رویوں کی تشکیل
کیا یہ بھی کوئی یہودی سازش ہے؟ یا امریکا نے مجبور کر دیا ہے کہ دسترخوان چھوڑ کر میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھایا جائے؟
بزرگوں کو نئی نسل سے شکایت رہتی ہے کہ وہ اقدار کی محافظ نہیں رہی۔ گزشتہ نصف صدی میں دنیا اور دنیا والوں کے رویے تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ ''تھا جو نا خوب بہ تدریج وہی خوب ہوا'' وہ رویے اور اقدار جو بڑوں سے ورثے میں ملی تھیں نوجوان نسل اُنہیں ہنسی میں اُڑاتی ہے۔ اسلاف کا ورثہ جو کبھی سرمایہ افتخار ہوا کرتا تھا اب فاضل اور فضول بن گیا ہے۔ جو روایات کبھی ہماری تہذیب و معاشرت کا حصہ ہوا کرتی تھیں، آج ہم اُن پر شرمندہ کیوں نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر دسترخوان۔ صدیوں سے دستر خوان بچھا کر کھانا کھانے کا رواج تھا۔
آج لوگ عار محسوس کرنے لگے ہیں۔ خاص کر دعوتی کھانے۔ عام افراد کا تو کہنا ہی کیا بڑے بڑے مذہبی گھرانوں کی دعوتوں میں دیکھیں، دستر خوان آپ کو الاما شاء اللہ ہی نظر آئے گا۔ یہ ہی حضرات جب منبر و محراب سے درس دیتے ہیں تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت دسترخوان کو بتائیں گے۔ زمین پر بیٹھ کر کھانا، سادہ کھانا اور کم کھانا، کھانا ضایع نہ کرنا۔ لیکن جب عمل کا وقت آئے گا تو کسی اور ہی کی تقلید کی جاتی ہے۔ دین دار ہو یا بے دین دستر خوان غائب ہے۔
کیوں؟ کیا یہ بھی کوئی یہودی سازش ہے؟ یا امریکا نے مجبور کر دیا ہے کہ دسترخوان چھوڑ کر میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھایا جائے؟ رویوں اور ذہنوں کی یہ تبدیلی کیوں کر ہوئی؟ ایسا قطعی نہیں ہے کہ پچھلے دور میں لوگ میز کرسی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے اور آج ہر فرد کے پاس اس درجے فراوانی ہے کہ وہ میز کرسی پر بیٹھنے لگا ہے۔ کراچی کی ایک کاروباری برادری ہے، بوہری۔ یہ حضرات عجیب ہیں۔ شادی بیاہ ہو یا موت میت آج بھی ان کے تمام کھانے دستر خوان پر ہوتے ہیں۔ دستر خوان پر سب ساتھ کھاتے ہیں۔ امیر غریب کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ اس برادری کی ایک اور عجیب بات بتاتے چلیں۔ یہ ملازمت نہیں کرتے۔ ملازمت کو برا سمجھتے ہیں۔ آج کے دور میں جب کہ ہر فرد ملازمت کے حصول کے لیے کوشاں ہے ان کا رویہ اُلٹ ہے۔ خوانچہ لگا لیں گے لیکن اپنا کام کریں گے۔ کاروبار میں اصولوں کے بڑے پکے ہیں۔ ایک ہی محلے ایک ہی شہر کے رہنے والوں میں اتنا فرق کیوں؟
سوال یہ ہے کہ ہم کس سے سیکھتے ہیں؟ روزانہ صبح جب ہم کام پر یا بچے اسکول جاتے ہیں تو وہاں گفتگو کا موضوع کیا ہوتا ہے؟ کیا زیادہ تر افراد وہ بات نہیں کرتے جو رات کو انھوں نے ٹیلی وژن پر سنی تھی۔ وہ خبریں وہ ٹاک شوز وہ اشتہار جو وہ رات کو نگل کر آئے ہیں۔ اسی طرح جب آپ کام پر چلے جاتے ہیں اور بچے اسکول تو خواتین کیا کرتی ہیں؟ یقینا گھر کے کام لیکن ٹی وی چلتا رہتا ہے۔ سستے کال ریٹ کی مہربانی سے دوست رشتے داروں سے گپیں لگانے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ موضوع؟ فیشن ڈرامے، فلمیں، اداکار، اداکارائیں، یعنی وہ سب کچھ جو کل ٹی وی پر دیکھا تھا۔ پاکستان کے بارے میں تو اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن برطانیہ اور امریکا میں ایک ماہ میں اوسطاً 112 گھنٹے ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔ دیگر مشاغل یعنی فلمیں دیکھنا ، گانے سننا، انٹر نیٹ، ویڈیو گیم، کتابیں اور رسائل وغیرہ پر جو وقت صرف ہوتا ہے وہ علیحدہ ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ مسلسل اطلاعات فراہم کرنے والے ذرایع آپ کی زندگی میں گھنٹوں کے حساب سے شامل ہوں اور آپ اثر نہ لے رہے ہوں؟
نصف صدی قبل بچے گلی محلوں اور کھیل کے میدانوں میں کھیلا کرتے تھے۔ شہر کم اور قصبے دیہات زیادہ تھے۔ نہروں میں نہانا اور درختوں پر چڑھنا بچوں کے لیے عام سی بات تھی۔ بڑے افراد گھروں میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے۔ یعنی فرد کا فرد سے رابطہ اور واسطہ رہتا تھا۔ جوں جوں ترقی ہوتی جا رہی ہے انسان انسان سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ رشتے اور تعلقات کم زور ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر انسانوں سے رابطہ ہے بھی تو غرض کا۔ آج کے انسان کا انسانوں سے زیادہ مشینوں سے تعلق رہنے لگا ہے۔ کیا یہ رجحان صحت مند قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسان کو انسان کے لیے بنایا گیا تھا نہ کہ مشینوں کے لیے۔ اس تعلق کی بنا پر ذہنِ انسانی کا ایک خاص حصہ بیسل گینگلیا تیزی سے متحرک ہو جاتا ہے اور ڈوپامائن کا افروز بڑھ جاتا ہے۔
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ڈوپا مائن کا زیادہ افراز جسم میں موجود اعصابی مادوں کو کم کر دیتا ہے۔ اعصابی مادے کم ہونے پر جسم کی مختلف صلاحیتیں مثلاً حرکت احساس وغیرہ متاثر ہوتی ہیں۔ ہر برٹ کروگ مین کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ٹیلی وژن حالتِ تنویم میں لے جاتا ہے۔ اس دوران دماغ کا دایاں حصہ بائیں کے مقابلے میں دگنے سے زیادہ فعال ہو جاتا ہے۔ انسان حالتِ تنویم میں چلا جاتا ہے۔ اس دوران جو کچھ اُس کے شعور اور لاشعور پر نقش اور ثبت ہو رہا ہے۔ اُس میں سے بہت سا اَن مِٹ ہے۔ بہت سی معلومات بہت سے رویے غیر محسوس طور پر ہماری زندگی کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ جو کچھ ہمارے اذہان پر نقش ہوتا جائے وہ ہماری ثقافتی روایات اور تہذیبی اقدار سے بھی لگّا کھانے والا ہو۔ یوں رفتہ رفتہ افراد و معاشرے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ہماری دنیا ڈیجیٹل نہیں تھی۔ اُس دور میں انسان وہی چیزیں دیکھتے اور برتتے تھے جو اُن کی ضرورت یا دل چسپی کی ہوں۔ مثال کے طور پر ٹائپ رائٹر۔ ٹائپ رائٹر نہ ہر فرد یا دفتر کی ضرورت تھا نہ ہی ہر ایک ٹائپ رائٹر خریدتا تھا۔ اس کے مقابلے میں کمپیوٹر کو دیکھ لیں۔ آج ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ کمپیوٹر کا دور ہے۔ لوگوں نے کمپیوٹر خرید لیے۔ کتنے ہی ایسے افراد ہیں جنھیں کبھی کمپیوٹر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لیکن انھوں نے خرید رکھے ہیں۔ چند برس گزرنے کے بعد وہ پرانے ہو کر کوڑیوں کے مول گئے لیکن کسی کام نہ آئے۔ آج ہم پہلے دیکھتے ہیں پھر اُس سے دل چسپی ہوتی ہے یہاں تک کہ اُس کی ضرورت کا احساس بیدار ہو جاتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری سطح پر ہمارے اندر چیزوں کی اشتہا بیدار کی جاتی ہے۔
یہاں تک قطعی غیر ضروری چیزیں ہمیں اتنی اہم معلوم ہونے لگتی ہیں کہ ہم اُن کے حصول کی جدوجہد میں اپنا آرام، چَین، سکون سب تَج دیتے ہیں۔ مصنوعی ضروریات اور خواہشات کو بڑھاوا دینا آج کے کاروباری اداروں کا اہم ترین اصول ہے۔ اس ایک مقصد کے لیے بڑے بڑے شعبے قائم کیے جاتے ہیں۔ اسے مارکیٹنگ کا خوب صورت نام دیا جاتا ہے۔ یہاں کا کامیاب وہ ہے جو اسکیموز کو ریفریجریٹر فروخت کر دے۔ انسانی ذہن پر اثر انداز ہونے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں، اس زاویے سے کام کیا جاتا کہ انتہائی غیر ضروری چیز بھی صارف کو اپنے لیے اہم ترین لگنے لگے۔ سرمائے کی بڑھوتری کے لیے ضروری ہے کہ صارف کی اشتہا کبھی ختم نہ ہونے دی جائے۔
موبائل کا معاملہ سامنے کا ہے۔ آئے دن مارکیٹ میں نئے نئے موبائل سیٹ آتے ہیں۔ کیا امیر کیا غریب، کیا چھوٹا کیا بڑا سب دیوانے ہیں۔ سب کو موبائل چاہیے اور اچھے سے اچھا ( یعنی مہنگے سے مہنگا)۔ موبائل کے لیے لوگ قرض سے قتل تک ہر چیز پر آمادہ ہیں۔ اگر لوگوں میں یہ جنون نہ ابھارا جائے، یہ صور نہ پھونکا جائے تو کیا اس تعداد میں موبائل بِکیں گے؟ ہم یہاں اس سوال سے صرفِ نظر کریں گے کہ آخر کیا وجہ ہے جو ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی اشیاء تیار نہیں کرتیں جو دیرپا ہوں۔ جو برس ہا برس کے استعمال کے بعد بھی خراب نہ ہوں؟ ہمارے بچپن میں گھروں میں ایسے بجلی کے بٹن لگے ہوتے تھے جو برس ہا برس استعما ل کے باوجود خراب نہیں ہوتے تھے۔ آج سے موازنہ کر لیں۔ چند ماہ میں خراب ہو جاتے ہیں۔
کچھ دانش وروں کا کہنا ہے کہ یہ انسانوں کا فطری رجحان ہے جو تبدیلی کا باعث ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر یہ کیسی فطرت ہے کہ ساری دنیا میں چند افراد بھی ایسے نہیں جن کے رویے مارکیٹ کے مفاد کے بر خلاف تبدیل ہوئے ہوں۔ یہ یک رُخی تبدیلی کیوں؟
بلا شبہ پیدا ہونے والا ہر بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے، لیکن افسوس کہ وہ جلد ہی سرمائے کا اسیر ہوجاتا ہے۔