سروسز اسپتال کراچی
اسپتال میں کتنے ہی ایم ایس آئے اور چلے گئے، کسی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی تھی۔
سروسز اسپتال کراچی میں صوبائی سرکاری ملازمین، حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو علاج و معالجے کی سہولیات بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ موجودہ چند ماہ کے دوران اسپتال میں کافی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ڈاکٹر محمد توفیق کے تبادلے کے بعد ڈاکٹر محمود قریشی نے جب سے ایم ایس کا چارج لیا ہے اس وقت سے ہی اسپتال کے ہر شعبے پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی ہے۔
اس سلسلے میں علاج و معالجے کے ہر شعبے میں (ایکسپرٹ) ماہر ڈاکٹرز کو تعینات کیا جارہاہے جو کم از کم گریڈ 18 کا ہو۔ نئے آنے والے ڈاکٹرز میں ڈاکٹر عثمان کارڈیولوجسٹ، جنرل سرجن اور آئی سرجن ڈاکٹر خادم حسین شامل ہیں، اس کے علاوہ دیگر شعبوں میں ماہر ڈاکٹرز بھی لائے جائیںگے۔ اسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر اجمل مغل، مہر ای این ٹی ڈاکٹر نور محمد شیخ، ڈاکٹر شاہد، ماہر ہڈی جوڑ پٹھے وغیرہ پہلے سے ہی موجود ہیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے یہ کوششیں مفید ثابت ہوںگی۔
اس سلسلے میں آر ایم او جنرل ڈاکٹر آغا زبیر احمد جو اسپتال کے انتظامی امور کے ماہر ہیں، ڈاکٹر محمود قریشی کے ساتھ مل کر اسپتال کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ قارئین کرام یہ پڑھ کر حیران ہوںگے کہ سروسز اسپتال میں پانی کے لیے استعمال ہونے والے انڈر گراؤنڈ ٹینک کی صفائی مدتوں سے نہیں کی گئی تھی۔
اسپتال میں کتنے ہی ایم ایس آئے اور چلے گئے، کسی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی تھی۔ جیسے کہ پورے ملک میں بیورو کریسی کا مروجہ طریقہ کار رائج ہے کہ کسی بھی شعبے کا یا محکمے کا انچارج آفیسر جب اپنی کرسی پر بیٹھتا ہے تو یہ خانہ پری کرکے فائلوں کے پیٹ بھرتا رہتا ہے۔ اس طرح نیچے سے لے کر اوپر تک ''سب ٹھیک ہے'' کی گردان ہوتی رہتی ہے۔
موجودہ ایم ایس نے مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر اسپتال کی انڈور (Indoor) اور آؤٹ ڈور (Out Door) ڈیلنگ کے ساتھ اسپتال کی خود اپنی Physical Structural کی انتظامی Dimensions (وسعتی) ڈائی منشن اپروچ کے منفی یا ناقص یا مثبت ہونے کا جائزہ لے کر اقدامات اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ پانی کے استعمال کرنے کے لیے انڈر گراؤنڈ ٹینک کی صفائی کرائی گئی۔ مدتوں کا پڑا ہوا بدبودار کیچڑ منوں نکالا گیا۔ ٹینک کو Chemically طور پر ٹریٹ کرنے کے بعد استعمال کے قابل بنادیا گیا، اسی طرح Overhead چھت والے ٹینک کی بھی صفائی کرائی گئی ہے اور اسے بھی قابل استعمال کیا گیا ہے۔
سروسز اسپتال میں مدتوں سے کھارا (زمینی نمکین) پانی بورنگ کے ذریعے استعمال کیا جارہا تھا، میٹھے پانی کی شدید قلت تھی اس کے لیے ایم ایس نے سر توڑ کوشش کرکے پانی کی ٹوٹی پھوٹی پرانی بند لائنوں کی جگہ نئی لائنیں ڈلوا کر میٹھے پانی کو پورے اسپتال کے لیے جاری کرایا۔ مریضوں کو مدتوں بعد میٹھا پانی ملنا نصیب ہوا۔ ڈاکٹر محمود قریشی کا مزید کہنا ہے کہ اسپتال میں جلد ''واٹر فلٹریشن پلانٹ'' بھی نصب کردیا جائے گا جس سے وزیٹرز اور تمام مریضوں کو صحت بخش، جراثیموں سے پاک پانی میسر آئے گا۔
اسپتال میں داخل مریضوں کو ہر ایک مریض کو پرہیزی کھانا مہیا کردیا گیا ہے۔ اسپتال میں واقع مسجد میں نمازیوں کے بڑھنے کی وجہ سے تنگی محسوس ہورہی تھی، اس مسجد کی جگہ نئی بڑی مسجد جو دو منزلہ ہے تعمیر کی جارہی ہے۔ پارکنگ ایریا کو Covered کردیاگیا ہے۔ اسپتال کے اوقات کار کے بعد شام اور رات کے وقت ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کی ڈیوٹیاں لگادی گئی ہیں۔ دونوں شفٹوں میں موجود ڈاکٹر ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کا علاج کریںگے۔
اگر ان ڈاکٹروں کو اپنی اپنی ڈیوٹی کے دوران مریضوں کو سنبھالنے میں دقت کا سامنا ہوا تو یہ ڈاکٹر اسپتال ہی کے اسی شعبے کے ماہر ڈاکٹر کو کال کرکے مریض کا علاج کیا جائے گا یا وارڈ میں داخل کرلیا جائے گا۔ ڈاکٹر آغا زبیر احمد نے بتایاکہ اسپتال میں جلد ہی ایم ایس کی کوششوں سے Laparoscopy اور CT Scan کے Test شروع کردیے جائیںگے۔ یاد رہے اسپتال میں الٹرا ساؤنڈ، ایکسرے، لیبارٹری کی سہولتیں پہلے ہی موجود ہیں۔ سروسز اسپتال کے وارڈوں کے اندر کی صفائی اور الرٹ عملہ دیگر اسپتال سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
سب سے بڑی بات آپ کسی بھی سرکاری بڑے اسپتال یا پرائیویٹ اسپتال چلے جائیں۔ سوئپر، آیا، وارڈ بوائے، چوکیدار آپ کے سامنے ہاتھ پھیلائے چائے پانی کے نام پر رشوت یا خیرات مانگتے نظر آتے ہیں، لیکن سروسز اسپتال میں عملہ نیچے سے لے کر اوپر تک آپ کو ایسی حرکت کرتا نظر نہیں آئے گا۔ ایم ایس نے لاء اینڈ آرڈر کے اصول کے مطابق ملازمین کے ''حق علاج'' تک رسائی کو یقینی بنادیا ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے۔ ڈاکٹر محمود قریشی اور ڈاکٹر آغا زبیر احمد نے کہا ہے کہ پینے کے پانی کو اگر کوشش کرکے ہر شخص استعمال کرنے سے پہلے ابال لے تو اس سے بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام یہ مشورہ قابل عمل ہے اس میں تھوڑی سی زحمت ضرور ہے لیکن ابلے پانی سے بہتر دوسرا پانی نہیں ہوسکتا ہے۔ موجودہ ایم ایس اپنی ٹیم ورک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ملازمین جن میں 99 فیصد غریب ملازمین ہیں ان کے لیے علاج و معالجے میں زیادہ سے زیادہ بہتری کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں، یہ اقدامات قابل تحسین ہیں۔ دیگر سرکاری اسپتالوں کو بھی جو عوامی اسپتال ہیں غریب عوام تک علاج و معالجے کی سہولتوں تک رسائی کو آسان بنانے یا کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اسپتالوں کو این جی او کے حوالے کرنے سے بہتری نہیں آئی بلکہ الٹا آگے سے بھی زیادہ بگاڑ پیدا ہوا ہے۔
6،7 اکتوبر کو اخباری رپورٹوں میں چھپنے والی خبروں کے مطابق ضلع سجاول کے اسپتال این جی او کے حوالے کردینے کے بعد عوام کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا اور شہریوں نے اس پر احتجاج کیا۔ اسپتالوں کو سیاسی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔ صلاحیتوں کی بنیاد پر ان اداروں کو چلانا چاہیے۔ آج سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال سیاسی مداخلت کے نتیجے میں جن مشکلات سے دو چار ہے، محکمہ صحت سندھ نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔
اداروں میں جو بنیادی طور پر عوامی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوتے ہیں اگر ان میں سیاسی مداخلت سے بگاڑ پیدا ہوجائے تو حکومت کے ساتھ ملک و عوام کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی نجکاری کے عمل کو روکا جائے۔ کیونکہ نجکاری اداروں کی ضرورت اور عوامی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوتی ہے کیونکہ یہ صلاحیتوں سے محروم ہوتی ہے۔ یہ اداروں کا مزید گلا گھونٹ کر اداروں کو تباہ کردیتی ہے۔ نج کاری کا طریقہ امریکی پلان کا حصہ ہے جہاں جہاں نج کاری کی گئی وہ تمام ادارے تباہ ہوتے گئے ہیں۔
اس سلسلے میں علاج و معالجے کے ہر شعبے میں (ایکسپرٹ) ماہر ڈاکٹرز کو تعینات کیا جارہاہے جو کم از کم گریڈ 18 کا ہو۔ نئے آنے والے ڈاکٹرز میں ڈاکٹر عثمان کارڈیولوجسٹ، جنرل سرجن اور آئی سرجن ڈاکٹر خادم حسین شامل ہیں، اس کے علاوہ دیگر شعبوں میں ماہر ڈاکٹرز بھی لائے جائیںگے۔ اسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر اجمل مغل، مہر ای این ٹی ڈاکٹر نور محمد شیخ، ڈاکٹر شاہد، ماہر ہڈی جوڑ پٹھے وغیرہ پہلے سے ہی موجود ہیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے یہ کوششیں مفید ثابت ہوںگی۔
اس سلسلے میں آر ایم او جنرل ڈاکٹر آغا زبیر احمد جو اسپتال کے انتظامی امور کے ماہر ہیں، ڈاکٹر محمود قریشی کے ساتھ مل کر اسپتال کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ قارئین کرام یہ پڑھ کر حیران ہوںگے کہ سروسز اسپتال میں پانی کے لیے استعمال ہونے والے انڈر گراؤنڈ ٹینک کی صفائی مدتوں سے نہیں کی گئی تھی۔
اسپتال میں کتنے ہی ایم ایس آئے اور چلے گئے، کسی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی تھی۔ جیسے کہ پورے ملک میں بیورو کریسی کا مروجہ طریقہ کار رائج ہے کہ کسی بھی شعبے کا یا محکمے کا انچارج آفیسر جب اپنی کرسی پر بیٹھتا ہے تو یہ خانہ پری کرکے فائلوں کے پیٹ بھرتا رہتا ہے۔ اس طرح نیچے سے لے کر اوپر تک ''سب ٹھیک ہے'' کی گردان ہوتی رہتی ہے۔
موجودہ ایم ایس نے مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر اسپتال کی انڈور (Indoor) اور آؤٹ ڈور (Out Door) ڈیلنگ کے ساتھ اسپتال کی خود اپنی Physical Structural کی انتظامی Dimensions (وسعتی) ڈائی منشن اپروچ کے منفی یا ناقص یا مثبت ہونے کا جائزہ لے کر اقدامات اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ پانی کے استعمال کرنے کے لیے انڈر گراؤنڈ ٹینک کی صفائی کرائی گئی۔ مدتوں کا پڑا ہوا بدبودار کیچڑ منوں نکالا گیا۔ ٹینک کو Chemically طور پر ٹریٹ کرنے کے بعد استعمال کے قابل بنادیا گیا، اسی طرح Overhead چھت والے ٹینک کی بھی صفائی کرائی گئی ہے اور اسے بھی قابل استعمال کیا گیا ہے۔
سروسز اسپتال میں مدتوں سے کھارا (زمینی نمکین) پانی بورنگ کے ذریعے استعمال کیا جارہا تھا، میٹھے پانی کی شدید قلت تھی اس کے لیے ایم ایس نے سر توڑ کوشش کرکے پانی کی ٹوٹی پھوٹی پرانی بند لائنوں کی جگہ نئی لائنیں ڈلوا کر میٹھے پانی کو پورے اسپتال کے لیے جاری کرایا۔ مریضوں کو مدتوں بعد میٹھا پانی ملنا نصیب ہوا۔ ڈاکٹر محمود قریشی کا مزید کہنا ہے کہ اسپتال میں جلد ''واٹر فلٹریشن پلانٹ'' بھی نصب کردیا جائے گا جس سے وزیٹرز اور تمام مریضوں کو صحت بخش، جراثیموں سے پاک پانی میسر آئے گا۔
اسپتال میں داخل مریضوں کو ہر ایک مریض کو پرہیزی کھانا مہیا کردیا گیا ہے۔ اسپتال میں واقع مسجد میں نمازیوں کے بڑھنے کی وجہ سے تنگی محسوس ہورہی تھی، اس مسجد کی جگہ نئی بڑی مسجد جو دو منزلہ ہے تعمیر کی جارہی ہے۔ پارکنگ ایریا کو Covered کردیاگیا ہے۔ اسپتال کے اوقات کار کے بعد شام اور رات کے وقت ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کی ڈیوٹیاں لگادی گئی ہیں۔ دونوں شفٹوں میں موجود ڈاکٹر ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کا علاج کریںگے۔
اگر ان ڈاکٹروں کو اپنی اپنی ڈیوٹی کے دوران مریضوں کو سنبھالنے میں دقت کا سامنا ہوا تو یہ ڈاکٹر اسپتال ہی کے اسی شعبے کے ماہر ڈاکٹر کو کال کرکے مریض کا علاج کیا جائے گا یا وارڈ میں داخل کرلیا جائے گا۔ ڈاکٹر آغا زبیر احمد نے بتایاکہ اسپتال میں جلد ہی ایم ایس کی کوششوں سے Laparoscopy اور CT Scan کے Test شروع کردیے جائیںگے۔ یاد رہے اسپتال میں الٹرا ساؤنڈ، ایکسرے، لیبارٹری کی سہولتیں پہلے ہی موجود ہیں۔ سروسز اسپتال کے وارڈوں کے اندر کی صفائی اور الرٹ عملہ دیگر اسپتال سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
سب سے بڑی بات آپ کسی بھی سرکاری بڑے اسپتال یا پرائیویٹ اسپتال چلے جائیں۔ سوئپر، آیا، وارڈ بوائے، چوکیدار آپ کے سامنے ہاتھ پھیلائے چائے پانی کے نام پر رشوت یا خیرات مانگتے نظر آتے ہیں، لیکن سروسز اسپتال میں عملہ نیچے سے لے کر اوپر تک آپ کو ایسی حرکت کرتا نظر نہیں آئے گا۔ ایم ایس نے لاء اینڈ آرڈر کے اصول کے مطابق ملازمین کے ''حق علاج'' تک رسائی کو یقینی بنادیا ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے۔ ڈاکٹر محمود قریشی اور ڈاکٹر آغا زبیر احمد نے کہا ہے کہ پینے کے پانی کو اگر کوشش کرکے ہر شخص استعمال کرنے سے پہلے ابال لے تو اس سے بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام یہ مشورہ قابل عمل ہے اس میں تھوڑی سی زحمت ضرور ہے لیکن ابلے پانی سے بہتر دوسرا پانی نہیں ہوسکتا ہے۔ موجودہ ایم ایس اپنی ٹیم ورک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ملازمین جن میں 99 فیصد غریب ملازمین ہیں ان کے لیے علاج و معالجے میں زیادہ سے زیادہ بہتری کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں، یہ اقدامات قابل تحسین ہیں۔ دیگر سرکاری اسپتالوں کو بھی جو عوامی اسپتال ہیں غریب عوام تک علاج و معالجے کی سہولتوں تک رسائی کو آسان بنانے یا کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اسپتالوں کو این جی او کے حوالے کرنے سے بہتری نہیں آئی بلکہ الٹا آگے سے بھی زیادہ بگاڑ پیدا ہوا ہے۔
6،7 اکتوبر کو اخباری رپورٹوں میں چھپنے والی خبروں کے مطابق ضلع سجاول کے اسپتال این جی او کے حوالے کردینے کے بعد عوام کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا اور شہریوں نے اس پر احتجاج کیا۔ اسپتالوں کو سیاسی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔ صلاحیتوں کی بنیاد پر ان اداروں کو چلانا چاہیے۔ آج سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال سیاسی مداخلت کے نتیجے میں جن مشکلات سے دو چار ہے، محکمہ صحت سندھ نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔
اداروں میں جو بنیادی طور پر عوامی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوتے ہیں اگر ان میں سیاسی مداخلت سے بگاڑ پیدا ہوجائے تو حکومت کے ساتھ ملک و عوام کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی نجکاری کے عمل کو روکا جائے۔ کیونکہ نجکاری اداروں کی ضرورت اور عوامی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوتی ہے کیونکہ یہ صلاحیتوں سے محروم ہوتی ہے۔ یہ اداروں کا مزید گلا گھونٹ کر اداروں کو تباہ کردیتی ہے۔ نج کاری کا طریقہ امریکی پلان کا حصہ ہے جہاں جہاں نج کاری کی گئی وہ تمام ادارے تباہ ہوتے گئے ہیں۔