
انتخابی اور انقلابی سیاست میں واضح ترین فرق جو عموماً بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انتخابی سیاست میں دراصل کسی جماعت کو ملک کے مجموعی نظام کی بنیادوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ وہ اس بنیاد کی قائل ہوتی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ساتھ یا نااہل لوگوں کے اقتدار کی وجہ سے اس نظام میں کچھ خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں چنانچہ ایک سیاسی جماعت ان خرابیوں کی اصلاح کا منشور اور خود کو موجودہ قیادت کا متبادل بناکر انتخابی میدان میں اترتی ہے۔
اس کے برعکس انقلابی سیاست میں کوئی جماعت رائج نظام اور نظریاتی اساس ہی کو باطل قرار دیتی ہے اور اس موجودہ نظام کے مقابل ایک نیا نظام متعارف کراتی ہے؛ اور اس کا منشاء محض جزوی اصلاحات اور چہروں کی تبدیلی سے پورا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی جدوجہد ایک نئے نظام کے قیام کےلیے ہوتی ہے۔
ایک سیاسی جماعت کو اپنے قیام کےلیے جہاں کچھ مادّی ذرائع اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں ایک سیاسی جماعت کو اپنے قیام کےلیے کچھ نظریاتی بنیادوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ یہ نظریاتی بنیاد جماعت کو منشور یا نظریئے کی صورت میں میسر آتی ہے۔ منشور اور نظریئے میں بھی ان دونوں اقسام میں بنیادی فرق موجود ہے۔ منشور کو عام فہم زبان میں ایک اصلاحی پروگرام کہا جاسکتا ہے کہ جو ریاست کو درپیش مسائل کے ممکنہ حل کا ایک مجموعہ ہوتا ہے اور صاحب منشور اس بات کا دعوے دار ہوتا ہے کہ اگر ہمیں اقتدار نصیب ہوا تو ہم فلاں فلاں اصلاحات کریں گے اور امور ریاست یوں یوں انجام دیں گے؛ جبکہ نظریہ دراصل ایک نئی بنیاد ہوتا ہے جس پر کہ ریاست کا مجموعی نظام تشکیل پانا ہوتا ہے۔
نظریہ ایک جامع پروگرام ہوتا ہے جو ایک نیا نظام پیش کرتا ہے اور قریب قریب تمام شعبہ ہائے ریاست کا احاطہ کرتا ہے۔ نظریاتی اساس کے بعد جماعت کےلیے سب سے اہم کام تنظیم سازی اور کارکنوں کی تربیت کا ہوتا ہے۔ انقلابی جماعتوں کے کارکنوں کی تربیت کا انتخابی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی تربیت سے مختلف ہونا، انقلابی سیاست کا فطری تقاضا ہے۔
انقلابی سیاست میں چونکہ موجودہ نظام ہی کو چیلنچ کیا جاتا ہے، اس لیے یہ لازمی ہے کہ جماعت کے کارکنوں کو ایک طرف موجودہ نظام کے باطل ہونے کا نہ صرف یقین ہو بلکہ اگر ان سے اس کی وضاحت طلب کی جائے تو وہ کسی مخمصے کا شکار نہ ہوں۔ دوسری طرف انہیں اپنے مجوزہ نظام سے بھی پوری پوری آگاہی ہو اور اپنے نظریئے کی صداقت پر بھی کامل یقین ہو۔
انقلابی سیاست چونکہ مروجہ سیاسی طریقے کو ترک کرکے ایک نیا طریقہ اپنانے کی داعی ہوتی ہے، لہذا اسے دوسری تمام دوسری جماعتوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام کی اکثریت انتخابی سیاست سے ہی آشنا ہوتی ہے اور اکثریت کےلیے یہ طریقہ بالکل نیا ہوتا ہے۔ یعنی عوام کو اپنی جانب مائل کرنے کےلیے بھی انقلابی جماعت کے کارکنوں کو دوسری جماعتوں کے کارکنوں کی نسبت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
انتخابی سیاست کی نسبت انقلابی سیاست میں کسی جماعت کے کارکنوں سے ایک بڑی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور عوام اس بڑی قربانی کےلیے تبھی تیار ہوسکتے ہیں جب ان کی تربیت بھی اسی طرح کی گئی ہو۔ جماعت کا نظریاتی اساس پر قیام، قیام کے بعد کارکنوں کی تربیت، تربیت کے بعد کارکنوں کی قابل ذکر تعداد، اور کارکنوں کی قابل ذکر تعداد کے بعد عوامی جدوجہد کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ کارکنوں کی تربیت بھی ایک طرح سے جدوجہد کا ہی ایک مرحلہ ہے لیکن ایک نئی جماعت کو شروع میں کچھ ایسے کارکن ضرور درکار ہوتے ہیں جو تربیت مکمل کرکے باقاعدہ جماعت کا حصہ بن چکے ہوں اور اب وہ جماعت کے پیغام کو ملک کے دوسرے علاقوں میں بسنے والے افراد تک پہنچائیں۔ جدوجہد سے مراد یہ بھی نہیں کہ کارکنوں کی تربیت کا مرحلہ اس دوران روک دیا جائے، بلکہ اس عوامی جدوجہد کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی تربیت کا مرحلہ بھی پس منظر میں اسی شدت سے جاری رہتا ہے۔
انتخابی اور انقلابی جماعتوں کی جدوجہد میں بھی فرق ہے۔ انتخابی سیاسی جماعت کی جدوجہد کا مرکز و محور عوام کو اپنے منشور سے آگاہ کرنا، موجودہ حکومت کی کمزوریوں سے آگاہ کرنا اور عوام کو انتخابات میں ووٹ دینے کےلیے قائل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انقلابی سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کا بنیادی مقصد شہر شہر، نگر نگر، گلی گلی، گھر گھر اور فرد فرد تک اپنا پیغام پہنچانا، اور عوام کو اپنی جماعت میں شامل کرکے ایک بڑے مقصد کےلیے تیار کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ انقلابی سیاسی جماعت کی جدوجہد دراصل وقت کی قید سے آزاد ایک تحریک ہوتی ہے۔
جدوجہد کے بعد ہر انتخابی سیاسی جماعت کی زندگی میں فیصلہ کن دن تب آتا ہے جب اس جماعت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہوتا ہے؛ اور اگر، بالفرض، وہ جماعت کامیاب نہیں ہوتی یا مروجہ نظام میں اکثریت نہیں حاصل کرپاتی تو اس سے جماعت کو اگرچہ نقصان تو ہوتا ہے لیکن بہرحال دائمی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ اس لیے کیونکہ ایسی جماعت اگلے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہوجاتی ہے اور یہ موقع ایک انتخابی جماعت کو زندگی میں اتنی بار ملتا رہتا ہے جب تک وہ کامیاب نہ ہوجائے۔
انقلابی جماعت ایک طویل مدت تک، یعنی دہائیوں تک، تربیت اور جدوجہد کے مرحلے تک ہی محدود رہتی ہے اور پھر کہیں جاکر وہ اتنی طاقت حاصل کرپاتی ہے کہ وہ موجودہ نظام کی تبدیلی کےلیے میدان میں نکل آئے۔ لیکن بالفرض اگر وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوجاتی ہے تو جماعت کے پاس کسی جدوجہد کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا بلکہ جماعت ہی گویا فوت ہوجاتی۔ پھر اس کی باقیات میں سے ایک نئی جماعت کا وجود پانا دہائیوں اور صدیوں پر مشتمل عمل ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کےلیے کونسا طرزِ سیاست مناسب ہے؟ اس کےلیے لازم ہے کہ پاکستان میں رائج نظام کا تجزیہ کیا جائے۔ پاکستان اسلام کے نام پر اورجمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' تجویز کیا گیا تھا۔ میرے نزدیک پاکستان میں ایک ایسی اصولی، انقلابی اور اصلاحی جماعت ناگزیر ہے جو اگرچہ جمہوری جماعت ہو لیکن خالص انقلابی طرز پر جدوجہد کرے۔ یعنی جس کا قیام ایک نظریئے پر ہو، جو کارکنوں کی انقلابی خطوط پر تربیت کرے، کارکنوں کو مستقبل کی قیادت کے طور پر تیار کرے، جس کی قیادت بے لوث خدمت گار ہو جس کی جدو جہد ذاتی مفادات اور عہدے اور اقتدار کی حرص سے پاک، تحریکی شکل کی ہو اور جو اقتدار کے حصول کے بعد ریاست میں پاکستان کی نظریاتی اساس پر نظام قائم کرے۔
مجھے خدا تعالیٰ سے امید ہے کہ اس ارضِ پاک پہ اُترے گی وہ فصلِ گُل کہ جسے اندیشہ زوال نہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔