حلفیہ بیان سے تھا۔

ماضی میں ہر الیکشن لڑنے کے خواہشمند سے اس بیان پر حلفیہ بیان لیا جاتا تھا لیکن نئے قانون کے تحت حلفیہ بیان کی جگہ محض اقرار نامے کو شامل کر دیا گیا۔ جس پر شور مچا تو قومی اسمبلی میں نمایندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کو اصل شکل میں واپس لانے کے لیے فوری آئینی ترمیم کی اور ختم نبوت سے متعلق حلف نامہ پرانی حیثیت میں بحال کردیا گیا۔ ضروری ہے کہ اس غلطی کی فوری اور غیر جانبدارانہ انکوائری کرائی جائے،ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کر کے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آیندہ ایسی غلطی نہ ہو۔

قانون سازی معاشرے اور عوام کے لیے ہوتی ہے کسی فرد واحد کو بچانے کے لیے نہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں سیاسی پارٹیاں اپنے منشور، نظریات اور پروگراموں کے بجائے شخصیات کے حوالے سے چلتی ہیں، ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں عوام پارٹیوں کے منشور دیکھ کر ان میں شامل ہوتے ہیں اور کسی معاملے میں اختلاف رائے پیدا ہو تو پارٹی کے اندر ہی بحث و مباحثہ کرکے قیادت تک بدل دیتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کی نگاہ میں انتخابی اصلاحاتی بل کا بنیادی مقصد منتخب نمایندے کی اہلیت کے معیار کو مزید بڑھانا نہیں بلکہ عوامی نمایندگی کے لیے اہلیت سے محروم ہو جانے والے سابق وزیراعظم کو پارٹی قیادت کا اہل بنانا ہے، کیونکہ نواز شریف کے بغیر ن لیگ کا پارٹی نظام چلانا محال ہوگیا تھا اور خود پارٹی کو قابو میں رکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا تو سابق وزیراعظم نے جی ٹی روڈ پر اور پھر میڈیا کے سامنے لگاتار یہ سوال کیا کہ '' مجھے کیوں نکالا ''۔ پھر وہ سویلین بالا دستی کا نعرہ لگا کر بیرون ملک چلے گئے، کہا جارہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کلثوم کے مکمل علاج تک لندن میں ہی رہیں گے اور فوری وطن واپس نہیں آئینگے مگر نواز شریف کی لندن سے ڈرامائی انداز میں وطن واپسی ہوئی اور وہ احتساب عدالت میں پیش ہونے کے بعد واپس بیرون ملک روانہ ہوگئے۔ جب کہ عدم حاضری پر عدالت نے نواز شریف کے بچوں اور داماد کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔


سیاسی مبصرین کی نظر میں این اے 120کا نتیجہ مسلم لیگ(ن) کے حق میں آنے کے بعد نوازشریف نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اب جب کہ وہ ایک پھر بیرون ملک جا چکے ہیں تو یہ سننے میں آرہا ہے کہ ان کی واپسی کی تاریخ اگلے سال ہے اور وہ احتساب عدالت میں فرد جرم عائد ہونے سے بچنے کے لیے فوری طور پر واپس نہیں آئیں گے ان کے وکلا انھیں ٹال مٹول کی پالیسی اپنانے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے شریف خاندان کے لیے آئے دن مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاناما کیس میں نواز شریف کو نہ صرف نااہل قرار دے دیا گیا بلکہ ان کے اور ان کے بچوں کے ارد گرد احتساب کا ایسا جال بچھا دیا گیا ہے، جس سے ان کا بچ نکلنا آسان نظر نہیں آتا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ شریف خاندان کے لیے پاناما کیس کے فیصلے سے بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میاں شہباز شریف کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کے دوبارہ کھلنے سے شریف برادران کے لیے احتساب کا شکنجہ مزید سخت ہو جائے گا۔ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس ان کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گا۔ شریف برادران اپنی سیاسی بقاء کے لیے کیا راستہ اختیار کرینگے یہ ایک اہم سوال ہے۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا تو مسلم لیگ ن اور شریف برادران کے پاس ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ وہ اپنے دفاع کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کریں۔ سینیٹ و قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات بل 2017کی منظوری اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ میاں محمد نواز شریف پارلیمنٹ کے ذریعے مزید ایسی آئینی ترامیم لا سکتے ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنے خلاف تنگ ہوتے ہوئے شکنجے کو توڑنے کی کوشش کرینگے، احتساب عدالت سے نجات حاصل کرنے کے لیے احتساب قوانین میں تبدیلی اور نواز شریف کو دوبارہ وزارت عظمیٰ کا اہل بنانے کے لیے دستور میں بھی ترمیم کی جاسکتی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے، اس کے باوجود ن لیگ نے مجوزہ ترمیمی قانون کی حمایت میں 37 کے مقابلے میں 38ووٹ حاصل کر کے ایک ووٹ کی برتری سے کامیابی حاصل کی۔ یہاں عمران خان کے دونوں جماعتوں پر مک مکا کے لگائے گئے الزامات کی تصدیق ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف کے 7سینیٹرز کی اس اہم قانون سازی پر بے خبری اور عدم موجودگی کا عمران خان کے پاس کیا جواز ہے؟

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن بل کی متنازع شقوں کی منظوری میں کامیاب ہوگئی، اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی آیندہ بھی ایسی آئینی ترامیم کی حمایت کر سکتی ہے، جو سیاست دانوں کو مزید طاقتور بنانے کے لیے کی جا سکتی ہیں۔ اس سے وہ حالات پیدا ہو سکتے ہیں، جنھیں کچھ حلقے اداروں کے ٹکراؤ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حکمراںمسلم لیگ ن میں شامل سیاست دانوں کے تدبر کا امتحان ہو گا کہ وہ تصادم کو کیسے روکتے ہیں یا تصادم کے ماحول میں جمہوریت اور جمہوری عمل کا کس طرح تحفظ کرتے ہیں۔

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، ان کی فیملی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف جو ریفرنسز دائر ہیں ان سے بری ہونے کا سب سے مثبت طریقہ یہی ہے کہ ان قانونی معاملات کو قانونی انداز ہی میں حل کیا جائے اور اسے سیاسی پلیٹ فارم پر متنازع بنانے سے گریز کیا جائے کیونکہ داخلی حالات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی حالات بھی سیاست دانوں کی تدبیروں کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہیں۔

پاکستان اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر مشکل حالات سے گزر رہا ہے، اس صورت میں حکومت اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی سیاسی استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، پاکستان کی سیاسی قوتوں کو اس نازک صورتحال میں فہم وفراست سے کام لینا ہو گا ۔ ذاتی انا اور اقتدار کی خواہش پر ملکی سالمیت اور اجتماعی قومی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔
Load Next Story