ڈاکٹر مطاہر احمد ایک روشن چراغ جو بجھ گیا
5 اکتوبر کو پوری دنیا علم سے محبت رکھنے والے استاد کو خراج تحسین پیش کررہی تھی۔
لاہور:
معاشرے میں ماں باپ کے کردار کو تو سبھی یاد رکھتے ہیں لیکن انسان کو آسمان کی بلندیوں تک پہچانے والے استاد کا کردار اکثر فراموش کردیا جاتا ہے۔ بلاشبہ استاد ایک ایسا چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے اور انسان کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کردیتا ہے۔ ویسے تو نرسری سے لے کر کالج اور پھر یونیورسٹی پہنچنے تک مجھے انسان بنانے میں بہت سے اساتذہ کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے لیکن آج میں ایک ایسے باہمت، مسلسل جدوجہد کرنے والے اور شفیق انسان کا تذکرہ کرنے لگا ہوں جو خود میں ہی ایک جامعہ تھے۔ کم عمری سے ہی معاشرے اور مسائل سے لڑ کر انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کیلیے جو مثال قائم کی وہ ناقابل فراموش ہے۔
میں بات کر رہا ہوں ماہر تعلیم، شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی کے سابق چیرمین اور انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے سابق صدر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد کی جو رہتی دنیا تک تعلیم سے محبت رکھنے والے ہر انسان کے لیے ایک مثال رہیں گے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں (ایم اے) میں داخلہ لیا تو اپنے سینئرز سے دیگر اساتذہ کرام کے برعکس ڈاکٹر مطاہر صاحب کے بارے میں بہت کچھ سنا جو اس وقت شعبہ کے چیئرمین بھی تھے اور ڈاکٹر صاحب نے شدید علالت کے باوجود اپنی ذمہ داری نبھانے کی بھرپور کوشش کی۔ میری بدقسمتی رہی کہ پہلے سال ان سے پڑھنے کا موقع ملا اور نہ ہی 23 جنوری 2017 کو ان کی پہلی کلاس لینے سے پہلے تک ڈاکٹر صاحب سے پڑھنے کی جستجو رہی۔ تیسرے سیمسٹر کی تعارفی کلاس میں جب داخل ہوا تو (جیسا کہ نئے استاد کا خوف ہر طالب علم کے ذہن پر کسی حد تک سوار رہتا ہے، اسی طرح) میری حالت ابتر تھی، لیکن کلاس روم میں داخل ہوا تو کرسی پر موجود انسان پر ایک نظر پڑتے ہی ان کی مخصوص مسکراہٹ نے میرا تمام خوف رخصت کردیا اور ایک گھنٹے کے دورانیے میں ہمیں کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے سامنے کوئی استاد بیٹھا ہے؛ بلکہ ایسے خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں پڑھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا۔
ان کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ پیچیدہ ترین بات کو بھی اپنے مخصوص انداز میں مزاح کے ساتھ سمجھانے میں مہارت رکھتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی کلاس ایک ایسی محفل ہوا کرتی تھی جس میں ہنسی مذاق کے ساتھ طلبا دنیا بھر کے اہم معاملات بہ آسانی سمجھ جایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد نے 1962 میں ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 7 سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد سے ہی ان کی تعلیمی و معاشرتی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوا جو بستر مرگ تک جاری رہا۔ جامعہ کراچی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ادارہ بین الاقوامی امور پاکستان میں بحیثیت ریسرچ اسکالر رہے اور پھر 1995 میں بطور لیکچرار جامعہ کراچی سے تعلق قائم کیا۔ چھوٹی عمر ہی سے شروع ہونے والی انتھک محنت اور جدووجہد کے باعث چند سال میں ان کا شمار جامعہ کے مقبول ترین اساتذہ میں ہونے لگا۔ بعدازاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی جامعہ کراچی سے حاصل کی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ ملائیشیا سے مکمل کیا۔ ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد بہترین معلم ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی تعلقات پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے معاملات پر اپنے تجزیوں میں تحقیق کے پہلو کے ساتھ حالات حاضرہ کی مکمل منظر کشی کرتے تھے۔
قدرت نے ڈاکٹر صاحب کو اس قدر حاضر دماغ بنایا تھا کہ وہ ہر سوال کا برجستہ جواب دے کر سامنے والے کو حیران کر دیا کرتے تھے۔ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود جس زندہ دلی سے انہوں نے زندگی گزاری، کلاس روم کے اندر ہوں یا باہر ہمیشہ اپنی تکلیف کی شدت کو اپنی مخصوص مسکراہٹ تلے دبا کر کبھی سامنے والے کو اپنی تکلیف محسوس نہیں ہونے دی۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بلند مقام پر پہنچنے کے بعد اپنی اوقات بھول جاتا ہے اور اکثر و بیشتر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس دنیا میں بہت ہی کم لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں ہمالیہ کی چوٹی پر پہنچنے کے باوجود اپنے پیر زمین پر ہی جمانے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ مطاہر صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا تھا جو ہمہ وقت خدمت خلق کیلیے تیار اور تمام تر مصروفیات کے باجود شاگردوں اور دوستوں کےلیے وقت نکالنا جانتے تھے۔ شعبے کے چیئرمین بننے اور ٹیچر یونین کے 2 مرتبہ صدر منتخب ہوئے کے باوجود بھی ان کے اخلاق و کردار میں رتی برابر بھی فرق نہیں ۤآیا۔ شاگردوں اور اساتذہ سے ان کی شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ میں نے جب بھی انہیں جامعہ میں موجود پایا تو دیگر اساتذہ اپنی کلاس سے فارغ ہوتے ہی ان کے کمرے کا رخ کیا کرتے جہاں چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے منہ سے نکلتے قیمتی گلابوں کی خوشبو آس پاس کے ماحول کو بھی خوشگوار بنا دیا کرتی تھی (مگر اب نہ صرف ان کے کمرے میں بلکہ شعبے میں بھی ایک ویرانی سی چھا گئی ہے)۔
ان کی شخصیت میں ایک عجیب سا سحر تھا جو طلبا کو اپنی جانب کھینچ لیتا تھا مگر ان کی شخصیت میں پوشیدہ یہ راز ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔
ایسا صرف کہانیوں میں ہی پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ ایک ایسا باہمت انسان جسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی تمام تر تکالیف کو پس پشت رکھ کر اوروں کا دل جیتنے میں مگن ہو اور جب کبھی ان سے یہ پوچھا جاتا ''سر اب کیسی طبیعت ہے آپ کی'' تو اس پر یہ جواب سننے کو ملتا، ''ارے! چھوڑو یہ تو چلتا رہے گا، تمہارے سامنے ہی تو بیٹھا ہوں، اگر ٹھیک نہ ہوتا تو یہاں ہوتا؟'' وہ برملا کلاس میں اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کرتے کہ پڑھ لو بچو! ویسے بھی میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ لیکن اتنی بڑی اور گہری بات کرتے ہوئے میں نے کبھی ان کے ماتھے پر ہلکی سی شکن نہیں دیکھی۔ بلکہ جس پراعتماد انداز سے وہ یہ بات کہا کرتے، سامنے والے کو رونے کے بجائے ہنسنے پر مجبورکردیتے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے خاندان کی ہمت بھی بڑھائی اور نہ صرف اپنے بیٹوں بلکہ شاگردوں کو بھی یہ نصیحت کرتے رہے کہ خوشگوار زندگی گزارنے کےلیے ہر چیز کو ہنس کر جھیلنا چاہیے۔
سر کے انتقال سے کچھ ہفتے قبل اسپتال میں ان سے صرف 5 منٹ کی وہ ملاقات کبھی نہیں بھول سکتا جب بستر مرگ پر لیٹے، مجھے دیکھتے ہی مسکرانے لگے اور مجھ سے ایسے ملے جیسے میرا اور ان کا برسوں کا ناطہ ہو، حالانکہ بمشکل میں نے ان سے 20 کلاسیں لی ہوں گی۔ جب ان سے طبیعت پوچھی تو حسب روایت علم سے محبت، ان کی تکلیف پر غالب تھی، کہنے لگے، ''بس تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے۔ ارے یار! اس سیمسٹر تو تم لوگوں کے ساتھ وقت ہی نہیں گزار سکا۔ بس ایک ہی کلاس ٹھیک سے لے پایا۔ اب پتہ نہیں دوبارہ پڑھانے کا موقع ملے یا نہ ملے۔''
مجھے یاد ہے کہ وہ اپنی آخری کلاس میں بھی تکلیف کے باعث بیٹھ نہیں پا رہے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کلاس مکمل کی۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم انہیں دوبارہ اس کرسی پر نہیں پایا۔ ان کے جانے کا یقین تو اب تک نہیں ہورہا۔ بے شک انسان فانی ہے اور مقاصد لافانی ہیں۔ انسان کو موت آجاتی ہے، مقاصد کبھی نہیں مرتے۔ ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے ہیں لیکن علم سے روشنی پھیلانے کا ان کا مشن ہمیشہ زندہ رہے گا۔
کاش مجھے ایسے شفیق استاد سے سیکھنے کا مزید موقع میسر آتا لیکن قسمت کو جو منظور۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ایسے انسان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا جو چند ہی کلاسوں میں میرے دل میں استاد جیسے رشتے کی اہمیت کو مزید پختہ کرگیا۔ ڈاکٹر صاحب کی علم اور علم حاصل کرنے والوں سے محبت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان کے شاگردوں نے ہی اپنے روحانی باپ کو لحد میں اتارا۔ ان کے انتقال پر مجھ سمیت کئی شاگردوں کی آنکھیں نم تھیں اور کیوں نہ ہوتیں کہ وہ بھی تو شاگردوں کو اپنے بچوں جیسی محبت دیا کرتے تھے۔
ایسے شفیق انسان کی موت پر تو وہ ظالم انسان بھی رویا ہوگا جس بدقسمت نے اپنے روحانی باپ پر ہاتھ اٹھانے کی سنگین غلطی کی تھی، جس نے وہاں موجود تمام طلبا کے سر شرم سے جھکا دیے مگر اس حرکت کے باوجود بھی مطاہر صاحب کی برداشت اور شفقت ناقابل بیان ہے۔ علم سے محبت رکھنے والے انسان کو دن بھی نصیب ہوا تو پانچ اکتوبر، جس دن پوری دنیا ایک ایسے استاد کو خراج تحسین پیش کررہی تھی جس نے علم کی اہمیت کو نہ صرف سمجھا بلکہ اوروں تک پہنچانے میں اپنی زندگی کے قیمتی 50 سال بھی وقف کیے۔
ویسے تو مطاہر صاحب علم کا سمندر تھے اور ایسی شخصیت کو چند الفاظ میں بیان کرنا مجھ جیسے کم عقل کے بس کی بات نہیں، البتہ اپنے ناقص علم سے ان کی شخصیت کا وہ رخ پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی جو محبت اور شفقت سے لبریز تھا۔ میں نے جو کچھ ان کا مشاہدہ کیا، اسے ویسا ہی بیان کیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
معاشرے میں ماں باپ کے کردار کو تو سبھی یاد رکھتے ہیں لیکن انسان کو آسمان کی بلندیوں تک پہچانے والے استاد کا کردار اکثر فراموش کردیا جاتا ہے۔ بلاشبہ استاد ایک ایسا چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے اور انسان کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کردیتا ہے۔ ویسے تو نرسری سے لے کر کالج اور پھر یونیورسٹی پہنچنے تک مجھے انسان بنانے میں بہت سے اساتذہ کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے لیکن آج میں ایک ایسے باہمت، مسلسل جدوجہد کرنے والے اور شفیق انسان کا تذکرہ کرنے لگا ہوں جو خود میں ہی ایک جامعہ تھے۔ کم عمری سے ہی معاشرے اور مسائل سے لڑ کر انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کیلیے جو مثال قائم کی وہ ناقابل فراموش ہے۔
میں بات کر رہا ہوں ماہر تعلیم، شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی کے سابق چیرمین اور انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے سابق صدر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد کی جو رہتی دنیا تک تعلیم سے محبت رکھنے والے ہر انسان کے لیے ایک مثال رہیں گے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں (ایم اے) میں داخلہ لیا تو اپنے سینئرز سے دیگر اساتذہ کرام کے برعکس ڈاکٹر مطاہر صاحب کے بارے میں بہت کچھ سنا جو اس وقت شعبہ کے چیئرمین بھی تھے اور ڈاکٹر صاحب نے شدید علالت کے باوجود اپنی ذمہ داری نبھانے کی بھرپور کوشش کی۔ میری بدقسمتی رہی کہ پہلے سال ان سے پڑھنے کا موقع ملا اور نہ ہی 23 جنوری 2017 کو ان کی پہلی کلاس لینے سے پہلے تک ڈاکٹر صاحب سے پڑھنے کی جستجو رہی۔ تیسرے سیمسٹر کی تعارفی کلاس میں جب داخل ہوا تو (جیسا کہ نئے استاد کا خوف ہر طالب علم کے ذہن پر کسی حد تک سوار رہتا ہے، اسی طرح) میری حالت ابتر تھی، لیکن کلاس روم میں داخل ہوا تو کرسی پر موجود انسان پر ایک نظر پڑتے ہی ان کی مخصوص مسکراہٹ نے میرا تمام خوف رخصت کردیا اور ایک گھنٹے کے دورانیے میں ہمیں کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے سامنے کوئی استاد بیٹھا ہے؛ بلکہ ایسے خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں پڑھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا۔
ان کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ پیچیدہ ترین بات کو بھی اپنے مخصوص انداز میں مزاح کے ساتھ سمجھانے میں مہارت رکھتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی کلاس ایک ایسی محفل ہوا کرتی تھی جس میں ہنسی مذاق کے ساتھ طلبا دنیا بھر کے اہم معاملات بہ آسانی سمجھ جایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد نے 1962 میں ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 7 سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد سے ہی ان کی تعلیمی و معاشرتی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوا جو بستر مرگ تک جاری رہا۔ جامعہ کراچی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ادارہ بین الاقوامی امور پاکستان میں بحیثیت ریسرچ اسکالر رہے اور پھر 1995 میں بطور لیکچرار جامعہ کراچی سے تعلق قائم کیا۔ چھوٹی عمر ہی سے شروع ہونے والی انتھک محنت اور جدووجہد کے باعث چند سال میں ان کا شمار جامعہ کے مقبول ترین اساتذہ میں ہونے لگا۔ بعدازاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی جامعہ کراچی سے حاصل کی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ ملائیشیا سے مکمل کیا۔ ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد بہترین معلم ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی تعلقات پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے معاملات پر اپنے تجزیوں میں تحقیق کے پہلو کے ساتھ حالات حاضرہ کی مکمل منظر کشی کرتے تھے۔
قدرت نے ڈاکٹر صاحب کو اس قدر حاضر دماغ بنایا تھا کہ وہ ہر سوال کا برجستہ جواب دے کر سامنے والے کو حیران کر دیا کرتے تھے۔ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود جس زندہ دلی سے انہوں نے زندگی گزاری، کلاس روم کے اندر ہوں یا باہر ہمیشہ اپنی تکلیف کی شدت کو اپنی مخصوص مسکراہٹ تلے دبا کر کبھی سامنے والے کو اپنی تکلیف محسوس نہیں ہونے دی۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بلند مقام پر پہنچنے کے بعد اپنی اوقات بھول جاتا ہے اور اکثر و بیشتر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس دنیا میں بہت ہی کم لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں ہمالیہ کی چوٹی پر پہنچنے کے باوجود اپنے پیر زمین پر ہی جمانے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ مطاہر صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا تھا جو ہمہ وقت خدمت خلق کیلیے تیار اور تمام تر مصروفیات کے باجود شاگردوں اور دوستوں کےلیے وقت نکالنا جانتے تھے۔ شعبے کے چیئرمین بننے اور ٹیچر یونین کے 2 مرتبہ صدر منتخب ہوئے کے باوجود بھی ان کے اخلاق و کردار میں رتی برابر بھی فرق نہیں ۤآیا۔ شاگردوں اور اساتذہ سے ان کی شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ میں نے جب بھی انہیں جامعہ میں موجود پایا تو دیگر اساتذہ اپنی کلاس سے فارغ ہوتے ہی ان کے کمرے کا رخ کیا کرتے جہاں چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے منہ سے نکلتے قیمتی گلابوں کی خوشبو آس پاس کے ماحول کو بھی خوشگوار بنا دیا کرتی تھی (مگر اب نہ صرف ان کے کمرے میں بلکہ شعبے میں بھی ایک ویرانی سی چھا گئی ہے)۔
ان کی شخصیت میں ایک عجیب سا سحر تھا جو طلبا کو اپنی جانب کھینچ لیتا تھا مگر ان کی شخصیت میں پوشیدہ یہ راز ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔
ایسا صرف کہانیوں میں ہی پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ ایک ایسا باہمت انسان جسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی تمام تر تکالیف کو پس پشت رکھ کر اوروں کا دل جیتنے میں مگن ہو اور جب کبھی ان سے یہ پوچھا جاتا ''سر اب کیسی طبیعت ہے آپ کی'' تو اس پر یہ جواب سننے کو ملتا، ''ارے! چھوڑو یہ تو چلتا رہے گا، تمہارے سامنے ہی تو بیٹھا ہوں، اگر ٹھیک نہ ہوتا تو یہاں ہوتا؟'' وہ برملا کلاس میں اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کرتے کہ پڑھ لو بچو! ویسے بھی میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ لیکن اتنی بڑی اور گہری بات کرتے ہوئے میں نے کبھی ان کے ماتھے پر ہلکی سی شکن نہیں دیکھی۔ بلکہ جس پراعتماد انداز سے وہ یہ بات کہا کرتے، سامنے والے کو رونے کے بجائے ہنسنے پر مجبورکردیتے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے خاندان کی ہمت بھی بڑھائی اور نہ صرف اپنے بیٹوں بلکہ شاگردوں کو بھی یہ نصیحت کرتے رہے کہ خوشگوار زندگی گزارنے کےلیے ہر چیز کو ہنس کر جھیلنا چاہیے۔
سر کے انتقال سے کچھ ہفتے قبل اسپتال میں ان سے صرف 5 منٹ کی وہ ملاقات کبھی نہیں بھول سکتا جب بستر مرگ پر لیٹے، مجھے دیکھتے ہی مسکرانے لگے اور مجھ سے ایسے ملے جیسے میرا اور ان کا برسوں کا ناطہ ہو، حالانکہ بمشکل میں نے ان سے 20 کلاسیں لی ہوں گی۔ جب ان سے طبیعت پوچھی تو حسب روایت علم سے محبت، ان کی تکلیف پر غالب تھی، کہنے لگے، ''بس تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے۔ ارے یار! اس سیمسٹر تو تم لوگوں کے ساتھ وقت ہی نہیں گزار سکا۔ بس ایک ہی کلاس ٹھیک سے لے پایا۔ اب پتہ نہیں دوبارہ پڑھانے کا موقع ملے یا نہ ملے۔''
مجھے یاد ہے کہ وہ اپنی آخری کلاس میں بھی تکلیف کے باعث بیٹھ نہیں پا رہے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کلاس مکمل کی۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم انہیں دوبارہ اس کرسی پر نہیں پایا۔ ان کے جانے کا یقین تو اب تک نہیں ہورہا۔ بے شک انسان فانی ہے اور مقاصد لافانی ہیں۔ انسان کو موت آجاتی ہے، مقاصد کبھی نہیں مرتے۔ ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے ہیں لیکن علم سے روشنی پھیلانے کا ان کا مشن ہمیشہ زندہ رہے گا۔
کاش مجھے ایسے شفیق استاد سے سیکھنے کا مزید موقع میسر آتا لیکن قسمت کو جو منظور۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ایسے انسان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا جو چند ہی کلاسوں میں میرے دل میں استاد جیسے رشتے کی اہمیت کو مزید پختہ کرگیا۔ ڈاکٹر صاحب کی علم اور علم حاصل کرنے والوں سے محبت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان کے شاگردوں نے ہی اپنے روحانی باپ کو لحد میں اتارا۔ ان کے انتقال پر مجھ سمیت کئی شاگردوں کی آنکھیں نم تھیں اور کیوں نہ ہوتیں کہ وہ بھی تو شاگردوں کو اپنے بچوں جیسی محبت دیا کرتے تھے۔
ایسے شفیق انسان کی موت پر تو وہ ظالم انسان بھی رویا ہوگا جس بدقسمت نے اپنے روحانی باپ پر ہاتھ اٹھانے کی سنگین غلطی کی تھی، جس نے وہاں موجود تمام طلبا کے سر شرم سے جھکا دیے مگر اس حرکت کے باوجود بھی مطاہر صاحب کی برداشت اور شفقت ناقابل بیان ہے۔ علم سے محبت رکھنے والے انسان کو دن بھی نصیب ہوا تو پانچ اکتوبر، جس دن پوری دنیا ایک ایسے استاد کو خراج تحسین پیش کررہی تھی جس نے علم کی اہمیت کو نہ صرف سمجھا بلکہ اوروں تک پہنچانے میں اپنی زندگی کے قیمتی 50 سال بھی وقف کیے۔
ویسے تو مطاہر صاحب علم کا سمندر تھے اور ایسی شخصیت کو چند الفاظ میں بیان کرنا مجھ جیسے کم عقل کے بس کی بات نہیں، البتہ اپنے ناقص علم سے ان کی شخصیت کا وہ رخ پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی جو محبت اور شفقت سے لبریز تھا۔ میں نے جو کچھ ان کا مشاہدہ کیا، اسے ویسا ہی بیان کیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔