تلامذۂ مونس حصہ دوم
مصنف نے تحقیق کے بعد پاس کے بارہ شاگرد دریافت کیے ہیں۔ نمونہ کلام اور ایک غیر مطبوعہ مرثیہ شامل کتاب ہے۔
گزشتہ ہفتے ہم نے رثائی ادب میں ایک گراں قدر تحقیقی کتاب تلامذہ انس و مونس سے انس کے شاگردوں کا تذکرہ کیا تھا۔ اس بار میر محمد نواب مونس کے شاگردوں کا تذکرہ پیش نظر ہے۔ کتاب کے مصنف نے میر مونس کے 26 شاگردوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں سے جن جن کے حالات و کلام انھیں دستیاب ہوسکے ان کو پیش کیا ہے، ساتھ ہی نمونہ کلام بلکہ پورے پورے کم ازکم ایک مرثیہ بھی کتاب کی زینت بنایا ہے، جس سے رثائی ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کو بے حد مفید معلومات کے علاوہ اکابر مرثیہ گو شعرا کے کلام سے بھی آشنائی اور مرثیہ گوئی میں ان کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانے کا موقع ملا۔
تلامذۂ مونس میں سب سے پہلے ان کے شاگرد الم جن کا نام محمد ذکی ہے، کا مختصر تعارف دیا گیا ہے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کے مرثیہ و دیگر کلام منظر عام پر نہ آسکے، بلکہ لالہ سری رام ان کے بارے میں لکھتے ہیں ''اگرچہ دور موجود کے شعرا میں ہیں مگر زیادہ حال معلوم نہ ہوسکا'' یعنی خود اپنے زمانے میں بھی لکھنے والے ان کے حالات سے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ الم کو تاریخ کہنے میں کمال حاصل تھا، فی البدیہ تاریخ کہتے تھے کئی دوادیں اور تذکروں میں ان کی تاریخیں بکثرت ملتی ہیں۔ الم نے رثائی کلام کے علاوہ غزل میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ کتاب میں چند اشعار غزل کے بطور نمونہ کلام درج ہیں جب کہ کوئی پوری غزل بھی شامل نہیں ہے۔
سید الہام حسین اردو فارسی میں شاعری کرتے تھے، فارسی میں تخلص شریف جب کہ اردو میں الہام تھا۔ ان کا تعلق سادات زید پور کے رئیس گھرانے سے تھا۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر عابد حسین حیدری نے سب سے پہلے ''دبستان زیدپور کی مرثیہ گوئی '' میں لکھا ہے۔ ان کی وفات دسمبر 1899 میں ہوئی۔ ان کی فارسی مثنوی ''باغ ارم'' لکھنو سے شایع ہوئی۔ الہام کا ایک مرثیہ جس پر میر انیس و مونس دونوں کی اصلاح ہے لکھنو میں سید محمد رضا عابد کے پاس موجود تھا مگر اب وہ بھی ضایع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عابد حسین حیدری یہ مرثیہ دیکھ چکے تھے ان کیمطابق اس کے سرورق پر تحریر تھا۔
''از ملاحظہ میر ببر علی انیس و میر نواب مونس گزشتہ''
اس مرثیے کا مقطع تھا ''خاموش بس پدر کہ ہے جوش پہ ماتم'' مخطوطے میں یوں اصلاح کی گئی ہے ''خاموش ہو الہام کہ ہے جو شش ماتم'' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے بدر تخلص کرتے تھے جس کو انیس یا مونس نے الہام سے بدل دیا تھا۔ ان کی مثنوی ''نظم رہنما'' کے سرورق پر امیر کا تعارف درج ہے، یہ مثنوی آئمہ ظاہرین کے معجزات پر مشتمل ہے۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ معجزات و واقعات میں کتب علمیہ کے بے شمار حوالے پیش کیے ہیں۔ کتاب میں مثنوی ''نظم رہنما'' کے سرورق کا عکس اور ایک مرثیہ درحال صاحبزادگان جناب زینب شامل ہے۔ انجم نام بہادر حسین خاں، غزل میں اسیر لکھنوی کے جب کہ سلام و مرثیے میں مونس کے شاگرد تھے۔
مرثیہ ہوز و سلام کے علاوہ مثنوی، واسوخت، رباعیات اور قطعات میں بھی شہرت حاصل کی۔ انجمن معیار کے ممبر بھی تھے، مشاعروں کی جان تھے، مقامی کے علاوہ بیرونی علاقوں کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے، شاعری کے علاوہ فوٹوگرافی میں بھی کمال حاصل تھا۔ انجم کی آخری غزل ماہنامہ ''سخنور'' میں مارچ 1920 کو شایع ہوئی، جس کے نیچے یہ نوٹ درج تھا کہ ''حضرات انجم نے یہ غزل مرحمت فرما کر دفعتاً انتقال فرمایا، یعنی انجم نے 29 فروری 1920 کو لکھنو میں وفات پائی۔ انجم کا بیشتر کلام ضایع ہوچکا ہے، نوحوں کی ایک بیاض اور چار ہزار ابیات پر مشتمل مثنوی ''پرستان خیال'' بھی شایع ہوچکی ہے۔
دو سلام تین نوحے اور غزل کے متفرق اشعار کتاب میں بطور نمونہ کلام دیے گئے ہیں۔راجہ صاحب محمود آباد کے دادا امیر حسن خاں رثائی کلام میں تخلص حبیب، غزل میں سحر استعمال کرتے تھے۔ غزل میں تجمل سیتاپوری کے اور رثائی کلام میں مونث و نفیس کے شاگرد تھے۔ حبیب کی تعلیم بڑی توجہ سے ہوئی۔ انگریزی، فارسی، عربی، اردو کے علاوہ ہندی زبان و ادب کی تعلیم بھی حاصل کی۔
بے حد سخی تھے، سماجی کاموں میں ذاتی دلچسپی لیتے۔ 30 مئی 1903 کو بروز جمعہ وفات پائی۔ حبیب بے حد زود گو تھے۔ جب طبع رواں ہوتی تو بہت تیزی سے سیکڑوں بند کہہ جاتے، ان کے کئی مراثی چار سو بندوں تک پر مشتمل ہیں۔ تصانیف میں کلیات سحر جس میں حمد و نعت، منقبت، غزلیات، قصائد اور رباعیات معہ ڈیڑھ سو شعرا کے قطعات تاریخ طباعت شایع ہوئی۔
سلیم کا نام نواب حسین ہے، میر انیس کے بیٹے میر عسکری انیس کے فرزند تھے، والدہ پیارے صاحب رشید کی صاحبزادی تھیں، یوں وہ رشید کے نواسے اور انیس کے پوتے تھے۔ 1919 میں نمونیہ کے باعث انتقال ہوا۔ مقبرہ انیس میں والد کے پہلو میں دفن ہیں، کلام ناپید ہے۔ صرف تین سلام غیر مطبوعہ ملے جو شامل کتاب ہیں۔ شافی نام سید مرتضیٰ حالات و کلام دستیاب نہیں۔ مثنوی نظم رہنما کی تاریخ کہتی تھی، وہ دستیاب ہے۔
گلدستہ معجزات معصوم سے تاریخ نکالی ہے۔ محسن کا نام محمد محسن، خان بہادر اور ذوالقدر ثانی خطاب تھے، بیک وقت انیس، انس اور مونس کے شاگرد تھے۔ جونپور کے اعلیٰ خاندان سے تعلق تھا۔ بے حد عالم فاضل تھے، علم شرعی میں کامل، علم عربی اور فارسی میں ایک پیش نماز کی قابلیت رکھتے تھے مگر کبھی نماز پڑھائی نہیں۔ فارسی کلام میں آغائے شوشتری سے اصلاح لی، نظم و نثر فارسی اہل زبان کے مثل لکھتے تھے۔
اول درجے کے ڈپٹی کلکٹر تھے، کانپور، الٰہ آباد اور آگرہ میں ملازم رہے۔ زیارت کربلائے معلیٰ کے لیے گئے، اس کے بعد پوری زندگی 12 برس کربلا میں قیام کے بعد 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور کربلا ہی میں دفن ہوئے۔ تقریباً 49 مراثی علاوہ فارسی نظم، مثنوی اور تضمینیںکے یادگار چھوڑے ہیں جو سب کے سب اعلیٰ معیار کے ہیں۔ نعمتی جن کا نام سید علی اصغر تھا 15 نومبر 1848 کو پٹنہ (عظیم آباد) میں پیدا ہوئے۔ مونس کے شاگرد تھے، انھوں نے مرثیہ پر جابجا اصلاح دی ہے۔
یہ اصلاح شدہ مرثیہ شامل کتاب ہے۔ نام سید محمد حسین جعفری، تخلص نواب۔ جونپور کے رؤسا میں تھے۔ تاریخ گوئی پر قدرت حاصل تھی مثنوعی ''عروج الفت'' کی تاریخ طباعت کہی ہے۔ نیر وارث علی خان نام محل شاہی میں خواجہ سرا تھے، خوش فکر و خوش بیاں تھے۔ مونس کی زمین میں ایک غزل بطور نمونہ کلام دی گئی ہے۔ پاس کا نام سید ذاکر حسین کاظمی موسوی تھا۔ مونس کے قابل فخر شاگر تھے۔
ان کا نام تاریخ اردو ادب میں ہمیشہ تابندہ رہے گا۔ مونس کی شاگردی پر انھیں بڑا فخر تھا۔ استاد الاستاد تھے۔ بقول جذب لکھنوی ہندوستان پھر میں پاس کے تقریباً سو شاگرد تھے لیکن ذکر صرف ایک شاگرد کا کرسکے۔ جب کہ مصنف نے تحقیق کے بعد پاس کے بارہ شاگرد دریافت کیے ہیں۔ نمونہ کلام اور ایک غیر مطبوعہ مرثیہ شامل کتاب ہے۔ ان کے علاوہ میر کاظم حسین تخلص یونس اور میر امجد حسین بھی تلامذہ مونس میں شامل ہیں ان دونوں کے مختصر حالات کتاب میں مذکور ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بے حد اختصار کے باوجود تقریباً 26 شاگردوں کے بارے میں لکھنے کا ایک کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ صاحبان ذوق اس گراں قدر کتاب سے ضرور استفادہ کریں۔ کتاب کی قیمت صرف پانچ سو روپے ہے، جو اس کی اہمیت کے پیش نظر کچھ بھی نہیں۔
تلامذۂ مونس میں سب سے پہلے ان کے شاگرد الم جن کا نام محمد ذکی ہے، کا مختصر تعارف دیا گیا ہے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کے مرثیہ و دیگر کلام منظر عام پر نہ آسکے، بلکہ لالہ سری رام ان کے بارے میں لکھتے ہیں ''اگرچہ دور موجود کے شعرا میں ہیں مگر زیادہ حال معلوم نہ ہوسکا'' یعنی خود اپنے زمانے میں بھی لکھنے والے ان کے حالات سے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ الم کو تاریخ کہنے میں کمال حاصل تھا، فی البدیہ تاریخ کہتے تھے کئی دوادیں اور تذکروں میں ان کی تاریخیں بکثرت ملتی ہیں۔ الم نے رثائی کلام کے علاوہ غزل میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ کتاب میں چند اشعار غزل کے بطور نمونہ کلام درج ہیں جب کہ کوئی پوری غزل بھی شامل نہیں ہے۔
سید الہام حسین اردو فارسی میں شاعری کرتے تھے، فارسی میں تخلص شریف جب کہ اردو میں الہام تھا۔ ان کا تعلق سادات زید پور کے رئیس گھرانے سے تھا۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر عابد حسین حیدری نے سب سے پہلے ''دبستان زیدپور کی مرثیہ گوئی '' میں لکھا ہے۔ ان کی وفات دسمبر 1899 میں ہوئی۔ ان کی فارسی مثنوی ''باغ ارم'' لکھنو سے شایع ہوئی۔ الہام کا ایک مرثیہ جس پر میر انیس و مونس دونوں کی اصلاح ہے لکھنو میں سید محمد رضا عابد کے پاس موجود تھا مگر اب وہ بھی ضایع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عابد حسین حیدری یہ مرثیہ دیکھ چکے تھے ان کیمطابق اس کے سرورق پر تحریر تھا۔
''از ملاحظہ میر ببر علی انیس و میر نواب مونس گزشتہ''
اس مرثیے کا مقطع تھا ''خاموش بس پدر کہ ہے جوش پہ ماتم'' مخطوطے میں یوں اصلاح کی گئی ہے ''خاموش ہو الہام کہ ہے جو شش ماتم'' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے بدر تخلص کرتے تھے جس کو انیس یا مونس نے الہام سے بدل دیا تھا۔ ان کی مثنوی ''نظم رہنما'' کے سرورق پر امیر کا تعارف درج ہے، یہ مثنوی آئمہ ظاہرین کے معجزات پر مشتمل ہے۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ معجزات و واقعات میں کتب علمیہ کے بے شمار حوالے پیش کیے ہیں۔ کتاب میں مثنوی ''نظم رہنما'' کے سرورق کا عکس اور ایک مرثیہ درحال صاحبزادگان جناب زینب شامل ہے۔ انجم نام بہادر حسین خاں، غزل میں اسیر لکھنوی کے جب کہ سلام و مرثیے میں مونس کے شاگرد تھے۔
مرثیہ ہوز و سلام کے علاوہ مثنوی، واسوخت، رباعیات اور قطعات میں بھی شہرت حاصل کی۔ انجمن معیار کے ممبر بھی تھے، مشاعروں کی جان تھے، مقامی کے علاوہ بیرونی علاقوں کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے، شاعری کے علاوہ فوٹوگرافی میں بھی کمال حاصل تھا۔ انجم کی آخری غزل ماہنامہ ''سخنور'' میں مارچ 1920 کو شایع ہوئی، جس کے نیچے یہ نوٹ درج تھا کہ ''حضرات انجم نے یہ غزل مرحمت فرما کر دفعتاً انتقال فرمایا، یعنی انجم نے 29 فروری 1920 کو لکھنو میں وفات پائی۔ انجم کا بیشتر کلام ضایع ہوچکا ہے، نوحوں کی ایک بیاض اور چار ہزار ابیات پر مشتمل مثنوی ''پرستان خیال'' بھی شایع ہوچکی ہے۔
دو سلام تین نوحے اور غزل کے متفرق اشعار کتاب میں بطور نمونہ کلام دیے گئے ہیں۔راجہ صاحب محمود آباد کے دادا امیر حسن خاں رثائی کلام میں تخلص حبیب، غزل میں سحر استعمال کرتے تھے۔ غزل میں تجمل سیتاپوری کے اور رثائی کلام میں مونث و نفیس کے شاگرد تھے۔ حبیب کی تعلیم بڑی توجہ سے ہوئی۔ انگریزی، فارسی، عربی، اردو کے علاوہ ہندی زبان و ادب کی تعلیم بھی حاصل کی۔
بے حد سخی تھے، سماجی کاموں میں ذاتی دلچسپی لیتے۔ 30 مئی 1903 کو بروز جمعہ وفات پائی۔ حبیب بے حد زود گو تھے۔ جب طبع رواں ہوتی تو بہت تیزی سے سیکڑوں بند کہہ جاتے، ان کے کئی مراثی چار سو بندوں تک پر مشتمل ہیں۔ تصانیف میں کلیات سحر جس میں حمد و نعت، منقبت، غزلیات، قصائد اور رباعیات معہ ڈیڑھ سو شعرا کے قطعات تاریخ طباعت شایع ہوئی۔
سلیم کا نام نواب حسین ہے، میر انیس کے بیٹے میر عسکری انیس کے فرزند تھے، والدہ پیارے صاحب رشید کی صاحبزادی تھیں، یوں وہ رشید کے نواسے اور انیس کے پوتے تھے۔ 1919 میں نمونیہ کے باعث انتقال ہوا۔ مقبرہ انیس میں والد کے پہلو میں دفن ہیں، کلام ناپید ہے۔ صرف تین سلام غیر مطبوعہ ملے جو شامل کتاب ہیں۔ شافی نام سید مرتضیٰ حالات و کلام دستیاب نہیں۔ مثنوی نظم رہنما کی تاریخ کہتی تھی، وہ دستیاب ہے۔
گلدستہ معجزات معصوم سے تاریخ نکالی ہے۔ محسن کا نام محمد محسن، خان بہادر اور ذوالقدر ثانی خطاب تھے، بیک وقت انیس، انس اور مونس کے شاگرد تھے۔ جونپور کے اعلیٰ خاندان سے تعلق تھا۔ بے حد عالم فاضل تھے، علم شرعی میں کامل، علم عربی اور فارسی میں ایک پیش نماز کی قابلیت رکھتے تھے مگر کبھی نماز پڑھائی نہیں۔ فارسی کلام میں آغائے شوشتری سے اصلاح لی، نظم و نثر فارسی اہل زبان کے مثل لکھتے تھے۔
اول درجے کے ڈپٹی کلکٹر تھے، کانپور، الٰہ آباد اور آگرہ میں ملازم رہے۔ زیارت کربلائے معلیٰ کے لیے گئے، اس کے بعد پوری زندگی 12 برس کربلا میں قیام کے بعد 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور کربلا ہی میں دفن ہوئے۔ تقریباً 49 مراثی علاوہ فارسی نظم، مثنوی اور تضمینیںکے یادگار چھوڑے ہیں جو سب کے سب اعلیٰ معیار کے ہیں۔ نعمتی جن کا نام سید علی اصغر تھا 15 نومبر 1848 کو پٹنہ (عظیم آباد) میں پیدا ہوئے۔ مونس کے شاگرد تھے، انھوں نے مرثیہ پر جابجا اصلاح دی ہے۔
یہ اصلاح شدہ مرثیہ شامل کتاب ہے۔ نام سید محمد حسین جعفری، تخلص نواب۔ جونپور کے رؤسا میں تھے۔ تاریخ گوئی پر قدرت حاصل تھی مثنوعی ''عروج الفت'' کی تاریخ طباعت کہی ہے۔ نیر وارث علی خان نام محل شاہی میں خواجہ سرا تھے، خوش فکر و خوش بیاں تھے۔ مونس کی زمین میں ایک غزل بطور نمونہ کلام دی گئی ہے۔ پاس کا نام سید ذاکر حسین کاظمی موسوی تھا۔ مونس کے قابل فخر شاگر تھے۔
ان کا نام تاریخ اردو ادب میں ہمیشہ تابندہ رہے گا۔ مونس کی شاگردی پر انھیں بڑا فخر تھا۔ استاد الاستاد تھے۔ بقول جذب لکھنوی ہندوستان پھر میں پاس کے تقریباً سو شاگرد تھے لیکن ذکر صرف ایک شاگرد کا کرسکے۔ جب کہ مصنف نے تحقیق کے بعد پاس کے بارہ شاگرد دریافت کیے ہیں۔ نمونہ کلام اور ایک غیر مطبوعہ مرثیہ شامل کتاب ہے۔ ان کے علاوہ میر کاظم حسین تخلص یونس اور میر امجد حسین بھی تلامذہ مونس میں شامل ہیں ان دونوں کے مختصر حالات کتاب میں مذکور ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بے حد اختصار کے باوجود تقریباً 26 شاگردوں کے بارے میں لکھنے کا ایک کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ صاحبان ذوق اس گراں قدر کتاب سے ضرور استفادہ کریں۔ کتاب کی قیمت صرف پانچ سو روپے ہے، جو اس کی اہمیت کے پیش نظر کچھ بھی نہیں۔