دیوار کے پار
پچھتاوے کے کھنکھجورے ہمارے تن من پر رینگتے رہتے ہیں اور ہم اُنہیں خود سے دور بھی نہیں کر پاتے۔
کبھی کبھی ''جی چاہتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دِن۔ بیٹھے رہیں تصّور جاناں کیے ہوئے'' کے مترادف جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ سکون سے آنکھیں بند کرکے کچھ نہ کیا جائے۔ کچھ نہ سوچا جائے۔ کچھ بھی محسوس نہ کیا جائے۔ اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے۔ اور بہت دِنوں تک خود کو اُسی فِضا، اُسی خیال، اُسی دھنک رنگ خیالی دُنیا کی سیر کے سُپرد کردیا جائے جو بچپن اور لڑکپن میں ہماری جنّت ہوا کرتی تھی۔
اپنے حال کے سارے غم غلط کرنے کے لیے، اپنے اعصابی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے پھر سے دِل اور دماغ کو زندگی کے اوّلین مدارج کی طرح کھُلا ڈھلا اور آزاد کردیا جائے۔ ہر طرح کی فِکر اور ہر ایک کی پرواہ سے چھٹکارا پاکر نئے سِرے سے زندگی کی ڈوری کو تھاما جائے۔ اور وہ سب کچھ اور بھرپور اور شعوری سطح پر کیا جائے جو اُس عُمر میں اُس وقت نہیں کرپائے۔ اور وہ کچھ نہ کیا جائے جو کرکے ہمارے آج کا یہ حال ہے۔
ایسا کرنے کے لیے ٹائم مشین درکار ہے، جو ابھی تک ایجاد نہیں ہوپائی۔ جیسا قصّوں، کہانیوں اور فِلموں میں دکھایا جاتا ہے اگر آج ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی کی دیگر ایجادات کی طرح ٹائم مشین کی بھی سہولت موجود ہوتی تو شاید نہیں بل کہ یقیناً ہم میں سے اسّی نوّے فی صد لوگ ضرور بہ ضرور بار بار ٹائم مشین کی مدد لیتے اور اپنے اپنے ماضی میں جاکر اپنے اپنے ان گنت فیصلوں، رویّوں، معاملوں اور حوالوں کو آگے پیچھے، دائیں بائیں کرتے۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کے سفر میں کبھی تو قدرت کے ہاتھوں اِدھر سے اُدھر ہوجاتے ہیں۔ کبھی حالات اور واقعات ہمیں اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں۔ اور کبھی ہمارے اپنے رویّے اپنے فیصلے اپنے معاملے ہمیں ایسی گھُمن گھیریوں میں اُلجھا دیتے ہیں کہ پھر ہم تمام عُمر اُن سے باہر نہیں نکل سکتے۔
ہماری واپسی کے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں اور وقت ہمارے چاروں اطراف ایسی آہنی فصیلیں اُٹھادیتا ہے کہ اُن کو توڑنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایک غلط فیصلہ، ایک غلط موڑ، ایک لَمحاتی غلط رویّہ، ایک معمولی سی زبان کی لغزش، ایک چھوٹا سا غلط قدم، ایک ذرا سا Judgmental error ، ایک تھوڑی سی Mis calculation ، ایک ہلکی سی ہچکچاہٹ، ایک دو چار منٹ کی دیر، اِن میں سے کچھ بھی اتنی خاموشی سے ہماری زندگی کے سفر کا رُخ بدل دیتا ہے کہ ایک عُمرگزرجاتی ہے اور پتا بھی نہیں چل پاتا کہ ہم اپنی Divine Destination، اپنی اصل منزل سے کتنا دور نکل گئے ہیں۔
احساس ہوتا ہے تو اُس وقت جب پانی سر سے اوپر ہوچکا ہوتا ہے اور جیتے جی ہماری سانس بند ہونے لگتی ہے اور دَم گھُٹنے لگتا ہے اور ہم جیتے جی مرنے لگتے ہیں۔ خود کو مرتا ہوا، زندہ درگور ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ہماری چیخیں ہمارے اپنے کانوں میں گونجتی رہ جاتی ہیں۔ آسمان اور زمین اور اِن کے درمیان کے تمام رشتے، تمام نِسبتیں ہم سے روٹھ جاتی ہیں اور ہم اپنوں کے بیچ اجنبی بن کر شب و روز کی مشقّت میں اُلجھے رہتے ہیں۔
معمولات کی دلدل سے خود کو باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ نہیں نکال پاتے۔ تازہ ہوا، کُھلی فضا میں جانا چاہتے ہیں۔ سانس لینا چاہتے ہیں۔ نہیں لے پاتے۔ ایک لَمحے کی لغزش، ایک ذرا سے غلط فیصلے سے ہم اپنی عُمرقید کے وارنٹ پر خود دستخط کرڈالتے ہیں۔ اور پھر اپنے بیرک، اپنی کال کوٹھری سے تمام عُمر باہر نہیں نکل پاتے۔ کِسی دوسرے کو دوش دے کر، کِسی اور پر الزام دھر کر بھی کام نہیں چل پاتا کہ سار ا دوش، سارا قصور ہمارا اپنا ہوتا ہے۔
پچھتاوے کے کھنکھجورے ہمارے تن من پر رینگتے رہتے ہیں اور ہم اُنہیں خود سے دور بھی نہیں کر پاتے۔ ندامت کی دیمک ہمارے دِل دماغ کے دالانوں کو چاٹ جاتی ہے اور ہم اپنے وجود کو ذرّہ ذرّہ مٹّی میں ڈھلتا ہوا دیکھتے رہتے ہیں۔
کوئی معجزہ نہیں ہوپاتا۔ کوئی اُڑن کھٹولا، کوئی سُپرمین، ہماری مدد کو نہیں آتا۔ کوئی غیبی طاقت ہمیں ہمارے جنجال پورے سے باہر نکالنے کے لیے بیدار نہیں ہوتی۔ ہم سوتے جاگتے سوچتے رہتے ہیں کہ ایک غلطی، ایک غلط فیصلے، ایک غلط قدم اُٹھانے پر زندگی کیسے کیا سے کیا ہوجاتی ہے۔ اور اتنا کچھ بدلتا چلا جاتا ہے کہ کِسی صورت کِسی طرح کا واپسی کا راستہ دِکھائی نہیں دیتا۔ اپنی غلطی، اپنے غلط فیصلے، اپنے غلط قدم کو دِل سے مان لینے کے باوجود معافی نہیں مِل پاتی۔ توبہ تلافی کے باوجود مستقل سزا بھُگتنی پڑتی ہے۔
صدیوں سے دُنیا میں یہی رِیت، یہی روایت چل رہی ہے۔ فرد، خاندان، قبیلہ یا قوم۔ ایک غلطی، ایک غلط فیصلہ، ایک غلط قدم پھر نسل در نسل اپنے ثمرات چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ اپنے اِردگِرد نظر ڈالیے۔ اپنے آباؤاجداد کی داستانیں سنیے۔ تاریخ کے صفحات ٹٹولیے۔ آپ کو ہر دور میں ایسے افراد، ایسے خاندان، ایسے قبیلے، ایسے مُلک، ایسی قومیں دِکھائی دیں گی جو اپنے کِسی غلط فیصلے یا غلط قدم کے پچھتاووں کا ہار پہن کر اپنی اپنی بنیاد سیدھا کرنے میں مصروف ہوں گی مگر اُن کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہوگی۔
ایک فرد کی غلطی یا لمحاتی لغزش نہ صِرف اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے بل کہ اُس سے مُنسلک اُس کے گھر والے اور دیگر احباب بھی اُس کے غلط فیصلے کے نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں اُس کی ذاتی اور خاندانی زندگی لامحدود مدّت کے لیے شعلوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے، لیکن وہی فرد اگر معاشرے میں بلند و بالا حیثیت کا حامل ہو اور اُس کے زیراثر ان گنت لوگ اُس کی سوچ، اُس کے نظریات اُس کے خیالات کے حامی ہوں تو پھر اُس فرد کا ایک غلط قدم، اُس کے تمام تابعین کو گہری کھائی کی طرف لے جاتا ہے جہاں سے واپس نکلنا اُن کے بس میں نہیں ہوتا۔
اور اگر شومئی قسمت سے فرد یا افراد کا مخصوص گروہ کِسی قوم، قبیلے، مُلک کی انتظامی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہو اور پھر اُس سے کوئی غلط فیصلہ ہوجائے، ذرا سا Judgmental Error ہوجائے تو ساری قوم، سارے قبیلے اور پورے مُلک کو ایسی ایسی قربانیاں دینی پڑجاتی ہیں جو وہاں کے کِسی رہائشی نے کبھی سوچی بھی نہیں ہوتیں اور وہ قوم، قبیلہ اور مُلک ایسی ان دیکھی بلندوبالا دیواروں کے بیچ قید ہوجاتا ہے، جِن کو ڈھانا کِسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
لاکھ چاہنے، ہزار جتن کرنے کے باوجود کِسی کے ہاتھ ایسی ٹائم مشین نہیں لگ پاتی۔ ایسا جادوئی قالین نہیں مِل پاتا، جِس پر سوار ہو کر آدمی واپس وقت کے اُس لَمحے میں جا پائے جب کِسی بھی غلط قدم، غلط فیصلے کا اِرادہ باندھا جارہا تھا۔ اور جاکر اُس غلط قدم، غلط فیصلے کے خلاف آواز بلند کرکے اُسے عمل کی رَو میں ڈھلنے سے روک سکے۔
بعض مخصوص لَمحے کِسی بھی فرد یا قوم کے لیے تاریخ ساز ہوتے ہیں۔ اِن لَمحوں کے فیصلوں اور قدموں پر یا تو مستقبل سنور جاتا ہے اور یا پھر حال چکنا چور اور ماضی داغ دار ہوتا چلا جاتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم میں سے کِسی کو بھی قدرت نے مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے کِسی بھی فیصلے سے پہلے، کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وقت کی سوئیوں کو آگے کھِسکا کے دیکھ سکیں کہ ہمارے فیصلے اور ہمارے عملی قدم آٹھانے سے آگے جاکر ہم پر اور ہمارے ساتھ کے دیگر لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارا آگے کا سفر خوش اطواری سے جاری رہ پائے گا یا ایک جگہ رُک جائے گا۔
جِن لوگوں کو دیواروں پر لِکھا نظر آتا ہے۔ اور وہ اس لِکھے پر آنکھیں بند کر یقین کرلیتے ہیں اور اُس کی روشنی میں فیصلے کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اُس کے متن پر من و عن عملی قدم اٹھاتے رہتے ہیں، اُن کے فیصلے، اُن کے عملی قدم عام طور پر کچھ ہی عرصے میں ریت کے قلعوں کی طرح ڈھے جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں اکثر ندامت اور Guilt کی Quilt اوڑھے دِکھائی دیتے ہیں۔ اور جو دیواروں کے پار جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دیوار در دیوار جھانکتے ہوئے بنیادی اور آخری دیوار پر درج نوشتے کو پڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں، وہ کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے متن کے ساتھ اُس کے سیاق و سباق اور اُس کے ساتھ جُڑے لاحقوں اور سابقوں کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جانچتے ہیں۔ پرکھتے ہیں۔ پھر کہیں جاکر کوئی عملی قدم اُٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگ آٹے میں نمک کی طرح ہوتے ہیں۔ بہ آسانی اُنگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں۔ دیوار کے پار جھانکنے والے لوگ مستقبل شَناس ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے خاندان اور اپنی قوم اور اپنے قبیلے کے لیے، اپنے مُلک کے لیے Progress اور Prosperity کی ایسی بنیادیں فراہم کرڈالتے ہیں، جِن کی Boundaries میں کئی کئی نسلیں سکون و آرام سے زندگی گزاردیتی ہیں۔
ذرا دیکھیے آپ کا شُمار کِس طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ سامنے والی دیوار کو دیکھ کر شُتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے ریت میں سر چُھپانے والوں میں سے یا راتوں کے اندھیروں میں دیواروں کے پیچھے چُھپی آخری دیوار پر لِکھی تحریر کو پڑھنے، سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے والوں میں سے۔
اگر آپ کا دِل بھی آج کے اِس لَمحے فرصت کے رات دِن ڈھونڈنے اور چاہنے میں اُلجھا ہوا ہے تو یاد رکھیے آپ کا کل بھی آج کے کِسی فیصلے کو ندامت کی چادر اوڑھے ہوگا اور آپ کے دائرے کا سفر بہ تدریج باہر سے اندر کی طرف ہوتا چلا جائے گا اور تنگ اور تاریک اور تکلیف دہ ہوتا رہے گا اور تصوّر جاناں کے خیال کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔
اور اگر آپ کا تعلق مُلک و قوم کے کِسی ''بہت بڑے '' انتظامی ادارے، محکمے یا لوگوں کی راہ نمائی و نگرانی وتعلیم و تربیت کے کِسی ''اعلیٰ شعبے'' سے ہے تو آپ پر تو اور زیادہ ذمہّ داری عائد ہوتی ہے کہ کوتاہ بیِنی کی بار بار کی عادت کو ترک کرکے دیوار کے پیچھے جھانکنے کی مشق شروع کریں۔ اِسی میں ہم سب کی فلاح اور بھلائی ہے۔ بہ صورت دیگر ایک ندامت کے بعد ایک اور پچھتاوا ہمارے دامن کو داغ دار کرتا رہے گا۔
اپنے حال کے سارے غم غلط کرنے کے لیے، اپنے اعصابی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے پھر سے دِل اور دماغ کو زندگی کے اوّلین مدارج کی طرح کھُلا ڈھلا اور آزاد کردیا جائے۔ ہر طرح کی فِکر اور ہر ایک کی پرواہ سے چھٹکارا پاکر نئے سِرے سے زندگی کی ڈوری کو تھاما جائے۔ اور وہ سب کچھ اور بھرپور اور شعوری سطح پر کیا جائے جو اُس عُمر میں اُس وقت نہیں کرپائے۔ اور وہ کچھ نہ کیا جائے جو کرکے ہمارے آج کا یہ حال ہے۔
ایسا کرنے کے لیے ٹائم مشین درکار ہے، جو ابھی تک ایجاد نہیں ہوپائی۔ جیسا قصّوں، کہانیوں اور فِلموں میں دکھایا جاتا ہے اگر آج ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی کی دیگر ایجادات کی طرح ٹائم مشین کی بھی سہولت موجود ہوتی تو شاید نہیں بل کہ یقیناً ہم میں سے اسّی نوّے فی صد لوگ ضرور بہ ضرور بار بار ٹائم مشین کی مدد لیتے اور اپنے اپنے ماضی میں جاکر اپنے اپنے ان گنت فیصلوں، رویّوں، معاملوں اور حوالوں کو آگے پیچھے، دائیں بائیں کرتے۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کے سفر میں کبھی تو قدرت کے ہاتھوں اِدھر سے اُدھر ہوجاتے ہیں۔ کبھی حالات اور واقعات ہمیں اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں۔ اور کبھی ہمارے اپنے رویّے اپنے فیصلے اپنے معاملے ہمیں ایسی گھُمن گھیریوں میں اُلجھا دیتے ہیں کہ پھر ہم تمام عُمر اُن سے باہر نہیں نکل سکتے۔
ہماری واپسی کے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں اور وقت ہمارے چاروں اطراف ایسی آہنی فصیلیں اُٹھادیتا ہے کہ اُن کو توڑنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایک غلط فیصلہ، ایک غلط موڑ، ایک لَمحاتی غلط رویّہ، ایک معمولی سی زبان کی لغزش، ایک چھوٹا سا غلط قدم، ایک ذرا سا Judgmental error ، ایک تھوڑی سی Mis calculation ، ایک ہلکی سی ہچکچاہٹ، ایک دو چار منٹ کی دیر، اِن میں سے کچھ بھی اتنی خاموشی سے ہماری زندگی کے سفر کا رُخ بدل دیتا ہے کہ ایک عُمرگزرجاتی ہے اور پتا بھی نہیں چل پاتا کہ ہم اپنی Divine Destination، اپنی اصل منزل سے کتنا دور نکل گئے ہیں۔
احساس ہوتا ہے تو اُس وقت جب پانی سر سے اوپر ہوچکا ہوتا ہے اور جیتے جی ہماری سانس بند ہونے لگتی ہے اور دَم گھُٹنے لگتا ہے اور ہم جیتے جی مرنے لگتے ہیں۔ خود کو مرتا ہوا، زندہ درگور ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ہماری چیخیں ہمارے اپنے کانوں میں گونجتی رہ جاتی ہیں۔ آسمان اور زمین اور اِن کے درمیان کے تمام رشتے، تمام نِسبتیں ہم سے روٹھ جاتی ہیں اور ہم اپنوں کے بیچ اجنبی بن کر شب و روز کی مشقّت میں اُلجھے رہتے ہیں۔
معمولات کی دلدل سے خود کو باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ نہیں نکال پاتے۔ تازہ ہوا، کُھلی فضا میں جانا چاہتے ہیں۔ سانس لینا چاہتے ہیں۔ نہیں لے پاتے۔ ایک لَمحے کی لغزش، ایک ذرا سے غلط فیصلے سے ہم اپنی عُمرقید کے وارنٹ پر خود دستخط کرڈالتے ہیں۔ اور پھر اپنے بیرک، اپنی کال کوٹھری سے تمام عُمر باہر نہیں نکل پاتے۔ کِسی دوسرے کو دوش دے کر، کِسی اور پر الزام دھر کر بھی کام نہیں چل پاتا کہ سار ا دوش، سارا قصور ہمارا اپنا ہوتا ہے۔
پچھتاوے کے کھنکھجورے ہمارے تن من پر رینگتے رہتے ہیں اور ہم اُنہیں خود سے دور بھی نہیں کر پاتے۔ ندامت کی دیمک ہمارے دِل دماغ کے دالانوں کو چاٹ جاتی ہے اور ہم اپنے وجود کو ذرّہ ذرّہ مٹّی میں ڈھلتا ہوا دیکھتے رہتے ہیں۔
کوئی معجزہ نہیں ہوپاتا۔ کوئی اُڑن کھٹولا، کوئی سُپرمین، ہماری مدد کو نہیں آتا۔ کوئی غیبی طاقت ہمیں ہمارے جنجال پورے سے باہر نکالنے کے لیے بیدار نہیں ہوتی۔ ہم سوتے جاگتے سوچتے رہتے ہیں کہ ایک غلطی، ایک غلط فیصلے، ایک غلط قدم اُٹھانے پر زندگی کیسے کیا سے کیا ہوجاتی ہے۔ اور اتنا کچھ بدلتا چلا جاتا ہے کہ کِسی صورت کِسی طرح کا واپسی کا راستہ دِکھائی نہیں دیتا۔ اپنی غلطی، اپنے غلط فیصلے، اپنے غلط قدم کو دِل سے مان لینے کے باوجود معافی نہیں مِل پاتی۔ توبہ تلافی کے باوجود مستقل سزا بھُگتنی پڑتی ہے۔
صدیوں سے دُنیا میں یہی رِیت، یہی روایت چل رہی ہے۔ فرد، خاندان، قبیلہ یا قوم۔ ایک غلطی، ایک غلط فیصلہ، ایک غلط قدم پھر نسل در نسل اپنے ثمرات چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ اپنے اِردگِرد نظر ڈالیے۔ اپنے آباؤاجداد کی داستانیں سنیے۔ تاریخ کے صفحات ٹٹولیے۔ آپ کو ہر دور میں ایسے افراد، ایسے خاندان، ایسے قبیلے، ایسے مُلک، ایسی قومیں دِکھائی دیں گی جو اپنے کِسی غلط فیصلے یا غلط قدم کے پچھتاووں کا ہار پہن کر اپنی اپنی بنیاد سیدھا کرنے میں مصروف ہوں گی مگر اُن کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہوگی۔
ایک فرد کی غلطی یا لمحاتی لغزش نہ صِرف اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے بل کہ اُس سے مُنسلک اُس کے گھر والے اور دیگر احباب بھی اُس کے غلط فیصلے کے نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں اُس کی ذاتی اور خاندانی زندگی لامحدود مدّت کے لیے شعلوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے، لیکن وہی فرد اگر معاشرے میں بلند و بالا حیثیت کا حامل ہو اور اُس کے زیراثر ان گنت لوگ اُس کی سوچ، اُس کے نظریات اُس کے خیالات کے حامی ہوں تو پھر اُس فرد کا ایک غلط قدم، اُس کے تمام تابعین کو گہری کھائی کی طرف لے جاتا ہے جہاں سے واپس نکلنا اُن کے بس میں نہیں ہوتا۔
اور اگر شومئی قسمت سے فرد یا افراد کا مخصوص گروہ کِسی قوم، قبیلے، مُلک کی انتظامی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہو اور پھر اُس سے کوئی غلط فیصلہ ہوجائے، ذرا سا Judgmental Error ہوجائے تو ساری قوم، سارے قبیلے اور پورے مُلک کو ایسی ایسی قربانیاں دینی پڑجاتی ہیں جو وہاں کے کِسی رہائشی نے کبھی سوچی بھی نہیں ہوتیں اور وہ قوم، قبیلہ اور مُلک ایسی ان دیکھی بلندوبالا دیواروں کے بیچ قید ہوجاتا ہے، جِن کو ڈھانا کِسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
لاکھ چاہنے، ہزار جتن کرنے کے باوجود کِسی کے ہاتھ ایسی ٹائم مشین نہیں لگ پاتی۔ ایسا جادوئی قالین نہیں مِل پاتا، جِس پر سوار ہو کر آدمی واپس وقت کے اُس لَمحے میں جا پائے جب کِسی بھی غلط قدم، غلط فیصلے کا اِرادہ باندھا جارہا تھا۔ اور جاکر اُس غلط قدم، غلط فیصلے کے خلاف آواز بلند کرکے اُسے عمل کی رَو میں ڈھلنے سے روک سکے۔
بعض مخصوص لَمحے کِسی بھی فرد یا قوم کے لیے تاریخ ساز ہوتے ہیں۔ اِن لَمحوں کے فیصلوں اور قدموں پر یا تو مستقبل سنور جاتا ہے اور یا پھر حال چکنا چور اور ماضی داغ دار ہوتا چلا جاتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم میں سے کِسی کو بھی قدرت نے مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے کِسی بھی فیصلے سے پہلے، کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وقت کی سوئیوں کو آگے کھِسکا کے دیکھ سکیں کہ ہمارے فیصلے اور ہمارے عملی قدم آٹھانے سے آگے جاکر ہم پر اور ہمارے ساتھ کے دیگر لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارا آگے کا سفر خوش اطواری سے جاری رہ پائے گا یا ایک جگہ رُک جائے گا۔
جِن لوگوں کو دیواروں پر لِکھا نظر آتا ہے۔ اور وہ اس لِکھے پر آنکھیں بند کر یقین کرلیتے ہیں اور اُس کی روشنی میں فیصلے کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اُس کے متن پر من و عن عملی قدم اٹھاتے رہتے ہیں، اُن کے فیصلے، اُن کے عملی قدم عام طور پر کچھ ہی عرصے میں ریت کے قلعوں کی طرح ڈھے جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں اکثر ندامت اور Guilt کی Quilt اوڑھے دِکھائی دیتے ہیں۔ اور جو دیواروں کے پار جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دیوار در دیوار جھانکتے ہوئے بنیادی اور آخری دیوار پر درج نوشتے کو پڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں، وہ کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے متن کے ساتھ اُس کے سیاق و سباق اور اُس کے ساتھ جُڑے لاحقوں اور سابقوں کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جانچتے ہیں۔ پرکھتے ہیں۔ پھر کہیں جاکر کوئی عملی قدم اُٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگ آٹے میں نمک کی طرح ہوتے ہیں۔ بہ آسانی اُنگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں۔ دیوار کے پار جھانکنے والے لوگ مستقبل شَناس ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے خاندان اور اپنی قوم اور اپنے قبیلے کے لیے، اپنے مُلک کے لیے Progress اور Prosperity کی ایسی بنیادیں فراہم کرڈالتے ہیں، جِن کی Boundaries میں کئی کئی نسلیں سکون و آرام سے زندگی گزاردیتی ہیں۔
ذرا دیکھیے آپ کا شُمار کِس طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ سامنے والی دیوار کو دیکھ کر شُتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے ریت میں سر چُھپانے والوں میں سے یا راتوں کے اندھیروں میں دیواروں کے پیچھے چُھپی آخری دیوار پر لِکھی تحریر کو پڑھنے، سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے والوں میں سے۔
اگر آپ کا دِل بھی آج کے اِس لَمحے فرصت کے رات دِن ڈھونڈنے اور چاہنے میں اُلجھا ہوا ہے تو یاد رکھیے آپ کا کل بھی آج کے کِسی فیصلے کو ندامت کی چادر اوڑھے ہوگا اور آپ کے دائرے کا سفر بہ تدریج باہر سے اندر کی طرف ہوتا چلا جائے گا اور تنگ اور تاریک اور تکلیف دہ ہوتا رہے گا اور تصوّر جاناں کے خیال کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔
اور اگر آپ کا تعلق مُلک و قوم کے کِسی ''بہت بڑے '' انتظامی ادارے، محکمے یا لوگوں کی راہ نمائی و نگرانی وتعلیم و تربیت کے کِسی ''اعلیٰ شعبے'' سے ہے تو آپ پر تو اور زیادہ ذمہّ داری عائد ہوتی ہے کہ کوتاہ بیِنی کی بار بار کی عادت کو ترک کرکے دیوار کے پیچھے جھانکنے کی مشق شروع کریں۔ اِسی میں ہم سب کی فلاح اور بھلائی ہے۔ بہ صورت دیگر ایک ندامت کے بعد ایک اور پچھتاوا ہمارے دامن کو داغ دار کرتا رہے گا۔