بھارتی جی او سی کا صائب مشورہ

مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی فوج سے نالاں ہیں


Zaheer Akhter Bedari October 12, 2017
[email protected]

پسماندہ ملکوں کی قیادت کی نااہلی کا عالم یہ ہے کہ وہ ایسے مسائل حل کرنے میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں جن سے عوام کی خوشحالی کا براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ ایسے ہی مسائل میں ایک مسئلہ مسئلہ کشمیر ہے جو 70 سالوں سے لٹکا ہوا ہے یا لٹکا دیا گیا ہے اور اس کی وجہ بھی '' قومی مفادات'' کا تحفظ ہے ۔ آج کی دنیا میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا درست ہے کیا غلط ہے، کیا انصاف ہے کیا نا انصافی ہے، صرف نام نہاد قومی مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا اصل پہلو یہ ہے کہ یہ دو ایسے ملکوں کا مسئلہ ہے جن میں ایک طاقتور ہے اور ایک کمزور۔ کشمیر کے حوالے سے یہی وہ بنیادی وجہ ہے جسے مختلف نام دے کر چھپایا جا رہا ہے، اگر اس مسئلے کا دوسرا فریق یعنی پاکستان فوجی اور اقتصادی حوالے سے بھارت کا ہم پلہ ہوتا ہے تو نہ یہ مسئلہ پیدا ہوتا نہ 70 سالوں سے لٹکا رہتا۔

بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور جمہوری حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ کشمیر سے بھارت کے کسی قسم کے اقتصادی مفادات وابستہ نہیں ہیں بلکہ اسٹریٹیجک مفادات وابستہ ہیں، ایشیا میں بھارت چین کو اپنا رقیب سمجھتا ہے۔ کشمیرکی جغرافیائی پوزیشن اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ کشمیر کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں اور بھارت کے احمق حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن چین کی مسابقت کے حوالے سے بہت اہم ہے ۔

اسی مفروضے کے تحت بھارت کشمیر سے اپنا قبضہ کسی طور چھوڑنے کے لیے تیار نہیں جس کی اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔ ان مفروضات کے حوالے سے بھارتی قیادت کے اندھے پن کا عالم یہ ہے کہ اسے کشمیر میں رکھی جانے والی آٹھ لاکھ فوج کے اخراجات کے علاوہ کشمیرکی ترقی کے نام پر بھی بھاری رقوم خرچ کرنا پڑ رہی ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ پر اربوں ڈالر الگ خرچ کرنے پڑ رہے ہیں ۔ ان ساری حماقتوں کا منفی اثر نہ صرف بھارت اور پاکستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی پر پڑ رہا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے عوام کی ترقی پر اس مسئلے کی وجہ سے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

بھارتی قیادت اب تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتی آ رہی ہے اورکسی قیمت پرکشمیر کے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں لیکن کشمیرکے حالات اب اس قدر گمبھیر ہوچکے ہیں کہ خود کشمیر میں متعین بھارتی فوج کے جنرل افسر کمانڈنگ میجر جنرل بی ایس راجو کہہ رہے ہیں کہ کشمیرکو گولی سے فتح کرنا ناممکن ہے۔ جی ایس راجو نے کہا ہے کہ کشمیر کے عوام آزادی سے کم کسی آپشن پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں گزشتہ 70 سال سے بندوق کے زور پر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ بھارتی فوج کے جنرل آفیسرکمانڈنگ متعینہ کشمیر نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کے تمام فریقوں کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔

بھارتی جی او سی میجر جنرل بی ایس راجو نے بھارتی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام آزادی کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی فوج سے نالاں ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ اس مسئلے کو گولی سے حل کرنے کی 70 سالہ ناکام کوشش کے بعد اب اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اب اس مسئلے کو مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بھارتی حکمران طبقے کی ان احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی میں رکاوٹ پیش آرہی ہے بلکہ اس پورے خطے پر اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں غالباً اسی تناظر کی وجہ سے بی ایس راجو نے یہ حقیقت پسندانہ بیان دیا ہے۔

جب تک پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا بھارت کے مقابلے میں وہ بے بس تھا جس کا فائدہ بھارت نے 1965 اور 1971 کی جنگ میں اٹھایا لیکن اس صورتحال میں ایک جوہری تبدیلی آئی ہے اب پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں روایتی ہتھیاروں کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ اب بھارت طاقت کے حوالے سے پاکستان کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے دونوں ملکوں میں طاقت کا توازن قائم ہوگیا ہے، لیکن یہ توازن اس قدر خوفناک ہے کہ کسی ملک کی معمولی سی غلطی اس توازن کو ایک ایسی ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے جس کے انجام سے یقینا بھارتی قیادت بھی واقف ہوگی۔ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلرکی پیش رفت کو روکنے کے لیے امریکی صدر ٹرومن کی انتظامیہ نے جاپان پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کیا اور جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیے جن کی وجہ سے ان دو جاپانی شہروں میں سوختہ لاشوں کے ایسے انبار لگ گئے جنھیں دیکھ کر انسانیت شرمندہ اور سرنگوں ہوگئی۔

بھارت کو یہ شکایت ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں اپنے بندوں کے ذریعے دہشت پھیلا رہا ہے ہو سکتا ہے کہ بھارت کا یہ استدلال درست ہو لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کس کے ساتھ ہیں؟ اس سوال کا جواب خود بھارت کے جی او سی جی ایس راجو نے دے دیا ہے۔ جی ایس راجو کے بیان کے بعد بھارتی قیادت کو آسمان سے زمین پر آکر حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی حکمران کسی قیمت پر اس قوم کی مرضی اور حمایت کے بغیر زیادہ دیر حکومت نہیں کرسکا۔ بھارت بلاشبہ کشمیر پر قابض ہے لیکن ان 70 سالوں میں 70 ہزار کشمیری اپنی جانوں سے جا چکے ہیں۔ کیا ان ستر ہزار کشمیریوں کا خون بھارتی حکمران طبقات کے سروں کا بوجھ نہیں؟ کیا بھارتی حکمران ہزاروں کشمیریوں کے خون کے ذمے دار ہیں؟

بدقسمتی یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی خاطر متحارب پسماندہ ملکوں کے تنازعات کو حل کرنے میں غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کرپاتے۔ امریکا آج بھی دنیا کی ایک ایسی سپر طاقت ہے جو متنازعہ ملکوں کے درمیان منصفانہ کردار ادا کرسکتی ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکا دونوں ملکوں کے درمیان منصفانہ اور غیرجانبدارانہ کردار اس لیے ادا نہیں کرسکتا کہ اسے اپنے سب سے بڑے دشمن چین کے خلاف بھارت کی ضرورت ہے اور بھارت کی موقع پرستانہ سیاست کا عالم یہ ہے کہ ماضی میں غیر جانبدار بلاک کی سرپرستی کرنے والا اور نیٹو اور سینٹو جیسے فوجی معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت پر اعتراض کرنے اور اس شمولیت کو اس خطے کے اجتماعی مفادات کے خلاف قرار دینے والا بھارت نہ صرف امریکا کے ساتھ فوجی معاہدوں میں شریک ہے بلکہ چین کے خلاف اسٹریٹیجک جنگ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے۔

مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ مسئلہ پورے جنوبی ایشیا کے عوام کے بہتر یا بدتر مستقبل کا مسئلہ بن گیا ہے۔ بھارت میں بلاشبہ ایک نچلے طبقے کا معمولی انسان وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہے اور بھارت کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والا ایک معمولی شخص صدارت کے عہدے پر فائز ہے۔ اس خطے اور دنیا کے عوام ان دونوں عمائدین سے یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ دوسروں کی نہ سہی اپنے جی او سی جی ایس راجو کے حقیقت پسندانہ تجزیے اور مشورے پر ٹھنڈے دل، ٹھنڈے دماغ سے غور کریں اور ''میں نہ مانو'' کی ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر برصغیر اور جنوبی ایشیا کے اربوں عوام کے بہتر مستقبل اور خطے میں مذہبی ہم آہنگی اور عوام میں بھائی چارے اور محبت کی خاطر اس خطرناک بن جانے والے مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔