محبت میں بھی مقدار نہیں معیار اہم ہوتا ہے
اپنی اقدار سے محبت کئے بغیرسُکھی نہیں رہا جاسکتا، سابق سینیٹر اور ماہر تعلیم رزینہ عالم خان کے حالات و خیالات
RAWALPINDI:
'' میرے دادا جی حاجی دلدار خان کان پور (بھارت) میں رہائش رکھتے تھے، سرکار نے ان کو رئیس اعظم کا خطاب دے رکھا تھا۔
بٹوارے کے بعد ہمارا خاندان پاکستان آ گیا۔ ہم گیارہ بہن بھائی تھے، میرا نمبرنواں تھا اور میں چھوٹوں کے گروپ میں تھی،گھر میں بچپن کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی، کمسنی کا زمانہ میرے لیے قیمتی اثاثہ ہے، بچپن کی یادوں میںکھو جانا مجھے اب بھی اچھا لگتا ہے،،۔ جب وہ یہ کہ رہی تھیں تو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سچ مچ کہیں دور ماضی کی معصوم وادیوں میں کھو گئی ہیں۔
اپنی شادی کے حوالے سے کہا ''ایم اے مکمل کرنے سے پہلے ہی میں نے والدہ سے کہ دیا تھا، جس دن میں آخری پرچہ دوں بے شک اسی دن میرا نکاح پڑھا دینا لیکن دوران تعلیم شادی نہ کرنا، اماں نے ایسے ہی کیااور1969میں میری شادی میجر شمیم عالم سے ہو گئی، شادی سے پہلے میں نے جنرل صاحب کو دیکھا تک نہیں تھا''۔ رزینہ عالم نے کہا کہ میری والدہ ایک جملہ کہا کرتی تھی کہ'' لڑکیوں کو پانی کی مانند ہونا چاہیے، جس برتن میں بھی ڈالا جائے وہ اسی میں ڈھل جائیں، یہ جملہ سن کر ہم بہت ہنسا کرتے تھے لیکن آج اِس دانش بھرے جملے کی سمجھ آئی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بزرگوں کی باتیں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔ شادی کے بعد اس جملے کی تفہیم مکمل ہوئی، میں نے اپنی کتاب اسی لیے والدہ کے نام کی کہ'' یہ والدہ کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ میں آج اِس مقام پر ہوں'' شوہر کے حوالے سے انہوں نے کہا، ''میں یہ چاہتی تھی کہ کوئی شریف آدمی ہو جو خاتون کی عزت کرنا جانتا ہو۔
جب میں اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کرنے گئی تھی تو کعبہ شریف پر پہلی نظر پڑتے ہی میں نے دعا مانگی کہ یا اللہ مجھے نیک شوہر عطا کرنا، اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی، جنرل شمیم عالم خان ہر لحاظ سے مثالی شوہرثابت ہوئے ''۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ جو کتاب آپ نے لکھی ہے وہ تو پرانی اقدار کی امین ہے تو انہوں نے کہا ''نئے زمانے کے لوگوں نے بھی اس کتاب کو بڑی خوش دلی سے قبول کیا ہے البتہ بہت سی نوجوان لڑکیوں نے مجھ سے جب یہ سوال کیا کہ جو لڑکیاں شادی نہیں کرتیں یا جن کو طلاق ہو جاتی ہے وہ اس کتاب سے کیسے رہ نمائی حاصل کریں تو میں نے صرف اتنا کہا '' لڑکیوں کو مناسب عمر میں شادی کر لینی چاہیے، کیریئر کے چکر میں بہت سی لڑکیاں اپنی عمر کا بہترین حصہ ضائع کر دیتی ہیں۔
عورت پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اُس کے بہن بھائی اور ماں باپ اُسے چھوڑ کر یا تو دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں یا اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں، اِس وقت اکیلے زندگی کاٹنا انتہائی دشوار ہوتا ہے، پاکستان میں تو خاص طور پر ایسی خواتین کو معاشرہ قبول ہی نہیں کرتا، میں پھر کہوں گی کہ شادی کسی بھی عمر میں کی جا سکتی ہے اگر لڑکی یا مطلقہ کو موقع ملے تو اسے ضرور شادی کر لینی چاہیے''۔ پھر مجھے بعض نوجوان لڑکیوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم ہی مرد کی خواہشات اور رجحانات کو سمجھیں کیا یہ ضروری نہیں کہ مرد بھی ہماری خواہشات اور ضروریات کو سمجھے، ہم ہی مردوں کے پیچھے دُم ہلاتی کیوں پھریں؟ میں نے بڑے پیار سے اُن کو سمجھایا کہ ''حقیقت تلخ ہوتی ہے اُسے بدلا نہیں جا سکتا، ہم مردوں کے معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے میں مرد واقعی پھنے خان ہے مگر جب گھر بچانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو مرد ہمیشہ ناکام ہو جاتا ہے، گھر کو اگر بچاتی ہے تو وہ عورت ہی ہوتی ہے اس لیے خواتین کو کسی طرح کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے''۔
میں دعوے سے کہتی ہوں '' جو خواتین اپنے شوہروں کو ذہنی سکون فراہم کرنے کی اہل ہوتی ہیں، اُن کے گھر کبھی تباہ نہیں ہوتے، گھروں کی بربادی کے لیے ذہنی سکون بنیادی حیثیت رکھتا ہے''۔ ذہنی سکون کو رزینہ عالم محبت ہی کی ایک قسم قرار دیتی ہیں ''محبت میں بھی Quantity (مقدار) نہیں Quality (معیار) زیادہ اہم ہے، اس میں گیرائی اور گہرائی ہوتی ہے، فراوانی اشیاء کی ہو خواہ جذبوں کی، خوب نہیں۔''۔
رزینہ عالم نے ایک سوال کے جواب میں کہا میں ماہر تعلیم ہوں اور تعلیم کی اہمیت سے غافل نہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ ''تعلیم کے ساتھ ساتھ جب تک انسان اپنی اقدار سے محبت نہیں کرتا وہ اپنے معاشرے میں کبھی سکھی نہیں رہ سکتا، مثلاً آپ جو چاہے لباس پہنیں مگر عریانیت نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا فیشن پر جو دکھا رہا ہے وہ حقیقت نہیں۔ تعلیم آپ کو سراب اور حقیقت کا فرق بتاتی ہے۔ تعلیم اور اقدار دونوں کے بغیر چارہ نہیں، آپ ذرا غور کریں آج کل جب ایک دلہن بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر باہر آتی ہے تو آدھی عریاں ہوتی ہے، یہ فیشن ہی ہوگا لیکن عورت کے روایتی وقار کے منافی ہے۔''
جدت اور روایت کو کیسے ایک ساتھ رکھا؟ ''روایت گھر سے ملی، جدت گھر سے باہر پائی، اسے محسوس کیا اور میانہ روی اپنائی۔ کام مشکل تھا لیکن نیت صاف ہو تو اللہ مدد کرتا ہے۔ جن دنوں میں اپنی والدہ کے ہم راہ بحری جہاز میں عمرے کے لیے سعودی عرب جا رہی تھی تو میں روزانہ والدہ کو ویل چیئر پر بٹھا کر جہاز کے ڈیک پر ہوا خوری کے لیے لے جاتی، یہ منظر ایک گوری خاتون روز دیکھا کرتی، ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ بوڑھی تمہاری کیا لگتی ہے، میں نے کہا میری ماں ہے، کہا، اِن کے لیے اتنی مشقت کیوں اٹھاتی ہوں۔
'' ہم تو ایسا ہی کرتے ہیں'' میرا جواب تھا ''ماں باپ ہمارے لیے خدا اور رسول کے بعد سب سے معتبر ہوتے ہیں'' پھر پوچھا شادی شدہ ہو؟ میں نے کہا عمرے کے بعد شادی کروں گی۔ ''ہونے والے شوہر کو دیکھا ہے؟'' ''ماں نے دیکھا ہے''۔ اس پر وہ سوچ میں پڑ گئی اور کہنے لگی'' آپ کی ثقافتی اقدار جہان بھر میں اَن مول ہیں، کاش ہمارے بچے بھی ایسے ہوتے'' ۔
پاکستان اگر صنعتی ملک بنتا ہے تو اس میں ہماری اقدار کے لیے گنجائش نکلے گی؟ اِس سوال پر انہوں نے کہا کہ ''میں جب سرکاری سطح پر ایران گئی تو میں نے دیکھا کہ حجاب پہن کر لڑکیاں اور شادی شدہ خواتین کام کر رہی تھیں حالانکہ ان کا حجاب ہمارے پردے سے کہیں مشکل ہے جس کو پہن کر کام کرنا آسان نہیں ہوتا مگر ایرانی خواتین فیکٹریوں میں کام کرنے سے لے کر ٹرک تک چلاتی ہیں، رسالت مآبﷺ کے دور میں حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کا کاروبار دور تک پھیلا ہوا تھا، وہ معاشرتی اقدار میں رہتے ہوئے تجارت کر رہی تھیں، نیت درست ہو تو ہماری اسلامی اقدار صنعتی ترقی میں ہرگز حائل نہیں ہوں گی، دین میں جبر و اکراہ کی کوئی راہ نہیں البتہ تقویٰ ہے، اور تقویٰ خاردار جھاڑیوں سے بچ کر چلنے کا نام ہے''۔
ناپسندیدہ بات کرنے سے پہلے جیسے کوئی تھوڑی دیر کو رکتا ہے، اسی طرح رزینہ عالم نے کچھ توقف کرتے ہوئے کہا ''میں نے سینٹ میں چھے سال گزارے، مجھے ہر طرف منافقت ہی منافقت نظر آئی، قول و فعل کے تضاد نے ہمیں قوم سے ہجوم میں بدل دیا ہے، جب میں دنیا کے دیگر ممالک میں گئی تو حیران ہوئی کہ اسلام کی اصل تعلیمات تو غیروں نے اپنا لی ہیں اور ہم ان کو بھول چکے ہیں، خدا ترسی، وضع داری، صلہ رحمی اور سارے مثبت اوصاف تو ہمارا ورثہ تھے''۔
''مرد کو نیچا دکھانے کی خواہش محض زنانہ ضد ہے، مرد کی فضیلت پر اللہ نے مہر ثبت کر دی ہے، اس پر بحث فضول ہے، ہاں وہ مرد جو اس فضیلت پر پورا نہیں اترتے اُن کی بات دوسری ہے، مرد اور عورت کے درمیان یہ تصادم شاید اس لیے پیدا ہو رہا ہے کہ دونوں کو اپنے حقوق اور فرائض سے مکمل آگاہی حاصل نہیں''۔
مرد دوسری شادی کیوں کرتا ہے؟ ''ہمارے گھروں میں جب ایک ہی چھت تلے میاں بیوی ایک نام نہاد مفاہمت کے تحت بچوں کی خاطر زندگی بسر کر دیتے ہیں، سمجھ لیجئے کہ وہاں معیاری محبت کا فقدان ہے، وہاں محض ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے جب کہ محبت اس سے کہیں مختلف جذبے کا نام ہے، اسی خلاء کی وجہ سے مرد دوسری شادی کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے، عورت اگر پیار کی بھوکی ہے تو مرد اس سے کہیں زیادہ بھوکا ہے۔ کچھ بھی کھا کر بھوک ختم کی جا سکتی ہے لیکن من پسند غذا سے ختم ہونے والی بھوک کے بعد جو ایک نشہ سا طاری ہوتا ہے اُس کا نعم البدل ممکن نہیں، یہ نشہ ہی معیاری محبت ہے، ایسے گھروں میں میاں بیوی دوست نہیں ہوتے بل کہ ایک سیل میں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں، ہر وقت ساتھ رہنے کے باوجود دونوں تنہا ہوتے ہیں، یہ ہی وہ باریکی ہے جو سال ہا سال تک لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی، ایسی تنہائی انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ معیاری محبت کو اگر آسان لفظوں میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ آپ دوسرے کے لیے ناگزیر ہو جائیں، بے مثال بن جائیں، یہ مشکل مقام ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں، اس عمل میں ایک چھوٹی سی احتیاط بہت ضروری ہے وہ یہ کہ آپ اپنے ساتھی پر غیر محسوس طریقے نظر رکھیں لیکن پولیس کی طرح خوف بن کر سوار ہونے سے گریز کریں''۔
رزینہ عالم خان نے کہا کہ محبت کے اِس تجربے اور تحقیق نے اب مجھے ''سنو میرے بیٹے'' لکھنے پر مجبور کر دیا ہے، اب میں وہ لکھوں گی جو مردوں کو کرنا چاہیے، مثلاً چھوٹی سی بات ''بیوی کو ایشوریا رائے مت سمجھیں کیوں کہ آپ شاہ رخ خان نہیں ہیں'' جو مرد بیویوں کو اس تناظر میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانک لیں تو سارا جھگڑا ہی ختم، مرد ہو یا عورت، پرفیکٹ نہیں ہو سکتے، ابنِ آدم خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ آج کل گھروں میں متوقع علیحدگی، طلاق، بے چینی، ناچاقی اور نہ جانے کیا کچھ آپ کو نظر آرہا ہو گا، ان عوامل کے پیچھے احساس کم تری، حسد اور عناد کے علاوہ اب پیسے کی دوڑ بھی شامل ہو گئی ہے۔ ہم کو جس طرح اللہ نے صلاحیتیں دے کر پیدا کیا، ہم وہ بننا نہیں چاہتے ہم دوسرں جیسا بننے کی بھیڑ چال کا شکار ہو چکے ہیں، میں دعویٰ سے کہ سکتی ہوں کہ معاشی آسودگی دائمی خوشیوں کی ضمانت نہیں ہوتی''۔
رزینہ عالم نے جاگیردارانہ سوچ اور صنعتی ترقی کے دور میں روایات کو ساتھ لے کر چلنے پر کہا کہ ترقی کے زینے طے کرنے کے لیے اب گھر کے ہر فرد کو کمانا پڑے گا اگر معاشرے نے فرسودہ سوچوں کو خیر باد نہ کہا تو پھر ترقی رہے گی نہ روایات، دونوں مر جائیں گی۔ اب مرد کو کچن کے کام میں عورت کا ہاتھ بٹانا پڑے گا اور عورت کو بھی خود کفالت کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا جب دونوں احسان جتلانے کی بجائے ہنسی خوشی ایک دوسرے کے مقام کو قبول کرنا سیکھ لیں گے تو ہم صنعتی ترقی اور جاگیرداریت سے بھی کام یابی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ معاشیات کی طالب علم کی حیثیت سے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر کہ سکتی ہوں کہ پاکستان جب زراعت پر مبنی صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہو گا تو ہماری معاشی مشکلات کم ہوں جائیں گی، اِس ضمن میں ہم ملیشیا کا ماڈل سامنے رکھ سکتے ہیں، وہاں اسلام بھی ہے اور صنعتی ترقی بھی، دونوں ہی پھل پھول رہے ہیں، وہاں ایک طرف کیسینو ہے تو دوسری جانب مذہبی اقدار بھی مستحکم ہیں، دین کو زبردستی نافذ نہیں کیا جا سکتا، فرد کو مکمل آزادی دے کر بات منوانے کا نام ہی میرے خیال میں دین کی اصل تعلیم ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستان کیسا ہوگا؟ اس پر انہوں نے کہا'' میں کچھ عرصہ قبل بھارت اپنے عزیز و اقارب سے ملنے گئی، وہاں مجھے ایک انگریز محقق ملا جو پاکستان کے مستقبل پر کتاب لکھ رہا تھا اس کتاب میں بھارت اور پاکستان کے تقابلی جائزے کے لیے وہ ان دنوں بھارت میں تھا، بہ حیثیت سیاست دان وہ مجھ سے مختلف موضوعات پر بات چیت کر رہا تھا اس نے کہا ''پاکستان میں فوج کی مداخلت کی وجہ سے ترقی کا پہیہ چلتے چلتے رکتا رہا، مصنوعی معاشی شرح نمو کی وجہ سے کاغذوں میں ترقی نظر آتی رہی مگر حقیقی ترقی نہ ہو سکی، قیام پاکستان سے لے کر مشرف دور تک ترقی کے میدان میں ایک جیسے تجربات آزمائے جاتے رہے لیکن اب پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے، میرے خیال میں اب پاکستان حقیقی ترقی کی شاہ راہ پر گام زن ہو جائے گا، گو پاکستان میں طبقاتی سطح پر تعلیم کا ستیاناس ہو چکا ہے لیکن میڈیا کے باعث اب لوگ اچھے، برے کے درمیان تمیز کرنے لگے ہیں'' اس محقق کی باتیں سن کر میں حیران رہ گئی کہ اس نے کس باریکی سے ہمارا تجزیہ کیا ہے، اُس وقت میں نے اُس کی باتوں سے مکمل اتفاق نہیں کیا تھا مگر جب یہاں آ کر جائزہ لیا تو مجھے بہت حوصلہ ملا کہ وہ ٹھیک کہ رہا تھا۔ ''اب طبقۂِ اشرافیہ کی خرمستیاں نہیں چلیں گی''۔
انہوں نے جعلی ڈگری والوں کے لتے لیتے ہوئے کہا کہ ان کو چھوڑ دیا گیا تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے، میڈیا نے اشرافیہ کی بدعنوانیوں کو جس طرح بے نقاب کرنا شروع کیا ہے اس سے بہت فرق پڑا ہے۔ میرے نزدیک اگر مزید تین جمہوری حکومتوں کو کام کرنے کا موقع مل گیا تو ملک سے بہت سی برائیاں ختم ہو جائیں گی۔ جرنیل کی بیوی ضرور ہوں مگر فوج کی مداخلت کو برا سمجھتی ہوں، فوج سے محبت ایک الگ باب ہے لیکن مداخلت ایک سراسر تلخ حقیقت''۔
'پاکستان کی سول اور ملٹری بیورو کریسی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں، بہ طور ماہرِ تعلیم رزینہ عالم نے اس مشورے پر کہا '' ملک میں اس وقت ہمارا نظام تعلیم طبقاتی بن چکا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے وقت چاہیے، میں نے بھارت جا کر اُن کے نظام تعلیم کا جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے ہاں اے لیول اور او لیول ختم کرکے اپنا سسٹم نافذ کیا ہے لیکن انہیں کم از کم دس سال لگے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک حکومت کوئی اچھا کام شروع کرتی ہے تو دوسری اسے ختم کر دیتی ہے، ہمارے نظام تعلیم میں طبقہ بندی ختم کرنے کو کم از کم دو حکومتیں درکار ہیں، میں نے اس ضمن میں ملک بھر میں یکساں نصاب کے لیے ایک آئوٹ لائن تیار کی ہے، اگر ہم حکومت میں آگئے تو اس پر فوری کام شروع کر دیا جائے گا۔ اگر یہ ہو گیا تو پھر کوئی سرکاری اور فوجی افسر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں سے الگ نہیں رکھ سکے گا لیکن زبردستی کی گئی تو بات بگڑ جائے گی''۔
'' میرے دادا جی حاجی دلدار خان کان پور (بھارت) میں رہائش رکھتے تھے، سرکار نے ان کو رئیس اعظم کا خطاب دے رکھا تھا۔
بٹوارے کے بعد ہمارا خاندان پاکستان آ گیا۔ ہم گیارہ بہن بھائی تھے، میرا نمبرنواں تھا اور میں چھوٹوں کے گروپ میں تھی،گھر میں بچپن کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی، کمسنی کا زمانہ میرے لیے قیمتی اثاثہ ہے، بچپن کی یادوں میںکھو جانا مجھے اب بھی اچھا لگتا ہے،،۔ جب وہ یہ کہ رہی تھیں تو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سچ مچ کہیں دور ماضی کی معصوم وادیوں میں کھو گئی ہیں۔
اپنی شادی کے حوالے سے کہا ''ایم اے مکمل کرنے سے پہلے ہی میں نے والدہ سے کہ دیا تھا، جس دن میں آخری پرچہ دوں بے شک اسی دن میرا نکاح پڑھا دینا لیکن دوران تعلیم شادی نہ کرنا، اماں نے ایسے ہی کیااور1969میں میری شادی میجر شمیم عالم سے ہو گئی، شادی سے پہلے میں نے جنرل صاحب کو دیکھا تک نہیں تھا''۔ رزینہ عالم نے کہا کہ میری والدہ ایک جملہ کہا کرتی تھی کہ'' لڑکیوں کو پانی کی مانند ہونا چاہیے، جس برتن میں بھی ڈالا جائے وہ اسی میں ڈھل جائیں، یہ جملہ سن کر ہم بہت ہنسا کرتے تھے لیکن آج اِس دانش بھرے جملے کی سمجھ آئی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بزرگوں کی باتیں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔ شادی کے بعد اس جملے کی تفہیم مکمل ہوئی، میں نے اپنی کتاب اسی لیے والدہ کے نام کی کہ'' یہ والدہ کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ میں آج اِس مقام پر ہوں'' شوہر کے حوالے سے انہوں نے کہا، ''میں یہ چاہتی تھی کہ کوئی شریف آدمی ہو جو خاتون کی عزت کرنا جانتا ہو۔
جب میں اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کرنے گئی تھی تو کعبہ شریف پر پہلی نظر پڑتے ہی میں نے دعا مانگی کہ یا اللہ مجھے نیک شوہر عطا کرنا، اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی، جنرل شمیم عالم خان ہر لحاظ سے مثالی شوہرثابت ہوئے ''۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ جو کتاب آپ نے لکھی ہے وہ تو پرانی اقدار کی امین ہے تو انہوں نے کہا ''نئے زمانے کے لوگوں نے بھی اس کتاب کو بڑی خوش دلی سے قبول کیا ہے البتہ بہت سی نوجوان لڑکیوں نے مجھ سے جب یہ سوال کیا کہ جو لڑکیاں شادی نہیں کرتیں یا جن کو طلاق ہو جاتی ہے وہ اس کتاب سے کیسے رہ نمائی حاصل کریں تو میں نے صرف اتنا کہا '' لڑکیوں کو مناسب عمر میں شادی کر لینی چاہیے، کیریئر کے چکر میں بہت سی لڑکیاں اپنی عمر کا بہترین حصہ ضائع کر دیتی ہیں۔
عورت پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اُس کے بہن بھائی اور ماں باپ اُسے چھوڑ کر یا تو دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں یا اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں، اِس وقت اکیلے زندگی کاٹنا انتہائی دشوار ہوتا ہے، پاکستان میں تو خاص طور پر ایسی خواتین کو معاشرہ قبول ہی نہیں کرتا، میں پھر کہوں گی کہ شادی کسی بھی عمر میں کی جا سکتی ہے اگر لڑکی یا مطلقہ کو موقع ملے تو اسے ضرور شادی کر لینی چاہیے''۔ پھر مجھے بعض نوجوان لڑکیوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم ہی مرد کی خواہشات اور رجحانات کو سمجھیں کیا یہ ضروری نہیں کہ مرد بھی ہماری خواہشات اور ضروریات کو سمجھے، ہم ہی مردوں کے پیچھے دُم ہلاتی کیوں پھریں؟ میں نے بڑے پیار سے اُن کو سمجھایا کہ ''حقیقت تلخ ہوتی ہے اُسے بدلا نہیں جا سکتا، ہم مردوں کے معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے میں مرد واقعی پھنے خان ہے مگر جب گھر بچانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو مرد ہمیشہ ناکام ہو جاتا ہے، گھر کو اگر بچاتی ہے تو وہ عورت ہی ہوتی ہے اس لیے خواتین کو کسی طرح کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے''۔
میں دعوے سے کہتی ہوں '' جو خواتین اپنے شوہروں کو ذہنی سکون فراہم کرنے کی اہل ہوتی ہیں، اُن کے گھر کبھی تباہ نہیں ہوتے، گھروں کی بربادی کے لیے ذہنی سکون بنیادی حیثیت رکھتا ہے''۔ ذہنی سکون کو رزینہ عالم محبت ہی کی ایک قسم قرار دیتی ہیں ''محبت میں بھی Quantity (مقدار) نہیں Quality (معیار) زیادہ اہم ہے، اس میں گیرائی اور گہرائی ہوتی ہے، فراوانی اشیاء کی ہو خواہ جذبوں کی، خوب نہیں۔''۔
رزینہ عالم نے ایک سوال کے جواب میں کہا میں ماہر تعلیم ہوں اور تعلیم کی اہمیت سے غافل نہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ ''تعلیم کے ساتھ ساتھ جب تک انسان اپنی اقدار سے محبت نہیں کرتا وہ اپنے معاشرے میں کبھی سکھی نہیں رہ سکتا، مثلاً آپ جو چاہے لباس پہنیں مگر عریانیت نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا فیشن پر جو دکھا رہا ہے وہ حقیقت نہیں۔ تعلیم آپ کو سراب اور حقیقت کا فرق بتاتی ہے۔ تعلیم اور اقدار دونوں کے بغیر چارہ نہیں، آپ ذرا غور کریں آج کل جب ایک دلہن بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر باہر آتی ہے تو آدھی عریاں ہوتی ہے، یہ فیشن ہی ہوگا لیکن عورت کے روایتی وقار کے منافی ہے۔''
جدت اور روایت کو کیسے ایک ساتھ رکھا؟ ''روایت گھر سے ملی، جدت گھر سے باہر پائی، اسے محسوس کیا اور میانہ روی اپنائی۔ کام مشکل تھا لیکن نیت صاف ہو تو اللہ مدد کرتا ہے۔ جن دنوں میں اپنی والدہ کے ہم راہ بحری جہاز میں عمرے کے لیے سعودی عرب جا رہی تھی تو میں روزانہ والدہ کو ویل چیئر پر بٹھا کر جہاز کے ڈیک پر ہوا خوری کے لیے لے جاتی، یہ منظر ایک گوری خاتون روز دیکھا کرتی، ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ بوڑھی تمہاری کیا لگتی ہے، میں نے کہا میری ماں ہے، کہا، اِن کے لیے اتنی مشقت کیوں اٹھاتی ہوں۔
'' ہم تو ایسا ہی کرتے ہیں'' میرا جواب تھا ''ماں باپ ہمارے لیے خدا اور رسول کے بعد سب سے معتبر ہوتے ہیں'' پھر پوچھا شادی شدہ ہو؟ میں نے کہا عمرے کے بعد شادی کروں گی۔ ''ہونے والے شوہر کو دیکھا ہے؟'' ''ماں نے دیکھا ہے''۔ اس پر وہ سوچ میں پڑ گئی اور کہنے لگی'' آپ کی ثقافتی اقدار جہان بھر میں اَن مول ہیں، کاش ہمارے بچے بھی ایسے ہوتے'' ۔
پاکستان اگر صنعتی ملک بنتا ہے تو اس میں ہماری اقدار کے لیے گنجائش نکلے گی؟ اِس سوال پر انہوں نے کہا کہ ''میں جب سرکاری سطح پر ایران گئی تو میں نے دیکھا کہ حجاب پہن کر لڑکیاں اور شادی شدہ خواتین کام کر رہی تھیں حالانکہ ان کا حجاب ہمارے پردے سے کہیں مشکل ہے جس کو پہن کر کام کرنا آسان نہیں ہوتا مگر ایرانی خواتین فیکٹریوں میں کام کرنے سے لے کر ٹرک تک چلاتی ہیں، رسالت مآبﷺ کے دور میں حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کا کاروبار دور تک پھیلا ہوا تھا، وہ معاشرتی اقدار میں رہتے ہوئے تجارت کر رہی تھیں، نیت درست ہو تو ہماری اسلامی اقدار صنعتی ترقی میں ہرگز حائل نہیں ہوں گی، دین میں جبر و اکراہ کی کوئی راہ نہیں البتہ تقویٰ ہے، اور تقویٰ خاردار جھاڑیوں سے بچ کر چلنے کا نام ہے''۔
ناپسندیدہ بات کرنے سے پہلے جیسے کوئی تھوڑی دیر کو رکتا ہے، اسی طرح رزینہ عالم نے کچھ توقف کرتے ہوئے کہا ''میں نے سینٹ میں چھے سال گزارے، مجھے ہر طرف منافقت ہی منافقت نظر آئی، قول و فعل کے تضاد نے ہمیں قوم سے ہجوم میں بدل دیا ہے، جب میں دنیا کے دیگر ممالک میں گئی تو حیران ہوئی کہ اسلام کی اصل تعلیمات تو غیروں نے اپنا لی ہیں اور ہم ان کو بھول چکے ہیں، خدا ترسی، وضع داری، صلہ رحمی اور سارے مثبت اوصاف تو ہمارا ورثہ تھے''۔
''مرد کو نیچا دکھانے کی خواہش محض زنانہ ضد ہے، مرد کی فضیلت پر اللہ نے مہر ثبت کر دی ہے، اس پر بحث فضول ہے، ہاں وہ مرد جو اس فضیلت پر پورا نہیں اترتے اُن کی بات دوسری ہے، مرد اور عورت کے درمیان یہ تصادم شاید اس لیے پیدا ہو رہا ہے کہ دونوں کو اپنے حقوق اور فرائض سے مکمل آگاہی حاصل نہیں''۔
مرد دوسری شادی کیوں کرتا ہے؟ ''ہمارے گھروں میں جب ایک ہی چھت تلے میاں بیوی ایک نام نہاد مفاہمت کے تحت بچوں کی خاطر زندگی بسر کر دیتے ہیں، سمجھ لیجئے کہ وہاں معیاری محبت کا فقدان ہے، وہاں محض ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے جب کہ محبت اس سے کہیں مختلف جذبے کا نام ہے، اسی خلاء کی وجہ سے مرد دوسری شادی کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے، عورت اگر پیار کی بھوکی ہے تو مرد اس سے کہیں زیادہ بھوکا ہے۔ کچھ بھی کھا کر بھوک ختم کی جا سکتی ہے لیکن من پسند غذا سے ختم ہونے والی بھوک کے بعد جو ایک نشہ سا طاری ہوتا ہے اُس کا نعم البدل ممکن نہیں، یہ نشہ ہی معیاری محبت ہے، ایسے گھروں میں میاں بیوی دوست نہیں ہوتے بل کہ ایک سیل میں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں، ہر وقت ساتھ رہنے کے باوجود دونوں تنہا ہوتے ہیں، یہ ہی وہ باریکی ہے جو سال ہا سال تک لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی، ایسی تنہائی انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ معیاری محبت کو اگر آسان لفظوں میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ آپ دوسرے کے لیے ناگزیر ہو جائیں، بے مثال بن جائیں، یہ مشکل مقام ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں، اس عمل میں ایک چھوٹی سی احتیاط بہت ضروری ہے وہ یہ کہ آپ اپنے ساتھی پر غیر محسوس طریقے نظر رکھیں لیکن پولیس کی طرح خوف بن کر سوار ہونے سے گریز کریں''۔
رزینہ عالم خان نے کہا کہ محبت کے اِس تجربے اور تحقیق نے اب مجھے ''سنو میرے بیٹے'' لکھنے پر مجبور کر دیا ہے، اب میں وہ لکھوں گی جو مردوں کو کرنا چاہیے، مثلاً چھوٹی سی بات ''بیوی کو ایشوریا رائے مت سمجھیں کیوں کہ آپ شاہ رخ خان نہیں ہیں'' جو مرد بیویوں کو اس تناظر میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانک لیں تو سارا جھگڑا ہی ختم، مرد ہو یا عورت، پرفیکٹ نہیں ہو سکتے، ابنِ آدم خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ آج کل گھروں میں متوقع علیحدگی، طلاق، بے چینی، ناچاقی اور نہ جانے کیا کچھ آپ کو نظر آرہا ہو گا، ان عوامل کے پیچھے احساس کم تری، حسد اور عناد کے علاوہ اب پیسے کی دوڑ بھی شامل ہو گئی ہے۔ ہم کو جس طرح اللہ نے صلاحیتیں دے کر پیدا کیا، ہم وہ بننا نہیں چاہتے ہم دوسرں جیسا بننے کی بھیڑ چال کا شکار ہو چکے ہیں، میں دعویٰ سے کہ سکتی ہوں کہ معاشی آسودگی دائمی خوشیوں کی ضمانت نہیں ہوتی''۔
رزینہ عالم نے جاگیردارانہ سوچ اور صنعتی ترقی کے دور میں روایات کو ساتھ لے کر چلنے پر کہا کہ ترقی کے زینے طے کرنے کے لیے اب گھر کے ہر فرد کو کمانا پڑے گا اگر معاشرے نے فرسودہ سوچوں کو خیر باد نہ کہا تو پھر ترقی رہے گی نہ روایات، دونوں مر جائیں گی۔ اب مرد کو کچن کے کام میں عورت کا ہاتھ بٹانا پڑے گا اور عورت کو بھی خود کفالت کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا جب دونوں احسان جتلانے کی بجائے ہنسی خوشی ایک دوسرے کے مقام کو قبول کرنا سیکھ لیں گے تو ہم صنعتی ترقی اور جاگیرداریت سے بھی کام یابی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ معاشیات کی طالب علم کی حیثیت سے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر کہ سکتی ہوں کہ پاکستان جب زراعت پر مبنی صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہو گا تو ہماری معاشی مشکلات کم ہوں جائیں گی، اِس ضمن میں ہم ملیشیا کا ماڈل سامنے رکھ سکتے ہیں، وہاں اسلام بھی ہے اور صنعتی ترقی بھی، دونوں ہی پھل پھول رہے ہیں، وہاں ایک طرف کیسینو ہے تو دوسری جانب مذہبی اقدار بھی مستحکم ہیں، دین کو زبردستی نافذ نہیں کیا جا سکتا، فرد کو مکمل آزادی دے کر بات منوانے کا نام ہی میرے خیال میں دین کی اصل تعلیم ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستان کیسا ہوگا؟ اس پر انہوں نے کہا'' میں کچھ عرصہ قبل بھارت اپنے عزیز و اقارب سے ملنے گئی، وہاں مجھے ایک انگریز محقق ملا جو پاکستان کے مستقبل پر کتاب لکھ رہا تھا اس کتاب میں بھارت اور پاکستان کے تقابلی جائزے کے لیے وہ ان دنوں بھارت میں تھا، بہ حیثیت سیاست دان وہ مجھ سے مختلف موضوعات پر بات چیت کر رہا تھا اس نے کہا ''پاکستان میں فوج کی مداخلت کی وجہ سے ترقی کا پہیہ چلتے چلتے رکتا رہا، مصنوعی معاشی شرح نمو کی وجہ سے کاغذوں میں ترقی نظر آتی رہی مگر حقیقی ترقی نہ ہو سکی، قیام پاکستان سے لے کر مشرف دور تک ترقی کے میدان میں ایک جیسے تجربات آزمائے جاتے رہے لیکن اب پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے، میرے خیال میں اب پاکستان حقیقی ترقی کی شاہ راہ پر گام زن ہو جائے گا، گو پاکستان میں طبقاتی سطح پر تعلیم کا ستیاناس ہو چکا ہے لیکن میڈیا کے باعث اب لوگ اچھے، برے کے درمیان تمیز کرنے لگے ہیں'' اس محقق کی باتیں سن کر میں حیران رہ گئی کہ اس نے کس باریکی سے ہمارا تجزیہ کیا ہے، اُس وقت میں نے اُس کی باتوں سے مکمل اتفاق نہیں کیا تھا مگر جب یہاں آ کر جائزہ لیا تو مجھے بہت حوصلہ ملا کہ وہ ٹھیک کہ رہا تھا۔ ''اب طبقۂِ اشرافیہ کی خرمستیاں نہیں چلیں گی''۔
انہوں نے جعلی ڈگری والوں کے لتے لیتے ہوئے کہا کہ ان کو چھوڑ دیا گیا تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے، میڈیا نے اشرافیہ کی بدعنوانیوں کو جس طرح بے نقاب کرنا شروع کیا ہے اس سے بہت فرق پڑا ہے۔ میرے نزدیک اگر مزید تین جمہوری حکومتوں کو کام کرنے کا موقع مل گیا تو ملک سے بہت سی برائیاں ختم ہو جائیں گی۔ جرنیل کی بیوی ضرور ہوں مگر فوج کی مداخلت کو برا سمجھتی ہوں، فوج سے محبت ایک الگ باب ہے لیکن مداخلت ایک سراسر تلخ حقیقت''۔
'پاکستان کی سول اور ملٹری بیورو کریسی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں، بہ طور ماہرِ تعلیم رزینہ عالم نے اس مشورے پر کہا '' ملک میں اس وقت ہمارا نظام تعلیم طبقاتی بن چکا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے وقت چاہیے، میں نے بھارت جا کر اُن کے نظام تعلیم کا جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے ہاں اے لیول اور او لیول ختم کرکے اپنا سسٹم نافذ کیا ہے لیکن انہیں کم از کم دس سال لگے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک حکومت کوئی اچھا کام شروع کرتی ہے تو دوسری اسے ختم کر دیتی ہے، ہمارے نظام تعلیم میں طبقہ بندی ختم کرنے کو کم از کم دو حکومتیں درکار ہیں، میں نے اس ضمن میں ملک بھر میں یکساں نصاب کے لیے ایک آئوٹ لائن تیار کی ہے، اگر ہم حکومت میں آگئے تو اس پر فوری کام شروع کر دیا جائے گا۔ اگر یہ ہو گیا تو پھر کوئی سرکاری اور فوجی افسر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں سے الگ نہیں رکھ سکے گا لیکن زبردستی کی گئی تو بات بگڑ جائے گی''۔