الیکشن میں مذہب نہیں حب الوطنی کو بنیاد بنانا ہوگا

اقلیتوں کو آئین میں درج حقوق ملنا چاہئیں، قومی سیاست میں اقلیتوں کے کردار کے موضوع پر فورم کی تفصیل

اقلیتوں کو آئین میں درج حقوق ملنا چاہئیں، قومی سیاست میں اقلیتوں کے کردار کے موضوع پر فورم کی تفصیل۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
پاکستان میں اقلیتوں کی حالت ہمیشہ سے زیربحث رہی ہے۔

جہاں ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے مذہبی' معاشی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کے دعوے کیے جاتے ہیں وہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کڑی تنقید کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اقلیتوں کے حوالے سے پاکستان پر غیر معمولی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ قیام پاکستان کی وجوہات میں سے ایک ا ہم وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کو ایک اقلیت ہونے کے ناتے ہندو اکثریت کی زیادتیوں کا سامنا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان طویل عرصہ تک ایک اقلیت کی حیثیت سے کمتر درجہ پر دھکیل دیئے جانے کا عذاب سہتے رہے تھے اس لئے پاکستان بن جانے کے بعد ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ جن حالات سے متحدہ ہندوستان کے دور میں مسلمانوں کو دوچار ہونا پڑا کم از کم پاکستان کی اقلیتوں کو ویسی صورتحال سے نہ گزرنا پڑے۔

پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق ان کے تحفظات اور سیاست میں ان کے کردار کے حوالے سے ان کی آراء جاننے کیلئے روزنامہ ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں اقلیتی نمائندوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ ملک کے 100 کے قریب انتخابی حلقوں میں اقلیتوں کا ووٹ فیصلہ کن ہے، انتخابات مذہب نہیں بلکہ حب الوطنی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، سیاسی جماعتیں اقلیتی نمائندوں کو جنرل نشستوں پر بھی الیکشن لڑائیں ، آئین اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتاہے' صدر اور وزیراعظم پاکستان کے عہدوں کیلئے بھی اقلیتوں کو اجازت ملنی چاہیے۔ذیل میں ہم فورم کے تمام شرکاء کی گفتگو کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

ڈاکٹر پال بھٹی (چیئرمین آل پاکستان مینارٹیزالائنس وفاقی وزیربرائے بین المذاہب ہم آہنگی)
پاکستانی سیاست میں اقلیتوں کا کردار بہت ا ہم ہے۔ اقلیتوں نے قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کی ترقی میں بڑا کردار ادا کیاہے۔پاکستان میں مذہب کا غلط استعمال کیاگیا ہے' کوئی مذہب بھی قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام بھی امن کا مذہب ہے وہ بھی قتل وغارت کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلا م معافی اور برداشت کا سبق دیتاہے اور اسلام میںایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہاگیاہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا مائنڈ سیٹ ہے جو بین الاقوامی سطح پر ملک کو بدنام اور پاکستانیوں کے اندر تقسیم پیدا کرنا چاہتاہے۔ ہمیں سب کو مل کر اس مائنڈ سیٹ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوناچاہیے، اگر مذاہب کے درمیان تفریق رہے گی تو ملک کے حالات خراب ہوتے جائیں گے۔ میں جداگانہ طریقہ انتخاب کے حق میں نہیں ہوں اسے مستردکیا جاچکا ہے۔

منتخب اقلیتی وزرا کو صرف اقلیتی وزارتیں ہی نہیں ملنی چاہیں بلکہ دیگرشعبے بھی ان کے سپردہونے چاہئیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرج ایکٹ کے حوالے سے بل جلد اسمبلی میں پیش کرینگے، پاکستان میں مذہب کو بہت غلط استعمال کیا گیا ،کوئی مذہب ناحق قتل کی اجازت نہیں دیتاپھروہ کون سا مذہب ہے کہ دن دیہاڑے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے، یہ وقت مذہب کے نام پرتقسیم کا نہیں متحدہونے کا ہے' اس تقسیم کو ختم کرنے لے لئے طویل جدوجہدکی ضرورت ہے۔ وزراتِ بین المذاہب ہم آہنگی اس حوالہ سے ایک کانفرنس کا انعقاد کررہی ہے۔ پہلے ہم اس کو انٹرنیشنل لیول پر کرنا چاہتے تھے لیکن پھر حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو قومی سطح پر منعقد کیا جارہاہے جس میں تمام مذاہب کے بڑے علماء، سیاسی رہنماؤں اوردانشوروں کو دعوت دی گئی ہے۔

اس کانفرنس میںروڈ میپ وضح کیا جائے گا اور ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی تجویز دی جائیگی جہاں پر توہین رسالتﷺسمیت تمام مذاہب کے اختلافی معاملات اور مسائل پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔ کونسل کسی بھی معاملہ کی پہلے تحقیق کریگی اور پھر اس کو آگے بھیجا جائے گا۔ آل پاکستان مینارٹیز الائنس نے پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ کا بل پیش کیاہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے اس بل کو بہت سپورٹ کیا اب تمام اتحادی جماعتوں سے اس پر بات کی گئی ہے اور قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اس کو پیش کیاجائیگا اگر یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوجاتاہے تو اقلیتوں کی نشستیں 10 سے بڑھ کر 14 ہوجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ قومی سیاست میں اقلیتوں نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیاہے اگر ان کو جنرل سیٹ پر لایا جائے تو پاکستان کی ترقی میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔



پاکستان میں مذہب کے نام پر ووٹ نہیں پڑناچاہئے اور الیکشن مذہب کے نام پرنہیں بلکہ حب الوطنی کے نام پر ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس چار آپشن ہیں جائنٹ ، سیپرٹ ،ڈبل ووٹ اور جنرل سیٹ، ان حالات میں ناممکن ہے کہ مینارٹی امیدوار جنرل سیٹ پر منتخب ہوسکے، علیحدہ سیٹ والی آپشن کو ملک کی اکثریت نہیں مانے گی اور یہ برتن الگ کرنے والی بات ہوگی۔ اقلیتی امیدوار کو صرف مینارٹیز کا شعبہ نہیں دیناچاہیے بلکہ ان کودوسرے شعبوں میں آگے لایاجائے تاکہ وہ تمام پاکستان کیلئے کام کرسکیں اور تمام لوگ ہم پر اعتماد کریں اس لئے جنرل سیٹ کے علاوہ کوئی سسٹم آئیڈیل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم قائداعظم محمدعلی جناح کا پاکستان چاہتے ہیں مذہب کے نام پر پاکستان نہیں چاہتے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 11اگست کی تقریر میں کہاتھاکہ پاکستان میں تمام اقلیتیں بلا تفریق برابر ہیں اور انکے حقوق برابر ہیں۔ مک میں کمزور اور پسا ہوا طبقہ زیاد ہ مسائل کا شکار ہے اقلیتیں اس میں زیادہ شامل ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اقلیتوں کی وزارت صوبوں کے پاس آگئی ہے لیکن کوئی صوبہ ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہے۔ وفاق کے پاس بین المذاہب ہم آہنگی کی وزارت رہ گئی ہے۔

خلیل طاہر سندھو (اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی مسلم لیگ (ن) و پارلیمانی سیکرٹری)
آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق تمام لوگ برابر ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 41 کہتاہے کہ صدر پاکستان مسلمان ہوگا، آرٹیکل91 کہتا ہے کہ وزیراعظم بھی مسلمان ہوگا حالانکہ آئین پاکستان تمام پاکستانیوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت دیتاہے اور کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی مذہب کے بچے کو کوئی تعلیم زبردستی نہیں دی جاسکتی جبکہ ہمارے بچوں کو زبردستی تمام مضامین پڑھائے جارہے ہیں۔ میں میاں نواز شریف اور پیپلزپارٹی کو خراج تحسین پیش کرتاہوں جنہوں نے شہباز بھٹی کے مطالبہ پر سینٹ میں اقلیتوں کو چار نشستیں دی ہیں اور ن لیگ کی قیادت نے ایک اقلیتی امیدوار کامران مائیکل کوسینیٹر بھی بنادیاہے۔ اس کے بعد تمام ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ مختص کیاگیا۔

پنجاب میں پبلک سروس کمیشن میں بھی کوٹہ رکھا گیا ہے اور حال ہی میں میںایک اقلیتی کوعہدہ دیاگیاہے ان کوششوں کے وجہ سے اقلیتوںکو ان کا مقام ملناشروع ہوگیاہے لیکن کچھ مسائل بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے اقلیتی نمائندوں کو دو سے چار کروڑ تک کے فنڈز دئیے۔ ان میں مسلم لیگ ق کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن ن لیگ والوں کو فنڈز نہیں دئیے گئے۔ ضیاء الحق نے 20 نمبر اضافی دے کر بد دیانتی کی۔ نصاب سے ان اضافی نمبروں کو فی الفور ختم ہوناچاہیے۔ انہوں نے کہاکہ بہت سے حلقوں میں اقلیتوںکا فیصلہ کن ووٹ ہے میرے حلقہ میں اقلیتوں کا 27 ہزار ووٹ ہے جو فیصلہ کن کردار ادا کرتاہے۔ ہمارے کچھ لوگ بھی غلط کردار ادا کررہے ہیں' ہمارے کچھ بشپ صاحبان چرچوں کی پراپرٹی کو فروخت کررہے ہیں ان کیخلاف اقدامات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں نے پاکستان سیاست میں ہمیشہ تاریخی کردار ادا کیاہے ہم کسی کو اپنی وفاداری کا یقین کیوں دلائیں یقین وہ دلائیں جنہوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔



ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تما م اقلتیں اکٹھے ہو کر کردار ادا کریں' ہمارے ووٹوں کا اثر نظر آناچاہیے اور سیاسی پارٹیوں کے اندر ایسی سٹیں ہونی چاہیے جہاں سے اقلیتوں کے نمائندے الیکشن لڑ کرآگے آئیں۔ آئین کا آرٹیکل 41 اقلیتوں کے ساتھ مذاق ہے، 1971 کے آئین کی تشکیل میں بھی اقلیتی نمائندوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ کسی غیرمسلم کو بھی قابلیت کی بنا پرملک کا صدر یا وزیراعظم بننے کا حق ہونا چاہئے، سیاسی نظام نے بہت سے گناہ کبیرہ کئے ہوئے ہیں، پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں آئیڈیل سسٹم نہیں ہے، سیاسی پارٹیوں کو بھی اقلیتی رہنماؤں کیلئے نشستیں مختص کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اکٹھے ہوکر اس بات کواجاگر کرنا چاہئے کہ ہمارے ووٹ کی اہمیت ہے ہمارے اندر قومی سوچ ہونی چاہیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب میں بہت قانون سازی ہوئی ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ کیلئے کام کیاگیا اوراقلیتوں کے مسائل بھی حل کئے گئے ہیں۔

ڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک(تاحیات بشپ آف لاہور)
پاکستان میں اکثریت اور اقلیت دونوں کو سمجھنا چاہیے کہ سب برابر ہیں۔ اقلیتوں کو فارن پالیسی، گڈ گورننس، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں میں بھی نمائندگی ملنی چاہیے اس پر ہمیں کیوں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ملک کے بہت سارے حلقوں میں اقلیتوں کے فیصلہ کن ووٹ ہیں اس وقت ملک میں صرف دو بڑی پارٹیاں نہیں رہیں بلکہ تحریک انصاف سمیت دیگر پارٹیاں بھی آگئی ہیں۔ سندھ میں چار حلقوں میں لاکھ سے زیادہ ووٹ ہیں، وہ ہندوؤں کے حلقے ہیں ،ان میں بدین، تھرپارکر، مٹھی شامل ہیں، پنجاب اورسندھ کے 23حلقوں میں اقلیتوں کے 50 ہزارسے زیادہ ووٹ ہیں۔ سندھ اورپنجاب کے 70حلقوں میں اقلیتوں کے 25 ہزار سے زیادہ ووٹ ہیں ان حلقوں میں ہمیں اپنا وزن بڑھانا چاہیے۔ ہمارے لوگ اقلیتی نشست پر آتے ہیں لیکن بات اپنی پارٹی کی کرتے ہیں۔

میری تجویز ہے کہ اس وقت اقلیتوں کی دس نشستیں ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی اقلیتی نمائندوں کوجنرل نشست پر الیکشن لڑائے تاکہ وہ تمام الیکشن جیت کر اسمبلی میں آئیں۔ اس طرح وہ تاثر ختم ہوگا کہ اقلیتی منتخب ہوکر نہیں آتے بلکہ سیکرٹ بیلٹ سے منتخب ہوکر آئے ہیں۔ اس حوالے سے جے سالک کی پٹیشن سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ موجود ہ سسٹم بہترین نہیں ہے اس کو زیادہ سے زیادہ بہتر کیا جاسکتاہے۔ سکھ رہنما سردار بش سنگھ کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر سکھوں کے میرج رجسٹرڈ نہیں ہوتے تو نادرا والے کرسچن میرج رجسٹرڈ نہیں کرتے بلکہ چرچ اپناریکارڈ رکھتاہے۔ میں نے پادری صاحبان کو کہاہے کہ وہ کورٹ میں جائیں تاکہ کرسچن کا میرج سرٹیفکیٹ نادرا رجسٹرڈ کرنا شروع کرے۔ تمام اقلیتوں کو آئندہ الیکشن میں اکٹھا ہونا چاہیے۔



پاکستان کے آئین کے مطابق ہم صدر اور وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ ہمیں ووٹوں سے ہرا دیا جائے لیکن اس طرح نہ کیاجائے۔ آئین میں ہمارے جو حقوق درج ہیں وہ ہمیں ملنے چاہئیں۔ ملک میں بسنے والی اکثریت اور اقلیت دونوں کو سمجھنا چاہئے کہ ہم ایک قوم ہیں،ہم مذہبی نہیں سیاسی طورپرایک ہیں۔آئین کے اندرجو رکاوٹیں ہیں وہ دورہونی چاہئیں، ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ وہ اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کیخلاف ہیں،اقلیتوں کی دس نشستوں کے لئے تمام پارٹیاں اپنے دس دس امیدوارلیکرآئیں، اقلیتی حلقوںمیں اقلیتی امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہونا چاہئے،مذہب کی بنیادپرنشستیں مخصوص کرنا قوم کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے،کل کو مسلک کی بنیادپرنشستوں کا مسئلہ اٹھ سکتا ہے۔ اقلیتوں کو اپنی پارٹیوں کے ساتھ وفاداری کے ساتھ ساتھ آپس میں متحدہونا ہوگا۔


سردار بشن سنگھ (سکھ رہنما)
پچھلے کچھ سالوں سے اقلیتی سیٹوں پر جس طرح لوگ آجاتے ہیں وہ طریقہ کار درست نہیں ہے کسی بھی اقلیتی کمیونٹی کا نمائندہ چننے سے پہلے اس بندے کے بارے میں مکمل چھان بین ہونی چاہیے کہ وہ اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ وہ اس کمیونٹی کی نمائندگی کرسکے یا اس کا تعلق بھی اس کمیونٹی سے ہے یا نہیں۔ پچھلے پانچ سال سے کچھ لوگ صرف سیاست کیلئے مذہب کو استعمال کررہے ہیں، کچھ لوگ شناختی کارڈ پر کمار ہٹا کر سنگھ لکھ دیتے ہیں مگر صرف سنگھ لکھنے سے کوئی سردار نہیںبن جاتا ۔سردار وہ ہے جو کہیں بیٹھا ہو تو بھی سردار لگے۔

اقلیتوں کا ایم این اے یا وزیر صرف ایک مذہب نہیں تمام اقلیتوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اگر مسیحی برادری سے کوئی بندہ وزیر بن گیا تو اسے صرف مسیحی برادری کا نہیں بلکہ دیگر مذاہب کا بھی اسی طرح خیال رکھنا چاہئے جس طرح مسیحی برادری کاخیال رکھتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں جس طرح لوگ فاٹا اور قبائلی علاقوں سے نکل کر پشاور میں گئے اقلیتوں کے نمائندہ کو چاہئے کہ اپنی کمیونٹی کی بھی سیوا کرے مگر ساتھ ان کا بھی خیال کرے۔ یہ وطن ہمارے لئے بہت اہم ہے ، گرونانک یہاں پیدا ہوئے، شیخوپورہ کا شہر بھی ہمارے لئے بہت اہم ہے۔



اگر ہماری کمیونٹی کا کوئی وزیر ہو تو ہم اپنا مسئلہ حکومت کے سامنے پیش کرسکتے ہیں مگر ہمارے مسائل کا حل کیلئے ہمارا نمائندہ موجود نہیں ہے۔ شادی کے بعد اسے رجسٹر کرانے کیلئے ہمیں بڑی مشکل ہوتی ہے اور جس طرح مسلمان، عیسائی اور ہندو اپنی شادی کرانے کے بعد رجسٹر کراتے ہیں ہمارا طریقہ اس کے مختلف ہے اور جب شادی کے بعد ہم لوگ شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو نادرا والے ہم سے نکاح نامہ مانگتے ہیں جبکہ ہمارا نکاح نامہ دیگر مذاہب کی طرح نہیں ہوتا اسلئے ہمیں شناختی نہیں ملتا۔ ہمارا یہ مسئلہ طویل عرصے سے حل طلب ہے جس پر پرویز مشرف کے دور حکومت میں کچھ کام ہوا مگر مسئلہ کے حل کی بجائے کام ٹھپ ہوگیا۔ اس کے بعد شہبار بھٹی نے بھی کوشش کی مگر وہ فائل بھی ابھی تک دفتروں میں پڑی ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مسئلے کو فوری حل کیا جائے۔

انجینئر شہزاد الٰہی(اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی مسلم لیگ ق)
سب سے پہلے اس چیز پر بات کرنی چاہیئے کہ حکومت کو پانچ سال ہوگئے ہیں اس دوران حکومت نے کیا کیا؟ میں چونکہ پنجاب میں نمائندہ ہوں تو میں پنجاب کی ہی بات کروں گا۔ پانچ سالہ دور پنجاب میں اقلیتوں کے لئے سخت ترین دور تھا۔ گوجرہ سے شروع ہوجائیں اور بامنی والا تک آجائیں عدلیہ نے ان واقعات پر فیصلے کئے مگر پنجاب حکومت نے ان پر عمل نہیں کیا۔گوجرہ کے واقعہ کے بعد وہاں تعینات ڈی پی او کو عدالت نے صوبہ بدر کیا مگر اس کو سی سی پی او لاہور لگادیا گیا۔ کسی سابق حکومت نے چرچ نیلام نہیں کئے مگر پنجاب حکومت نے ان کی بھی نیلامی لگادی۔ سب سے پہلے رنگ محل سکول پر ہاتھ ڈالا اس پر بھی دل نہ بھرا تو پنجاب حکومت نے نئی قانون سازی شروع کردی اور ایک کمیشن بنانے کی کوششیں شروع کردیں جس کے انڈر اقلیتوں کے تمام ادارے، سکول اور چرچ ہوں گے۔ اس قانون کو اسمبلی میں بھی نہیں لایا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس قانون کو پہلے سٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کیا جاتا وہاں سے منظوری کے بعد اسے اسمبلی میں لایا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔



اقلیتوں کے تمام نمائندے کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنی اپنی پارٹی کے مؤقف کے مطابق بات کرتے ہیں ایسا نہیںہونا چاہئے بلکہ اقلیتی نمائندہ کسی بھی پارٹی سے متعلق ہو اسے اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے انہی کی بات کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کشمیریوں کو دوہرے ووٹ کا حق حاصل ہے اسی طرح اقلیتوں کو بھی دوہرے ووٹ کا حق ملنا چاہیئے۔ اقلیتوں کی حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں تاکہ ہم بہتر کام کرسکیں۔ جب تک اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کا حق نہیں ملتا اقلیتوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پچھلے پانچ سالہ دور میں پنجاب میں اقلیتوں کے لئے کوئی کام نہیں ہوا۔ اقلیتوں کے ایک نمائندے کو وزیر خزانہ ضرور بنایا گیا مگر اس نے بھی اپنی کمیونٹی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ وفاق میں اقلیتوں کے کام ہوا وہاں اقلیتوں کی سیٹیں بڑھائی گئیں اور ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا گیا جو کہ خوش آئند ہے۔

طاہر نوید چوہدری(اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی پیپلزپارٹی)
ہم نے جداگانہ سسٹم کے تحت لوگوں کو منتخب ہوتے دیکھا ہے اسلئے اقلیتوں کے لئے بھی جداگانہ انتخاب کا طریقہ ہونا چاہیئے ۔ ماضی میں اقلیتوں کے لئے جتنے بھی نمائندے منتخب ہوئے انہوں نے اقلیتوں کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا مگر شہباز بھٹی نے اقلیتوں کی فلاح بہبود کیلئے بہت کام کیا۔ شہباز بھٹی نے اقلیتوں کے حقوق کیلئے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی اور اقلیتوں کیلئے قانون سازی کرائی۔شہباز بھٹی کی کوششوں کے نتیجے میں ملازمتوں میں اقلیتوں کیلئے 5 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا اسی کوٹے کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ہندو اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا ہے۔

اسمبلیوں میں اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں میں اضافہ کیاگیا یہ بھی شہباز بھٹی کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے کسی بھی پارٹی کی طرف سے منتخب ہوں ہم اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی کرنے جاتے ہیں کسی پارٹی کی نہیں اور اسی لئے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اقلیتوں کے حق کیلئے آواز اٹھانے میں کسی پارٹی کو برا لگتا ہے یہ الزام غلط ہے کہ اقلیتی نمائندے جو مختلف پارٹیوں کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں اپنی پارٹی کی ہی بات کرتے ہیں ہم نے ہمیشہ اقلیتوںاور اپنی کمیونٹی کے حق کی بات کی ہے کیونکہ ہم اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اقلیتوں کیلئے ہی اسمبلی میں جاتے ہیں۔



انہوں نے کہا کہ ہمیں خیرات میں سیٹ نہیں دی جاتی بلکہ ہم جس پارٹی کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں عام انتخابات میں اس پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کرتے ہیں اور اس کے نتیجے ہمیں سیٹ ملتی ہے۔ وفاقی حکومت نے پچھلے پانچ سال میں اقلیتوں کے لئے بہت کام کیا ہے ۔ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں بھی اپنے وطن سے بہت محبت ہے اور اقلیتوں کا کوئی بندہ کبھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث نہیں پایا گیا۔

نجمی سلیم(خاتون رکن پنجاب اسمبلی پیپلزپارٹی )
پنجاب کی سطح پر گزشتہ پانچ سال اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جارہا ہے۔ خواتین کے حوالے سے بھی پنجاب اسمبلی میں امتیازی سلوک کیا گیا ۔ اقلیتوں سمیت تمام خواتین ارکان اسمبلی کے ساتھ پنجاب حکومت کے رویے کی وجہ سے خواتین کو مسائل درپیش رہے اور خواتین کو بالکل اکاموڈیٹ نہیں کیا گیا نہ ہی انہیں کوئی فنڈز دیئے گئے جبکہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ خواتین کو اہمیت دی اور انہیں اکاموڈیٹ کیا جس کی واضح مثال ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو خود ایک خاتون تھیں اور اس وقت ایک خاتون قومی اسمبلی کی سپیکر ہے اوروفاقی حکومت نے خواتین ارکان اسمبلی کو فنڈز بھی دیئے ہیں۔



پنجاب حکومت کے رویے سے وفاقی حکومت اور پیپلزپارٹی کے رویے کا موازنہ کیا جائے تو وفاق میں اقلیتوں کے حوالے سے بہت سے کام ہوئے۔ وفاقی حکومت نے اقلیتوں کو ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ دیاگیا، سینیٹ میں اقلیتوں کی 4نشستیں مختص کی گئیں، اقلیتوں کے تمام تہواروں کو سرکاری سطح پر منانے کی منظوری دی گئی، ہر سال 11اگست کو اقلیتوں کے دن کے طور پر منانے کا بھی فیصلہ ہوا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی اقلیتی خواتین کو خصوصی طور پر سپورٹ کیا جارہا ہے۔ اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو جاتا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کیلئے کام کیا۔ بے نظیر بھٹو ہمیشہ اقلیتوں کا خیال رکھا اور انہیں زیادہ سے زیادہ مواقع دیئے اس کی مثال میں خود ہوں کیونکہ میں اقلیتی سیٹ کی بجائے پیپلزپارٹی کی طرف سے خواتین کی مخصوص نشست پر ایم پی اے ہوں۔

پرنس جاوید (اقلیتی رکن خیبر پختونخواہ اسمبلی )
سب سے پہلے صوبے کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے پر صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا شکر گزار ہوں اور ساتھ ہی شہباز بھٹی کا بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے تمام اقلیتوں کے حقوق کی بات کی ۔ نوشہرہ میں جب یوسف مسیح کو گرفتار کیا گیا تو شہباز بھٹی نے اسے رہائی دلائی ۔ پشاور سے 6مسیحی افراد کو اغواء کرکے قبائلی علاقہ جات میں لے جایا گیا تو شہباز بھٹی نے فوری طور پر اعلیٰ حکام سے بات کی اور فوری ایکشن لیتے ہوئے ان افراد کو چوبیس گھنٹے کے اندر رہا کرایا گیا۔ جب ایک سکھ کو اغواء کرکے قتل کردیا گیا تو شہباز بھٹی نے اس کی فیملی اپنے پاس بلایا اور انہیں 5 لاکھ روپے دیئے۔



انہوں نے کہا کہ شہباز بھٹی کی تقلید میں ہم نوشہرہ کے اندر تمام اقلیتوں کیلئے بلاامتیاز مذہب کام کررہے ہیں اور کسی مذہب سے تعلق رکھنے والی اقلیت کو کوئی مسئلہ ہو ہم فوراً اس کی مدد کیلئے پہنچتے ہیں کبھی اس حوالے سے مشکلات بھی آتی ہیں مگر ہم مشکل کی صورت میں تحفظ کیلئے انتظامیہ کو آگاہ کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی انتظامیہ سے ہمارا رابطہ رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کیلئے ملازمتوں میں 5فیصد کوٹہ اور سینیٹ میں اقلیتوں کی 4نشستیں مخصوص کرانا شہباز بھٹی کا بہت بڑا کارنامہ جس پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
Load Next Story