پاکستانی سمندر حدود میں بے رحمانہ شکار سے شارک مچھلی نایاب ہو گئی

دنیا میں شارک کے شکار پر پابندی کے باعث پاکستان سے شارک درآمد ہو رہی ہے


آفتاب خان October 14, 2017
شارک کے پروں کو انڈونیشیا، چین، کوریا اور ہانگ کانگ اور دیگر ممالک اسمگل کیا جاتا ہے، ایک کلو پر 13500 روپے میں بکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

پاکستانی سمندر حدود میں مچھلیوں کے غیرقانونی شکار خاص طور پر نایاب نسل کی شارک مچھلی کے بے رحمانہ شکار سے یہ شارک کی مختلف نادرونایاب نسلیں معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

پاکستان کا سرکریک سے جیوانی تک ایک ہزار کلومیٹر پر پھیلے سمندر جہاں بے شمارمعدنی وسائل سے مالا مال ہے، وہیں ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں ہر قسم کی آبی حیات کی موجودگی اس کے صحت مند سمندر ہونے کی ہمیشہ سے دلیل رہا ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ سمندروں میں روایتی طور طریقوں کے برخلاف مچھلی کے شکار کے انتہائی غیر روایتی طریقوں اور نقصان دہ جال سمیت کسی خاص مچھلی کو ہدف بنانے جیسے عوامل اور اس پرمستزادیہ کہ ذمے دار اداروں کی چشم پوشی اور بسا اوقات ملی بھگت کے ہاتھوں صورتحال کافی گھمبیر ہوچکی ہے۔

ماہرین، سمندر و ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ ماضی میں کراچی اور بلوچستان کے سمندروں میں70 اقسام کی شارک مچھلی پائی جاتی تھی،مگر دنیا بھر میں اس آبی حیات کے گوشت کی طلب ورسد کے معاملے کی وجہ سے بیشتر اقسام کی شارک کا بے دریغ اور غیر قانونی شکار کیا گیا۔

نتیجہ یہ کہ شارک کی بیشتر نسلیں پاکستان کے گہرے سمندروں سے ناپید ہوگئیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ یہ تعداد کم ہوتے ہوتے آدھی رہ گئی، پونڈی چری شارک ،آرا شارک ، ٹائیگر شارک، منٹارے ،اسٹنگ رے،ہیمر ہیڈ شارک سمیت دیگر اقسام پاکستانی سمندروں میں مکمل ناپید ہوچکی ہیں۔

انتہائی نایاب تصور کی جانے والے شارک کی نسل آرا مچھلی جو سندھ ،بلوچستان کے گہرے سمندروں میں وافر مقدار میں پائی جاتی تھی، وہ کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ناپید ہوگئی، اپنے منہ میں لکڑی کاٹنے والی آری سے مشابہہ ہڈی والی یہ شارک آخری بار جنوری2016 میںگوادرکے ساحل پر مردہ حالت میں پائی گئی،حالیہ برسوں کے دوران کیے گئے سروے کے مطابق شارک کی کئی اقسام کی رہ جانے والی نسلیں بھی انتہائی تیزی سے معدوم ہوتی جارہی ہیں۔

شہرکے مختلف مقامات پر فروخت ہونے والے مچھلی کے فنگر فش شارک ہی کی نسل ہے،جس کو دیسی زبان میں پری منگرا ،دیسی منگرا اور بچہ منگر ا کہا جاتاہے ،شہر کی فوڈ اسٹریٹ اور ریستورانوں میں شارک کے گوشت کی بہت بڑی کھپت ہے،ڈھائی سے تین فٹ کی شارک کے شکار کے حوالے سے ذمے دار اداروں نے کچھ قوانین وضع کرررکھے ہیں جس کے تحت5سے 8کلو وزنی شارک کا شکار کیا جاسکتاہے مگر محکمہ فشریز کی جانب سے بڑی شارک کے شکار پر مکمل پابندی ہے،اصل معاملہ تو اس عام نسل کی شارک کی آڑ میں نایاب اور معدوم ہونے والی نسل کا شکار ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شارک کی فنس یعنی پروں کو انڈونیشیا، چین،کوریا اور ہانگ کانگ اسمگل کیا جاتاہے، جہاں ان سے سوپ اور یخنی تیار کی جاتی ہے ، جبکہ کسی بھی انسانی جسم کی سرجری کے دوران اندرونی اعضا کی پیوندکاری میں بھی شارک کے گوشت اور اس کے فنس سے تیارہ کردہ دھاگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی مانگ کی وجہ سے شارک کی نایاب نسلوں کو غیر قانونی طور پر شکارکیا جاتا ہے، دنیا بھر کی بیشتر ایئرلائن اور بندرگاہوں پر مال بردار بحری جہازوں نے شارک کا گوشت اور فنس لے جانے پر پابندی عائد کررکھی ہے پاکستان کے فضائی روٹ پر یہ کام انتہائی دھڑلے سے جاری ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ ایئر لائنوں پر سوکھی مچھلیوں کی آڑ میں نایاب مچھلیوں کا گوشت اور اس کے فنس کی ایکسپورٹ ہورہی ہے اور انتہائی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس ایکسپورٹ کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی جاتیں، نایاب شارک کے ایک کلو پر 13500 میں بکتے ہیں، مہنگے داموں فروخت کی ہوس کی وجہ سے کراچی اور بلوچستان کے ساحلی مقامات پر شارک کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ،بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے شارک کے شکار پر پابندی لگائی ہے ، مگر اس پابندی کے تناظر میں عمل درآمد آٹے میں نمک کے برابر ہے،شارک کو دنیا بھرکی بندرگاہوں پر اتارنا ممنوع ہے یہی وجہ ہے کہ اگر شارک کسی ماہی گیر کے جال میں پھنس جاتی ہے تو اسے واپس سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے،اگرکسی وجہ سے وہ شارک مربھی جائے تو بھی اس بندرگاہوں پر لانے کی ممانعت ہے تاکہ شارک کی طلب کو کم کیا جائے۔

ماہرین کا کہناہے کہ شارک کی انتہائی کم ہوتی ہوئی تعداد کے تناظر میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے،ورنہ سمندر کا ایکو سسٹم شدید تباہی سے دوچار ہوسکتاہے کیونکہ شارک سمندری ماحول میں دیگر مچھلیوں کی تعداد کو بھی کنٹرول کرنے والی آبی مخلوق ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔