پاکستان کہاں جارہا ہے
ہماری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں نہ ہونے کے برابر کام کیا گیا
RAWALPINDI:
عدالتی فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے بعد ان پر 63،62 آئینی دفعات لگنے کے بعد سے گویا سیاست میں ایک طوفان سا برپا ہے ہر آنے والے دن ایک نیا اسکینڈل منظر عام پر آتا جارہاہے۔
نواز شریف کے وزیراعظم ہاؤس سے گھر جانے تک کے سفر میں نواز شریف پکار پکار کر ایک ہی سوال پوچھتے رہے کہ ''مجھے کیوں نکالا'' حالانکہ پیپلزپارٹی دور میں جب اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی عدالتوں کا سامنا کررہے تھے تو نواز شریف خود فرماتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی تم گھر جاؤ، عہدہ چھوڑو، عدالتوں کا سامنا کرو اور اگر عدالتیں تم کوکلیئر کریں تو پھر عہدے پر واپس آؤ۔
نواز شریف نے قوم سے خطاب میں کہاکہ اگر پاناما لیکس میں مجھ پر کوئی چارج لگتا ہے تو میں استعفیٰ دے دوںگا مگر یہ ہونہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ عدالتی فیصلے کے باوجود مجھے کیوں نکالا کی صدائیں چاروں طرف سے آرہی ہے جیسے سب کچھ اپنی مرضی پر منحصر ہو، نہ عدالتوں کا احترام نظر آرہاہے اور نہ فیصلے کا احترام، آخر کیوں؟
یہ ملک پاکستان ہے کسی فرد واحد کی جاگیر نہیں جو قانون یوسف رضا گیلانی کے لیے تھا وہ نواز شریف کے لیے بھی ہے پھر یہ خود انکاری کیوں؟ بالکل اسی طرح کی صورتحال اس وقت بھی تھی جب نواز شریف اپنے اہل خانہ کے ساتھ جدہ چلے گئے تھے اور دس سالہ معاہدہ سے انکاری رہے اور اب بھی وہ تمام عدالتی انویسٹی گیشن سے انکاری ہیں ۔اگلے دس سالوں میں ہم یہ بھی دیکھیں کہ جس طرح دس سالہ معاہدہ کی دستاویزات سامنے آئی اسی طرح ان تمام معاملات کی بھی حقیقت سامنے آجائے پھر کیا رہ جائے گا کہنے کو۔
تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کبھی بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ مالی آسودگیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں، رہائش لندن میں، علاج و معالجہ لندن میں، شاپنگ لندن میں۔ مگر اسی لندن میں راہ چلتے ہوئے کچھ آوازیں انھیں آہی جاتی ہے جن میں لندن کے رہائشی ان کو کچھ نا مناسب الفاظ سے نوازتے ہیں۔ اس ملک کا پیسہ تھا جو لندن میں فلیٹ خریدے گئے، دبئی میں کاروبار کیا گیا، جدہ میں اسٹیل مل لگائی گئی۔
آسمان سے تو نہیں برسا ہوگا گویا احساس اور سوچ نہ ہو تو انسان بے حس ہوجاتا ہے اور ایسا بے حس کہ ہر چیز اس کی ذات میں آکر ختم ہوجاتی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد سے ایک انتشار کی کیفیت پورے ملک میں پیدا کی جارہی ہے اور حد یہ ہوتی ہے کہ کیپٹن صفدر نے پارلیمنٹ میں ایک بڑی نفرت انگیز تقریرکی ہے، پارلیمنٹ ایک ایسا قابل احترام فلور ہے کہ جن پر کھڑے ہوکر کہی گئی بات کو پوری دنیا سنتی ہے۔
کیپٹن صفدر کو یہ تقریر کس نے لکھ کر دی اور کس کی ہدایت پر انھوں نے ایسا کیا اس پر ضرور ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ختم نبوت کے بل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کیا یہ کوئی مکمل سازش کی کڑی ہے یا پھر ملک میں قتل وغارت کا ماحول بنایا جا رہا ہے؟
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اس پر ضرور تحقیقات ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کو بھی تسلی اور سنجیدگی سے تمام حالات کو جانچنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو ایک تقریر میں بلند آواز میں مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ اپنے ایڈوائزروں سے، مشیروں سے ہوشیار رہیں کیونکہ ان لوگوں نے گاڑی اور روپے پیسے کے لیے غلط مشوروں سے نوازا، شہباز شریف نے پرانے تجربے کار سیاست دانوں پر بھروسہ کرنے کا بھی کہا۔
ہماری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں نہ ہونے کے برابر کام کیا گیا، تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف تعلیم کے شعبے میں اپنا کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔ شاید اس لیے کہ اگر قوم میں تعلیمی شعور آگیا تو پھر آپ کو کون ووٹ دے گا؟ پھر تو سوالات بھرپور ہوںگے اور جوابات کے لیے آپ کو بیٹھنا پڑے گا۔ ریوڑ کی طرح اربن ایریاز میں لوگوں کو بھرا جاتا ہے اور ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ کہیں پیسے اور کہیں کھانا اورکپڑا بھی کام کرتا ہے۔
یقین جانیے اگر آپ ان لوگوں سے پاکستان کے وزیراعظم، صدر کے بھی نام پوچھیں تو ان کو اس کا علم نہیں ہوتا ان کو تو سیاسی پارٹیوں کے نام تک پتا نہیں ہوتے بس ان کو حکم جاری ہوتا ہے کہ اس دن اس وقت اپنے اپنے شناختی کارڈز لے کر جمع ہوجاؤ، پھر ان کو نشان دکھائے ، سمجھائے جاتے ہیں کہ اس پر نشان لگانا ہے، بالکل اسی طرح کا ایک Order فریال تالپور کی طرف سے آج کل سوشل میڈیا میں بھی چل رہا ہے۔
کیا ہم ان کو اصلی ووٹرزکہیں؟ کیا ہم اس طرح کے ووٹ کو عوام کی طاقت کہہ سکتے ہیں ؟ نہیں ایسا ہوتا چلا آیا ہے مگر اب زیادہ دن تک نہیں چلنے والا۔ بہترین تعلیمی اداروں کی نمایندگی کے باوجود عوام میں تعلیمی شعور آرہا ہے، بھلا ہو ان خان صاحب کا جو ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر کا حق بھی نبھا رہے ہیں۔
مگر میں تو گزارش کروںگی حکومت سے کہ براہ مہربانی جس طرح قانون لایا گیا کہ الیکشن لڑنے والا گریجویٹ ہو بالکل اسی طرح قانون بنایا جائے کہ ووٹ کاسٹ کرنے والا کم از کم مڈل کلاس پاس ہو اور وہی ووٹ ڈالنے کا حق دار ہو جو تعلیمی شعور رکھتا ہو اس قانون سے نہ صرف تعلیم کے میدان میں کام ہوگا بلکہ ووٹ ڈالنے والے کو بھی محسوس ہوگا کہ اس کا ووٹ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کڑوی گولی ضرور ملے مگر کبھی نہ کبھی تو کسی نہ کسی حکومت کو تعلیم کے شعبے میں کام کرنا ہوگا۔
شاباش ہے عمران خان کو شوکت خانم اسپتال پر اور نمل یونیورسٹی کے قیام پر کہ تعلیم یافتہ قوم ہی ترقی کرسکتی ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ جن افراد پر کرپشن کے الزامات ہیں جن کو دنیا کے ادارے تسلیم کرنے سے انکاری ہے ان کو وزیر بناکر سجایا جارہاہے سلام ہے ان کے ضمیروں کو یہ آئینہ دیکھ کر مسکراتے بھی ہیں۔
ڈھٹائی کی بلندیاں دیکھنے کو مل رہی ہے ، یہ ملک پاکستان تو ہمیشہ قائم رہنے کے لیے ہی بنا ہے تب ہی تو اللہ پاک نے ہر قدم پر پاکستان کی غیبی مدد فرمائی اور ہمیشہ قائم بھی رہے گا، مگر جو پاکستان کو نقصان پہنچانے والے ہیں ان کے چہرے نہ صرف پوری دنیا کے سامنے عیاں ہورہے ہیں۔ اللہ پاک کا قانون بھی یہی ہے کہ جو بوؤگے وہی کاٹوگے بھی۔ جس دن سے پاکستان میں تعلیم کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام شروع ہوجائیںگے اسی وقت اور دن پاکستان طاقتور اورترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔
ISPR کے سیمینار میں آرمی چیف نے کہاکہ روس ایک طاقتور ملک تھا اس کے پاس اسلحہ اور ایٹم بم بھی موجود تھا مگر معاشی کمزوری نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، بہت سنجیدگی سے آرمی چیف کی گہری باتوں کا تجزیہ کیجیے اور سوچیے کہ یہ حکمران پاکستان کو کہاں لے کر جا رہے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے بعد ان پر 63،62 آئینی دفعات لگنے کے بعد سے گویا سیاست میں ایک طوفان سا برپا ہے ہر آنے والے دن ایک نیا اسکینڈل منظر عام پر آتا جارہاہے۔
نواز شریف کے وزیراعظم ہاؤس سے گھر جانے تک کے سفر میں نواز شریف پکار پکار کر ایک ہی سوال پوچھتے رہے کہ ''مجھے کیوں نکالا'' حالانکہ پیپلزپارٹی دور میں جب اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی عدالتوں کا سامنا کررہے تھے تو نواز شریف خود فرماتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی تم گھر جاؤ، عہدہ چھوڑو، عدالتوں کا سامنا کرو اور اگر عدالتیں تم کوکلیئر کریں تو پھر عہدے پر واپس آؤ۔
نواز شریف نے قوم سے خطاب میں کہاکہ اگر پاناما لیکس میں مجھ پر کوئی چارج لگتا ہے تو میں استعفیٰ دے دوںگا مگر یہ ہونہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ عدالتی فیصلے کے باوجود مجھے کیوں نکالا کی صدائیں چاروں طرف سے آرہی ہے جیسے سب کچھ اپنی مرضی پر منحصر ہو، نہ عدالتوں کا احترام نظر آرہاہے اور نہ فیصلے کا احترام، آخر کیوں؟
یہ ملک پاکستان ہے کسی فرد واحد کی جاگیر نہیں جو قانون یوسف رضا گیلانی کے لیے تھا وہ نواز شریف کے لیے بھی ہے پھر یہ خود انکاری کیوں؟ بالکل اسی طرح کی صورتحال اس وقت بھی تھی جب نواز شریف اپنے اہل خانہ کے ساتھ جدہ چلے گئے تھے اور دس سالہ معاہدہ سے انکاری رہے اور اب بھی وہ تمام عدالتی انویسٹی گیشن سے انکاری ہیں ۔اگلے دس سالوں میں ہم یہ بھی دیکھیں کہ جس طرح دس سالہ معاہدہ کی دستاویزات سامنے آئی اسی طرح ان تمام معاملات کی بھی حقیقت سامنے آجائے پھر کیا رہ جائے گا کہنے کو۔
تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کبھی بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ مالی آسودگیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں، رہائش لندن میں، علاج و معالجہ لندن میں، شاپنگ لندن میں۔ مگر اسی لندن میں راہ چلتے ہوئے کچھ آوازیں انھیں آہی جاتی ہے جن میں لندن کے رہائشی ان کو کچھ نا مناسب الفاظ سے نوازتے ہیں۔ اس ملک کا پیسہ تھا جو لندن میں فلیٹ خریدے گئے، دبئی میں کاروبار کیا گیا، جدہ میں اسٹیل مل لگائی گئی۔
آسمان سے تو نہیں برسا ہوگا گویا احساس اور سوچ نہ ہو تو انسان بے حس ہوجاتا ہے اور ایسا بے حس کہ ہر چیز اس کی ذات میں آکر ختم ہوجاتی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد سے ایک انتشار کی کیفیت پورے ملک میں پیدا کی جارہی ہے اور حد یہ ہوتی ہے کہ کیپٹن صفدر نے پارلیمنٹ میں ایک بڑی نفرت انگیز تقریرکی ہے، پارلیمنٹ ایک ایسا قابل احترام فلور ہے کہ جن پر کھڑے ہوکر کہی گئی بات کو پوری دنیا سنتی ہے۔
کیپٹن صفدر کو یہ تقریر کس نے لکھ کر دی اور کس کی ہدایت پر انھوں نے ایسا کیا اس پر ضرور ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ختم نبوت کے بل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کیا یہ کوئی مکمل سازش کی کڑی ہے یا پھر ملک میں قتل وغارت کا ماحول بنایا جا رہا ہے؟
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اس پر ضرور تحقیقات ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کو بھی تسلی اور سنجیدگی سے تمام حالات کو جانچنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو ایک تقریر میں بلند آواز میں مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ اپنے ایڈوائزروں سے، مشیروں سے ہوشیار رہیں کیونکہ ان لوگوں نے گاڑی اور روپے پیسے کے لیے غلط مشوروں سے نوازا، شہباز شریف نے پرانے تجربے کار سیاست دانوں پر بھروسہ کرنے کا بھی کہا۔
ہماری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں نہ ہونے کے برابر کام کیا گیا، تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف تعلیم کے شعبے میں اپنا کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔ شاید اس لیے کہ اگر قوم میں تعلیمی شعور آگیا تو پھر آپ کو کون ووٹ دے گا؟ پھر تو سوالات بھرپور ہوںگے اور جوابات کے لیے آپ کو بیٹھنا پڑے گا۔ ریوڑ کی طرح اربن ایریاز میں لوگوں کو بھرا جاتا ہے اور ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ کہیں پیسے اور کہیں کھانا اورکپڑا بھی کام کرتا ہے۔
یقین جانیے اگر آپ ان لوگوں سے پاکستان کے وزیراعظم، صدر کے بھی نام پوچھیں تو ان کو اس کا علم نہیں ہوتا ان کو تو سیاسی پارٹیوں کے نام تک پتا نہیں ہوتے بس ان کو حکم جاری ہوتا ہے کہ اس دن اس وقت اپنے اپنے شناختی کارڈز لے کر جمع ہوجاؤ، پھر ان کو نشان دکھائے ، سمجھائے جاتے ہیں کہ اس پر نشان لگانا ہے، بالکل اسی طرح کا ایک Order فریال تالپور کی طرف سے آج کل سوشل میڈیا میں بھی چل رہا ہے۔
کیا ہم ان کو اصلی ووٹرزکہیں؟ کیا ہم اس طرح کے ووٹ کو عوام کی طاقت کہہ سکتے ہیں ؟ نہیں ایسا ہوتا چلا آیا ہے مگر اب زیادہ دن تک نہیں چلنے والا۔ بہترین تعلیمی اداروں کی نمایندگی کے باوجود عوام میں تعلیمی شعور آرہا ہے، بھلا ہو ان خان صاحب کا جو ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر کا حق بھی نبھا رہے ہیں۔
مگر میں تو گزارش کروںگی حکومت سے کہ براہ مہربانی جس طرح قانون لایا گیا کہ الیکشن لڑنے والا گریجویٹ ہو بالکل اسی طرح قانون بنایا جائے کہ ووٹ کاسٹ کرنے والا کم از کم مڈل کلاس پاس ہو اور وہی ووٹ ڈالنے کا حق دار ہو جو تعلیمی شعور رکھتا ہو اس قانون سے نہ صرف تعلیم کے میدان میں کام ہوگا بلکہ ووٹ ڈالنے والے کو بھی محسوس ہوگا کہ اس کا ووٹ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کڑوی گولی ضرور ملے مگر کبھی نہ کبھی تو کسی نہ کسی حکومت کو تعلیم کے شعبے میں کام کرنا ہوگا۔
شاباش ہے عمران خان کو شوکت خانم اسپتال پر اور نمل یونیورسٹی کے قیام پر کہ تعلیم یافتہ قوم ہی ترقی کرسکتی ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ جن افراد پر کرپشن کے الزامات ہیں جن کو دنیا کے ادارے تسلیم کرنے سے انکاری ہے ان کو وزیر بناکر سجایا جارہاہے سلام ہے ان کے ضمیروں کو یہ آئینہ دیکھ کر مسکراتے بھی ہیں۔
ڈھٹائی کی بلندیاں دیکھنے کو مل رہی ہے ، یہ ملک پاکستان تو ہمیشہ قائم رہنے کے لیے ہی بنا ہے تب ہی تو اللہ پاک نے ہر قدم پر پاکستان کی غیبی مدد فرمائی اور ہمیشہ قائم بھی رہے گا، مگر جو پاکستان کو نقصان پہنچانے والے ہیں ان کے چہرے نہ صرف پوری دنیا کے سامنے عیاں ہورہے ہیں۔ اللہ پاک کا قانون بھی یہی ہے کہ جو بوؤگے وہی کاٹوگے بھی۔ جس دن سے پاکستان میں تعلیم کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام شروع ہوجائیںگے اسی وقت اور دن پاکستان طاقتور اورترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔
ISPR کے سیمینار میں آرمی چیف نے کہاکہ روس ایک طاقتور ملک تھا اس کے پاس اسلحہ اور ایٹم بم بھی موجود تھا مگر معاشی کمزوری نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، بہت سنجیدگی سے آرمی چیف کی گہری باتوں کا تجزیہ کیجیے اور سوچیے کہ یہ حکمران پاکستان کو کہاں لے کر جا رہے ہیں۔