میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
محل کا بھارتی سنسکرتی (ثقافت) سے کوئی تعلق نہیں تو معاملہ مزید گھمبیر ہو گی
FAISALABAD:
پرشوتم ناگیش اوک نے اپنی کتاب ''تاج محل سچ کیا ہے'' میں لکھا تھا ''تاج محل اصل میں شو مندر یا راجپوتانہ محل تھا جس پر شاہ جہان نے قبضہ کر کے ایک مقبرہ بنا دیا'' پرشوتم ناگیش اوک 1917ء کو اندور میں پیدا ہوا تھا۔ ممبئی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ پانچ سال تک ہندوستان ٹائمز کے لیے رپورٹنگ کرتا رہا اور کچھ عرصہ امریکا میں قائم بھارتی سفارت خانے میں بھی مقیم رہا۔ شاہ جہان نے2 163ء کوجب ممتاز محل کی یاد میں تاج محل تعمیر کروانے کا ارادہ کیا ہو گا تو اُس کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ اس عظیم اور مہنگی ترین عمارت کے ساتھ مستقبل میں کیا سلوک ہونے والا ہے۔
پتھر اور سیمنٹ سے بنی محبت اور عقیدت کی نشانیوں کو تو چھوڑیے تقسیم کے بعد مذہب کی آڑ میں انسانیت کی لاج رکھنے والی زندہ نشانیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ بھی کسی کے وہم و گمان میں نہیںتھا۔ ماضی میں برصغیر پاک و ہند مختلف حملہ آوروں کی گزرگاہ تھا جو اس ''سونے کی چڑیا'' کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں کھیلتے رہے۔ بعض تاریخ دان ہندوستان میں آنے والے حملہ آوروں پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ علمی و تحقیقی ادارے بنانے کے بجائے انھوں نے ایسی عمارتیں تعمیر کروائیں جن سے ان کی ذات کو تو شہرت نصیب ہوئی، مگر عام افراد کو اس سے کوئی مالی، سماجی یا علمی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ بھارت میں موجود تاج محل، قطب مینار، اجنتا اور ایلورا کی غاریں،لال قلعہ، نالندہ یونیورسٹی، ہمایوں کا مقبرہ اور بہار میں بدھ گیا کے علاوہ درجنوں ایسے مقامات پائے جاتے ہیں جنھیں صرف بھارت کا ثقافتی ورثہ نہیں بلکہ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے مگر تاج محل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے ہر روز دنیا بھر سے بارہ ہزار سے زائد سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔
تاج محل پر مختلف فلمیں بھی بن چکی ہیں کئی ڈرامے بھی لکھے گئے ہیں اور تاریخی کتب میں بھی اس کی تعمیر کے سلسلے میں بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے لیکن اس پر لکھی گئی ساحر لدھیانوی کی تنقیدی اور رومانوی نظم کو جوشہرت نصیب ہوئی وہ شاید ہی کسی دوسری تخلیق کے حصے میں آئی ہو۔ ساحر لدھیانوی نے اپنے مارکسی نکتہ نظر کے سہارے تاج محل کی تعمیر میں شامل ان مزدوروں کی بے نام قبروں کو یاد کیا تھا جن پر آج شمع جلانے والا بھی کوئی نہیں۔ وہ اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در دیوار، یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ساحر لدھیانوی نے اپنی سوچ اور نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظم کہی تھی مگرشکیل بدایونی نے اس سے بالکل مختلف انداز میں ایک فلم کے لیے جو گیت لکھا اس میں اس میں تاج محل پر تنقید کے بجائے بادشاہ کی تعریف کی گئی تھی۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس کے سائے میں سدا پیا رکے چرچے ہوں گے
ختم جو ہو نہ سکے گی وہ کہانی دی ہے
ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم میںبظا ہر اپنی محبوبہ کو مخاطب کیا تھا مگر ان کے سامنے اس دھرتی کے وہ سارے جفاکش تھے جو اپنے بادشاہوں، دولت مندوں اور جاگیرداروںکے لیے تو خون پسینہ بہا کر خوب صورت عمارتیں تعمیر کرتے ہیں مگر اپنے رہنے کے لیے پانچ مرلے کا مکان بھی نہیں خرید سکتے۔ بھارت میں مودی کے بر سر اقتدار آتے ہی ملک کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ خواتین، اقلیتوں اور سیکیولر طبقے سے تعلق رکھنے والے دھڑوں کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر تبدیلی مذہب کے لیے بھی دباؤ ڈالا جانے لگا۔
بنیاد پرست ہندوؤں کے ہاتھوں بابری مسجد پر حملے کے بعد رام جنم بھومی کی تعمیر کا جھگڑا ابھی ختم بھی نہ ہوپایا تھا کہ 2014ء میں آگرہ کے چھ وکلاء نے عدالت میں ایک درخواست دائر کردی جس میں ان کا موقف تھا کہ ''تاج محل'' دراصل ایک زمانے میں ''شوکا مندر'' تھا اوراسے دوبارہ ہندوؤں کے حوالے کیا جائے لیکن انھیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب عدالت کو کہیں سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ ''تاج محل'' کی اہمیت کو مزیدکم کرنے اور اس کے بجائے ہندوؤں کے مذہبی مقامات کو غیر ملکی سیاحوں سے متعارف کرانے کے لیے پچھلے دنوں یو پی کی حکومت کے سیاحتی مرکز نے جن اہم مقامات کو اپنے تعارفی کتابچے میں شامل کیا اس میں کچھ نئے مقامات کے نام تو شامل تھے مگر تاج محل کے نام کو خارج کردیا گیا تھا جس پر دوسروں کے علاوہ سماج وادی پارٹی کے رہنما راجندر چوہدری نے یو پی میںسیاحت کی وزیر ریتا بہوگنا جوشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسی دوران اتر پردیش کے وزیر یوگی ادتیہ ناتھ نے ایک جلوس کے دوران تقریر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ تاج محل کا بھارتی سنسکرتی (ثقافت) سے کوئی تعلق نہیں تو معاملہ مزید گھمبیر ہو گیا۔ یاد رہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ ملک میں سیاسی رہنما کے طور پر کم اور ہندو قوم پرست کے طور پر زیادہ مشہور ہیں۔ اپنی اس متضاد تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب کوئی غیر ملکی رہنما بھارت کے دورے پر آتا تھا تو اسے تاج محل یا کسی مینار کا نمونہ (Replica)تحفے میں دیا جاتا تھا جس سے یہاں کی تہذیب میل نہیں کھاتی تھی، مگر جب سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں باہر سے آنے والے مہمانوں کو کسی عمارت کے نشان کے بجائے گیتا یا رامائن تحفے میں دی جاتی ہے۔
بھارت کے ایک اخبار کے مطابق یوگی ادتیہ ناتھ کا شمار گورکھ پور کے گورکھ ناتھ مندر میں پوجا کرنے والے اہم پجاریوں میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے انھوں نے اس مندر کو بھی سیاحوں کے تعارفی کتابچے میں شامل کرلیا ہے مگر دنیا کا ساتواں عجوبہ ہونے کے باوجود وہ تاج محل کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اسے بھارت کے اہم سیاحتی مقامات کے تعارفی کتابچے میں شامل کیا جا سکے۔ پرشوتم ناگیش اوک نے نہ صرف اپنی کتاب میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ تاج محل اصل میں شو مندر ہے بلکہ اس نے اس سلسلے میں جو درخواست عدالت میں جمع کروا رکھی تھی اسے 2000ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے رد کر نے کے بعد پرشوتم ناگیش کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ ''تاج محل کے سلسلے میں آپ کے دماغ میں کوئی کیڑا ہے''۔2005ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسی طرح کی ایک اور درخواست بھی مسترد کی تھی جس میں سماجی کارکن امر ناتھ مشرا نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل کو ہندو راجا پر مار دیو نے 1196ء میں تعمیر کیا تھا۔
تاج محل نہ تو کوئی انسان ہے نہ فرقہ ہے اور نہ ہی کوئی مذہب بلکہ سنگ مر مر سے بنی ایک بے جان عمارت ہے، مگر بھارتی حکومت انسانوں، فرقوں اور مذاہب کے ساتھ نا پسندیدہ سلوک کے بعد مسلمان بادشاہوں کی تعمیر شدہ تاریخی عمارتوں سے بھی دشمنی پر اتر آئی ہے۔ تاج محل کی ثقافتی حیثیت کو نقصان پہچانے کے لیے حکومت میں شامل وزرا جو کچھ کررہے ہیں اس پر دوسروں کے علاوہ بھارت کا سیکولر طبقہ اور روشن خیال ہندو مصنفین بھی برہم ہیں۔ معروف مورخ ڈی این جھا کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے Arab news سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ادتیہ ناتھ اور بی جی پی بھارت میں اسلامی ثقافت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔''
پرشوتم ناگیش اوک نے اپنی کتاب ''تاج محل سچ کیا ہے'' میں لکھا تھا ''تاج محل اصل میں شو مندر یا راجپوتانہ محل تھا جس پر شاہ جہان نے قبضہ کر کے ایک مقبرہ بنا دیا'' پرشوتم ناگیش اوک 1917ء کو اندور میں پیدا ہوا تھا۔ ممبئی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ پانچ سال تک ہندوستان ٹائمز کے لیے رپورٹنگ کرتا رہا اور کچھ عرصہ امریکا میں قائم بھارتی سفارت خانے میں بھی مقیم رہا۔ شاہ جہان نے2 163ء کوجب ممتاز محل کی یاد میں تاج محل تعمیر کروانے کا ارادہ کیا ہو گا تو اُس کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ اس عظیم اور مہنگی ترین عمارت کے ساتھ مستقبل میں کیا سلوک ہونے والا ہے۔
پتھر اور سیمنٹ سے بنی محبت اور عقیدت کی نشانیوں کو تو چھوڑیے تقسیم کے بعد مذہب کی آڑ میں انسانیت کی لاج رکھنے والی زندہ نشانیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ بھی کسی کے وہم و گمان میں نہیںتھا۔ ماضی میں برصغیر پاک و ہند مختلف حملہ آوروں کی گزرگاہ تھا جو اس ''سونے کی چڑیا'' کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں کھیلتے رہے۔ بعض تاریخ دان ہندوستان میں آنے والے حملہ آوروں پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ علمی و تحقیقی ادارے بنانے کے بجائے انھوں نے ایسی عمارتیں تعمیر کروائیں جن سے ان کی ذات کو تو شہرت نصیب ہوئی، مگر عام افراد کو اس سے کوئی مالی، سماجی یا علمی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ بھارت میں موجود تاج محل، قطب مینار، اجنتا اور ایلورا کی غاریں،لال قلعہ، نالندہ یونیورسٹی، ہمایوں کا مقبرہ اور بہار میں بدھ گیا کے علاوہ درجنوں ایسے مقامات پائے جاتے ہیں جنھیں صرف بھارت کا ثقافتی ورثہ نہیں بلکہ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے مگر تاج محل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے ہر روز دنیا بھر سے بارہ ہزار سے زائد سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔
تاج محل پر مختلف فلمیں بھی بن چکی ہیں کئی ڈرامے بھی لکھے گئے ہیں اور تاریخی کتب میں بھی اس کی تعمیر کے سلسلے میں بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے لیکن اس پر لکھی گئی ساحر لدھیانوی کی تنقیدی اور رومانوی نظم کو جوشہرت نصیب ہوئی وہ شاید ہی کسی دوسری تخلیق کے حصے میں آئی ہو۔ ساحر لدھیانوی نے اپنے مارکسی نکتہ نظر کے سہارے تاج محل کی تعمیر میں شامل ان مزدوروں کی بے نام قبروں کو یاد کیا تھا جن پر آج شمع جلانے والا بھی کوئی نہیں۔ وہ اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در دیوار، یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ساحر لدھیانوی نے اپنی سوچ اور نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظم کہی تھی مگرشکیل بدایونی نے اس سے بالکل مختلف انداز میں ایک فلم کے لیے جو گیت لکھا اس میں اس میں تاج محل پر تنقید کے بجائے بادشاہ کی تعریف کی گئی تھی۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس کے سائے میں سدا پیا رکے چرچے ہوں گے
ختم جو ہو نہ سکے گی وہ کہانی دی ہے
ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم میںبظا ہر اپنی محبوبہ کو مخاطب کیا تھا مگر ان کے سامنے اس دھرتی کے وہ سارے جفاکش تھے جو اپنے بادشاہوں، دولت مندوں اور جاگیرداروںکے لیے تو خون پسینہ بہا کر خوب صورت عمارتیں تعمیر کرتے ہیں مگر اپنے رہنے کے لیے پانچ مرلے کا مکان بھی نہیں خرید سکتے۔ بھارت میں مودی کے بر سر اقتدار آتے ہی ملک کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ خواتین، اقلیتوں اور سیکیولر طبقے سے تعلق رکھنے والے دھڑوں کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر تبدیلی مذہب کے لیے بھی دباؤ ڈالا جانے لگا۔
بنیاد پرست ہندوؤں کے ہاتھوں بابری مسجد پر حملے کے بعد رام جنم بھومی کی تعمیر کا جھگڑا ابھی ختم بھی نہ ہوپایا تھا کہ 2014ء میں آگرہ کے چھ وکلاء نے عدالت میں ایک درخواست دائر کردی جس میں ان کا موقف تھا کہ ''تاج محل'' دراصل ایک زمانے میں ''شوکا مندر'' تھا اوراسے دوبارہ ہندوؤں کے حوالے کیا جائے لیکن انھیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب عدالت کو کہیں سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ ''تاج محل'' کی اہمیت کو مزیدکم کرنے اور اس کے بجائے ہندوؤں کے مذہبی مقامات کو غیر ملکی سیاحوں سے متعارف کرانے کے لیے پچھلے دنوں یو پی کی حکومت کے سیاحتی مرکز نے جن اہم مقامات کو اپنے تعارفی کتابچے میں شامل کیا اس میں کچھ نئے مقامات کے نام تو شامل تھے مگر تاج محل کے نام کو خارج کردیا گیا تھا جس پر دوسروں کے علاوہ سماج وادی پارٹی کے رہنما راجندر چوہدری نے یو پی میںسیاحت کی وزیر ریتا بہوگنا جوشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسی دوران اتر پردیش کے وزیر یوگی ادتیہ ناتھ نے ایک جلوس کے دوران تقریر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ تاج محل کا بھارتی سنسکرتی (ثقافت) سے کوئی تعلق نہیں تو معاملہ مزید گھمبیر ہو گیا۔ یاد رہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ ملک میں سیاسی رہنما کے طور پر کم اور ہندو قوم پرست کے طور پر زیادہ مشہور ہیں۔ اپنی اس متضاد تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب کوئی غیر ملکی رہنما بھارت کے دورے پر آتا تھا تو اسے تاج محل یا کسی مینار کا نمونہ (Replica)تحفے میں دیا جاتا تھا جس سے یہاں کی تہذیب میل نہیں کھاتی تھی، مگر جب سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں باہر سے آنے والے مہمانوں کو کسی عمارت کے نشان کے بجائے گیتا یا رامائن تحفے میں دی جاتی ہے۔
بھارت کے ایک اخبار کے مطابق یوگی ادتیہ ناتھ کا شمار گورکھ پور کے گورکھ ناتھ مندر میں پوجا کرنے والے اہم پجاریوں میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے انھوں نے اس مندر کو بھی سیاحوں کے تعارفی کتابچے میں شامل کرلیا ہے مگر دنیا کا ساتواں عجوبہ ہونے کے باوجود وہ تاج محل کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اسے بھارت کے اہم سیاحتی مقامات کے تعارفی کتابچے میں شامل کیا جا سکے۔ پرشوتم ناگیش اوک نے نہ صرف اپنی کتاب میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ تاج محل اصل میں شو مندر ہے بلکہ اس نے اس سلسلے میں جو درخواست عدالت میں جمع کروا رکھی تھی اسے 2000ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے رد کر نے کے بعد پرشوتم ناگیش کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ ''تاج محل کے سلسلے میں آپ کے دماغ میں کوئی کیڑا ہے''۔2005ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسی طرح کی ایک اور درخواست بھی مسترد کی تھی جس میں سماجی کارکن امر ناتھ مشرا نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل کو ہندو راجا پر مار دیو نے 1196ء میں تعمیر کیا تھا۔
تاج محل نہ تو کوئی انسان ہے نہ فرقہ ہے اور نہ ہی کوئی مذہب بلکہ سنگ مر مر سے بنی ایک بے جان عمارت ہے، مگر بھارتی حکومت انسانوں، فرقوں اور مذاہب کے ساتھ نا پسندیدہ سلوک کے بعد مسلمان بادشاہوں کی تعمیر شدہ تاریخی عمارتوں سے بھی دشمنی پر اتر آئی ہے۔ تاج محل کی ثقافتی حیثیت کو نقصان پہچانے کے لیے حکومت میں شامل وزرا جو کچھ کررہے ہیں اس پر دوسروں کے علاوہ بھارت کا سیکولر طبقہ اور روشن خیال ہندو مصنفین بھی برہم ہیں۔ معروف مورخ ڈی این جھا کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے Arab news سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ادتیہ ناتھ اور بی جی پی بھارت میں اسلامی ثقافت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔''