دہشت گردی کا ناسور

پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا

سانحہ کوئٹہ پر ہر پاکستانی اداس اور پریشان ہے۔ کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹائون میں ہفتے کی شام خود کش حملے میں 90 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے جس کے بعد مجلس وحدت المسلمین اور ہلاک ہونے والوں کے ورثاء نے کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے تک جاں بحق ہونے والے افراد کی تدفین سے انکار کر دیا۔ پورے ملک میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور ہزارہ برادری سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر دھرنے دیے گئے۔

کاروبارِ زندگی متاثر ہوا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ شاید ایسا ہی ہونا تھا۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف یہ دوسرا حملہ تھا، لیکن مسائل کے حل کے بجائے شومئی قسمت سے ہمارے حکمران مسائل سے آنکھیں چرانے کے عادی ہیں۔ سارا ملک آگ اور خون میں نہایا ہوا ہے۔ پشاور میں پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر پر فائرنگ ہوتی ہے جہاں دو حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ کراچی میں ہر روز ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور جان و مال کی ارزانی حکومتی اہلکاروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جلائو گھیرائو، فائرنگ اور جھڑپیں روز کا معمول ہیں۔ تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں منجمد ہیں۔ گزشتہ ہفتے تاجروں اور صنعت کاروں کو 5 ارب سے زائد نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن شاید حالات کی یہ نزاکت تباہ حال معیشت اور انسانی جانوں کی ناقدری سے زیادہ سیاسی مفادات ضروری ہیں۔

پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا، بلکہ عملی اقدامات ہنگامی بنیادوں پر ہونا ضروری ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور ایک قابل عمل ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی سرکوبی کرنی ہو گی۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر اُٹھ کھڑا ہونا ہو گا۔ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن میں فوج کی مدد لینے کی ضرورت ہے۔ خدانخواستہ حالات قابو سے باہر ہونے سے پہلے فوج کو ٹارگیٹڈ آپریشن میں شریک کرنا چاہیے۔ صدر آصف علی زرداری نے گورنر بلوچستان سے ٹیلی فونک بات چیت میں ہدایت دی کہ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے اور اس کارروائی میں اگر ضرورت پڑے تو فوج کی مدد لینے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔


میری بصد احترام گزارش ہے کہ ضرورت شاید آج سے پہلے کبھی نہ تھی۔ اس لیے فوری طور پر فوج کو اس آپریشن میں شریک کرنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی اس سانحے کی ذمے داری قبول کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیا ہے۔ یقینا یہ افراد جو اس سانحے کے ذمے دار ہیں، انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں جو ساری دنیا میں مسلمانوں کا نام بدنام کرنے کا باعث ہیں۔ 800 سے 1000 کلوگرام کا دھماکہ خیز مواد جس میں خطرناک کیمیکل شامل کیا گیا، یقینا بہت گہری سازش ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد جس میں خطرناک کیمیکل شامل کیا گیا، یقینا بہت گہری سازش ہے، اتنی بڑی تعداد میں دھماکہ خیز مواد کا حصول، اس کی تیاری اور پھر پانی کے ٹینکر میں اس کو لوڈ کرنا بہت منظم انداز کی کارروائی ہے۔

ہماری سیکیورٹی ایجنسیز کی نظروں سے اتنی بڑی کارروائی کا اوجھل ہونا ایجنسیز کی ناکامی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس گہری سازش کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ بلوچستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ملک دشمن عناصر نے وہاں پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ہونے والی کارروائیاں استحکامِ پاکستان کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت سے ملک دشمن عناصر کو سرگرم ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کے لیے سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے۔ صرف یہ کہہ دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے کہ کالعدم تنظیمیں لشکر ِ جھنگوی اور تحریک طالبان یہ کارروائیاں انتخابات ملتوی کرانے کے لیے کر رہی ہیں۔ جمہوری عمل اپنی جگہ لیکن ان عناصر کی سرکوبی کے لیے منظم انداز میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں تمام ملکی وسائل اور ذرایع استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر کراچی اور بلوچستان کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ عوام کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ حکومتی ادارے، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں پاک فوج پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے شکار علاقوں میں بھر پور کارروائی کریں۔ شہداء کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھیں اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ حکومتی اہلکاروں کی ان المناک واقعات پر سرد مہری بہت افسوسناک ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والی درندگی اور جنونیت کے خلاف بھر پور کارروائی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر کارروائیاں نہ کیں تو شاید یہ عمل کل پچھتاوے کا باعث بن جائے اور استحکام پاکستان خطرے میں پڑ جائے۔ بلوچستا ن کی صورتحال بہت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ دشمن سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان سازشوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی دانشمندی کی ضرورت ہے۔ اپنی اپنی انا اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر صرف پاکستانی بن کر سوچنا ہو گا، ورنہ خاکم بدہن ہم بحیثیت قوم قصہ پارینہ بن جائیں گے۔
Load Next Story