بلوچستان کی خواتین کسی سے کم نہیں

بلوچستان میں خواتین کی تعداد 58 لاکھ 60 ہزار 646 ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ خواتین کیوں نظر نہیں آتیں؟

جب تک مرکزی حکومتیں بلوچستان کی خواتین کے مسئلے کو اپنی ترجیحات میں اوپر نہ رکھیں گی، تب تک بلوچستان میں امن لانا بہت مشکل رہے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ اِس کی اہم بات یہ ہے کہ یہ صوبہ قدرتی وسائل اور خزانوں سے مالامال ہے۔ مگر انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان بننے سے آج تک اِس صوبے کو ہر شعبے میں نظر انداز کیا گیا ہے اور اِس کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے جبکہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ خاص طور پر خواتین کے حوالے سے صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ بدحالی کا شکار نظر آتا ہے۔

بلوچستان میں خواتین کی تعداد 58 لاکھ 60 ہزار 646 ہے۔ آخر ہمارے حکمرانوں کو یہ خواتین کیوں نظر نہیں آتیں؟ کیا یہ لوگ کمزور ہیں یا ان کو حقیر سمجھا جاتا ہے؟ اس حوالے سے ہم نے بلوچستان کی کچھ اہم خواتین سے بات چیت کی جنہوں نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک مائی جوری جمالی ہیں جو صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے چکی ہیں، دوسری مائی نصیباں جمالی ہیں جو ایک کونسلر ہیں جبکہ تیسری آمنت خاتون ہیں جو اسکول ٹیچر ہیں اور چوتھی لال خاتون ہیں جنہوں نے آزادی کے سورج کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان سب کی سوچ بلوچستان کے بارے میں بالکل الگ ہے۔ ان سب کے خیالات ہم سب کےلیے ایک مشعل راہ ہیں۔



مائی جوری جمالی نے، جو پاکستان کی پہلی کسان خاتون ہیں اور جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے سردار کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لیا تھا، مجھے بتایا کہ بلوچستان کی ترقی میں خواتین کے کردار کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں خواتین تبدیلی کی علامت بن چکی ہیں۔ بلوچستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، یہاں خواتین کے پاس اس طرح کے مواقع نہیں جس طرح ملک کے دیگر علاقوں میں ہیں۔ البتہ بلوچستان میں خواتین کے پاس ترقی کے وسیع ممکنہ مواقع ضرور ہیں جن سے مستفید ہو کر وہ نہ صرف اپنی بلکہ پورے صوبے اور پاکستان کی تقدیر بھی بدل سکتی ہیں۔

بلوچستان میں خواتین انتہائی باہنر ہیں۔ بلوچ خواتین خاص کر کشیدہ کاری کے حوالے سے آج بھی پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں سے بننے والے کشیدہ کاری کے کپڑے بڑی تعداد میں اندرونِ ملک کے علاوہ بیرون ممالک بھی فروخت کئے جاتے ہیں مگر ان کی مناسب قیمت بلوچستان کی خواتین کو نہیں ملتی جو افسوسناک عمل ہے۔ بلوچستان میں غربت بہت زیادہ ہے اور تعلیم کے حصول کے آسان ذرائع بھی موجود نہیں۔ اس لیے بلوچستان کی اکثریتی آبادی بھی تعلیم کی نعمت سے محروم ہے۔ بلوچستان میں خواتین کی تعلیم پر توجہ کی اشد ضرورت ہے جو حکومت بلوچستان بالکل نہیں دے رہی۔ بلوچستان میں موجودہ حکومت اقتدار میں ہونے کے باوجود بے اختیار لگ رہی ہے۔



مائی نصیباں جمالی جو مقامی کونسلر ہیں، انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں خواتین کےلیے خصوصی اسکیموں کی ضرورت ہے۔ ان اسکیموں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی خواتین کو مختلف شعبہ جات میں ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں پچاس فیصد خواتین کے نام پر کی جانے والی اسکیموں کا استعمال ان کے گھر کے مرد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بلوچستان اسمبلی میں موجود خواتین کا بھی یہی حال ہے۔ بلوچستان کا صوبہ دیگر صوبوں کی نسبت بہت ہی پسماندگی کا شکار ہے اور یہاں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بہترین وسائل اور بیش بہا قدرتی خزانوں سے مالامال یہ خطہ انتہائی غربت، پسماندگی اور جہالت کا شکار ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان کی خواتین تمام شعبوں میں آج بھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کے باوجود، درپیش حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے، بلوچستان کی خواتین مختلف شعبوں میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کررہی ہیں جسے مزید مؤثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت بلوچستان کی کونسلر خواتین کےلیے مختلف اسکیمیں ترجیحی بنیادوں پر تشکیل دے تاکہ بلوچستان کی خواتین بھی خود کفیل ہوکر معاشرے میں برابری کی بنیاد پر میدان میں آسکیں اور دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کریں۔




آمنت خاتون مقامی ٹیچر ہیں، انہوں نے بتایا کہ ہم نے تعلیم ٹاٹ اسکول پر حاصل کی تھی۔ آج میں خود ٹیچر ہوں اور اپنے علاقے کے بچوں کو ٹاٹ اسکول پر بٹھا کر تعلیم دے رہی ہو تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ابھی تک ہم سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ مگر پھر بھی بلوچستان میں ماضی کی نسبت اب خواتین زیادہ تعداد میں زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر اپنا لوہا منوارہی ہیں۔ مگر ان کےلیے بہترین روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئے جارہے جس کی وجہ سے ان کی بڑی تعداد تاحال سماج میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔

بلوچستان کی تعلیم کے بنیادی مسائل اور اُن کی وجوہ کا ذکر کریں تو پتا چلتا ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ بلوچستان میں تعلیمی میدان میں غربت ہے۔ اگرچہ اس تعلیمی پسماندگی کو کم کرنے کےلیے بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی مسلسل چار سال سے چل رہی مگر پھر بھی کوئی عملی تبدیلی تعلیم کے میدان میں نہیں ہوئی ہے جو افسوس ناک امر ہے۔ اور تو اور حکومت بلوچستان نے اسکول کی بچیوں کےلیے دسویں جماعت تک مفت کتابیں کاپیاں اور یونیفارم دینے کا جو اعلان کیا تھا، وہ صرف اعلان تک محدود ہے۔ آخر کیوں؟



لال خاتون وہ ماں ہے جس نے آزادی کے سورج کو ابھرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان، پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام میں پھنسا ہوا ہے۔ ہمیشہ بلوچستان میں خواتین کو پاؤں کی جوتی سمجھا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کی خواتین بھی دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے مسائل پر خوب بولتی ہیں اور اپنے مسائل کو حل کرتی ہیں۔ اگر بلوچستان میں خواتین کےلیے زیادہ سے زیادہ نوکریوں کے مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں تو بلوچستان کی خواتین بھی بہترین طریقے سے معاشی ومعاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ صرف اُن قوموں نے ہی ترقی کی ہے جنہوں نے تعلیم کو ترقی کے ایک عامل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بلوچستان میں اکثر والدین چونکہ خود تعلیم یافتہ نہیں اِس لیے وہ تعلیم کی اہمیت اور ثمرات سے بھی ناواقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی حصولِ تعلیم کے بجائے حصولِ رزق کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکیں۔

جب تک مرکزی حکومتیں بلوچستان کی خواتین کے مسئلے کو ایک بہت بڑا مسئلہ نہ سمجھیں گی اور اِسے اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر نہ رکھیں گی، تب تک بلوچستان میں امن لانا بہت مشکل رہے گا۔

بلوچستان کی ترقی میں بہت سی دوسری رکاوٹوں کے علاوہ سب سے بڑی رکاوٹ جنسی تفریق بھی ہے۔ علاوہ ازیں آج بھی مقامی سردار غریب کے بچے کو نوکر سمجھتا ہے۔ پتا نہیں وہ دن کب آئے گا جب ان سرداروں کی سوچ بدلے گی اور بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ آج بھی لاوارث بلوچستان کو وارث کی تلاش ہے جو بلوچستان کے مسائل پر نظر ثانی کرے اور اس کے تمام مسائل کوفوری طور پر حل کرے تاکہ بلوچستان اور یہاں رہنے والے لوگ بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story