حکومت 201617 کے معاشی اہداف میں ناکام رہی آئی پی آر
رواں سال قدرے بہتر حالات کمزورمعاشی ستونوں کے باعث عارضی ثابت ہوسکتے ہیں
KABUL:
تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے ملک کی معاشی صورتحال پر حقائق نامہ جاری کردیا جس کے مطابق حکومت نے مالی سال 2016-17کے تمام اہداف مس کر دیے ہیں، صرف مہنگائی پر کنٹرول رہا ہے۔
مالی سال 2018 کے لیے کچھ مثبت صورتحال نظر آ رہی ہے جیسا کہ ایف بی آر کی طرف سے پہلی سہ ماہی میں وصولیوں میں 21فیصد گروتھ رہی، اس کے علاوہ برآمدات میں بھی کچھ اضافہ نظر آرہا ہے لیکن کیونکہ ہماری معیشت انتہائی کمزور ستونوں پر کھڑی ہے اس لیے یہ مثبت صورتحال تھوڑے دنوں کے لیے ہی ہو گی۔ حقائق نامے میں کہا گہا کہ ملک کے اندر میکرو اکنامک اشاریے اصل مسئلہ ہیں جو انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12.1 ارب ڈالر ہے جو جی ڈی پی کا 4فیصد بنتا ہے، اس سلسلے میں آئی پی آر نے چند ماہ پہلے بھی حکومت کو اپنی رپورٹ کے ذریعے مستقبل میں آنے والے بحران کے بارے میں آگاہ کیا تھا، جون 2017 میں ملک کے اندر زرمبادلہ کے ذخائر 4ماہ کی درآمدات کے لیے بھی نا کافی تھے اور اس کے بعددرآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے ان میں مزید کمی ہوئی،2016-17 میں غیرملکی زرمبادلہ ذخائر میں 2ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ اس دوران بیرونی قرضہ 9.1 ارب ڈالر بڑھ گیا۔
آئی پی آر نے کہا کہ مالی سال 2018میں بھی معیشت کا یہی رحجان جاری رہے گا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مزید زیادہ ہو جائے گا، درآمدات کی زیادتی اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال انتہائی کمزور ہو جائے گی۔ ملک کے اندر کوئی سرمایہ کاری پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نظر آ رہا ہے کہ وہ ان حالات سے کیسے نمٹے گی۔
حقائق نامے کے مطابق معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ بچت کی جائے اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے جبکہ یہاں صورتحال یہ ہے کہ 2016-17 میں قومی بچت تنزلی کے ساتھ جی ڈی پی کا 13فیصد تھی جبکہ وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں اضافہ حوصلہ افزا ہے۔
رپورٹ میں حکومت کی کچھ ترجیحات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے یعنی پچھلے برسوں میں واٹر سیکٹر، ہایئر ایجوکیشن اور نیشنل ہیلتھ سروسزکا بجٹ کم کیا گیا ہے، واٹر سیکٹر انتہائی شعبہ ہے۔ اس کا بجٹ کم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ملازمتوں کی فراہمی کے سلسلے میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا اور ایک تخمینہ کے مطابق ملک میں ہر سال 20لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ان کے لیے ملازمتیں دستیاب نہیں لہٰذا بیروزگاری میں یہ اضافہ کسی ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔
تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے ملک کی معاشی صورتحال پر حقائق نامہ جاری کردیا جس کے مطابق حکومت نے مالی سال 2016-17کے تمام اہداف مس کر دیے ہیں، صرف مہنگائی پر کنٹرول رہا ہے۔
مالی سال 2018 کے لیے کچھ مثبت صورتحال نظر آ رہی ہے جیسا کہ ایف بی آر کی طرف سے پہلی سہ ماہی میں وصولیوں میں 21فیصد گروتھ رہی، اس کے علاوہ برآمدات میں بھی کچھ اضافہ نظر آرہا ہے لیکن کیونکہ ہماری معیشت انتہائی کمزور ستونوں پر کھڑی ہے اس لیے یہ مثبت صورتحال تھوڑے دنوں کے لیے ہی ہو گی۔ حقائق نامے میں کہا گہا کہ ملک کے اندر میکرو اکنامک اشاریے اصل مسئلہ ہیں جو انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12.1 ارب ڈالر ہے جو جی ڈی پی کا 4فیصد بنتا ہے، اس سلسلے میں آئی پی آر نے چند ماہ پہلے بھی حکومت کو اپنی رپورٹ کے ذریعے مستقبل میں آنے والے بحران کے بارے میں آگاہ کیا تھا، جون 2017 میں ملک کے اندر زرمبادلہ کے ذخائر 4ماہ کی درآمدات کے لیے بھی نا کافی تھے اور اس کے بعددرآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے ان میں مزید کمی ہوئی،2016-17 میں غیرملکی زرمبادلہ ذخائر میں 2ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ اس دوران بیرونی قرضہ 9.1 ارب ڈالر بڑھ گیا۔
آئی پی آر نے کہا کہ مالی سال 2018میں بھی معیشت کا یہی رحجان جاری رہے گا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مزید زیادہ ہو جائے گا، درآمدات کی زیادتی اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال انتہائی کمزور ہو جائے گی۔ ملک کے اندر کوئی سرمایہ کاری پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نظر آ رہا ہے کہ وہ ان حالات سے کیسے نمٹے گی۔
حقائق نامے کے مطابق معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ بچت کی جائے اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے جبکہ یہاں صورتحال یہ ہے کہ 2016-17 میں قومی بچت تنزلی کے ساتھ جی ڈی پی کا 13فیصد تھی جبکہ وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں اضافہ حوصلہ افزا ہے۔
رپورٹ میں حکومت کی کچھ ترجیحات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے یعنی پچھلے برسوں میں واٹر سیکٹر، ہایئر ایجوکیشن اور نیشنل ہیلتھ سروسزکا بجٹ کم کیا گیا ہے، واٹر سیکٹر انتہائی شعبہ ہے۔ اس کا بجٹ کم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ملازمتوں کی فراہمی کے سلسلے میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا اور ایک تخمینہ کے مطابق ملک میں ہر سال 20لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ان کے لیے ملازمتیں دستیاب نہیں لہٰذا بیروزگاری میں یہ اضافہ کسی ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔