شخصی آزادی کو لامحدود مدت کیلیے سلب نہیں کیا جاسکتا چیف جسٹس

ایک سال گزرنے کے باوجود کوئی شواہد نہیں مل سکے، افتخار چوہدری


INP February 27, 2013
ریگولیشنز موخر ہیں، قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں، اٹارنی جنرل، دیکھنا پڑے گا کہ مجاز کون ہے، عدالت، وزارت دفاع سے نوٹیفکیشن طلب۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے اڈیالہ جیل سے لاپتا قیدیوں سے متعلق کیس کی منگل کو سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس د یتے ہوئے کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود کوئی شواہد نہیں مل سکے، یہ شخصی آزادی کا معاملہ ہے جسے لامحدود مدت کیلیے سلب نہیں کیا جاسکتا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جب تک سول اتھارٹی کی معاونت کے ریگولیشنز موخر ہیں، قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان قواعد کے تحت کسی کی حراست کیلیے شواہد ہونا ضروری ہیں۔ ایک سال گزرنے کے باوجود کوئی شواہد نہیں مل سکے، ہر4 ماہ بعد ہرقیدی کے کیس پرنظرثانی بھی اسی مقصدکیلیے ہے۔

3

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک آپریشن چل رہا ہے قانون کے تحت ان پرمقدمہ چلانا ضروری نہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا ان قواعدکانوٹیفکیشن آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت جاری ہوا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدرنے یہ نوٹیفکیشن آئینی اختیارات کے تحت جاری کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا ہوگا کہ قواعد آئین کے آرٹیکل4، 9 اور10کے منافی تونہیں۔ دیکھنا پڑے گا کہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کامجازکون ہے؟۔عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کونوٹیفکیشن کی نقل پیش کرنے کا حکم دیدیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں