تربیت ضروری ہے
اب یہی ہماری پہچان ہے کہ ہم مسجدوں اور عبادت گاہوں کو بم سے اڑاتے ہیں۔
انٹرنیٹ، فیس بک، موبائل فون اور کمپیوٹر کے حوالے سے ایک عرصے سے بڑی منفی خبریں آرہی ہیں، ایکسپریس کے پروگرام ''بات سے بات'' میں جو باتیں سامنے لائی گئیں ان پر ایک کالم میں بات ہوچکی ہے۔ لیکن بعض باتیں اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جو کہیں رپورٹ نہیں ہوتے، البتہ نجی محفلوں اور ملاقاتوں میں ان کا ذکر خاصی تفصیل سے کیا جاتا ہے۔ ایک طبقہ موبائل فون اور کمپیوٹر کو ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیتا ہے جوکہ سراسر غلط ہے۔ چھری سے پھل بھی کاٹے جاتے ہیں اور کسی کو زخمی بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ اس چھری کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے نہ کہ چھری اس کی ذمے دار ہے۔ بعض انتہا پسند اور تنگ نظر خاندانوں میں ٹی وی کو آج تک ''شیطان کا ڈبہ'' کہا جاتا ہے۔ اب یہ تو دیکھنے والوں کی ذمے داری اور پسند ہے کہ وہ کون سے پروگرام دیکھتے ہیں، اس میں بھلا بے جان ٹیلی ویژن سیٹ کا کیا قصور؟ قصور اس ہاتھ کا ہے جس میں ریموٹ کنٹرول اور کمپیوٹر کا ''ماؤس'' ہے۔
جو اشیاء اہل مغرب انسانی فلاح و بہبود کے لیے ایجاد کرتے ہیں، ہم ان کو تخریبی کارروائیوں کے لیے مختص کردیتے ہیں، منفی سرگرمیوں میں ان کا استعمال کرتے ہیں، لیکن خود کبھی ہمیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ کوئی ایسی ایجاد ہم بھی کریں جس سے دنیا میں ہمارا بھی نام ہو، جو انسانوں کی فلاح کے لیے ہے۔ ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے، نہیں بالکل نہیں۔ قومی و ملکی سطح پر ہمارا کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے جو ہمیں عالمی شہرت اور پہچان دلواسکے۔ البتہ اگر پہچان ہم نے بنائی ہے تو صرف جہالت، مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے۔
اب یہی ہماری پہچان ہے کہ ہم مسجدوں اور عبادت گاہوں کو بم سے اڑاتے ہیں۔ معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر فتح کا پرچم بلند کرتے ہیں، بندوقیں ہوا میں لہرا کر رقص ابلیس کا اہتمام کرتے ہیں اور فخر صرف اس بات پر کہ ہم ''کلمہ گو'' ہیں، ''اہل ایمان'' ہیں۔ ماشاء اللہ! کیا کہنے ان اہل ایمان کے جنہوں نے اپنی نبیؐ کی تعلیمات کو یکسر فراموش کرکے حسن بن صباح کے فلسفے کو فروغ دیا اور تبرے کو اپنے عقیدے کا حصہ بنا لیا۔ اہل مغرب کو جی بھر کے گالیاں دیں، پہلے ان کی ایجادوں پر کفر کے فتوے دیے کہ یہ کام بہت ہی آسان ہے اور پھر انھی کی ایجادات سے زندگی آسان اور رنگین بنا لی۔
لاؤڈ اسپیکر سے لے کر موبائل فون تک اور ماچس سے لے کر مائیکرو ویو اوون تک سب انھیں یہود و نصاریٰ کی ایجادیں، اوپن ہارٹ سرجری، سے لے کر مائیگرین کی دوا تک سب انھی کے کارنامے اور ہم۔۔۔۔۔؟ پولیو جیسے خوفناک مرض کو فروغ دینے والے۔۔۔۔شاہ دولہ کے چوہے پیدا کرنے والے، بچوں کو اغواء کرکے انھیں زبردستی خودکش بمبار بنانے والے اور نفرتوں کو فروغ دینے والے۔۔۔۔۔۔ابھی تو ان کے ہاتھ ایٹم بم نہیں لگا، ایٹمی ہتھیار نہیں لگے ورنہ یہ تو اپنے ہی ملک کو ایک منٹ میں راکھ کا ڈھیر بنادیں کہ یہ تو بچھو اور سانپ سے بھی بدتر ہیں۔ بچھو اور سانپ بھی اپنی برادری کو نہیں ڈستے۔ موبائل فون ایجاد ہوا انسان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے، لیکن اسے استعمال کیا جارہا ہے بم دھماکوں کے لیے، تخریب کاری کے لیے ۔
لیکن اس وقت موبائل فون سے پیدا ہونے والی اس خوفناک صورت حال کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں جو مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ یہ موضوع ایسا ہے جس پر قلم کاروں کو زیادہ سے زیادہ لکھنا چاہیے۔ کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ ان کے لیے سیاست پر ٹاک شوز کرنا مجبوری ہے۔ سماجی اور اخلاقی موضوعات کو وہ بوجوہ اہمیت نہیں دیتے، شاید ایسے پروگراموں کے لیے اسپانسرز نہیں ملتے۔ البتہ فیشن شوز، کیٹ واک کے نام پر بے حیائی کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے خود چل کر ان کے پاس آجاتے ہیں۔ ڈراموں میں بھی اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور یہ سب ''ریٹنگ'' کے نام پر ہورہا ہے۔ شاید ریٹنگ کا یہ بھوت ایک دن ایسا جلوہ دکھائے گا کہ خواتین کے جسم پر برائے نام لباس رہ جائے گا۔ کیونکہ دوپٹہ اور قمیض کی آستینیں تو جسموں سے مدتوں پہلے غائب ہوچکی ہیں، آگے آگے دیکھیے کہ مغرب ہماری خواتین کو دیکھ کر شرمائے گا۔
ہاں تو میں بات کر رہی تھی موبائل فون کے ذریعے پھیلنے والی فحاشی اور غیر اخلاقی رویوں کی۔ صرف چند وہ واقعات بتانا چاہتی ہوں جو کہیں رپورٹ نہیں ہوئے۔ البتہ ان کی گونج مختلف محفلوں اور گھروں میںسنی گئی، کہیں بربادیاں مقدر ٹھہریں، کہیں بے غیرتی اور بے شرمی کو فیشن اور ماڈرن ازم کے نام پر اپنا لیا گیا۔ میٹرک کی دو طالبات کی دوستی موبائل فون پر دو لڑکوں سے ہوئی، اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ ایک طالبہ جس کے والد صنعت کار ہیں کے موبائل پر ایک مس کال آئی، دو تین بار کے بعد یہ مس کال اجنبی نہ رہی۔ دونوں ملنے لگے، پھر اس لڑکی نے اپنی سہیلی کو بھی اس راز میں شریک کرلیا تاکہ جب وہ لڑکے کے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے جائے تو پروٹیکشن کے طور پر سہیلی ساتھ ہو۔
چند دن بعد سہیلی کی دوستی بھی ایک لڑکے سے ہوگئی جو پہلے والے لڑکے کا دوست تھا۔ دونوں امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور بھاری بھرکم فیسوں والے کالجوں میں پڑھتے تھے۔ پہلی والی لڑکی کے والد کے کئی فلیٹ تھے جو کرائے پر دیے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک فلیٹ خالی تھا جو بکنے کے لیے رکھا تھا، لڑکی اپنے دوستوں کو اس فلیٹ میں لے آتی، اکثر چاروں اسکول اور کالجوں سے غائب رہتے اور جس دن زیادہ دیر تک ٹھہرنا ہوتا اس دن دونوں لڑکیاں ایکسٹرا کلاس کا بہانہ بنا دیتیں۔ یا پھر ایک دوسرے کے گھر جاکر جوائنٹ اسٹڈی کرنے کا کہہ کر گھروں سے دیر تک غائب رہتیں۔ والدین کی اپنی اپنی مصروفیات۔ ایک کی والدہ بیوٹی پارلر چلاتی ہیں اور دوسری نے وقت گزاری کے لیے بوتیک کھولا ہوا ہے۔
شارٹ کٹ سے امیر بننے والوں کے لیے اپنی پہچان بنانے کے لیے بچوں کو آزادی دینی لازمی سمجھی جاتی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ پہلی والی لڑکی گھر سے نقدی، زیورات، لیپ ٹاپ، پرائز بونڈز لے کر لڑکے کے ساتھ فرار ہوگئی، لیکن دوسری نے عین وقت پر اس لیے ہمت ہاردی کہ جس وقت وہ بیگ میں قیمتی سامان رکھ رہی تھی کہ اچانک ماں کسی کام سے گھر آگئیں اور بیٹی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔ اس نے وقتی طور پر تو بہانہ بناکر اپنی جان بچالی، لیکن اصل واقعے سے پردہ اس وقت اٹھا جب شام تک پہلی والی لڑکی گھر نہ پہنچی، اس کی ماں جب رات دس بجے پارلر بند کرکے گھر آئیں تو باپ اور بھائیوں نے ان کی خوب خبر لی، پھر یہ لوگ دوسری لڑکی کے گھر پہنچے۔ تب ساری بات کھلی۔ پھر یہ لوگ اس فلیٹ پر گئے جہاں یہ چاروں وقت گزارتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک لیڈی ڈاکٹر کا کارڈ اور کلینک کا پتہ فلیٹ سے ملا۔ جہاں جاکر مزید سنسنی خیز انکشافات ہوئے ۔ پہلی لڑکی کا کوئی سراغ نہیں ملا، دونوں خاندان بدنامی کے ڈر سے پولیس کے پاس نہیں گئے۔ ان کا جو نقصان ہونا تھا ہوچکا تھا۔ البتہ انھوں نے یہ بات پھیلادی کہ لڑکی اپنے ماموں کے پاس ملتان گئی ہے۔ کچھ دنوں میں واپس آجائے گی پھر یہ خبر پھیلادی کہ اس کا وہیں ماموں زاد سے نکاح ہوگیا ہے۔ خود بھی پندرہ دن کے لیے کہیں چلے گئے۔ لیکن ایسی باتیں چھپتی کہاں ہیں، گھر کی ملازمہ نے خبر پھیلا دی ۔ ابھی اور بھی بہت کچھ ہے کہنے کو، لیکن پھر کسی اگلے کالم میں، انتظار کیجیے۔