نیب کیس اسحاق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش

اسحاق ڈار کے وکیل نے گواہ کی جانب سے پیش کردہ شواہد پر اعتراض کردیا


ویب ڈیسک October 12, 2017
احتساب عدالت میں سیکیورٹی کے پیش نظر پولیس اور ایف سی کے 200 اہلکار تعینات ہیں،فوٹوفائل

نیب ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اہلیہ اور کمپنیوں کے 3 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کردیں۔

جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈارکے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی، کمرہ عدالت میں وزیر مملکت انوشہ رحمان، طارق فضل چوہدری اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراللہ بھی موجود تھے۔ سماعت کا آغاز استغاثہ کے گواہ طارق جاوید کی جرح سے ہوا۔

دوران جرح طارق جاوید نے بتایا کہ وہ 1991سے البرکا بینک سے وابستہ ہیں، نیب نے میرے بینک کے ذریعے مجھے بلایا اور مجھے کہا گیا کہ اسحاق ڈارکی تصدیق شدہ بینک تفصیلات نیب کو فراہم کریں،میں 17 اگست کو ایک اکاوٴنٹ کی تفصیلات لے کر نیب گیا، نیب لاہورکو اسحاق ڈار کی بیوی تبسم اسحاق ڈار کے اکاوٴنٹ کی تفصیلات دیں، اس کے علاوہ تبسم اسحاق ڈار کا اکاوٴنٹ کھلوانے کا فارم بھی نیب کو دیا۔ 14 اکتوبر 2000 سے بینک اکاؤنٹ کی اسٹیٹمنٹ شروع ہوئی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں:اسحاق ڈار کے خلاف ریونیو اور بینک ریکارڈ عدالت میں پیش

طارق جاوید نے دوران جرح بتایا کہ اس نے بینک کے حکم پر نیب لاہور میں تفتیشی افسر کو اکاؤنٹ کی تصدیق شدہ کاپیاں فراہم کیں، خواجہ حارث نے کہا کہ ریفرنس میں شامل بعض دستاویزات نہیں مل رہیں، اب آپ مضمون ڈھونڈیں گے تو وہ ملیں گے نہیں، جس پر فاضل جج محمد بشیر نے کہا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ اور متنازعہ چیز نہیں، خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ گواہ ان کے ہاتھ میں ہیں اور جرم ان کو ثابت کرنا ہے، ایک دستاویز آنے کے بعد اضافی دستاویز نہیں آسکتی۔

خواجہ حارث کے اعتراض پر نیب کے وکیل نے کہا کہ دستاویز میں ایک صفحہ غائب ہے وہ نئی درخواست کے ساتھ جمع کرادیں گے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ قانون کی رو سے ایک دستاویز آنے کے بعد اضافی دستاویز نہیں آسکتی۔ فاضل جج نے نیب کے وکیل کو حکم دیا کہ نئی درخواست کے ساتھ مسنگ دستاویز شامل کی جائیں۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں دعویٰ کیا کہ 2006 سے اس بینک اکاؤنٹ سے کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی،بینک اسٹیٹمنٹ صفحہ 35 سے 39 تک فوٹو کاپی پر مشتمل ہے،الیکٹرانک اسٹیٹمنٹ کو بطور پرائمری ثبوت نہیں لیا جاسکتا،الیکٹرانک ٹرانزیکشن ایکٹ 2000 کی شق 12 کا حوالہ ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، ہمارے اعتراضات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ ہم نے عدالت عظمی میں بھی کہا تھا کہ اس طرح کیس دو دن میں ختم ہو سکتا ہے۔

فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ ہم تصدیق شدہ کاپی منگوانے کا حکم دے دیتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ تصدیق شدہ کاپی کا ثبوت موجود بھی ہے یا نہیں، اس ریکارڈ پر عدالت کیس چلانا چاہے تو چلالیں۔ نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے عدالت سے استدعا کی کہ وکیل صفائی کا اعتراض درست نہیں، یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ شہادت کو بنیادی شہادت تسلیم کرے، گواہ کی شہادت کو ابتدائی شہادت کے طور پر لیا جائے اور اس ثبوت کو پرائمری ثبوت کے طور پر قبول کرے۔

دوران سماعت طارق جاوید نے بتایا کہ پہلا اکاؤنٹ تبسم اسحاق ڈار،دوسرا ہجویری مضاربہ اور تیسرا ہجویری ہولڈنگ پرائیویٹ کے نام پر کھولا گیا،ہجویری مضاربہ کے اکاؤنٹس عبدالرشید،نعیم محبوب اور ندیم بیگ آپریٹ کررہے تھے، گواہ نے تیسرے بینک اکاؤنٹ کی تفصیل،بینک کورنگ لیٹر، اکاؤنٹ کھلوانے کا فارم اور ٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کردیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ انہیں گواہ کی دستاویز پراعتراض ہے، پیش کی گئی دستاویزات گواہ نے تیار کیں اور نہ اس کی تحویل میں ہیں، تصدیق شدہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، یہ دستاویزات تو کوئی بھی تیار کرسکتا ہے، جس پر فاضل جج نے کہا کہ ایسی بات نہیں یہ بینک کی دستاویزات ہیں۔ کیس کی مزید سماعت 16 اکتوبر کو ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔