علم کی فضیلت
علم حاصل کرو، کیوں کہ اللہ کی رضا کے لیے جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس علم کی تعلیم خشیّت ہے
علم کی فضیلت و اہمیت پر اب تک بہت کچھ لکھا گیا ہے اور جب تک یہ دنیا باقی ہے، لکھا جاتا رہے گا۔
اس مضمون میں ہم نے علم کی فضیلت کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور بعض اولیائے کرام کے اقوال جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقوال کی تسہیل کی گئی ہے، کیوں کہ اگر عربی سے اردو میں لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا جائے، تو عام طور پر بامحاورہ نہ ہونے کی وجہ سے پوری بات سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ جہاں کہیں کسی قول کی تشریح یا اس سے متعلقہ کوئی وضاحت ناگزیز سمجھی ہے، وہاں اگلی سطر سے ''یعنی'' کے الفاظ سے اس تشریح و وضاحت کو درج کردیا ہے۔
خاتم النبیین شفیع المذنبین ﷺ
٭ دو حریص ایسے ہیں جن کی حرص کبھی ختم نہیں ہوگی۔ علم کا حریص اور دنیا کا حریص۔
٭ علم حاصل کرو، کیوں کہ اللہ کی رضا کے لیے جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس علم کی تعلیم خشیّت ہے، طلب عبادت ہے، مذاکرہ تسبیح اور تلاش جہاد ہے۔
٭ بے علموں کو علم سکھانا صدقہ ہے، علم حلال و حرام کا نشان ہے، دنیا و عاقبت میں روشنی کا ستون، تنہائی میں مونس و ہم دم، پردیس میں رفیق و ساتھی، خلوت میں ندیم و ہم راز، مصیبت کو ہٹانے والا، دشمن کے مقابلے میں ہتھیار اور دوستوں کے درمیان (صاحب علم کے لیے باعثِ) زینت ہے۔
٭ مجھ سے علم سیکھو، مجھ سے علم سیکھو۔ (بہ حوالہ: مخزن اخلاق)
٭ باپ کا بیٹے (اولاد) کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اس کی تعلیم و تربیت اچھی کرے۔
٭ میری کمر دو آدمیوں نے توڑ دی ہے: ایک جاہل عابد و زاہد نے ، دوسرے دین کی ہتک و توہین اور بے توقیری کرنے والے عالم نے۔
٭ علم بغیر عمل کے وبال ہے اور عمل بغیر علم کے گم راہی ہے۔ جاہل کوایک دفعہ عذاب دیا جائے گا اورعالم بے عمل کو سات دفعہ۔
٭ جو شخص تلاش علم میں نکلا، وہ اپنی واپسی تک گویا اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلتا رہا۔
فرموداتِ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ
٭ جاہل کا دنیا میں پڑجانا بُرا، اور عالم کا دنیا میں پڑجانا بہت بُرا ہے۔ عام لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا بُرا اور عالم کا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا بہت بُرا ہے۔
٭ خوف الٰہی بہ قدر علم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بے خوفی بہ قدر جہالت۔
٭ علم کے سبب کسی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا بہ خلاف مال کے، یعنی مال والوں نے ایسے دعوے کیے، جیسے فرعون، ہامان، قارون وغیرہ۔
٭ علم انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے اور مال کفار و اشرار کی میراث ہے۔
٭ شریف آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تو اس میں مزید تواضع و انکساری آجاتی ہے، اور کمینہ و بدخصلت آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تو اور زیادہ بڑائی و تکبر کرنے لگتا ہے۔
٭ عمل بغیر علم کے سقیم و بیمار ہے اور علم بغیر عمل کے عقیم یعنی بانجھ و بے کار ہے۔
فرموداتِ حضرت عمرؓ
٭ قبل اس کے بزرگ بنو، یعنی تمہاری عمر زیادہ ہوجائے اور بڑھاپا آجائے، جوانی میں، علم حاصل کرو۔
٭ جو آدمی اپنے کو عالم کہے وہ جاہل ہے اور جو اپنے آپ کو جنتی بتائے وہ جہنمی ہے۔
٭ اے اللہ! تو مجھے ایسا کردے کہ میں علم کے ساتھ بولوں اور علم کے ساتھ خاموش رہوں۔ یعنی میری ہر بات اور ہر نشست و برخاست کا تعلق علم کے ساتھ ہو، اس پر علم کے مطابق عمل کروں، اس کو دیکھ کر دوسروں کے علم میں اضافہ ہو۔
٭ جب تم کسی صاحب علم کو دنیا کی طرف مائل دیکھو تو سمجھ لو کہ دین کے بارے میں وہ قابل بھروسا نہیں ہے۔
فرموداتِ حضرت عثمان غنیؓ
٭ علم بغیر عمل کے کچھ نہ کچھ نفع دے دیتا ہے، لیکن عمل بغیر علم کے فائدہ نہیں بخشتا۔
٭ تونگروں یعنی مال داروں کے ساتھ عالموں اور زاہدوں کی دوستی ریاکاری کی دلیل ہے ۔
فرموداتِ بابُ العلم حضرت علی ؓ
٭ علم مال سے بہتر ہے کیوں کہ :
علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی حفاظت کرتے ہو۔
مال فرعون و ہامان کا ترکہ اور علم انبیا ئے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔
مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور علم کو جتنا زیادہ خرچ کیا جائے وہ اتنی ہی ترقی کرتا ہے۔
مال دیر تک رکھنے سے فرسودہ، ناقابل استعمال اور ضایع ہو جاتا ہے، مگر علم خواہ کتنا ہی پرانا ہوجائے، اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
مال کی ہر وقت چوری کا خطرہ رہتا ہے، مگر علم اس طرح کے خطرات سے محفوظ و مامون ہے۔
صاحب مال کبھی بخیل بھی کہلاتا ہے، یعنی وہ کبھی مال ختم یا کم ہونے کے ڈر سے کنجوسی سے بھی کام لے سکتا ہے، جب کہ صاحب علم کریم ہی کہلاتا ہے، کیوں کہ اسے یقین ہے کہ وہ علم کو جتنا بھی خرچ کرے، اس میں کوئی کمی یا نقص واقع نہیں ہوگا، بل کہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
علم کی کثرت سے دل کو روشنی ملتی ہے اور مال کی کثرت سے دل تاریک ہوتا چلا جاتا ہے۔ کثرت مال ہی کی وجہ سے فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔
مال کی کثرت سے بے شمار دشمن پیدا ہوتے ہیں، مگر علم سے ہر دل عزیزی حاصل ہوتی ہے۔
قیامت کے دن مال کا حساب ہوگا مگر علم پر کوئی حساب نہ ہوگا۔ (بہ شرطے کہ اس علم کے تقاضے کے مطابق عمل بھی کیا ہو، ورنہ میدان محشر سے قدم اس وقت تک نہ ہٹ پائیں گے، جب کہ علم پر عمل کے سلسلے میں سوال کا جواب نہیں دے گا۔)
٭ جو لوگ تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں، ان سے علم حاصل کر اور جو نادان یعنی کم علم ہیں ان کو اپنا علم سکھا۔
رحم کے زیادہ مستحق تین شخص ہیں :
وہ عالم جس پر جاہل کا حکم چلے۔
وہ شریف جس پر کمینہ حاکم ہو۔
وہ نیکو کار جس پر کوئی بدکار مسلط ہو۔
٭ جس شخص کو علم غنی اور بے پروا نہیں کرتا، یعنی علم کے باوجود دنیا کی محبت اس کے دل سے نہیں نکلتی، وہ مال سے کبھی مستغنی نہیں ہوسکتا، اور ہمیشہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے، کبھی سیر نہیں ہوتا کہ جو مال اس کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اس پر قناعت کرلے۔
٭ صاحب علم اگرچہ حقیر حالت میں ہو، یعنی پھٹے پرانے لباس اور غربت و افلاس کا شکار ہو، تب بھی اسے ذلیل نہ سمجھو۔
٭ لوگوں کو طلبِ علم میں اس وجہ سے بے رغبتی پیدا ہوگئی ہے، کہ بہت سے عالم ایسے نظر آتے ہیں جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے، یعنی یہ بے عمل علماء لوگوں کو دین اور علم دین سے روکنے کا باعث ہیں۔
٭ اگر کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو اس کے جواب میں '' میں نہیں جانتا '' کہنا نصفِ علم ہے، لہٰذا اپنی لاعلمی کا اظہار کبھی بُرا نہ سمجھو۔
٭ خواہش نفسانی کو علم کے ساتھ اور غضب و غصے کو حلم یعنی بردباری کے ساتھ مار ڈالو۔
٭ خاموشی عالم کے لیے باعثِ زینت اور جاہل کے حق میں اس کی جہالت پر پردہ ڈالنے والی ہے۔
فرموداتِ امام جعفر صادق ؒ
٭ علما کا فقر اختیاری ہوتا ہے، یعنی وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اتباع سنّت میں فقر و فاقہ کرتے ہیں۔
٭ تمام خوبیوں کا مجموعہ علم سیکھنا، اس پر عمل کرنا، پھر اوروں کو سکھانا ہے۔
٭ پہلے جہل ہوتا ہے پھر علم، پھر اس پر عمل، پھر عمل میں اخلاص۔
یعنی پہلے ہر بندہ جاہل ہوتا ہے کہ کچھ نہیں جانتا، پھر اللہ تعالیٰ اسے علم کی دولت سے مالامال کردیتے ہیں، پھر اس کو اس علم پر عمل کی توفیق ملتی ہے اور پھر اللہ کی مزید عطا یہ ہوتی ہے کہ اس کا ہر عمل کسی قسم کی ریاکاری اور دکھاوے کے لیے نہیں، بل کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوجاتا ہے۔
فرموداتِ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
٭ اگر تم اپنے علم پر عمل کرتے، تو دنیا سے بھاگتے۔
یعنی علم میں کوئی شے ایسے نہیں ہے جس کی وجہ سے دل میں دنیا کی محبت پیدا ہو، بل کہ علم پر عمل کیا جائے تو وہ بندے کو دنیا و اسباب دنیا سے بے رغبت کردیتا ہے۔
٭ عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔
فرموداتِ حضرت مجدد الف ثانیؒ
٭ طلبِ علم میں شرم مناسب نہیں، کیوں کہ جہالت شرم سے بدتر ہے۔
یعنی اگر تم نے شرم کی وجہ سے علم کے بارے میں سوال نہ کیا تو جاہل رہ جاؤ گے، حالاں کہ جہالت، اس شرم سے زیادہ بُری چیز ہے، جس کی وجہ سے تم علم سے پیچھے ہٹے۔
٭ تین باتوں سے میرے نفس کو تکلیف پہنچتی ہے:
وہ دولت مند جو اچانک محتاج ہوجائے۔
وہ معزز شخص جو اچانک ذلت و خواری میں مبتلا ہو۔
وہ عالم جس پر جاہل افسوس کریں۔
یعنی جاہل لوگ بھی اس کے کرتوت دیکھ کر افسوس کریں کہ اس سے تو ہم اچھے ہیں، یہ عالم ہوکر کن کاموں میں پڑا ہے۔
٭ علم کا دشمن تکبّر ہے۔
٭ علم جان ہے، عمل تن ہے، علم اصل ہے، عمل فرع ہے، علم باپ ہے، عمل اس کا بیٹا ہے۔
یعنی علم اور عمل دونوں ضروری ہیں، کوئی ایک کافی نہیں۔ علم اگر آنکھ ہے تو عمل اس کی بینائی ہے، علم اگر زندگی ہے تو عمل بے داری ہے، علم اگر تعلیم ہے تو عمل تربیت ہے، علم اگر پھول ہے تو عمل خوش بُو ہے، علم اگر تدبیر ہے تو عمل تقدیر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عالم بدعمل کے متعلق فرماتے ہیں : عالم بے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتا ہے۔
٭ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے استادوں، کتابوں اور ان کی خدمت کرنے والوں کی جس قدر ہوسکے تعظیم، احترام و آداب بجا لائیں۔
اس مضمون میں ہم نے علم کی فضیلت کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور بعض اولیائے کرام کے اقوال جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقوال کی تسہیل کی گئی ہے، کیوں کہ اگر عربی سے اردو میں لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا جائے، تو عام طور پر بامحاورہ نہ ہونے کی وجہ سے پوری بات سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ جہاں کہیں کسی قول کی تشریح یا اس سے متعلقہ کوئی وضاحت ناگزیز سمجھی ہے، وہاں اگلی سطر سے ''یعنی'' کے الفاظ سے اس تشریح و وضاحت کو درج کردیا ہے۔
خاتم النبیین شفیع المذنبین ﷺ
٭ دو حریص ایسے ہیں جن کی حرص کبھی ختم نہیں ہوگی۔ علم کا حریص اور دنیا کا حریص۔
٭ علم حاصل کرو، کیوں کہ اللہ کی رضا کے لیے جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس علم کی تعلیم خشیّت ہے، طلب عبادت ہے، مذاکرہ تسبیح اور تلاش جہاد ہے۔
٭ بے علموں کو علم سکھانا صدقہ ہے، علم حلال و حرام کا نشان ہے، دنیا و عاقبت میں روشنی کا ستون، تنہائی میں مونس و ہم دم، پردیس میں رفیق و ساتھی، خلوت میں ندیم و ہم راز، مصیبت کو ہٹانے والا، دشمن کے مقابلے میں ہتھیار اور دوستوں کے درمیان (صاحب علم کے لیے باعثِ) زینت ہے۔
٭ مجھ سے علم سیکھو، مجھ سے علم سیکھو۔ (بہ حوالہ: مخزن اخلاق)
٭ باپ کا بیٹے (اولاد) کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اس کی تعلیم و تربیت اچھی کرے۔
٭ میری کمر دو آدمیوں نے توڑ دی ہے: ایک جاہل عابد و زاہد نے ، دوسرے دین کی ہتک و توہین اور بے توقیری کرنے والے عالم نے۔
٭ علم بغیر عمل کے وبال ہے اور عمل بغیر علم کے گم راہی ہے۔ جاہل کوایک دفعہ عذاب دیا جائے گا اورعالم بے عمل کو سات دفعہ۔
٭ جو شخص تلاش علم میں نکلا، وہ اپنی واپسی تک گویا اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلتا رہا۔
فرموداتِ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ
٭ جاہل کا دنیا میں پڑجانا بُرا، اور عالم کا دنیا میں پڑجانا بہت بُرا ہے۔ عام لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا بُرا اور عالم کا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا بہت بُرا ہے۔
٭ خوف الٰہی بہ قدر علم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بے خوفی بہ قدر جہالت۔
٭ علم کے سبب کسی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا بہ خلاف مال کے، یعنی مال والوں نے ایسے دعوے کیے، جیسے فرعون، ہامان، قارون وغیرہ۔
٭ علم انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے اور مال کفار و اشرار کی میراث ہے۔
٭ شریف آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تو اس میں مزید تواضع و انکساری آجاتی ہے، اور کمینہ و بدخصلت آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تو اور زیادہ بڑائی و تکبر کرنے لگتا ہے۔
٭ عمل بغیر علم کے سقیم و بیمار ہے اور علم بغیر عمل کے عقیم یعنی بانجھ و بے کار ہے۔
فرموداتِ حضرت عمرؓ
٭ قبل اس کے بزرگ بنو، یعنی تمہاری عمر زیادہ ہوجائے اور بڑھاپا آجائے، جوانی میں، علم حاصل کرو۔
٭ جو آدمی اپنے کو عالم کہے وہ جاہل ہے اور جو اپنے آپ کو جنتی بتائے وہ جہنمی ہے۔
٭ اے اللہ! تو مجھے ایسا کردے کہ میں علم کے ساتھ بولوں اور علم کے ساتھ خاموش رہوں۔ یعنی میری ہر بات اور ہر نشست و برخاست کا تعلق علم کے ساتھ ہو، اس پر علم کے مطابق عمل کروں، اس کو دیکھ کر دوسروں کے علم میں اضافہ ہو۔
٭ جب تم کسی صاحب علم کو دنیا کی طرف مائل دیکھو تو سمجھ لو کہ دین کے بارے میں وہ قابل بھروسا نہیں ہے۔
فرموداتِ حضرت عثمان غنیؓ
٭ علم بغیر عمل کے کچھ نہ کچھ نفع دے دیتا ہے، لیکن عمل بغیر علم کے فائدہ نہیں بخشتا۔
٭ تونگروں یعنی مال داروں کے ساتھ عالموں اور زاہدوں کی دوستی ریاکاری کی دلیل ہے ۔
فرموداتِ بابُ العلم حضرت علی ؓ
٭ علم مال سے بہتر ہے کیوں کہ :
علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی حفاظت کرتے ہو۔
مال فرعون و ہامان کا ترکہ اور علم انبیا ئے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔
مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور علم کو جتنا زیادہ خرچ کیا جائے وہ اتنی ہی ترقی کرتا ہے۔
مال دیر تک رکھنے سے فرسودہ، ناقابل استعمال اور ضایع ہو جاتا ہے، مگر علم خواہ کتنا ہی پرانا ہوجائے، اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
مال کی ہر وقت چوری کا خطرہ رہتا ہے، مگر علم اس طرح کے خطرات سے محفوظ و مامون ہے۔
صاحب مال کبھی بخیل بھی کہلاتا ہے، یعنی وہ کبھی مال ختم یا کم ہونے کے ڈر سے کنجوسی سے بھی کام لے سکتا ہے، جب کہ صاحب علم کریم ہی کہلاتا ہے، کیوں کہ اسے یقین ہے کہ وہ علم کو جتنا بھی خرچ کرے، اس میں کوئی کمی یا نقص واقع نہیں ہوگا، بل کہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
علم کی کثرت سے دل کو روشنی ملتی ہے اور مال کی کثرت سے دل تاریک ہوتا چلا جاتا ہے۔ کثرت مال ہی کی وجہ سے فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔
مال کی کثرت سے بے شمار دشمن پیدا ہوتے ہیں، مگر علم سے ہر دل عزیزی حاصل ہوتی ہے۔
قیامت کے دن مال کا حساب ہوگا مگر علم پر کوئی حساب نہ ہوگا۔ (بہ شرطے کہ اس علم کے تقاضے کے مطابق عمل بھی کیا ہو، ورنہ میدان محشر سے قدم اس وقت تک نہ ہٹ پائیں گے، جب کہ علم پر عمل کے سلسلے میں سوال کا جواب نہیں دے گا۔)
٭ جو لوگ تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں، ان سے علم حاصل کر اور جو نادان یعنی کم علم ہیں ان کو اپنا علم سکھا۔
رحم کے زیادہ مستحق تین شخص ہیں :
وہ عالم جس پر جاہل کا حکم چلے۔
وہ شریف جس پر کمینہ حاکم ہو۔
وہ نیکو کار جس پر کوئی بدکار مسلط ہو۔
٭ جس شخص کو علم غنی اور بے پروا نہیں کرتا، یعنی علم کے باوجود دنیا کی محبت اس کے دل سے نہیں نکلتی، وہ مال سے کبھی مستغنی نہیں ہوسکتا، اور ہمیشہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے، کبھی سیر نہیں ہوتا کہ جو مال اس کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اس پر قناعت کرلے۔
٭ صاحب علم اگرچہ حقیر حالت میں ہو، یعنی پھٹے پرانے لباس اور غربت و افلاس کا شکار ہو، تب بھی اسے ذلیل نہ سمجھو۔
٭ لوگوں کو طلبِ علم میں اس وجہ سے بے رغبتی پیدا ہوگئی ہے، کہ بہت سے عالم ایسے نظر آتے ہیں جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے، یعنی یہ بے عمل علماء لوگوں کو دین اور علم دین سے روکنے کا باعث ہیں۔
٭ اگر کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو اس کے جواب میں '' میں نہیں جانتا '' کہنا نصفِ علم ہے، لہٰذا اپنی لاعلمی کا اظہار کبھی بُرا نہ سمجھو۔
٭ خواہش نفسانی کو علم کے ساتھ اور غضب و غصے کو حلم یعنی بردباری کے ساتھ مار ڈالو۔
٭ خاموشی عالم کے لیے باعثِ زینت اور جاہل کے حق میں اس کی جہالت پر پردہ ڈالنے والی ہے۔
فرموداتِ امام جعفر صادق ؒ
٭ علما کا فقر اختیاری ہوتا ہے، یعنی وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اتباع سنّت میں فقر و فاقہ کرتے ہیں۔
٭ تمام خوبیوں کا مجموعہ علم سیکھنا، اس پر عمل کرنا، پھر اوروں کو سکھانا ہے۔
٭ پہلے جہل ہوتا ہے پھر علم، پھر اس پر عمل، پھر عمل میں اخلاص۔
یعنی پہلے ہر بندہ جاہل ہوتا ہے کہ کچھ نہیں جانتا، پھر اللہ تعالیٰ اسے علم کی دولت سے مالامال کردیتے ہیں، پھر اس کو اس علم پر عمل کی توفیق ملتی ہے اور پھر اللہ کی مزید عطا یہ ہوتی ہے کہ اس کا ہر عمل کسی قسم کی ریاکاری اور دکھاوے کے لیے نہیں، بل کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوجاتا ہے۔
فرموداتِ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
٭ اگر تم اپنے علم پر عمل کرتے، تو دنیا سے بھاگتے۔
یعنی علم میں کوئی شے ایسے نہیں ہے جس کی وجہ سے دل میں دنیا کی محبت پیدا ہو، بل کہ علم پر عمل کیا جائے تو وہ بندے کو دنیا و اسباب دنیا سے بے رغبت کردیتا ہے۔
٭ عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔
فرموداتِ حضرت مجدد الف ثانیؒ
٭ طلبِ علم میں شرم مناسب نہیں، کیوں کہ جہالت شرم سے بدتر ہے۔
یعنی اگر تم نے شرم کی وجہ سے علم کے بارے میں سوال نہ کیا تو جاہل رہ جاؤ گے، حالاں کہ جہالت، اس شرم سے زیادہ بُری چیز ہے، جس کی وجہ سے تم علم سے پیچھے ہٹے۔
٭ تین باتوں سے میرے نفس کو تکلیف پہنچتی ہے:
وہ دولت مند جو اچانک محتاج ہوجائے۔
وہ معزز شخص جو اچانک ذلت و خواری میں مبتلا ہو۔
وہ عالم جس پر جاہل افسوس کریں۔
یعنی جاہل لوگ بھی اس کے کرتوت دیکھ کر افسوس کریں کہ اس سے تو ہم اچھے ہیں، یہ عالم ہوکر کن کاموں میں پڑا ہے۔
٭ علم کا دشمن تکبّر ہے۔
٭ علم جان ہے، عمل تن ہے، علم اصل ہے، عمل فرع ہے، علم باپ ہے، عمل اس کا بیٹا ہے۔
یعنی علم اور عمل دونوں ضروری ہیں، کوئی ایک کافی نہیں۔ علم اگر آنکھ ہے تو عمل اس کی بینائی ہے، علم اگر زندگی ہے تو عمل بے داری ہے، علم اگر تعلیم ہے تو عمل تربیت ہے، علم اگر پھول ہے تو عمل خوش بُو ہے، علم اگر تدبیر ہے تو عمل تقدیر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عالم بدعمل کے متعلق فرماتے ہیں : عالم بے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتا ہے۔
٭ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے استادوں، کتابوں اور ان کی خدمت کرنے والوں کی جس قدر ہوسکے تعظیم، احترام و آداب بجا لائیں۔