کراچی اراضی اسکینڈل اور منی لانڈرنگ کیس میں اہم افسران شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ
سابق ڈی جی کے ڈی اے کے سنسنی خیز انکشاف کے بعد تفتیش کادائرہ وسیع، ذرائع
سابق ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے سید ناصرعباس نے تفتیشی اداروں کے سامنے دوران تفتیش سنسنی خیزانکشاف کے بعد تفتیش کا دائرہ وسیع ہوگیا،کراچی کی اراضی کے اس بڑے اسکینڈل اور منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے اوردیگر تفتیشی اداروں کے اہم افسران کو بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔
باخبرذرائع نے اس امر کا انکشاف کرتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ کے ڈی اے کے سابق ڈی جی ناصرعباس سے مختلف تفتیشی اور تحققیاتی اداروں کے افسران نے تفتیش کی ہے اس تفتیش میں انھوں نے اہم انکشافات کیے ہیں جس میں اس بات کا انکشاف بھی شامل ہے ان کے جرائم میں ایف آئی اے اور دیگراداروں کے افسران بھی شامل تھے جو ناصر عباس کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی پوری پوری قیمت وصول کررہے تھے۔
واضح رہے کہ ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے سید ناصرعباس کو ایف آئی اے نے تین ہفتے قبل سرکاری ملازمت کو خفیہ رکھ کر پاسپورٹ بنوانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد انھیں مجموعی طور پر6 روز کے جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں دیا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا ناصرعباس نے دوران انٹروگیشن سندھ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پرتعینات سیاستدانوں اور افسران کو بڑے پیمانے پر دی جانے والی ماہانہ رشوت کا اعتراف توکیا ہی تھا،انھوں نے ایف آئی اے کی سابق انتظامیہ سمیت تفتیشی افسران کو بھی مقدمہ درج نہ کیے جانے کے عوض بھاری رشوت دینے کا بھی انکشاف کیا ہے۔
سابق ڈی جی کے ڈی اے کے خلاف سرکاری ملازمت کو خفیہ رکھ کرپاسپورٹ بنوانے کے الزام میں تحقیقات تقریبا ایک سال سے ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل میں زیرالتوا تھی اور تقریباً8 ماہ قبل ایف آئی اے کو پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تحریری طور پر یہ آگاہ کردیاگیا تھا کہ سید ناصر عباس نے چند سال قبل بنائے جانے والے پاسپورٹ میں اپنی سرکاری ملازمت کوخفیہ رکھا تھا تاہم ایف آئی اے سندھ زون کے اس وقت کے ذمے داروں اور متعلقہ تفتیشی افسران نے تمام ترثبوت ہونے کے باوجود معاملے کو زیرالتوا رکھا اورتحقیقات میں جرم ثابت ہونے کے باوجود ایف آئی اے کی جانب سے کوئی کارروائی کرنے سے گریزکیا گیا۔
تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل سینئر پولیس افسر بشیرمیمن کی ایف آئی اے کے سربراہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے عہدے پرامیر احمد شیخ کی تعیناتی کے چند روز بعد ہی ایف آئی اے نے اس وقت کے ڈی جی کے ڈی اے سید ناصر عباس کوگرفتار کرلیا تھا۔
باخبرذرائع نے اس امر کا انکشاف کرتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ کے ڈی اے کے سابق ڈی جی ناصرعباس سے مختلف تفتیشی اور تحققیاتی اداروں کے افسران نے تفتیش کی ہے اس تفتیش میں انھوں نے اہم انکشافات کیے ہیں جس میں اس بات کا انکشاف بھی شامل ہے ان کے جرائم میں ایف آئی اے اور دیگراداروں کے افسران بھی شامل تھے جو ناصر عباس کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی پوری پوری قیمت وصول کررہے تھے۔
واضح رہے کہ ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے سید ناصرعباس کو ایف آئی اے نے تین ہفتے قبل سرکاری ملازمت کو خفیہ رکھ کر پاسپورٹ بنوانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد انھیں مجموعی طور پر6 روز کے جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں دیا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا ناصرعباس نے دوران انٹروگیشن سندھ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پرتعینات سیاستدانوں اور افسران کو بڑے پیمانے پر دی جانے والی ماہانہ رشوت کا اعتراف توکیا ہی تھا،انھوں نے ایف آئی اے کی سابق انتظامیہ سمیت تفتیشی افسران کو بھی مقدمہ درج نہ کیے جانے کے عوض بھاری رشوت دینے کا بھی انکشاف کیا ہے۔
سابق ڈی جی کے ڈی اے کے خلاف سرکاری ملازمت کو خفیہ رکھ کرپاسپورٹ بنوانے کے الزام میں تحقیقات تقریبا ایک سال سے ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل میں زیرالتوا تھی اور تقریباً8 ماہ قبل ایف آئی اے کو پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تحریری طور پر یہ آگاہ کردیاگیا تھا کہ سید ناصر عباس نے چند سال قبل بنائے جانے والے پاسپورٹ میں اپنی سرکاری ملازمت کوخفیہ رکھا تھا تاہم ایف آئی اے سندھ زون کے اس وقت کے ذمے داروں اور متعلقہ تفتیشی افسران نے تمام ترثبوت ہونے کے باوجود معاملے کو زیرالتوا رکھا اورتحقیقات میں جرم ثابت ہونے کے باوجود ایف آئی اے کی جانب سے کوئی کارروائی کرنے سے گریزکیا گیا۔
تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل سینئر پولیس افسر بشیرمیمن کی ایف آئی اے کے سربراہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے عہدے پرامیر احمد شیخ کی تعیناتی کے چند روز بعد ہی ایف آئی اے نے اس وقت کے ڈی جی کے ڈی اے سید ناصر عباس کوگرفتار کرلیا تھا۔