کیٹالونیا یورپ کا نیا سر درد
گزشتہ چند سال کیٹالونیا کی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ تھے۔
لاہور:
لیجیے! یورپ کے ایک اور ملک کے ٹوٹنے کی گھڑی اب زیادہ دور معلوم نہیں ہوتی۔ اسپین سے علیحدگی کے لیے کیٹالونیا میں تمام حکومتی رکاوٹوں کے باوجود ریفرنڈم کا انعقاد ہوہی گیا۔ ہسپانوی پولیس اور کیٹالونیا کے علیحدگی پسندوں کے مابین ہونے والے ڈرامائی تصادم کی تصاویر نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیا، جس میں نو سو کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
طاقت کا بے لگام استعمال کرکے لوگوں کو ووٹنگ اسٹیشن سے دور دھکیلا گیا، بیلٹ پیپر ضبط کرلیے گئے، گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، لیکن پھر بھی کیٹالونیا کے عوام نے ریفرنڈم میں حصہ لیا اور اسپین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالے۔ کیٹالونیا اور اسپین کے مابین اصل تصادم ہے کیا؟ لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف ہے۔ اس بارے میں مزید بات کرنے سے پہلے کیٹالونیا کی تاریخ کا علم ہونا نہایت ضروری ہے۔
مغربی اسپین میں، فرانس کی سرحد کے قریب واقع کیٹالونیا ماضی بعید میں اسپین اور پرتگال کی مشترکہ ریاست کا ایک آزاد خطہ تھا، جس کے اپنے قوانین، رسم و رواج اور زبان تھی۔ کنگ فلپ پنجم کے دور تک ایسا ہی رہا، لیکن ویلینسیا کی شکست کے بعد جب جدید اسپین کا جنم ہوا تو نئے بادشاہوں نے کیٹالونیا میں ہسپانوی زبان اور قوانین رائج کرنے کی کوشش کی، ردعمل میں کیٹالونیا میں اپنے بقا اور تحفظ کی جدوجہد کا آغاز ہوا، جس کے ثمرات برسوں بعد ملے اور 1931ء میں یہاں قومی کیٹیلن حکومت بحال ہوئی۔ لیکن 1938ء میں اسپین میں ہونے والی سب سے طویل اور بڑی خانہ جنگی کے نتیجے میں جب جنرل فرانسسکو فرانکو نے اسپین کا انتظام سنبھالا تو کیٹالونیا میں علیحدگی پسند گروہ کے، ساڑھے تین ہزار افراد کا قتل کروایا اور ہزاروں کو جلاوطن کردیا۔
پھر بھی وہ اس تحریک کو دبا نہ سکا۔ یہ اندر ہی اندر برسوں پنپتی رہی، یہاں تک کہ 1977ء میں کیٹالونیا نے اسپین کے اندر ہی خودمختاری حاصل کرلی۔ البتہ مکمل آزادی کے حصول کے مطالبے نے 2010ء میں تقویت پکڑی۔ اسپین کے آئین میں اس مطالبے کو تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے، اور سارا جھگڑا یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
گزشتہ چند سال کیٹالونیا کی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ تھے۔ 2015ء ستمبر میں یہاں علیحدگی پسندوں کی اکثریت پر مشتمل پارلیمنٹ منتخب ہوئی، جس نے اٹھارہ ماہ کے اندر اندر آزادی کا ریفرنڈم کروانے کا وعدہ کیا۔ اور وہ دن بھی دنیا نے دیکھا کہ اسی ماہ کی یکم تاریخ کو کیٹالونیا کے باشندوں نے اسپین کی حکومت کے تمام ریفرنڈم مخالف اقدامات کے باوجود اسپین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ سنا کر یورپی سیاست کی نئی تاریخ رقم کردی۔
کیٹالونیا کو علیحدگی کے راستے سے روکنے کے لیے اسپین نے بے مہار طاقت کے استعمال کو ترجیح دی، لیکن یہ امر فراموش کردیا کہ عوامی ردعمل کے آگے ریاستی جبر نے ماضی میں بارہا منہ کی کھائی ہے۔ محفوظ راستے کے استعمال کا دروازہ قوموں کے لیے کبھی بھی بند نہیں ہوتا، لیکن اسپین نے غیردانش مندی کا ثبوت دے کر دنیا پر اپنا اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔
بہرحال یہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ کیٹالونیا اسپین کا اہم معاشی مرکز ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اسپین کی معاشی ریل گاڑی کو چلانے والا انجن کیٹالونیا ہی ہے۔ یہاں کی برآمدات قومی کل کے ایک چوتھائی کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اسپین میں ہونے والی ٖغیرملکی سرمایہ کاری کا ایک چوتھائی حصہ جو تقریباً 37 بلین یورو کے قریب ہے، وہ بھی کیٹالونیا ہی کے پاس ہے۔
پورے اسپین کے مقابلے میں یہاں بیروزگاری کی شرح سب سے کم ہے، ہسپانویوں کے مقابلے میں یہاں کے باشندوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہے۔ لہٰذا اسپین کو کیٹالونیا کی علیحدگی کا فیصلہ کسی بھی صورت قبول نہیں، اور وہ اسے جبراً روکنے کے لیے اپنی فوجیں کیٹالونیا میں اتارنے کا عزم ظاہر کرچکا ہے۔ ادھر ریفرنڈم کی کامیابی کے بعد کیٹالونیا کے حکمراں جلد از جلد آزادی کا اعلان کرنے کو بے تاب ہیں۔ گویا ایک آتش فشاں ہے جو پھٹنے کو تیار ہے۔
اس دشوار وقت میں دماغوں کو ٹھنڈا کرکے مصالحت کا راستہ نکالنے کی اہلیت صرف یورپی یونین کے پاس ہے، جو اب تک خاموش مبصر کا کردار نبھارہی ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل، جو یورپ میں جنم لینے والے ہر تنازعے پر ثالثی کے موڈ میں ہوتی ہیں، اس معاملے میں خاموشی کی چادر اوڑھ چکی ہیں۔ یورپی یونین کے رہنماؤں کی جانب سے آنے والا ایک مختصر بیان یہ ہے کہ کیٹالونیا، اسپین کا اندرونی معاملہ ہے اور ہم اسپین کے آئین اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ گویا دو جملوں میں ہی بہت کچھ باور کروا دیا گیا ہے۔
یورپی یونین کو اندیشہ یہ ہے کہ اگر کیٹالونیا الگ ملک قرار دیا جاتا ہے تو اسپین اس سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے دیگر یورپی ممالک کی طرف ہی دیکھے گا، اور ان کے لیے اسپین کا ساتھ دینا لازمی ہوجائے گا، ساتھ ہی اسپین کے مسائل سے نمٹتے نمٹتے یورپی ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہوجائے گا۔ اس بنیاد پر اب اگر کیٹالونیا کی مرضی کے خلاف، اس کو اسپین کا حصہ ہی بنا کر رکھنے پر زور دیا جاتا ہے تو اس کے لیے اسپین کے پاس سوائے جبر کے دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ کیٹالونیا کے غیر مطمئن عوام اور اسپین کے مابین تنازعہ بڑھتا جائے گا جس کے لازمی اثر کے طور پر اسپین میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوگی۔
دونوں صورتوں میں اسپین یورپی یونین سے ہی مدد طلب کرے گا، اسی لیے یونین کے اراکین اس معاملے پر خاموشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے میں عافیت جان رہے ہیں، شواہد تو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ان کی خاموش حمایت اسپین کے ساتھ ہی ہے، کیونکہ ابھی یورپ بریگزٹ کے جھٹکے سے ہی نہیں سنبھل پایا، اب یہ تنازعہ مستحکم یورپ کے خواب میں رخنے کے سوا کچھ نہیں۔
یورپی یونین کے فورم پر بارہا کیٹالونیا کے مثبت معاشی اور سماجی کردار کو سراہے جانے کے باوجود کسی کی حمایت اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت یورپ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں علیحدگی کی تحریکوں کی نشوونما ہو رہی ہے۔ فرانس، اٹلی، نیدرلینڈز، فن لینڈ، جارجیا، ڈنمارک، بیلجیئم، پولینڈ سمیت ایک لمبی فہرست ان یورپی ممالک کی ہے، جہاں علیحدگی پسند تحریکیں فعال ہوتی جا رہی ہیں، اسکاٹ لینڈ بھی برطانیہ سے علیحدگی کے لیے پر تول رہا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان نے اس کی حمایت کردی ہے، یہاں 2014ء میں بھی علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا تھا، جس میں رائے دہندگان کی اکثریت نے آزادی کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا، لیکن بریگزٹ کے بعد یورپی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگوں نے یورپی عوام کی رائے یکسر تبدیل کردی ہے۔ لہٰذا اگر کٰیٹالونیا کی علیحدگی کی خواہش پوری کردی جائے گی، تو بہت جلد اسکاٹ لینڈ علیحدگی کے لیے برطانیہ کے سر پر آن کھڑا ہوگا۔ دیگر یورپی ممالک میں بھی یہ تحریکیں پوری قوت سے ابھرنے لگیں گی، جن سے نمٹنا ریاستوں کے لیے درد سر بن جائے گا۔ ماضی میں بھی یہ تحریکیں پورے یورپ میں بدامنی اور انتشار کا باعث بنی رہی ہیں۔
کہیں تو آزاد ریاست کے لیے عشروں کی جدوجہد بھی کوئی رنگ نہ لاسکی اور کہیں حیرت انگیز طور پر علیحدگی عمل میں آہی گئی، جیسے ایسٹونیا اور چیکوسلواکیہ۔ اور بعض جگہ حکومت اور علیحدگی پسندوں کا تصادم بدترین خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا، جیسے کروشیا، بوسنیا اور یوکرین۔ اب بھی متعدد علیحدگی پسند گروہ موجود ہیں، جن کے متوالے کیٹالونیا کی صورت حال پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف یورپ میں نہیں بلکہ دنیا کے کتنے ہی ممالک میں ایسی تحریکیں جاری ہیں، لہٰذا یورپی یونین کی طرف سے اگر کیٹالونیا کی حمایت کی گئی تو پوری دنیا میں خاموشی سے سرائیت کرتی ان تحریکوں کو ایک اور مثال مل جائے گی۔
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان تحریکوں کو سختی کے ساتھ کچل دیا جائے، بلکہ سیاسی بصیرت اور دانش مندی سے ان کو گفتگو اور مصالحت کے دروازے سے اندر لایا جائے۔ علیحدگی کے بجائے ان کو ساتھ جڑے رہنے کے زیادہ سے زیادہ فوائد دکھائے جائیں اور ان کے جائز مطالبات کو فوراً تسلیم کر لیا جائے۔
جہاں تک معاملہ اسپین اور کیٹالونیا کا ہے تو وقت اب بھی پوری طرح نکلا نہیں، مذاکرات کا فوری آغاز کردیا جائے تو دشواریوں پر قابو پانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اہم امر تو یہ ہے کہ کیٹالونیا کے صدر نے بھی اس معاملے پر بین الاقوامی ثالث بٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ شاید خود اسپین کو اپنی غلطیاں سدھارنے کا ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔
اسپین اور کیٹالونیا کے تنازعے سے دنیا کیا سبق حاصل کرتی ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
لیجیے! یورپ کے ایک اور ملک کے ٹوٹنے کی گھڑی اب زیادہ دور معلوم نہیں ہوتی۔ اسپین سے علیحدگی کے لیے کیٹالونیا میں تمام حکومتی رکاوٹوں کے باوجود ریفرنڈم کا انعقاد ہوہی گیا۔ ہسپانوی پولیس اور کیٹالونیا کے علیحدگی پسندوں کے مابین ہونے والے ڈرامائی تصادم کی تصاویر نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیا، جس میں نو سو کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
طاقت کا بے لگام استعمال کرکے لوگوں کو ووٹنگ اسٹیشن سے دور دھکیلا گیا، بیلٹ پیپر ضبط کرلیے گئے، گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، لیکن پھر بھی کیٹالونیا کے عوام نے ریفرنڈم میں حصہ لیا اور اسپین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالے۔ کیٹالونیا اور اسپین کے مابین اصل تصادم ہے کیا؟ لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف ہے۔ اس بارے میں مزید بات کرنے سے پہلے کیٹالونیا کی تاریخ کا علم ہونا نہایت ضروری ہے۔
مغربی اسپین میں، فرانس کی سرحد کے قریب واقع کیٹالونیا ماضی بعید میں اسپین اور پرتگال کی مشترکہ ریاست کا ایک آزاد خطہ تھا، جس کے اپنے قوانین، رسم و رواج اور زبان تھی۔ کنگ فلپ پنجم کے دور تک ایسا ہی رہا، لیکن ویلینسیا کی شکست کے بعد جب جدید اسپین کا جنم ہوا تو نئے بادشاہوں نے کیٹالونیا میں ہسپانوی زبان اور قوانین رائج کرنے کی کوشش کی، ردعمل میں کیٹالونیا میں اپنے بقا اور تحفظ کی جدوجہد کا آغاز ہوا، جس کے ثمرات برسوں بعد ملے اور 1931ء میں یہاں قومی کیٹیلن حکومت بحال ہوئی۔ لیکن 1938ء میں اسپین میں ہونے والی سب سے طویل اور بڑی خانہ جنگی کے نتیجے میں جب جنرل فرانسسکو فرانکو نے اسپین کا انتظام سنبھالا تو کیٹالونیا میں علیحدگی پسند گروہ کے، ساڑھے تین ہزار افراد کا قتل کروایا اور ہزاروں کو جلاوطن کردیا۔
پھر بھی وہ اس تحریک کو دبا نہ سکا۔ یہ اندر ہی اندر برسوں پنپتی رہی، یہاں تک کہ 1977ء میں کیٹالونیا نے اسپین کے اندر ہی خودمختاری حاصل کرلی۔ البتہ مکمل آزادی کے حصول کے مطالبے نے 2010ء میں تقویت پکڑی۔ اسپین کے آئین میں اس مطالبے کو تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے، اور سارا جھگڑا یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
گزشتہ چند سال کیٹالونیا کی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ تھے۔ 2015ء ستمبر میں یہاں علیحدگی پسندوں کی اکثریت پر مشتمل پارلیمنٹ منتخب ہوئی، جس نے اٹھارہ ماہ کے اندر اندر آزادی کا ریفرنڈم کروانے کا وعدہ کیا۔ اور وہ دن بھی دنیا نے دیکھا کہ اسی ماہ کی یکم تاریخ کو کیٹالونیا کے باشندوں نے اسپین کی حکومت کے تمام ریفرنڈم مخالف اقدامات کے باوجود اسپین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ سنا کر یورپی سیاست کی نئی تاریخ رقم کردی۔
کیٹالونیا کو علیحدگی کے راستے سے روکنے کے لیے اسپین نے بے مہار طاقت کے استعمال کو ترجیح دی، لیکن یہ امر فراموش کردیا کہ عوامی ردعمل کے آگے ریاستی جبر نے ماضی میں بارہا منہ کی کھائی ہے۔ محفوظ راستے کے استعمال کا دروازہ قوموں کے لیے کبھی بھی بند نہیں ہوتا، لیکن اسپین نے غیردانش مندی کا ثبوت دے کر دنیا پر اپنا اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔
بہرحال یہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ کیٹالونیا اسپین کا اہم معاشی مرکز ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اسپین کی معاشی ریل گاڑی کو چلانے والا انجن کیٹالونیا ہی ہے۔ یہاں کی برآمدات قومی کل کے ایک چوتھائی کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اسپین میں ہونے والی ٖغیرملکی سرمایہ کاری کا ایک چوتھائی حصہ جو تقریباً 37 بلین یورو کے قریب ہے، وہ بھی کیٹالونیا ہی کے پاس ہے۔
پورے اسپین کے مقابلے میں یہاں بیروزگاری کی شرح سب سے کم ہے، ہسپانویوں کے مقابلے میں یہاں کے باشندوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہے۔ لہٰذا اسپین کو کیٹالونیا کی علیحدگی کا فیصلہ کسی بھی صورت قبول نہیں، اور وہ اسے جبراً روکنے کے لیے اپنی فوجیں کیٹالونیا میں اتارنے کا عزم ظاہر کرچکا ہے۔ ادھر ریفرنڈم کی کامیابی کے بعد کیٹالونیا کے حکمراں جلد از جلد آزادی کا اعلان کرنے کو بے تاب ہیں۔ گویا ایک آتش فشاں ہے جو پھٹنے کو تیار ہے۔
اس دشوار وقت میں دماغوں کو ٹھنڈا کرکے مصالحت کا راستہ نکالنے کی اہلیت صرف یورپی یونین کے پاس ہے، جو اب تک خاموش مبصر کا کردار نبھارہی ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل، جو یورپ میں جنم لینے والے ہر تنازعے پر ثالثی کے موڈ میں ہوتی ہیں، اس معاملے میں خاموشی کی چادر اوڑھ چکی ہیں۔ یورپی یونین کے رہنماؤں کی جانب سے آنے والا ایک مختصر بیان یہ ہے کہ کیٹالونیا، اسپین کا اندرونی معاملہ ہے اور ہم اسپین کے آئین اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ گویا دو جملوں میں ہی بہت کچھ باور کروا دیا گیا ہے۔
یورپی یونین کو اندیشہ یہ ہے کہ اگر کیٹالونیا الگ ملک قرار دیا جاتا ہے تو اسپین اس سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے دیگر یورپی ممالک کی طرف ہی دیکھے گا، اور ان کے لیے اسپین کا ساتھ دینا لازمی ہوجائے گا، ساتھ ہی اسپین کے مسائل سے نمٹتے نمٹتے یورپی ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہوجائے گا۔ اس بنیاد پر اب اگر کیٹالونیا کی مرضی کے خلاف، اس کو اسپین کا حصہ ہی بنا کر رکھنے پر زور دیا جاتا ہے تو اس کے لیے اسپین کے پاس سوائے جبر کے دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ کیٹالونیا کے غیر مطمئن عوام اور اسپین کے مابین تنازعہ بڑھتا جائے گا جس کے لازمی اثر کے طور پر اسپین میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوگی۔
دونوں صورتوں میں اسپین یورپی یونین سے ہی مدد طلب کرے گا، اسی لیے یونین کے اراکین اس معاملے پر خاموشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے میں عافیت جان رہے ہیں، شواہد تو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ان کی خاموش حمایت اسپین کے ساتھ ہی ہے، کیونکہ ابھی یورپ بریگزٹ کے جھٹکے سے ہی نہیں سنبھل پایا، اب یہ تنازعہ مستحکم یورپ کے خواب میں رخنے کے سوا کچھ نہیں۔
یورپی یونین کے فورم پر بارہا کیٹالونیا کے مثبت معاشی اور سماجی کردار کو سراہے جانے کے باوجود کسی کی حمایت اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت یورپ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں علیحدگی کی تحریکوں کی نشوونما ہو رہی ہے۔ فرانس، اٹلی، نیدرلینڈز، فن لینڈ، جارجیا، ڈنمارک، بیلجیئم، پولینڈ سمیت ایک لمبی فہرست ان یورپی ممالک کی ہے، جہاں علیحدگی پسند تحریکیں فعال ہوتی جا رہی ہیں، اسکاٹ لینڈ بھی برطانیہ سے علیحدگی کے لیے پر تول رہا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان نے اس کی حمایت کردی ہے، یہاں 2014ء میں بھی علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا تھا، جس میں رائے دہندگان کی اکثریت نے آزادی کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا، لیکن بریگزٹ کے بعد یورپی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگوں نے یورپی عوام کی رائے یکسر تبدیل کردی ہے۔ لہٰذا اگر کٰیٹالونیا کی علیحدگی کی خواہش پوری کردی جائے گی، تو بہت جلد اسکاٹ لینڈ علیحدگی کے لیے برطانیہ کے سر پر آن کھڑا ہوگا۔ دیگر یورپی ممالک میں بھی یہ تحریکیں پوری قوت سے ابھرنے لگیں گی، جن سے نمٹنا ریاستوں کے لیے درد سر بن جائے گا۔ ماضی میں بھی یہ تحریکیں پورے یورپ میں بدامنی اور انتشار کا باعث بنی رہی ہیں۔
کہیں تو آزاد ریاست کے لیے عشروں کی جدوجہد بھی کوئی رنگ نہ لاسکی اور کہیں حیرت انگیز طور پر علیحدگی عمل میں آہی گئی، جیسے ایسٹونیا اور چیکوسلواکیہ۔ اور بعض جگہ حکومت اور علیحدگی پسندوں کا تصادم بدترین خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا، جیسے کروشیا، بوسنیا اور یوکرین۔ اب بھی متعدد علیحدگی پسند گروہ موجود ہیں، جن کے متوالے کیٹالونیا کی صورت حال پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف یورپ میں نہیں بلکہ دنیا کے کتنے ہی ممالک میں ایسی تحریکیں جاری ہیں، لہٰذا یورپی یونین کی طرف سے اگر کیٹالونیا کی حمایت کی گئی تو پوری دنیا میں خاموشی سے سرائیت کرتی ان تحریکوں کو ایک اور مثال مل جائے گی۔
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان تحریکوں کو سختی کے ساتھ کچل دیا جائے، بلکہ سیاسی بصیرت اور دانش مندی سے ان کو گفتگو اور مصالحت کے دروازے سے اندر لایا جائے۔ علیحدگی کے بجائے ان کو ساتھ جڑے رہنے کے زیادہ سے زیادہ فوائد دکھائے جائیں اور ان کے جائز مطالبات کو فوراً تسلیم کر لیا جائے۔
جہاں تک معاملہ اسپین اور کیٹالونیا کا ہے تو وقت اب بھی پوری طرح نکلا نہیں، مذاکرات کا فوری آغاز کردیا جائے تو دشواریوں پر قابو پانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اہم امر تو یہ ہے کہ کیٹالونیا کے صدر نے بھی اس معاملے پر بین الاقوامی ثالث بٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ شاید خود اسپین کو اپنی غلطیاں سدھارنے کا ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔
اسپین اور کیٹالونیا کے تنازعے سے دنیا کیا سبق حاصل کرتی ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔