کبھی کسی کی نقالی نہیں کی
شہرت کی زندگی مختصر ہے، سفارش کے بجائے ہمیں میرٹ کو ترجیح دینی ہوگی
شبدوں کو لڑی میں پرو کر گیت کی شکل دینا شاعر کا کام ٹھہرا، اور اُسے آواز کا آہنگ عطا کرنا گائیک کی ذمے داری، جو الفاظ اور آواز کا تال میل اِس ڈھب پر بٹھاتا ہے کہ گیت سماعتوں سے ہوتا ہوا سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔
اِس کام کے لیے خلیل قریشی موزوں آدمی ہیں۔ نہ صرف دل کش آواز کے مالک ہیں، بلکہ بلند شعری ذوق بھی رکھتے ہیں۔ خود بھی شعر کہتے ہیں۔ بہ طور غزل گائیک گذشتہ کئی برس سے کراچی میں ہونے والی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اَن گنت پروگرامز میں پرفارم کرچکے ہیں۔ فقط غزل تک خود کو محدود نہیں رکھا۔ دیگر اصناف کا بھی اُنھوں نے کام یابی سے تجربہ کیا۔ موسیقار بھی ہیں۔ کئی غزلیں کمپوز کیں، جو سامعین کے معیار پر پوری اتریں۔ جہاں معروف سیاسی و سماجی شخصیات کے سامنے پرفارم کیا، وہیں میدان گائیکی کے لیجنڈز کے روبرو بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اِس وقت وہ ریڈیو پاکستان سے ڈبل اے کیٹیگری کے آرٹسٹ کے طور پر منسلک ہیں۔ پی ٹی وی اور دیگر چینلز سے نشر ہونے والے پروگرامز میں بھی اپنی کلا کے جلوے بکھیر چکے ہیں۔ اُن کے بڑے بھائی، عطا محمد قریشی بھی غزل گائیکی کا معروف نام ہیں۔ خلیل صاحب شہرت کو عارضی تصور کرتے ہیں۔ کہنا ہے،''اِس کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ اسی لیے میں شہرت کا نہیں، انفرادی شناخت کا خواہش مند ہوں!''
خلیل قریشی کے اجداد کا تعلق انبالہ سے ہے۔ اُنھوں نے 1950 میں کراچی میں مقیم، غلام محمد کے گھر آنکھ کھولی، جو امریکی سفارت خانے میں ملازم تھے۔ یوں تو والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی، مگر غلطیوں پر بچوں کو سزا بھی ملا کرتی۔ دو بہن، دو بھائیوں میں اُن کا نمبر آخری ہے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر بھر کے لاڈلے تھے۔ شمار سنجیدہ طبع بچوں میں ہوتا تھا۔ کھیلوں میں اُنھوں نے فٹ بال اور کرکٹ کا تجربہ کیا۔ ابتدائی تعلیم ماڈل ہائی اسکول، پی ای سی ایچ ایس سے حاصل کی۔ پھر اُن کا گھرانہ کورنگی منتقل ہوگیا۔ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، کورنگی نمبر چار سے اُنھوں نے 67ء میں آرٹس سے میٹرک کیا۔ یہ مرحلہ طے کرتے ہی ''کے پی ٹی'' میں 250 روپے ماہ وار پر ملازم ہوگئے۔ دو برس وہاں بہ طور ٹائپسٹ کام کیا۔ 70ء میں وہ اسٹیٹ بینک کا حصہ بن گئے۔ 97ء تک اُس ادارے سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ 71ء میں انٹر کرنے کے بعد اُنھوں نے اردو کالج سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ پھر اِسی درس گاہ سے ایل ایل بی کا مرحلہ طے کیا۔ کچھ عرصے بہ طور وکیل پریکٹس بھی کی۔ بعد کے برسوں میں خود کو کُلی طور پر گائیکی کے حوالے کر دیا۔
گائیکی کا شوق پروان کیسے چڑھا؟ یہ سوال اُنھیں ماضی میں لے جاتا ہے۔ بتاتے ہیں، بڑے بھائی عطا محمد نے اوائل عمری ہی میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ ''اُن کے ساتھ محفلوں میں جانا ہوتا تھا، جہاں استاد بی بے خان، استاد بشیر خان اور دیگر بڑے گویوں کو سننے کا موقع ملا۔ بس، خواہش ہوئی کہ یہ فن سیکھا جائے۔'' اِس میدان میں اترنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ استاد بی بے خان اور استادنذر حسین جیسے فن کاروں سے فیض حاصل کیا۔ استاد امرائو بندو خان اور مراد بلوچ سے اِس فن کے اسرار و رموز سمجھے۔ الغرض پوری تیاری کے ساتھ یہ سفر شروع کیا۔
نجی محفلوں سے پرفارمینس کے سلسلے کا آغاز ہوا، جہاں اُنھیں سراہا گیا۔ پھر پرائیویٹ پروگرامز کا سلسلہ شروع ہوا۔ بیج لگژری ہوٹل میں ملازم ہوگئے۔ وہاں بارہ برس گاتے رہے۔ اِس طویل تجربے سے فن میں خاصا نکھار آیا۔ پھر ایک نجی محفل میں جنرل مینیجر، پی ٹی وی، اطہر وقار عظیم نے اُنھیں سنا۔ خلیل قریشی کی آواز نے اُنھیں متاثر کیا۔ یوں اس گائیک کی پی ٹی وی تک رسائی ہوئی، جہاں پروگرام ''بزم غزل'' میں اُن کی آواز میں تین غزلیں ریکارڈ ہوئیں۔ یہ تینوں غزلیں اُن ہی کی کمپوز کردہ تھیں۔ بعد میں دیگر چینلز سے بھی اُن کی آواز نشر ہوئی۔ ریڈیو اور ٹی وی سے وابستگی قائم ہے۔ نجی محفلوں میں پرفارمینس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اُنھیں غزل گائیکی کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ اُن کے مطابق فن کار کی کام یابی کا تعلق براہ راست اُس کی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ ''جس میں قابلیت ہوگی، وہ اپنی جگہ بنا لے گا۔'' ہاں، یہ شکایت ضرور ہے کہ میڈیا حقیقی فن کاروں کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکا۔ ''ہمیں سفارش کے بجائے میرٹ کو ترجیح دینی ہوگی۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، لیکن اگر میں نے محنت کی ہے، اور مجھے صلہ نہیں ملے گا، تو مجھ میں مایوسی پیدا ہوگی۔'' اداروں سے بھی نالاں نظر آتے ہیں، جو لاکھوں روپے کماتے ہیں، مگر آرٹسٹ کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
شعرگوئی کی کہانی کچھ یوں ہے کہ آغاز ہی سے شاعری اُنھیں کھینچتی تھی۔ اسٹیٹ بینک کے زمانے میں مظفر وارثی سمیت کئی شعرا سے ملاقات رہی، البتہ 86ء میں شاعر، روشن علی عشرت سے ملنے کے بعد وہ حقیقی معنوں میں شعرگوئی کی جانب متوجہ ہوئے۔ اُن سے اصلاح لینے کے بعد باقاعدگی سے شعر کہنے لگے۔ غزل کی صنف اُن کا انتخاب ٹھہری۔ چند مشاعرے بھی پڑھے۔ تخلیقات شایع بھی ہوئیں۔ بعد کے برسوں میں ڈاکٹر شاداب احسانی سے اکتسابِ فیض کیا۔ شاعری سے اپنے تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں ؎
شاعر ہوں فن و شعر کی تزئین کی خاطر
سوچوں کے سمندر میں گُہر ڈھونڈ رہا ہوں
خلیل قریشی کے مجموعے کی اشاعت جلد متوقع ہے، مگر یہ منصوبہ فقط کتاب ترتیب دینے تک محدود نہیں۔ ساتھ غزلوں کی سی ڈی بھی ہوگی، جس کے وسیلے سامعین خلیل قریشی سے بہ طور شاعر، بہ طور گائیک اور بہ طور موسیقار، بہ یک وقت ملاقات کر سکیں گے۔ اِس سی ڈی کے لیے منتخب کردہ آٹھ غزلیں اُن ہی کی کمپوز کردہ ہیں، اور اُن ہی کی آواز میں ریکارڈ ہوئی ہیں۔ مستقبل کے ارادے اِس منصوبے سے نتھی ہیں۔ اُنھیں امید ہے کہ یہ تجربہ پسند کیا جائے گا۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ محفلوں میں گائیک سے، اُس کی ذاتی کمپوزیشنز سُننے کے بجائے، ماضی کی مقبول غزلیں پیش کرنے کی فرمایش کی جاتی ہے، جس سے اُس کا فن محدود ہوجاتا ہے۔ خلیل قریشی کو اِس کا ادراک ہے، اور اِسی مسئلے کے سدباب کے لیے وہ شعری مجموعے کے ساتھ سی ڈی مارکیٹ میں لانے کے منصوبے میں جُٹے ہیں۔ ''ہر فن کار کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میں اپنی آواز، اپنی کمپوزیشن اور اپنی شاعری سے پہچان بنائوں۔ میں نے کبھی کسی کی نقالی نہیں کی۔ مہدی حسن صاحب کو گایا، مکیش کا آئٹم پیش کیا، تو اپنی ہی آواز میں پیش کیا، اپنی شناخت برقرار رکھی۔''
کیا نجی محفلوں میں پرفارم کرنے والے گائیک کے لیے شناخت کا حصول نسبتاً دشوار ہوتا ہے؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''یہ بات سچ ہے۔ دیکھیں، جن فن کاروں کو ٹی وی کو سہارا مل جاتا ہے، میڈیا کی توجہ حاصل ہوتی ہے، وہ جلد شناخت کا زینہ عبور کر لیتے ہیں۔ پھر اُنھیں صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا۔ یہ ایک المیہ ہے۔''
آپ برسوں سے میدان گائیکی سے جُڑے ہیں، کیا سبب ہے کہ عام سامعین تک آپ کا فن نہیں پہنچ سکا؟ اِس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں،''سامعین کی تعداد تو ویسے ہی اب بہت کم رہ گئی ہے۔ پھر میرا معاملہ یہ ہے کہ میں خود کہیں نہیںجاتا، سفارش نہیں کرواتا۔ اگر کوئی محبت اور احترام سے مدعو کرے، تو ٹھیک ہے، ورنہ کوئی بات نہیں!''
کیا گائیکی سے اتنی یافت ہوجاتی ہے کہ فن کار کا گھر چل سکے؟ اِس سوال کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''فقط گائیکی پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ آپ کا شوق ہے، تو اِسے ضرور پورا کریں، مگر گائیکی کو پیشہ نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ سوچ لینا کہ پروگرام ملے گا، تب ہی گھر کا راشن آئے گا، غلط ہے۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں پروفیشنل گلوکار ہوں، مگر کمرشل بنیادوں پر یہ کام نہیں کرتا۔''
یوں تو ہر پرفارمینس میں خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر 2001 میں کراچی کے علاقے ڈیفینس میں ہونے والی ایک محفل سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں، جہاں اُنھوں نے کھل کر پرفارم کیا، اپنے من پسند آئٹمز پیش کیے، اور خوب داد بٹوری۔ بات چیت کے دوران ایک طویل دورانیے کی پرفارمینس کا بھی ذکر آتا ہے، جب اُنھوں نے کریک کلب میں گیارہ بجے اسٹیج سنبھالا، اور فجر تک گاتے رہے۔ کبھی کبھار بیرونی حالات بھی پرفارمینس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بتاتے ہیں، نیو ایئر کی رات وہ ایک ہوٹل میں پرفارم کر رہے تھے، بارہ بجتے ہی من چلے فائرنگ کرنے لگے، جس کی وجہ سے کھلبلی مچ گئی، صورت حال اتنی بگڑ گئی کہ پروگرام ختم کرنا پڑا۔
پسندیدہ فن کاروں کا موضوع نکلے، اور موسیقاروں کی بات ہو، تو وہ استاد نذر محمد (سرود نواز) کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔ غزل گائیکی میں مہدی حسن اور اعجاز حسین ہزروی کا نام لیتے ہیں۔ فلمی گائیکی میں حبیب ولی عمر، سلیم رضا اور منیر حسین پسند ہیں۔ ہم عصروں میں اشتیاق بشیر کا نام لیتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ ہلکی غذا لیتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ ہر وہ کتاب، جس میں اصلاح کا پہلو ہو، اچھی لگتی ہے۔ شاعری میں فیض اور قتیل شفائی کے مداح ہیں۔ فکشن میں زیادہ دل چسپی نہیں۔ اخبارات باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے نیوز پروگرام توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ پرانی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ دلیپ کمار کے مداح ہیں۔ 71ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے اُنھیں دو بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں میں گائیکی کا شوق تو منتقل نہیں ہوا، البتہ سننے کا ذوق رکھتے ہیں۔ خلیل قریشی کہتے ہیں، انھوں نے شوق اور گھریلو ذمے داریوں میں ہمیشہ توازن قائم رکھا۔ کبھی گھر والوں کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔ محبت اُن کے نزدیک کامل ترین جذبہ ہے، جسے وہ انسانی اقدار کا ماخذ تصور کرتے ہیں۔ اِس جذبے کو اپنے ہی ایک شعر میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں ؎
بس ایک لفظِ محبت میں چُھپا ہے انساں
نہیں یہ لفظ تو انساں کی حقیقت کیا ہے
اِس کام کے لیے خلیل قریشی موزوں آدمی ہیں۔ نہ صرف دل کش آواز کے مالک ہیں، بلکہ بلند شعری ذوق بھی رکھتے ہیں۔ خود بھی شعر کہتے ہیں۔ بہ طور غزل گائیک گذشتہ کئی برس سے کراچی میں ہونے والی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اَن گنت پروگرامز میں پرفارم کرچکے ہیں۔ فقط غزل تک خود کو محدود نہیں رکھا۔ دیگر اصناف کا بھی اُنھوں نے کام یابی سے تجربہ کیا۔ موسیقار بھی ہیں۔ کئی غزلیں کمپوز کیں، جو سامعین کے معیار پر پوری اتریں۔ جہاں معروف سیاسی و سماجی شخصیات کے سامنے پرفارم کیا، وہیں میدان گائیکی کے لیجنڈز کے روبرو بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اِس وقت وہ ریڈیو پاکستان سے ڈبل اے کیٹیگری کے آرٹسٹ کے طور پر منسلک ہیں۔ پی ٹی وی اور دیگر چینلز سے نشر ہونے والے پروگرامز میں بھی اپنی کلا کے جلوے بکھیر چکے ہیں۔ اُن کے بڑے بھائی، عطا محمد قریشی بھی غزل گائیکی کا معروف نام ہیں۔ خلیل صاحب شہرت کو عارضی تصور کرتے ہیں۔ کہنا ہے،''اِس کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ اسی لیے میں شہرت کا نہیں، انفرادی شناخت کا خواہش مند ہوں!''
خلیل قریشی کے اجداد کا تعلق انبالہ سے ہے۔ اُنھوں نے 1950 میں کراچی میں مقیم، غلام محمد کے گھر آنکھ کھولی، جو امریکی سفارت خانے میں ملازم تھے۔ یوں تو والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی، مگر غلطیوں پر بچوں کو سزا بھی ملا کرتی۔ دو بہن، دو بھائیوں میں اُن کا نمبر آخری ہے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر بھر کے لاڈلے تھے۔ شمار سنجیدہ طبع بچوں میں ہوتا تھا۔ کھیلوں میں اُنھوں نے فٹ بال اور کرکٹ کا تجربہ کیا۔ ابتدائی تعلیم ماڈل ہائی اسکول، پی ای سی ایچ ایس سے حاصل کی۔ پھر اُن کا گھرانہ کورنگی منتقل ہوگیا۔ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، کورنگی نمبر چار سے اُنھوں نے 67ء میں آرٹس سے میٹرک کیا۔ یہ مرحلہ طے کرتے ہی ''کے پی ٹی'' میں 250 روپے ماہ وار پر ملازم ہوگئے۔ دو برس وہاں بہ طور ٹائپسٹ کام کیا۔ 70ء میں وہ اسٹیٹ بینک کا حصہ بن گئے۔ 97ء تک اُس ادارے سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ 71ء میں انٹر کرنے کے بعد اُنھوں نے اردو کالج سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ پھر اِسی درس گاہ سے ایل ایل بی کا مرحلہ طے کیا۔ کچھ عرصے بہ طور وکیل پریکٹس بھی کی۔ بعد کے برسوں میں خود کو کُلی طور پر گائیکی کے حوالے کر دیا۔
گائیکی کا شوق پروان کیسے چڑھا؟ یہ سوال اُنھیں ماضی میں لے جاتا ہے۔ بتاتے ہیں، بڑے بھائی عطا محمد نے اوائل عمری ہی میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ ''اُن کے ساتھ محفلوں میں جانا ہوتا تھا، جہاں استاد بی بے خان، استاد بشیر خان اور دیگر بڑے گویوں کو سننے کا موقع ملا۔ بس، خواہش ہوئی کہ یہ فن سیکھا جائے۔'' اِس میدان میں اترنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ استاد بی بے خان اور استادنذر حسین جیسے فن کاروں سے فیض حاصل کیا۔ استاد امرائو بندو خان اور مراد بلوچ سے اِس فن کے اسرار و رموز سمجھے۔ الغرض پوری تیاری کے ساتھ یہ سفر شروع کیا۔
نجی محفلوں سے پرفارمینس کے سلسلے کا آغاز ہوا، جہاں اُنھیں سراہا گیا۔ پھر پرائیویٹ پروگرامز کا سلسلہ شروع ہوا۔ بیج لگژری ہوٹل میں ملازم ہوگئے۔ وہاں بارہ برس گاتے رہے۔ اِس طویل تجربے سے فن میں خاصا نکھار آیا۔ پھر ایک نجی محفل میں جنرل مینیجر، پی ٹی وی، اطہر وقار عظیم نے اُنھیں سنا۔ خلیل قریشی کی آواز نے اُنھیں متاثر کیا۔ یوں اس گائیک کی پی ٹی وی تک رسائی ہوئی، جہاں پروگرام ''بزم غزل'' میں اُن کی آواز میں تین غزلیں ریکارڈ ہوئیں۔ یہ تینوں غزلیں اُن ہی کی کمپوز کردہ تھیں۔ بعد میں دیگر چینلز سے بھی اُن کی آواز نشر ہوئی۔ ریڈیو اور ٹی وی سے وابستگی قائم ہے۔ نجی محفلوں میں پرفارمینس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اُنھیں غزل گائیکی کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ اُن کے مطابق فن کار کی کام یابی کا تعلق براہ راست اُس کی صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ ''جس میں قابلیت ہوگی، وہ اپنی جگہ بنا لے گا۔'' ہاں، یہ شکایت ضرور ہے کہ میڈیا حقیقی فن کاروں کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکا۔ ''ہمیں سفارش کے بجائے میرٹ کو ترجیح دینی ہوگی۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، لیکن اگر میں نے محنت کی ہے، اور مجھے صلہ نہیں ملے گا، تو مجھ میں مایوسی پیدا ہوگی۔'' اداروں سے بھی نالاں نظر آتے ہیں، جو لاکھوں روپے کماتے ہیں، مگر آرٹسٹ کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
شعرگوئی کی کہانی کچھ یوں ہے کہ آغاز ہی سے شاعری اُنھیں کھینچتی تھی۔ اسٹیٹ بینک کے زمانے میں مظفر وارثی سمیت کئی شعرا سے ملاقات رہی، البتہ 86ء میں شاعر، روشن علی عشرت سے ملنے کے بعد وہ حقیقی معنوں میں شعرگوئی کی جانب متوجہ ہوئے۔ اُن سے اصلاح لینے کے بعد باقاعدگی سے شعر کہنے لگے۔ غزل کی صنف اُن کا انتخاب ٹھہری۔ چند مشاعرے بھی پڑھے۔ تخلیقات شایع بھی ہوئیں۔ بعد کے برسوں میں ڈاکٹر شاداب احسانی سے اکتسابِ فیض کیا۔ شاعری سے اپنے تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں ؎
شاعر ہوں فن و شعر کی تزئین کی خاطر
سوچوں کے سمندر میں گُہر ڈھونڈ رہا ہوں
خلیل قریشی کے مجموعے کی اشاعت جلد متوقع ہے، مگر یہ منصوبہ فقط کتاب ترتیب دینے تک محدود نہیں۔ ساتھ غزلوں کی سی ڈی بھی ہوگی، جس کے وسیلے سامعین خلیل قریشی سے بہ طور شاعر، بہ طور گائیک اور بہ طور موسیقار، بہ یک وقت ملاقات کر سکیں گے۔ اِس سی ڈی کے لیے منتخب کردہ آٹھ غزلیں اُن ہی کی کمپوز کردہ ہیں، اور اُن ہی کی آواز میں ریکارڈ ہوئی ہیں۔ مستقبل کے ارادے اِس منصوبے سے نتھی ہیں۔ اُنھیں امید ہے کہ یہ تجربہ پسند کیا جائے گا۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ محفلوں میں گائیک سے، اُس کی ذاتی کمپوزیشنز سُننے کے بجائے، ماضی کی مقبول غزلیں پیش کرنے کی فرمایش کی جاتی ہے، جس سے اُس کا فن محدود ہوجاتا ہے۔ خلیل قریشی کو اِس کا ادراک ہے، اور اِسی مسئلے کے سدباب کے لیے وہ شعری مجموعے کے ساتھ سی ڈی مارکیٹ میں لانے کے منصوبے میں جُٹے ہیں۔ ''ہر فن کار کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میں اپنی آواز، اپنی کمپوزیشن اور اپنی شاعری سے پہچان بنائوں۔ میں نے کبھی کسی کی نقالی نہیں کی۔ مہدی حسن صاحب کو گایا، مکیش کا آئٹم پیش کیا، تو اپنی ہی آواز میں پیش کیا، اپنی شناخت برقرار رکھی۔''
کیا نجی محفلوں میں پرفارم کرنے والے گائیک کے لیے شناخت کا حصول نسبتاً دشوار ہوتا ہے؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''یہ بات سچ ہے۔ دیکھیں، جن فن کاروں کو ٹی وی کو سہارا مل جاتا ہے، میڈیا کی توجہ حاصل ہوتی ہے، وہ جلد شناخت کا زینہ عبور کر لیتے ہیں۔ پھر اُنھیں صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا۔ یہ ایک المیہ ہے۔''
آپ برسوں سے میدان گائیکی سے جُڑے ہیں، کیا سبب ہے کہ عام سامعین تک آپ کا فن نہیں پہنچ سکا؟ اِس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں،''سامعین کی تعداد تو ویسے ہی اب بہت کم رہ گئی ہے۔ پھر میرا معاملہ یہ ہے کہ میں خود کہیں نہیںجاتا، سفارش نہیں کرواتا۔ اگر کوئی محبت اور احترام سے مدعو کرے، تو ٹھیک ہے، ورنہ کوئی بات نہیں!''
کیا گائیکی سے اتنی یافت ہوجاتی ہے کہ فن کار کا گھر چل سکے؟ اِس سوال کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''فقط گائیکی پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ آپ کا شوق ہے، تو اِسے ضرور پورا کریں، مگر گائیکی کو پیشہ نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ سوچ لینا کہ پروگرام ملے گا، تب ہی گھر کا راشن آئے گا، غلط ہے۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں پروفیشنل گلوکار ہوں، مگر کمرشل بنیادوں پر یہ کام نہیں کرتا۔''
یوں تو ہر پرفارمینس میں خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر 2001 میں کراچی کے علاقے ڈیفینس میں ہونے والی ایک محفل سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں، جہاں اُنھوں نے کھل کر پرفارم کیا، اپنے من پسند آئٹمز پیش کیے، اور خوب داد بٹوری۔ بات چیت کے دوران ایک طویل دورانیے کی پرفارمینس کا بھی ذکر آتا ہے، جب اُنھوں نے کریک کلب میں گیارہ بجے اسٹیج سنبھالا، اور فجر تک گاتے رہے۔ کبھی کبھار بیرونی حالات بھی پرفارمینس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بتاتے ہیں، نیو ایئر کی رات وہ ایک ہوٹل میں پرفارم کر رہے تھے، بارہ بجتے ہی من چلے فائرنگ کرنے لگے، جس کی وجہ سے کھلبلی مچ گئی، صورت حال اتنی بگڑ گئی کہ پروگرام ختم کرنا پڑا۔
پسندیدہ فن کاروں کا موضوع نکلے، اور موسیقاروں کی بات ہو، تو وہ استاد نذر محمد (سرود نواز) کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔ غزل گائیکی میں مہدی حسن اور اعجاز حسین ہزروی کا نام لیتے ہیں۔ فلمی گائیکی میں حبیب ولی عمر، سلیم رضا اور منیر حسین پسند ہیں۔ ہم عصروں میں اشتیاق بشیر کا نام لیتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ ہلکی غذا لیتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ ہر وہ کتاب، جس میں اصلاح کا پہلو ہو، اچھی لگتی ہے۔ شاعری میں فیض اور قتیل شفائی کے مداح ہیں۔ فکشن میں زیادہ دل چسپی نہیں۔ اخبارات باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے نیوز پروگرام توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ پرانی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ دلیپ کمار کے مداح ہیں۔ 71ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے اُنھیں دو بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں میں گائیکی کا شوق تو منتقل نہیں ہوا، البتہ سننے کا ذوق رکھتے ہیں۔ خلیل قریشی کہتے ہیں، انھوں نے شوق اور گھریلو ذمے داریوں میں ہمیشہ توازن قائم رکھا۔ کبھی گھر والوں کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔ محبت اُن کے نزدیک کامل ترین جذبہ ہے، جسے وہ انسانی اقدار کا ماخذ تصور کرتے ہیں۔ اِس جذبے کو اپنے ہی ایک شعر میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں ؎
بس ایک لفظِ محبت میں چُھپا ہے انساں
نہیں یہ لفظ تو انساں کی حقیقت کیا ہے