اطمینان والی روحیں
انھیں اپنی قسمت پر نازکرنا چاہیے کہ اللہ پاک نے اْن کو ایسی پاک طینت ساس کی بہو ہونے کے اعزاز سے نوازا
RAWALPINDI:
دورانِ سفر امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا گزر جب ایک بستی سے ہْوا تو شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور رات کی سیاہی دن کے اجالے کو بس نگلنے ہی والی تھی۔ امام نے سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے وہیں رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ بستی کی چھوٹی سی کچی مسجد میں جا کر پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور پھر تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے چٹائی پر لیٹ گئے۔
ابھی جاگ ہی رہے تھے کہ بستی کے پہریدار نے بیرونی دروازے سے جھانک کر دیکھا اور امام کو صحن میں لیٹا ہوا دیکھ کر اندر آگیا۔ اس نے امام سے اپنے مخصوص اکھڑ لہجے میں کہا یہ سونے کی نہیں نماز پڑھنے کی جگہ ہے، لہذا آپ نے اگر نماز پڑھ لی ہے تو یہاں سے تشریف لے جائیں۔
امام نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ایک مسافر ہیں، رات پڑ جانے کے باعث انھیں مجبوراً رکنا پڑا ہے، بستی میں ان کا کوئی جاننے والا بھی نہیں لہذا وہ مہربانی کرکے انھیں مسجد میں رات گزار لینے دے، صبح نمازِ فجر ادا کرتے ہی وہ اپنے سفر پر روانہ ہو جائیں گے، لیکن پہریدار پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ مسلسل امام کو پریشان کرتا رہا، اْس نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ یہ سونے کی جگہ نہیں۔
جوابِ جاہلاں خاموشی باشد کے مصداق امام نے اْس کے ساتھ بحث کرنا فضول جانا، بدستور لیٹے رہے اور خاموشی اختیار کرکے آنکھیں موند لیں۔ اْن کا خیال تھا پہریدار تھک ہار کر چلا جائے گا لیکن اْس کمبخت نے جب دیکھا کہ امام اْس کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہے تو ہاتھا پائی پر اتر آیا اور جھپٹ کر امام کی ٹانگ پکڑ لی۔ اْس نے انھیں گھسیٹنا شروع کیا اور کھینچتا ہوا مسجد سے باہر لے گیا، وہاں ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اْس نے امام کی ٹانگ چھوڑی اور بولا اب یہاں پڑے سوتے رہیے، آپ کوکوئی نہیں جگائے گا۔
وہ ابھی جانے کے لیے پوری طرح مڑا بھی نہ تھا کہ سامنے گلی سے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں تسبیح لیے آتے ہوئے ایک بزرگ نے اسے امام کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھ لیا، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں پہنچے، پہریدار کو سرزنش کی کہ کسی مسافر کے ساتھ پیش آنے کا یہ کونسا طریقہ ہے، پھر امام سے پہریدار کے نامناسب رویہ پر معذرت کی اور انھیں بطور مہمان ٹھہرانے کے لیے اپنے گھر لے گئے۔ انھوں نے امام کے لیے کھانا بنوایا، آرام دہ بستر لگوایا، پانی لاکر منہ ہاتھ دھلوایا، اور صبح ان کے وضو کے لیے لوٹا بھر کر رکھا۔ غرض ان بزرگ نے امام کی حتی المقدور خدمت اور خاطر تواضع کی۔ وہ بار بار امام کو اپنی بستی میں ہونے والی زحمت پر معذرت اور اظہارِ شرمندگی کرتے رہے۔
پھر مہمان کو آرام کرنے کا کہہ کر جب وہ بزرگ جانے لگے تو امام نے، جو اپنے میزبان کی شرافت اور حسن سلوک سے بیحد متاثر ہوئے تھے، انھیں ''ذرا ٹھہریں'' کہہ کر روکا اور فرمایا اگر وہ برا نہ منائیں تو وہ ان سے کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ اجازت پاکر امام نے پوچھا یہ آپ ہر وقت کس کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں؟ بزرگ نے جواب دیا کلمہ تمجید (تیسرے کلمے) کی۔ امام نے پھر دریافت کیا کب سے پڑھ رہے ہیں؟ وہ بولے میں نے کبھی شمار تو نہیں کیا، البتہ ایک مدت گزر چکی ہے اور میں جوانی سے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوگیا ہوں۔
''کچھ حاصل بھی ہوا؟'' یہ امام کا اگلا سوال تھا۔ بزرگ نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے بقول ان کے اس تسبیح کی برکت سے ان کی ہر خواہش پوری کی ہے، اور اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بولے شاید ہی میری کوئی خواہش، آرزو یا تمنا ایسی ہو جو پوری ہونے سے رہ گئی ہو۔ ''پھر آپ نے ابتک یہ مشق کیوں جاری رکھی ہوئی ہے؟'' یہ امام کا دوسرا سوال تھا۔ ''اپنی آخری خواہش کی تکمیل کے انتظار میں'' بزرگ نے جواب دیا اور بتایا کہ وہ امام احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں اور چاہتے کہ مرنے سے پہلے کسی طرح اْن کا دیدار کرلیں۔ یہ سننا تھا کہ امام کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگئے، ان کی حالت دیدنی تھی اور وہ رشک و حسرت کے جذبات سے مغلوب ہوکر مسلسل اپنے میزبان کو دیکھے جا رہے تھے، پھر جب اس کیفیت سے نکلے تو اٹھ کر ان سے بغلگیر ہوگئے اور رندھی ہوئی آواز میں بولے ''تو پھر لو، خوب جی بھر کر دیکھ لو، میں ہی احمد بن حنبل ہوں، جسے آپکی خواہش پوری کرنے کی خاطر ٹانگ سے پکڑوا اور گھسیٹوا کر یہاں لایا گیا ہے۔''
اْس روز گھر میں بچوں سے باتیں کرتے ہوئے جب ایک رشتے دار دیہاتی بڑھیا کا ذکر نکلا تو اسلامی تاریخ کا مندرجہ بالا واقعہ کسی منظر کی طرح میری نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ وہ بڑھیا ہماری بڑی آپا کی ساس تھیں، گاؤں میں اپنے چار بیٹوں اور ان کے بچوں کے ساتھ رہتی تھیں اور سب کی مشترکہ ذمے داری تھیں، 100 سال کے قریب عمر پائی تھی، چلتی پھرتی تھیں، بس ذرا بینائی کمزور ہوگئی تھی، برآمدے یا صحن میں چارپائی پر لیٹی رہتی تھیں، تسبیح ان کے ہاتھ میں ہوتی، جس بیٹے کے گھر سے پہلے کھانا آتا، کھالیتیں۔ پوتی یا پوتا جو کھانا لاتا، انھیں سہارا دے کر اٹھاتا اور وہ چارپائی پر آلتی پالتی مار کے بیٹھ جاتیں اور کھانا کھاتیں، لیکن پہلے آدھی روٹی توڑکر کتے کو ڈالنا نہ بھولتیں جو ہر وقت ان کی چارپائی کے نیچے بیٹھا رہتا تھا۔
اْس روز بھی جب انھوں نے وفات پائی، سب کچھ اْسی طرح ہوا تھا، سوائے اس کے کہ اپنی اْس پوتی کو جو کھانا (چنگیر میں رومال کے اندر چپڑی ہوئی ایک روٹی اور لسی کا گلاس) لائی تھی اور پاس بیٹھی پنکھا جھل رہی تھی، تسبیح پکڑاتے ہوئے بولیں ''لے بھئی میں تو چلی، یہ باقی دانے پڑھ کے پوری کر لینا۔'' لڑکی نے ان کے ہاتھ سے تسبیح تو لے لی پر سمجھی نہیں کہ دادی کیا کہہ رہی ہیں، پوچھا کیا پڑھنا ہے تو انھوں نے بتایا تیسرا کلمہ۔ اْن کا ایک مدت سے یہ معمول تھا، اسی کی برکت تھی کہ انھیں ایسی پْرسکون موت نصیب ہوئی۔
قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے اطمینان والی روح، تْو اپنے پروردگار (کی رحمت) کی طرف چل، اس طرح سے کہ تْو اْس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش، پھر (اْدھر چل کر) تْو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا (کہ یہ بھی نعمتِ روحانی ہے)، اور میری جنت میں داخل ہوجا۔" (پارہ 30، سورہ فجر، آیت 27 تا 30)۔ میرا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت نے مندرجہ بالا آیات کریمہ اپنے ان پیارے اور مقرب بندوں کی شان میں ہی نازل فرمائی ہیں جنھیں نفسِ مطمئنہ کہہ کر پکارا گیا ہے۔
تصور کیجیے ایک طرف امام احمد بن حنبل جیسسی عظیم المرتبت دینی، علمی اور روحانی ہستی اور دوسری جانب چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے کلمہ تمجید کا ورد کرتا ہوا ان کا وہ ایک عام سا پیروکار جس کو پروردگار نے اْس کی برکت سے سے مستجاب الدعوات بنا دیا تھا اور وہ بھی ایسا کہ کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آئے۔ میں تو اپنی آپا (مرحومہ) سے بھی ( اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نْور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے) کہا کرتا تھا کہ انھیں اپنی قسمت پر نازکرنا چاہیے کہ اللہ پاک نے اْن کو ایسی پاک طینت ساس کی بہو ہونے کے اعزاز سے نوازا جنہوں نے زندگی دینے والے کی پْکار پر بڑے اطمینان اور سکون سے موت کو گلے لگایا اور ایک تھکا دینے والی لمبی عمر گزار کر یوں سفرِ آخرت پر روانہ ہوئیں جیسے اپنے گھر کے ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں گئی ہوں۔
دورانِ سفر امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا گزر جب ایک بستی سے ہْوا تو شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور رات کی سیاہی دن کے اجالے کو بس نگلنے ہی والی تھی۔ امام نے سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے وہیں رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ بستی کی چھوٹی سی کچی مسجد میں جا کر پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور پھر تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے چٹائی پر لیٹ گئے۔
ابھی جاگ ہی رہے تھے کہ بستی کے پہریدار نے بیرونی دروازے سے جھانک کر دیکھا اور امام کو صحن میں لیٹا ہوا دیکھ کر اندر آگیا۔ اس نے امام سے اپنے مخصوص اکھڑ لہجے میں کہا یہ سونے کی نہیں نماز پڑھنے کی جگہ ہے، لہذا آپ نے اگر نماز پڑھ لی ہے تو یہاں سے تشریف لے جائیں۔
امام نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ایک مسافر ہیں، رات پڑ جانے کے باعث انھیں مجبوراً رکنا پڑا ہے، بستی میں ان کا کوئی جاننے والا بھی نہیں لہذا وہ مہربانی کرکے انھیں مسجد میں رات گزار لینے دے، صبح نمازِ فجر ادا کرتے ہی وہ اپنے سفر پر روانہ ہو جائیں گے، لیکن پہریدار پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ مسلسل امام کو پریشان کرتا رہا، اْس نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ یہ سونے کی جگہ نہیں۔
جوابِ جاہلاں خاموشی باشد کے مصداق امام نے اْس کے ساتھ بحث کرنا فضول جانا، بدستور لیٹے رہے اور خاموشی اختیار کرکے آنکھیں موند لیں۔ اْن کا خیال تھا پہریدار تھک ہار کر چلا جائے گا لیکن اْس کمبخت نے جب دیکھا کہ امام اْس کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہے تو ہاتھا پائی پر اتر آیا اور جھپٹ کر امام کی ٹانگ پکڑ لی۔ اْس نے انھیں گھسیٹنا شروع کیا اور کھینچتا ہوا مسجد سے باہر لے گیا، وہاں ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اْس نے امام کی ٹانگ چھوڑی اور بولا اب یہاں پڑے سوتے رہیے، آپ کوکوئی نہیں جگائے گا۔
وہ ابھی جانے کے لیے پوری طرح مڑا بھی نہ تھا کہ سامنے گلی سے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں تسبیح لیے آتے ہوئے ایک بزرگ نے اسے امام کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھ لیا، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں پہنچے، پہریدار کو سرزنش کی کہ کسی مسافر کے ساتھ پیش آنے کا یہ کونسا طریقہ ہے، پھر امام سے پہریدار کے نامناسب رویہ پر معذرت کی اور انھیں بطور مہمان ٹھہرانے کے لیے اپنے گھر لے گئے۔ انھوں نے امام کے لیے کھانا بنوایا، آرام دہ بستر لگوایا، پانی لاکر منہ ہاتھ دھلوایا، اور صبح ان کے وضو کے لیے لوٹا بھر کر رکھا۔ غرض ان بزرگ نے امام کی حتی المقدور خدمت اور خاطر تواضع کی۔ وہ بار بار امام کو اپنی بستی میں ہونے والی زحمت پر معذرت اور اظہارِ شرمندگی کرتے رہے۔
پھر مہمان کو آرام کرنے کا کہہ کر جب وہ بزرگ جانے لگے تو امام نے، جو اپنے میزبان کی شرافت اور حسن سلوک سے بیحد متاثر ہوئے تھے، انھیں ''ذرا ٹھہریں'' کہہ کر روکا اور فرمایا اگر وہ برا نہ منائیں تو وہ ان سے کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ اجازت پاکر امام نے پوچھا یہ آپ ہر وقت کس کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں؟ بزرگ نے جواب دیا کلمہ تمجید (تیسرے کلمے) کی۔ امام نے پھر دریافت کیا کب سے پڑھ رہے ہیں؟ وہ بولے میں نے کبھی شمار تو نہیں کیا، البتہ ایک مدت گزر چکی ہے اور میں جوانی سے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوگیا ہوں۔
''کچھ حاصل بھی ہوا؟'' یہ امام کا اگلا سوال تھا۔ بزرگ نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے بقول ان کے اس تسبیح کی برکت سے ان کی ہر خواہش پوری کی ہے، اور اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بولے شاید ہی میری کوئی خواہش، آرزو یا تمنا ایسی ہو جو پوری ہونے سے رہ گئی ہو۔ ''پھر آپ نے ابتک یہ مشق کیوں جاری رکھی ہوئی ہے؟'' یہ امام کا دوسرا سوال تھا۔ ''اپنی آخری خواہش کی تکمیل کے انتظار میں'' بزرگ نے جواب دیا اور بتایا کہ وہ امام احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں اور چاہتے کہ مرنے سے پہلے کسی طرح اْن کا دیدار کرلیں۔ یہ سننا تھا کہ امام کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگئے، ان کی حالت دیدنی تھی اور وہ رشک و حسرت کے جذبات سے مغلوب ہوکر مسلسل اپنے میزبان کو دیکھے جا رہے تھے، پھر جب اس کیفیت سے نکلے تو اٹھ کر ان سے بغلگیر ہوگئے اور رندھی ہوئی آواز میں بولے ''تو پھر لو، خوب جی بھر کر دیکھ لو، میں ہی احمد بن حنبل ہوں، جسے آپکی خواہش پوری کرنے کی خاطر ٹانگ سے پکڑوا اور گھسیٹوا کر یہاں لایا گیا ہے۔''
اْس روز گھر میں بچوں سے باتیں کرتے ہوئے جب ایک رشتے دار دیہاتی بڑھیا کا ذکر نکلا تو اسلامی تاریخ کا مندرجہ بالا واقعہ کسی منظر کی طرح میری نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ وہ بڑھیا ہماری بڑی آپا کی ساس تھیں، گاؤں میں اپنے چار بیٹوں اور ان کے بچوں کے ساتھ رہتی تھیں اور سب کی مشترکہ ذمے داری تھیں، 100 سال کے قریب عمر پائی تھی، چلتی پھرتی تھیں، بس ذرا بینائی کمزور ہوگئی تھی، برآمدے یا صحن میں چارپائی پر لیٹی رہتی تھیں، تسبیح ان کے ہاتھ میں ہوتی، جس بیٹے کے گھر سے پہلے کھانا آتا، کھالیتیں۔ پوتی یا پوتا جو کھانا لاتا، انھیں سہارا دے کر اٹھاتا اور وہ چارپائی پر آلتی پالتی مار کے بیٹھ جاتیں اور کھانا کھاتیں، لیکن پہلے آدھی روٹی توڑکر کتے کو ڈالنا نہ بھولتیں جو ہر وقت ان کی چارپائی کے نیچے بیٹھا رہتا تھا۔
اْس روز بھی جب انھوں نے وفات پائی، سب کچھ اْسی طرح ہوا تھا، سوائے اس کے کہ اپنی اْس پوتی کو جو کھانا (چنگیر میں رومال کے اندر چپڑی ہوئی ایک روٹی اور لسی کا گلاس) لائی تھی اور پاس بیٹھی پنکھا جھل رہی تھی، تسبیح پکڑاتے ہوئے بولیں ''لے بھئی میں تو چلی، یہ باقی دانے پڑھ کے پوری کر لینا۔'' لڑکی نے ان کے ہاتھ سے تسبیح تو لے لی پر سمجھی نہیں کہ دادی کیا کہہ رہی ہیں، پوچھا کیا پڑھنا ہے تو انھوں نے بتایا تیسرا کلمہ۔ اْن کا ایک مدت سے یہ معمول تھا، اسی کی برکت تھی کہ انھیں ایسی پْرسکون موت نصیب ہوئی۔
قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے اطمینان والی روح، تْو اپنے پروردگار (کی رحمت) کی طرف چل، اس طرح سے کہ تْو اْس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش، پھر (اْدھر چل کر) تْو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا (کہ یہ بھی نعمتِ روحانی ہے)، اور میری جنت میں داخل ہوجا۔" (پارہ 30، سورہ فجر، آیت 27 تا 30)۔ میرا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت نے مندرجہ بالا آیات کریمہ اپنے ان پیارے اور مقرب بندوں کی شان میں ہی نازل فرمائی ہیں جنھیں نفسِ مطمئنہ کہہ کر پکارا گیا ہے۔
تصور کیجیے ایک طرف امام احمد بن حنبل جیسسی عظیم المرتبت دینی، علمی اور روحانی ہستی اور دوسری جانب چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے کلمہ تمجید کا ورد کرتا ہوا ان کا وہ ایک عام سا پیروکار جس کو پروردگار نے اْس کی برکت سے سے مستجاب الدعوات بنا دیا تھا اور وہ بھی ایسا کہ کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آئے۔ میں تو اپنی آپا (مرحومہ) سے بھی ( اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نْور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے) کہا کرتا تھا کہ انھیں اپنی قسمت پر نازکرنا چاہیے کہ اللہ پاک نے اْن کو ایسی پاک طینت ساس کی بہو ہونے کے اعزاز سے نوازا جنہوں نے زندگی دینے والے کی پْکار پر بڑے اطمینان اور سکون سے موت کو گلے لگایا اور ایک تھکا دینے والی لمبی عمر گزار کر یوں سفرِ آخرت پر روانہ ہوئیں جیسے اپنے گھر کے ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں گئی ہوں۔