عوام کی عدالت

طاہر القادری نے تو انتہا کر دی جب انھوں نے لاہور کے جلسے میں فوج اور عدلیہ کو’’ اسٹیک ہولڈرز‘‘ قرار دے دیا۔


MJ Gohar February 28, 2013
[email protected]

ملک میں پارلیمانی نظام کی حمایت اور جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے پاک فوج کی موجودہ قیادت کے مثبت کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جنرل اشفاق پرویز کیانی صحیح معنوں میں ایک پیشہ ور فوجی ہیں انھوں نے پاک فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد سول اداروں میں تعینات فوجی افسروں کو واپس بیرکوں میں بلوایا اور برملا اس امر کی یقین دہانی بھی کرائی کہ فوج اپنے پیشہ ورانہ فرائض تک محدود رہے گی۔ بعد ازاں مختلف مواقعوں پر جنرل کیانی ملک میں جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے حوصلہ افزا بیانات بھی دیتے رہے، ماضی میں کسی آرمی چیف نے ملک جمہوری نظام کے تسلسل و استحکام کے ضمن میں اس قدر تعمیری اور مثبت رول ادا نہیں کیا بلکہ بعض فوجی جنرل تو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کی راہیں تلاش کرتے رہے۔

نتیجتاً جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک چار مرتبہ جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ اس پر مستزاد عدلیہ کا افسوس ناک کردار تھا جس نے ہر آمر وقت کے ہاتھ پر بیعت کر لی، حاکم جرنیلوں کے سینے اور چوڑے ہو گئے، ایک جنرل نے ملک کے مقبول ترین اور ہر دلعزیز رہنما اور عالمی سطح کے مدبر سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا دیا تو دوسرے جنرل کے دور حکومت میں بھٹو شہید کی بہادر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، جنرل کیانی نے اپنے پیش رو جرنیلوں کی طرح کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے گریز کیا اور مشکل حالات میں بھی سول حکومت کی حمایت جاری رکھی یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام مکاتب فکر کی جانب سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے مثبت و تعمیری کردار کی تحسین کی جاتی ہے۔

آپ گزشتہ پانچ سال کے حالات و واقعات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کے مخالفین وقفے وقفے سے ''شاطرانہ تھیوریاں'' پیش کرتے اور حکومت کے خاتمے اور صدر آصف علی زرداری کے ایوان صدر سے نکلنے کی ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دیتے رہے، پاک فوج کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے اور اپنے مخصوص انداز میں عسکری قیادت کی ''منتیں سماجتیں'' بھی کرتے رہے کہ کسی صورت وہ جمہوریت شب خون مارنے پر مائل ہو جائیں اور ان کی خواہشوں کے پھول کھل اٹھیں، لیکن سازشی عناصر کی تمام ڈیڈ لائنیں بالآخر ''ڈیڈ'' ہو گئیں، جنرل کیانی نے اپنا قول نبھایا اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

طاہر القادری نے تو انتہا کر دی جب انھوں نے لاہور کے جلسے میں فوج اور عدلیہ کو'' اسٹیک ہولڈرز'' قرار دے دیا۔ انھیں اس بات کا ادراک ہی نہ ہوا کہ آج کی فوجی قیادت اور عدلیہ ماضی کی تلخیوں سے دامن چھڑا چکی ہیں اور ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کی حامی ہیں اور دونوں اہم ادارے آئینی دائرہ کار کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ مولانا کی آواز اس وقت ''صدا بہ صحرا'' ثابت ہوئی جب جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم سے ملاقات میں عام انتخابات کے انعقاد پر اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا پھر حضرت کی مایوسی بڑھ گئی تو وہ ''آخری امید'' لیے بھاگم بھاگ الیکشن کمیشن کے خلاف پٹیشن کے ہمراہ عدالت عظمیٰ جا پہنچے، لیکن وہاں ان کی جو ''عزت افزائی'' ہوئی شاید وہ اسے ساری زندگی نہ بھول سکیں اور اب پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم کے اس وضاحتی بیان نے تو گویا حکومت اور جمہوریت مخالف تمام سازشی عناصر کے تابوتوں میں آخری کیل ٹھونک دی ہے کہ ''فوج بروقت ملک میں آزادانہ و شفاف انتخابات چاہتی ہے التوا سے ہمارا کوئی سروکار نہیں، فوج نے پانچ سال تک جمہوریت کی بھرپور حمایت کی اور آیندہ بھی کریں گے اس لیے اب پالیسی بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم جمہوری عمل کے حامی ہیں۔ طاہر القادری یا بنگلہ دیش ماڈل سے کوئی تعلق نہیں''۔

پاک فوج کا میڈیا کے ذریعے انتخابات کے بر وقت انعقاد کی خواہش اور طاہر القادری و بنگلہ دیش ماڈل سے لاتعلقی کا برملا اظہار اس بات کا عکاس ہے کہ فوج کسی بھی غیر جمہوری اقدام کے ذریعے جمہوریت کی بساط آج اور آیندہ بھی لپیٹنے کے حق میں نہیں اور نہ تو انتخابات موخر یا ملتوی ہوں گے اور نہ ہی ٹیکنوکریٹ کی لانگ ٹرم حکومت بننے کا کہیں کوئی امکان ہے بلکہ ملک میں بر وقت اور شفاف انتخابات منعقد ہوں گے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے والی ایک جمہوری حکومت سے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہو گا۔

اور فوج اس پورے عمل کی حمایت کرے گی جو بلا شبہ عسکری قیادت کی مثبت سوچ اور جمہوریت کے استحکام کی علامت، جمہوریت پسند حلقوں کی فتح اور ان تمام سازشی عناصر کی شکست کے مترادف ہے جو پانچ سال تک جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی تگ و دو میں مصروف رہے اور چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے آرزو مند تھے، در حقیقت ایسے لوگ عوامی احتساب کا سامنا نہیں کر سکتے، جیسا کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ہم اپنے پانچ سالہ حکومتی دور کا حساب دینے کو تیار ہیں، ہم سمیت سب کو عوام کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا، عوام ہی سب کا احتساب کریں گے، وزیر اعظم نے واضح طور پر کہا کہ پیپلز پارٹی نے گزشتہ پانچ سال میں جو کام کیے وہ ماضی میں کسی حکومت نے نہیں کیے ۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران قدم قدم سازشیں کسی مہیب سائے کی طرح پیپلز پارٹی کا پیچھا کرتی رہیں ہر امتحان کے بعد ایک نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑا، پوری یکسوئی اور انہماک سے کام کرنے اور عوام کی خدمت کا موقع نہ ملا، پھر بھی صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جو اچھے کام کیے ہیں اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ آج کے دور میں اقتدار اور اختیار کون چھوڑتا ہے؟ لیکن صدر زرداری نے اپنے تمام اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دیے، اپوزیشن کی مشاورت سے آئینی ترامیم کی گئیں اور 1873ء کا آئین بحال کیا گیا نہ صرف صوبائی خود مختاری کا دیرینہ مسئلہ حل ہوا بلکہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے حوالے سے تنازعات کا چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی مشاورت سے قابل قبول حل تلاش کیا گیا۔

صوبہ سرحد کے عوام کی خواہش کے احترام میں اس کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت آج بھی لاکھوں غریبوں کی مالی امداد کی جا رہی ہے۔ بجلی و گیس کے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے ایران سے گیس پائپ لائن کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا گیا، گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے کے فیصلے پر بلوچستان کے لوگوں کو روزگار کے نئے مواقعے ملیں گے اور ملکی معیشت کو بھی استحکام حاصل ہو گا۔ صوبائی سطح پر بھی پیپلز پارٹی کی حکومت نے اچھے کام کیے ہیں، اپنی کامیابی کو لے کر پیپلز پارٹی انتخابات یعنی ''عوام کی عدالت'' میں جائے گی کیونکہ عوام ہی حقیقی منصب اور طاقت کا سر چشمہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں