پوسٹ امریکا پاکستان
ہر سازش کے پیچھے کوئی نہ کوئی ڈوری کھینچنے والا ضرور ہوتا تھا
پاک امریکا دوستی کے بھی عجیب نشیب و فراز ہیں، کہیں کانٹوں کی سیج سجی تھی کہیں ندیوں سے بہتا پانی اور لہلہلاتے دوستی کے ہرے بھرے رنگ ۔ کہیں پگڈنڈیوں سے پار ہونا۔ اس اونچ نیچ کی طویل داستان کو اب شاید ماضی کہنا چاہیے۔ لیکن اب بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہے جب میاں صاحب پر کارگل کے عتاب نازل ہوئے تو بل کلنٹن مدد کو پہنچے۔ ہمیں جب بھی نگراں وزیراعظم کی ضرورت پڑی تو محمد علی بوگرہ سے لے کر معین قریشی تک واشنگٹن سے امپورٹ ہوئے۔ یہ داستان اتنی طویل ہے کہ کوئی اور کیوں خود بینظیر کے NRO کے پیچھے بھی امریکا تھا، ضیاء آئے تو امریکا تھا، گئے تو امریکا تھا، ایوب خان آئے تو امریکا تھا اور گئے تو بھی امریکا تھا۔
امریکا سے ہماری دوستی حقیقتاً پاکستانی عوام کے خلاف ایک سازش تھی، لوگ جمہوریت مانگتے تھے اور ہم دینا نہیں چاہتے تھے۔ اقتدار کی اس رسا کشی میں پاکستان کی بد نصیبی ہے۔ کراچی سے دارالخلافہ جب پنڈی شفٹ ہوا یوں کہیے کہ جیسے ایک اقتدار اعلیٰ منتقل ہوا ہو۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کراچی کی دہائی تھی جس کا محور ہمارے ایوان نہیں بلکہ امریکن ایمبیسی تھی۔ ساٹھ سے ستر کی دہائی میں سرد جنگ آب و تاب پر تھی، طاقت کا محور پنڈی اور اسلام آباد تھے اور تمام ایوان امریکن ایمبیسی کے گرد گھومتے تھے۔
ستر سے اسی کی دہائی سانحہ ڈھاکہ کے بعد کا دور تھا اور باقی بچا آدھا پاکستان تھا!! آدھا پاکستان گنوانے میں بھی امریکا کا آشیرواد شامل تھا۔ پاگل سر پھرا روس نواز شیخ مجیب دارالحکومت ڈھاکہ لے جانے کی بات کرتا تھا بیوقوف!! بنگالی قوم پرستوں اور بنگالی جمہوریت پسندوں نے سندھ، سرحد اور بلوچستان کے قوم پرستوں کو بھی سر پھرا بنا دیا تھا۔ امریکا کو مشرقی پاکستان سے کوئی غرض نہ تھی۔ اور پاکستان کو شاید بالکل ہی کوئی غرض نہ تھے۔
ہم آریائی قد و قامت کے لوگ اور وہ پست قد و قامت کے لوگ۔ جو بھی تھا اس وقت خارجہ پالیسی بھٹو کے پاس بھی آئی اور شیخ مجیب کے پاس بھی مختصراً یہ کہ خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہ تھی۔ شیخ مجیب نے وہاں آزاد خارجہ پالیسی کا تعین کیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے یہاں۔ یہاں تک کہ بھٹو نے امریکا اور چین کی دوستی کروانے کے لیے ٹریک ٹو کے راستے بھی اپنائے۔ بھٹو کھیلتے گئے وہ CULT بن گئے۔ آمریت کی پیداوار ذوالفقار علی بھٹو آمریت سے کوسوں دور چلے گئے۔ سانحہ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کی مانند بھیانک کردار سندھ کے وڈیروں کے کاندھوں اور پنجاب کےNarrative کشمیر کے بیانیہ پر کھیلتے ہوئے بھٹو بالآخر ایک مقبول لیڈر بن گئے۔ شیخ مجیب 14 اگست 1975ء میں اپنے دھان منڈی کے گھر میں بمع اہل و عیال مارے گئے۔ ایک ایسی سازش کے تحت جس کی کڑیاں چلی کے صدر ALLENDE کے خلاف ہونے والی سازش سے ملتی جلتی ہیں۔
جب جنرل پنوشے کی افواج ایوان صدر کی دیواریں پھلانگ رہی تھیں اس دن بھی 9/11 ہی تھا۔ ایلندے نے جب فوج کو اپنے کمرے کے شیشے سے اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا، اس نے فیدڈل کاسترو کی تحفے میں دی ہوئی بندوق کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ مگر اس بندوق سے سامنے آنے والی فوج نہیں رک سکتی تھی۔ ایلندے کو سمجھ آگئی کہ اس کی شکست ہوگی اگر وہ ان فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس بندوق کے منہ کو ایلندے نے اپنی کنپٹی کی طرف موڑ دیا اور Trigger دبا دیا تاکہ آیندہ آنے والی نسلیں اس بات کی گواہ رہیں کہ ایلندے نے پنوشے کی فوج سے زیادہ اپنے ہاتھوں مرنے کو ترجیع دی۔ چلی کے خوبصورت نوبل انعام یافتہ شاعر پابلو نیرودا بھی اسی ہفتے میں مارے گئے۔ یہ سب کچھ یوں ہی تھا کہ جیسے
''تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں
ہم دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں پہ مارے گئے''
(فیضؔ)
سرد جنگ میں سوویت یونین کو امریکا شکست دے کر سرخرو ہو کر آگے نکلتا ہے۔ ہم اس سرد جنگ میں ایک بہت اسٹریٹیجک لوکیشن پر تھے۔ اس سرد جنگ کے جب آخری خیمے افغانستان میں نصب ہوئے تو ہم اپنے انتہا پرستی کے فلسفے سمیت اس بھٹی میں خوب جلے اور پکے۔ امریکا ڈالر پھینکتا گیا اور ہم تماشہ بنتے گئے۔ سوویت یونین کی افواج پسپا ہوئی، سوویت یونین ٹوٹ بھی گیا، افغانستان لہو، لینڈ مائنز اور بارود کی بد بو سے بھر گیا، ضیاء الحق سی - ون تھرٹی کے پھٹنے سے بحق ہو گئے۔
امریکا نے اس جنگ کے بعد اپنا سامان ایسے سمیٹا جیسے کہ اس جنگ سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اور اس وقت تھی بینظیر جو بہت بڑا Vision رکھنے والی تھی۔ جس طرح بھٹو ستر کی دہائی میں جرنیلوں کے ساتھ مل کر شیخ مجیب کے خلاف سازشیں کرتے تھے اسی طرح نواز شریف اس زمانے میں بینظیر کے خلاف سازشیں رچتے تھے۔ ہر سازش کے پیچھے کوئی نہ کوئی ڈوری کھینچنے والا ضرور ہوتا تھا، پھر کچھ اس طرح ہوا کہ پاکستان جیسے تمام ممالک کے لیے اوپن گراؤنڈ بن گیا چاہے انڈیا ہو یا مشرق وسطیٰ مغربی ممالک ہوں یا مشرقی ممالک ۔ اور بالآخر چین دنیا کی عظیم طاقت بن کر ابھرا۔ ہم بھلے ہی امریکا کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر ناچتے رہے مگر نہ ہم نے چین سے دوستی کا دامن چھوڑا اور نہ ہی انھوں نے پاکستان کو کبھی تنہا کیا۔ چین کے ساتھ گہری دوستی کی بنیاد بھٹو نے ڈالی۔ چین کے ساتھ گہرے تعلقات، مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے کرنا، پاکستان کو بہ حیثیت مسلم ملک ایٹمی قوت بنانا یہ کچھ ایسے عزائم تھے بھٹو کے جو امریکا کو شدید ناگوارا گزرتے تھے۔
آج ایک بار پھر ہم آزاد پاکستان کی بنیادیں ڈال رہے ہیں۔ ہم ڈال رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس شاید کوئی اور راستہ نہیں اس بات کی وضاحت میں جانا اس وقت کچھ غیر ضروری سا ہے۔ شکریہ بہت جیمز میتھس وزیر دفاع امریکا کے۔ آپ نے اپنے ایوانوں میں جس طرح سی پیک اور پاک چین دوستی پر جو خدشات ظاہر کیے ہیں اس نے ہمیں یہ باور کروا دیا کہ کس طرح آپ ان تعلقات کو ہندوستان کی نظر سے تول رہے ہیں۔ آپ کے خدشات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی پھیلاؤ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔ آپ شاید خوفزدہ ہیں کہ دنیا ایک دفعہ پھر Bi-Polarدو قطبی System کی طرف رواں دواں ہے جو کہ ایک نئی قسم کی سرد جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔
امریکا سے ہماری دوستی حقیقتاً پاکستانی عوام کے خلاف ایک سازش تھی، لوگ جمہوریت مانگتے تھے اور ہم دینا نہیں چاہتے تھے۔ اقتدار کی اس رسا کشی میں پاکستان کی بد نصیبی ہے۔ کراچی سے دارالخلافہ جب پنڈی شفٹ ہوا یوں کہیے کہ جیسے ایک اقتدار اعلیٰ منتقل ہوا ہو۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کراچی کی دہائی تھی جس کا محور ہمارے ایوان نہیں بلکہ امریکن ایمبیسی تھی۔ ساٹھ سے ستر کی دہائی میں سرد جنگ آب و تاب پر تھی، طاقت کا محور پنڈی اور اسلام آباد تھے اور تمام ایوان امریکن ایمبیسی کے گرد گھومتے تھے۔
ستر سے اسی کی دہائی سانحہ ڈھاکہ کے بعد کا دور تھا اور باقی بچا آدھا پاکستان تھا!! آدھا پاکستان گنوانے میں بھی امریکا کا آشیرواد شامل تھا۔ پاگل سر پھرا روس نواز شیخ مجیب دارالحکومت ڈھاکہ لے جانے کی بات کرتا تھا بیوقوف!! بنگالی قوم پرستوں اور بنگالی جمہوریت پسندوں نے سندھ، سرحد اور بلوچستان کے قوم پرستوں کو بھی سر پھرا بنا دیا تھا۔ امریکا کو مشرقی پاکستان سے کوئی غرض نہ تھی۔ اور پاکستان کو شاید بالکل ہی کوئی غرض نہ تھے۔
ہم آریائی قد و قامت کے لوگ اور وہ پست قد و قامت کے لوگ۔ جو بھی تھا اس وقت خارجہ پالیسی بھٹو کے پاس بھی آئی اور شیخ مجیب کے پاس بھی مختصراً یہ کہ خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہ تھی۔ شیخ مجیب نے وہاں آزاد خارجہ پالیسی کا تعین کیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے یہاں۔ یہاں تک کہ بھٹو نے امریکا اور چین کی دوستی کروانے کے لیے ٹریک ٹو کے راستے بھی اپنائے۔ بھٹو کھیلتے گئے وہ CULT بن گئے۔ آمریت کی پیداوار ذوالفقار علی بھٹو آمریت سے کوسوں دور چلے گئے۔ سانحہ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کی مانند بھیانک کردار سندھ کے وڈیروں کے کاندھوں اور پنجاب کےNarrative کشمیر کے بیانیہ پر کھیلتے ہوئے بھٹو بالآخر ایک مقبول لیڈر بن گئے۔ شیخ مجیب 14 اگست 1975ء میں اپنے دھان منڈی کے گھر میں بمع اہل و عیال مارے گئے۔ ایک ایسی سازش کے تحت جس کی کڑیاں چلی کے صدر ALLENDE کے خلاف ہونے والی سازش سے ملتی جلتی ہیں۔
جب جنرل پنوشے کی افواج ایوان صدر کی دیواریں پھلانگ رہی تھیں اس دن بھی 9/11 ہی تھا۔ ایلندے نے جب فوج کو اپنے کمرے کے شیشے سے اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا، اس نے فیدڈل کاسترو کی تحفے میں دی ہوئی بندوق کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ مگر اس بندوق سے سامنے آنے والی فوج نہیں رک سکتی تھی۔ ایلندے کو سمجھ آگئی کہ اس کی شکست ہوگی اگر وہ ان فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس بندوق کے منہ کو ایلندے نے اپنی کنپٹی کی طرف موڑ دیا اور Trigger دبا دیا تاکہ آیندہ آنے والی نسلیں اس بات کی گواہ رہیں کہ ایلندے نے پنوشے کی فوج سے زیادہ اپنے ہاتھوں مرنے کو ترجیع دی۔ چلی کے خوبصورت نوبل انعام یافتہ شاعر پابلو نیرودا بھی اسی ہفتے میں مارے گئے۔ یہ سب کچھ یوں ہی تھا کہ جیسے
''تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں
ہم دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں پہ مارے گئے''
(فیضؔ)
سرد جنگ میں سوویت یونین کو امریکا شکست دے کر سرخرو ہو کر آگے نکلتا ہے۔ ہم اس سرد جنگ میں ایک بہت اسٹریٹیجک لوکیشن پر تھے۔ اس سرد جنگ کے جب آخری خیمے افغانستان میں نصب ہوئے تو ہم اپنے انتہا پرستی کے فلسفے سمیت اس بھٹی میں خوب جلے اور پکے۔ امریکا ڈالر پھینکتا گیا اور ہم تماشہ بنتے گئے۔ سوویت یونین کی افواج پسپا ہوئی، سوویت یونین ٹوٹ بھی گیا، افغانستان لہو، لینڈ مائنز اور بارود کی بد بو سے بھر گیا، ضیاء الحق سی - ون تھرٹی کے پھٹنے سے بحق ہو گئے۔
امریکا نے اس جنگ کے بعد اپنا سامان ایسے سمیٹا جیسے کہ اس جنگ سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اور اس وقت تھی بینظیر جو بہت بڑا Vision رکھنے والی تھی۔ جس طرح بھٹو ستر کی دہائی میں جرنیلوں کے ساتھ مل کر شیخ مجیب کے خلاف سازشیں کرتے تھے اسی طرح نواز شریف اس زمانے میں بینظیر کے خلاف سازشیں رچتے تھے۔ ہر سازش کے پیچھے کوئی نہ کوئی ڈوری کھینچنے والا ضرور ہوتا تھا، پھر کچھ اس طرح ہوا کہ پاکستان جیسے تمام ممالک کے لیے اوپن گراؤنڈ بن گیا چاہے انڈیا ہو یا مشرق وسطیٰ مغربی ممالک ہوں یا مشرقی ممالک ۔ اور بالآخر چین دنیا کی عظیم طاقت بن کر ابھرا۔ ہم بھلے ہی امریکا کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر ناچتے رہے مگر نہ ہم نے چین سے دوستی کا دامن چھوڑا اور نہ ہی انھوں نے پاکستان کو کبھی تنہا کیا۔ چین کے ساتھ گہری دوستی کی بنیاد بھٹو نے ڈالی۔ چین کے ساتھ گہرے تعلقات، مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے کرنا، پاکستان کو بہ حیثیت مسلم ملک ایٹمی قوت بنانا یہ کچھ ایسے عزائم تھے بھٹو کے جو امریکا کو شدید ناگوارا گزرتے تھے۔
آج ایک بار پھر ہم آزاد پاکستان کی بنیادیں ڈال رہے ہیں۔ ہم ڈال رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس شاید کوئی اور راستہ نہیں اس بات کی وضاحت میں جانا اس وقت کچھ غیر ضروری سا ہے۔ شکریہ بہت جیمز میتھس وزیر دفاع امریکا کے۔ آپ نے اپنے ایوانوں میں جس طرح سی پیک اور پاک چین دوستی پر جو خدشات ظاہر کیے ہیں اس نے ہمیں یہ باور کروا دیا کہ کس طرح آپ ان تعلقات کو ہندوستان کی نظر سے تول رہے ہیں۔ آپ کے خدشات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی پھیلاؤ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔ آپ شاید خوفزدہ ہیں کہ دنیا ایک دفعہ پھر Bi-Polarدو قطبی System کی طرف رواں دواں ہے جو کہ ایک نئی قسم کی سرد جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔